انٹرنیٹ، بلاگستان اور پاکستانی قوانین

یہ پوسٹ کارٹون بلاک کئیے جانے اور پاکستانی بلاگستان کے بارے میں ہے۔ بلاگ اسپاٹ کی بندش کے خلاف مہم جاری ہے لیکن بلاگ اسپاٹ کی بندش اس گفتگو کا موضوع نہیں۔

ایک بات تو طے ہے کہ یورپی اخبار کے کارٹونوں کا مقصد مسلمانوں کے جذبات سے چھیڑچھاڑ تھا۔ خود اخبار کے کلچرل ایڈیٹر اس بات کا اعتراف کرچکے ہیں کہ کارٹونوں کا مقصد ایک بحث شروع کرنا تھا۔ ڈنمارک سے ملنے والی چند اطلاعات سے ایسا بھی لگتا ہے کہ ڈنمارک میں مسلمانوں کو امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ رواداری کے بجائے ان سے یہ توقع کی جارہی ہے کہ وہ کسی خاص طرز فکر کا مظاہرہ کریں۔ جس کے لئیے انہیں مجبور بھی کیا جارہا ہے۔ کارٹونوں پر احتجاج کے سلسلے میں میری کوئی خاص رائے نہیں کیونکہ نبی کریم کی شان اقدس کی جو ناموس میرے دل میں ہے وہ کوئی کارٹون کوئی تعصب پسند شر انگیز دماغ اسے کوئی نقصان نہیں پہنچاسکتا اسلئے میرے خیال میں احتجاج کا سب سے مناسب طریقہ یہ ہے کہ ہم اس مسئلے سے لاتعلقی رکھیں۔ اس رائے پر میرے اکثر دوست، میرے گھر والے اور بلاگر ساتھی مجھے خوب برا بھلا کہہ چکے ہیں۔ تاہم یہ بات اس پوسٹ کا موضوع نہیں۔

کراچی کے ملین مارچ میں جس میں اگر لاکھ نہیں تو پچاس ہزار لوگ تو ضرور تھے تقریبا سب توہین رسالت پر خفا تھے۔ لیکن کیا ان سب لوگوں نے ڈنمارک کے اخبار کے شائع کردہ کارٹون دیکھ رکھے تھے؟ کیا ان تمام لوگوں کو انٹرنیٹ تک رسائی حاصل ہے یا یہ تمام لوگ ان لوگوں کی رائے سے متفق ہیں جنہوں نے انٹرنیٹ کے ذریعے یہ کارٹون دیکھ رکھے ہیں؟ اگر کسی نے وہ کارٹون نہیں دیکھ رکھے تو بہت اچھا کیا ہے۔ لیکن اگر کوئی وہ کارٹون دیکھنا چاہے تو اس کے بارے میں کیا خیال کیا جانا چاہئیے؟ ایسے لوگوں کو جو مسلمان ہوکر انٹرنیٹ پر خود ان کارٹونوں کو تلاش کرکے دیکھ رہے ہیں کیا حکومت پاکستان کو انہیں روکنا چاہئیے؟ جبکہ حکومت پاکستان کو معلوم ہے کہ انٹرنیٹ پر کارٹونوں کے ذریعے جو مواد پھیلایا جارہا وہ پاکستان کی اکثریتی آبادی یعنی مسلمانوں کے خلاف تعصب پر مبنی ہے اور ہماری عوام میں اس بارے میں اشتعال پایا جاتا ہے۔

میں اس بارے میں کوئی رائے قائم نہیں کرپارہا ہوں۔ تاہم ایسا دیکھا گیا ہے کہ کئی ملکوں میں ایسے مواد پر کہ جن کی اشاعت کے بعد لوگوں میں اشتعال پھیلا ہو انہیں اٹھا لیا گیا ہے یہ لوگوں تک ان کی رسائی روکنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ہمارے پاس ایسی کئی مثالیں موجود ہیں لیکن ہم یہ نہیں جانتے کہ ایسے اقدام سے کتنے فتنوں کا سدباب ہوا ہے۔ کیونکہ اس قسم کے مواد پر جب تک ہنگامہ آرائی نہ ہو حکومتوں کو کیسے پتہ چل سکتا ہے کہ وہ کتنے نقصان دہ، نفرت انگیز اور تکلیف دہ تھے۔ ظاہر ہے جب وہ مواد پھیل جاتا ہے اور لوگ اشتعال میں آتے ہیں تو مقدمے بازیاں ہوتی ہیں تبھی تو حکومت کو یا کسی ادارے کو یہ اندازہ ہوتا ہے کہ کسی مواد نے جان بوجھ کر شر پھیلانے کی کوشش کی ہے۔

پاکستان میں بھی جب ہنگامہ آرائی ہوئی اور لوگوں نے شدید غم و غصے کا اظہار کیا اور بات سپریم کورٹ کی بنچ تک پہنچی تبھی یہ موضوع زیر بحث آیا۔ پاکستان کی عوام سپریم کورٹ سے یقینا انصاف کی متوقع تھی۔ سپریم کورٹ کے نوٹس میں یقینا وہ عوامی اشتعال لایا گیا ہوگا جو ان کارٹونوں کے خلاف پایا جاتا ہے۔ یہ اشتعال بڑے پیمانے پر پایا جاتا ہے اور ہزاروں پاکستانی مسلمان اس بارے میں مرنے مارنے کو تیار ہیں۔ اسلئیے ہم کم از کم یہ نہیں کہہ سکتے کہ سپریم کورٹ کی کاروائی کسی قسم کا اوور ری ایکشن یا غیر منطقی ہے۔ غالبا انہوں نے وہی فیصلہ کیا جو انہیں شر کے سدباب کے لئیے کرنا چاہئیے تھا۔

