آج جہاں لاہور میں گرفتاریاں اور پولیس کاروائیاں جاری تھی وہیں کراچی میں غیر ملکی نامہ نگاروں (واشنگٹن پوسٹ ، یروشلم پوسٹ)کے مطابق پچیس ہزار سے زائد لوگوں نے پرامن ریلی میں شرکت کی۔ نہ کہیں کوئی توڑ پھوڑ ہوئی نہ پتھراؤ، کوئی جلاؤ گھیراؤ نہیں ہوا اور پولیس نے کسی بھی مقام پر کسی بھی شخص کو تشدد کا نشانہ نہیں بنایا۔ توہین آمیز خاکوں کے خلاف یہ اسی مہینے میں دوسری پرامن ریلی ہے۔ کوئی ہفتہ دس دن پہلے بھی کراچی میں جماعت اہلسنت کے زیرانتظام پرامن ریلی ہوئی تھی جس میں پچاس ہزار سے زیادہ لوگ شریک تھے۔ یہ ریلی ٹھیک لاہور کی ہنگامہ آرائی کے دو دن بعد ہوئی تھی اور اس میں بھی کوئی گربڑ نہیں ہوئی۔
پتہ نہیں کیوں مگر مجھے لگتا ہے کہ یہ بہت حیرت انگیز بات ہے کہ کراچی میں پچیس ہزار لوگوں کو ریلی نکالنے کی اجازت دے دی جاتی ہے، جبکہ لاہور میں لوگوں کو نظر بند کردیا جاتا ہے۔ حالانکہ کراچی میں تو ایم کیو ایم کی حکومت ہے جنہیں اسلامی جماعتوں سے اللہ واسطے کا بیر ہے۔ لیکن سندھ اسمبلی میں خاکوں کے خلاف احتجاج پر مکمل ہم آہنگی ہے حتی کہ سندھ کے وزیراعلی اور وزیر داخلہ بھی ریلی میں شرکت کرچکے ہیں اور میرے خیال میں شاید آج کسی وقت سندھ اسمبلی سے کراچی پریس کلب تک مارچ کا بھی پروگرام ہے۔ کراچی جو کہ پرتشدد ہنگاموں کے حوالے سے مشہور رہ چکا ہے۔ اس کے باوجود آج کراچی میں قریبا پچیس ہزار لوگوں نے توہین آمیز خاکوں کے خلاف مکمل پرامن ریلی میں شرکت کی۔ نہ ہی کوئی پتھراؤ ہوا نہ ہی کوئی گاڑی جلائی گئی۔ یہ دو بڑی ریلیاں ان جلسے جلوسوں کے علاوہ ہیں جو ہر چھوٹی بڑی تنظیم صبح شام نکال رہی ہے۔
جبکہ لاہور میں حکومت پنجاب نے پہلے جلوس کو تو ہنگامہ آرائی کرنے کی کھلی چھوٹ دئیے رکھی۔ مگر دوسری ریلی کو بدترین طاقت کا استعمال کرکے ناکام بنادیا۔ سیاسی جماعتوں کے کارکنان پر بد ترین تشدد کیا گیا۔ جس وحشیانہ طریقے سے پولیس ان پر لاٹھی چارج کررہی تھی اسے دیکھ کر لگ رہا تھا کہ یہ لوگ کسی انتہائی سنگین جرم میں مطلوب ہیں۔ لوگوں کو گریبانوں سے پکڑ کر ٹرکوں میں پھینکا گیا ہے۔ کئی لوگ پولیس تشدد سے زخمی ہوئے ہیں اور کئی مقامات پر پولیس نے آنسو گیس کا استعمال بھی کیا ہے۔ اسلام آباد میں بھی لاٹھی چارج اور آنسوگیس کا استعمال کیا گیا ہے۔ جتنی قابل مذمت لاہور اور پشاور میں ہونے والی ہنگامہ آرائی ہے اتنی ہی قابل مذمت یہ بھیانک پولیس کاروائی بھی ہے۔ یہ کاروائی نہ صرف انسانیت سوز ہے بلکہ ہمارے لئیے شرم کا مقام ہے کہ ہماری پولیس عوام کو بھینس بکری سے زیادہ اہمیت نہیں دیتی اور لوگوں کا خون بہا کر امن برقرار رکھتی ہے۔
اگر حکومت اتنی ہی خوفزدہ ہے تو کیا وجہ ہے کہ کراچی میں کوئی ہنگامہ آرائی نہیں ہوسکی؟ کیا وجہ ہے کہ لاہور میں لوگوں کو روکا گیا اور کراچی میں نہیں روکا گیا۔ اگر حکومت پنجاب کو اتنا ہی خوف ہے تو کیوں نہ انہوں نے لاہور میں کرفیو ہی لگادیا ہوتا کم از کم اسطرح پولیس تشدد کی یہ تصویریں تو لوگوں کے سامنے نہ آتیں۔ ایک طرف تو میراتھن جیسے فضول کام کو آزادی سے تعبیر کیا جاتا ہے اور لاہور کے شہریوں کے لئیے ضروری قرار دیا جاتا ہے دوسری طرف ایک اہم مسئلہ پر جس پر پوری قوم متفق ہے اس پر لوگوں کو احتجاج نہیں کرنے دئیے جاتا۔
حکومتی ارکان کا کہنا ہے کہ سیاسی جماعتیں کارٹون ایشو کا سیاسی مقاصد کے لئیے استعمال کرنا چاہتی ہیں۔ صحیح لیکن میرے خیال میں سیاست اسی کا نام ہے اور پاکستان کا کوئی قانون سیاسی پارٹیوں کو ایشوز ایکسپلائٹ کرنے سے نہیں روکتا بلکہ حقیقتا یہی تو جمہوریت کی روح ہے۔ مگر لوٹا لیگ کے وزراء بیچارے جو بی اے فیل ہوکر وزیر اطلاعات لگ گئے ہیں انہیں کیا پتہ جمہوریت اور آزادی کس چڑیا کا نام ہے۔
انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ اس ملک میں لوگوں کی آزادیاں سلب کرنے کے لئیے ایسے ڈرامے کئیے جارہے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئیے تھا کہ حکومتی پارٹیوں کے ارکان اپنا وقت امن و عامہ کو یقینی بنانے میں صرف کرتے۔ اگر تھوڑ پھوڑ اور تشدد سے پاکستان کی بدنامی ہوتی ہے تو کیا اس وحشیانہ سلوک سے پاکستان کو موڈریٹ ملک کا تمغہ مل جائے گا؟
کراچی میں احتجاج کے شاید پرامن ہونے کہ وجہ یہ ہے کہ یہاں تمام سیاسی، مذہبی اور سماجی تنظیموں میں اس حوالے سے نہ صرف اتفاق رائے ہے بلکہ تعاون بھی جاری ہے۔ عیسائی اور ہندو برادری تک ایک زبان ہے۔ لیکن شاید پنجاب کے حکمرانوں کے منہ میں زبان نہیں اور اگر ہے تو شاید وہ بک چکی ہے۔ حالانکہ میں جلسے جلوسوں کو اچھا نہیں سمجھتا مگر میرے خیال میں پاکستانیوں کو پورا حق ہونا چاہئیے کہ وہ جلسے جلوس نکالیں اور احتجاج کریں۔
نیچے والی تصاویر لاہور میں ہونے والی پرتشدد پولیس کاروائی کی ہیں جبکہ اوپر والی تین تصویروں میں سے پہلی دو کل ہونے والے پر امن جلوس اور تیسری سولہ فروری کو ہونے والے جلوس کی ہیں۔