جنرل مشرف نے کل صدر بش کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے جمہوریت کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ان کی حکومت پاکستان میں جمہوریت کو پائیدار بنیادوں پر استوار کررہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ اپنی وردی سے متعلق آئندہ بھی جو فیصلہ کریں گے وہ آئین پاکستان کے اندر رہتے ہوئے کریں گے۔ انہوں نے خاتون صحافی سے کہا کہ غالبا آپ کا اشارہ میری وردی کی طرف ہے تو میں یہ واضح کرنا چاہوں گا کہ پاکستان کے قانون نے ہی مجھے اس بات کی اجازت دی ہے کہ میں وردی کے ساتھ صدر رہ سکوں اور دو ہزار سات کے بعد بھی اس حوالے سے جو فیصلہ ہوگا وہ آئین پاکستان کی حدود میں رہتے ہوئے ہی کیا جائے گا۔
جیسے دنیا کو پتہ ہی نہیں کہ آئین پاکستان کی جنرل نے کس طرح دھجیاں اڑائی ہیں اور ربڑاسٹیمپ اسمبلی کے ذریعے خود کو غیر قانونی طور پر صدر بنالیا ہے۔ اور جیسے دنیا کو یہ بھی نہیں معلوم کہ آئندہ صدر مشرف کیا کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور پاکستان کے آئین کی کیا حدود ہیں۔ اسی سوال کے جواب میں جنرل نے کہا کہ پاکستان میں آج اظہار رائے کی آزادی ہے۔ انہوں نے درجنوں ٹی وی چینلوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پہلے صرف ایک سرکاری ٹی وی چینل ہوتا تھا آج آپ دیکھیں درجنوں چینل ہیں جو آزادانہ کام کررہے ہیں۔ یہ وہ اس وقت کہہ رہے تھے جب پاکستان میں موجود لاکھوں انٹرنیٹ صارفین کو ہزاروں بلاگ اور سینکڑوں دیگر ویب سائٹ دیکھنے سے روکنے کے لئیے پی ٹی اے نے انٹرنیٹ فراہم کرنے والے اداروں کو نوٹس بھجوارکھے تھے۔
جس وقت وہ یہ سفید جھوٹ بول رہے تھے اس وقت پاکستان تحریک انصاف کے صدر عمران خان کو پولیس نے نظر بند کر رکھا تھا کیونکہ وہ صدر بش کی آمد پر احتجاج کرنا چاہتے تھے۔