اب مسئلہ یہ ہے کہ جن لوگوں کو پہلے بھی ان تکلیف دہ کارٹونوں تک رسائی تھی ان لوگوں نے تو اب تک وہ کارٹون یا تو دیکھ لئیے ہونگے یا بعد میں دیکھ لیں گے۔ جو دیکھنا چاہے گا وہ تو کسی نہ کسی طرح دیکھ ہی لے گا۔ دوسری بات یہ کہ کارٹون جہاں شائع ہوئے ہیں وہ علاقے پاکستان کے قانون کی زد میں نہیں آتے مگر پاکستان کا انٹرنیٹ ایکسچینج پاکستان کے دائرہ اختیار میں ہے۔ ایک اور بات جو قابل غور ہے وہ یہ کہ عدالت عالیہ نفرت انگیز مواد بلاک کرنے کا حکم دیتی ہے نہ کہ بلاگ اسپاٹ بلاک کرنے کا۔ نفرت انگیز مواد بلاک ہونے سے یقینا پاکستانیوں کے آزادی اظہار کو کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ عدلیہ کے سامنے یہ امر بھی زیر غور ہوگا کہ پاکستانیوں کی اکثریت ان کارٹونوں سے بیزاری کا اظہار کرچکی ہے۔ بلاگرز کی آزادی اظہار اس فیصلے سے یقینا متاثر نہیں ہوتی اگر کوئی احمق آدمی بلاگ اسپاٹ کو مکمل بلاک کرنے کے بجائے تھوڑی محنت اور کرکے نفرت انگیز مواد ہی بلاک کرتا (ماہرین کے مطابق ایسا ممکن ہے)۔ سوال یہ ہے کہ اگر ایک ایسا مواد جسے ملک کی عوام کی اکثریت نفرت انگیز سمجھتی ہے (جنہوں نے دیکھے ہیں وہ بھی اور جنہوں نے نہیں دیکھے وہ بھی) تب اگر عدلیہ اپنی بساط کے مطابق ایسے نفرت انگیز مواد کیخلاف ایکشن نہیں لیتی تو کیا یہ درست ہوگا؟

اگر ہم یہ طے کرلیتا ہیں کہ جی ہاں عدلیہ کو یہ فیصلہ کرنا چاہئیے کہ اگر کوئی مواد شر پھیلارہا ہے تو اس کی اشاعت اور تقسیم پر پابندی لگادی جائے تو کیا یہ اظہار رائے کی آزادی کو نقصان پہنچانے والی سوچ ہے؟ اگر ہم یہ طے کرلیتے ہیں کہ عدلیہ کو اظہار رائے کی آزادی چاہے اس سے کتنا ہی شر پھیل رہا ہو اسے روکنے یا اس پر قدغنیں لگانے کا کوئی اختیار نہیں تو یہ بھی درست نہیں لگتا۔ آپ لوگوں کی کیا رائے ہے؟

اب دوسرا موضوع۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ توہین رسالت کے بارے میں پاکستان میں قوانین موجود ہیں۔ یہ قوانین صحیح ہیں یا غلط، شرعی ہیں یا غیر شرعی، یہ ہمارا موضوع نہیں۔ موضوع یہ ہے کہ کیا پاکستان میں رہنے والے کسی بلاگر کو توہین رسالت کے الزام میں عدالت میں گھسیٹا جاسکتا ہے اور یہ کہ ہماری مقننہ کے پاس کیا ایسی قانون سازی موجود ہے جو پاکستانیوں کے انٹرنیٹ استعمال کو پاکستان کے قانون کے تحت رکھ سکے؟ بالفرض اگر کوئی پاکستانی بلاگر وہ کارٹون اپنے بلاگ پر شائع کرتا ہے تو کیا اسے توہین رسالت کے الزام کا سامنا ہوسکتا ہے؟ اگر بالفرض ایسا ہوا تو پاکستانی بلاگستان کا کیا ردعمل ہوگا؟ جب ہم ردعمل کی بات کرتے ہیں تو بلاگستان دو گروہوں میں تقسیم ہوجائے گا ایک وہ جو توہین رسالت کے قوانین کو شرعی اعتبار سے درست مانتا ہے اور ایک وہ جو انہیں کسی اعتبار سے درست نہیں مانتا۔ لیکن چونکہ پاکستانیوں کی اکثریت ان قوانین کو درست مانتی ہے تو ہم یہ سوچ سکتے ہیں کہ پاکستانی بلاگستان پر بھی ایسا ہی ہوگا۔ لیکن کیا ہم توہین رسالت کے قوانین کو انٹرنیٹ پر بھی لاگو کرسکتے ہیں جہاں یہ ثابت کرنا بھی محال ہوگا کہ کوئی چیز کسی ملزم نے واقعتا جان بوجھ کر شائع کی ہے۔