عبداللہ کا ہے یہ گاؤں

میری دکان پر کام کرنے والا لڑکا عباس چند مہینے پہلے کام چھوڑ کر گاؤں چلا گیا۔ اس کے جانے کے بعد ہم نے ایک نئے لڑکے عبداللہ کو کام پر رکھ لیا۔ عبداللہ کا تعلق صوبہ سندھ سے ہے۔

ہماری دکان پر کام کے لئیے آتے ہی عبداللہ نے مطالبہ داغ دیا کہ وہ ہماری دکان پر صرف اس صورت کام کرے گا جب ہم اسے ایک عدد ٹیپ ریکارڈر خرید کر دیں تاکہ وہ دکان بند ہونے کے بعد تفریح طبع کا اہتمام کرسکے۔ میں نے عبداللہ کو لاکھ ٹالا کہ میں اسے صدر سے سستے داموں کوئی چائینیز ٹیپ ریکارڈر خرید کر لادوں گا۔ مگر عبداللہ کو میرے وعدے کا اعتبار نہ تھا اور اس نے دکان کی طرف بچوں کی ٹافیوں کا ٹھیلا لگانے والے بابا سے ایک استعمال شدہ چائینیز ٹیپ ریکارڈر آٹھ سو روپے میں مجھے بتائے بغیر خریدلیا۔ اس ٹیپ ریکارڈ کی قیمت میرے خیال میں دو سو روپے سے زیادہ نہیں ہونی چاہئیے تھی۔ لیکن عبداللہ چھ سو روپے کا نقصان اٹھا کر بھی خوش تھا۔ یہاں یہ بتاتا چلوں کہ ابھی عبداللہ کو ہماری دکان پر کام کرتے ہوئے آٹھ دن ہی ہوئے تھے۔ اگلے ہفتے سے عبداللہ کو موبائل فون خریدنے کا بھوت سوار ہوا۔ میں نے اسے لاکھ سمجھایا کہ بھائی موبائل فون کی ایسی کیا ضرورت ہے۔ تو کہنے لگا میرے گاؤں میں چھوٹے چھوٹے بچوں تک کے پاس موبائل فون ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس کے گاؤں میں بجلی نہیں ہے اور بقول اس کے وہاں بہت بیروزگاری اور غربت ہے۔

ایک دن میری غیر موجودگی میں عبداللہ نے ایک پرانا موبائل فون اٹھائیس سو روپے میں خریدلیا۔ اس موبائل فون کی قیمت بھی بارہ پندرہ سو سے زیادہ نہیں تھی لیکن اس کی بےصبری بھانپتے ہوئے علاقے کے ایک لڑکے نے اسے ٹوپی پہنادی۔ کامران نے اس موبائل فون کی آدھی قیمت ادا کردی اور عبداللہ نے جس لڑکے سے فون خریدا ہے اس سے وعدہ کیا ہے کہ وہ بقایا پیسے تنخواہ ملنے پر چکا دے گا۔ اس دوران عبداللہ مجھے سے پیسے لے کر گھر بھی بھیج چکا تھا۔ قصہ مختصر وہ اپنی دو مہینے کی تنخواہ سے بھی سولہ سو روپے فاضل خرچ کرچکا ہے۔

جب سے اس کے ہاتھ موبائل فون آیا ہے یوں سمجھ لیں کہ بندر کے ہاتھ ناریل آگیا ہے۔ ہر وقت موبائل فون سے کھیلتا رہتا ہے۔ کئی سو روپے کارڈوں کے چکر میں خرچ کرچکا ہے۔ ہر وقت اپنے رشتے داروں دوست احباب کو مس کالیں مارتا رہتا ہے۔ سارا دن اس کے موبائل فون کی گھنٹی بجتی رہتی ہے۔ اور عبداللہ اسے سن سن کر خوش ہوتا رہتا ہے۔

جنرل مشرف کا کہنا ہے کہ کراچی کی ڈیڑھ کروڑ آبادی سالانہ ڈھائی کروڑ موبائل فون خریدتی ہے۔ جنرل صاحب، ان میں بہت سارے لوگوں میں عبداللہ جیسے بھی ہیں۔ کہ جن کے گاؤں میں نہ بجلی ہے، نہ اسکول، نہ پسپتال ہے اور نہ روزگار کے مواقع۔ ہاں بے شک ان کے پاس موبائل فون ضرور ہیں یہ اور بات ہے کہ انہیں نہ لکھنے آتا ہے نہ پڑھنا۔

تبصرے:

  1. ماشاء اللہ ۔ بہت خوب لکھا ہے آپ نے ۔ ہمارے یہاں بھی یہی صورت حال ہے ۔ کھانے کو کچھ ہو نہ ہو لوگ موبائل فون ضرور لینا پسند کرتے ہیں ۔ اسی لیے حکومت کی اس بات سے یہ یقین نہیں کیا جا سکتا کہ پاکستان میں موبائلز کا زیادہ بکنا عوام کے خوش حال ہو جانے کو ظاہر کرتا ہے ۔

Comments are closed.