مجھے یہ گمان ہوا تھا کہ شہری حکومت کی کارکردگی بارش کے دوران اتنی خراب نہیں رہی تاہم میرا اندازہ غلط تھا۔ کراچی کی شہری حکومت کی کارکردگی انتہائی خراب رہی۔ شہر کے مختلف علاقوں میں گلیاں اور محلے ندی نالے بن گئے ہیں جہاں اتنے دن سے بارش، اور گٹروں کے پانی نے مل کر تعفن پھیلادیا ہے۔ یوں معلوم ہوتا ہے اس شہر کا کوئی والی وارث ہی نہیں۔
مختلف علاقوں جیسے صدر، کورنگی، لیاقت آباد اور گارڈن وغیرہ میں مشتعل ہجوموں کی لوڈشیڈنگ پر ہنگامہ آرائی تو جاری ہی تھی اب یہ نیا مسئلہ آکھڑا ہوا ہے۔ سابق سٹی ناظم نعمت اللہ خان نے شہری حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور ان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا ہے۔ چند دن پہلے وہ شہر کی کچی آبادیوں میں صورتحال کا جائزہ لیتے رہے اور لوگوں کی شکایات سنیں۔ بارش کے دوران ہلاک ہونے والوں کے لواحقین سے تعزیت بھی کی اور کل وہ باتھ آئی لینڈ پہنچے۔ سابق سٹی ناظم کے مشوروں پر نئے سٹی ناظم نے کبھی کان نہیں دھرا۔ نعمت اللہ نے ان کے منصوبوں کی پلاننگ پر کئی بار نکتہ چینی کی ہے۔ لیکن نوجوان ناظم پتہ نہیں خود کو کیا سمجھتے ہیں۔ اس نوجون ناظم کو نہ کوئی شہر چلانے کا تجربہ ہے اور نہ اہلیت اس پر اس کے بڑے بڑے دعوے دیکھیں۔ نعمت اللہ خان نے مسلسل انٹرنیشنل کانفرنسوں میں شرکت کرکے خود کو اربن پلاننگ سے باخبر رکھا ہے اور دوسرے شہروں کے مئیروں کے تجربات سے فائدہ اٹھایا ہے۔ مگر جوان موصوف تو لندن میں موجود اپنے ڈرامہ باز رہنما کو اربن ڈیولپمنٹ ایکسپرٹ سمجھتے ہیں۔
باتھ آئی لینڈ کے رہائشی بارشوں سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ وہاں پورے شہر کا پانی آکر ایک نالے سے گذرتا ہے جو شہری حکومت کی ناقص منصوبہ بندی کی وجہ سے بلاک ہوگیا اور پورا باتھ آئی لینڈ پانی میں ڈوب گیا۔ لوگوں کے گھروں میں پانی گھس آیا اور بہت مالی نقصان ہوا۔ سٹی ناظم، اردشیر کاؤس جی (وہ بھی باتھ آئی لینڈ میں رہتے ہیں) اور ضیاء اعوان ایڈووکیٹ نے باتھ آئی لینڈ کے رہائشیوں کی ریلی کی قیادت کی۔ بعد ازاں باتھ آئی لینڈ کے مکینوں نے تین تلوار کے پاس دھرنا دیا اور ٹریفک بلاک کردیا۔ احتجاج کرنے والوں میں بڑی تعداد خواتین کی بھی تھی جنہوں نے بازوؤں پر سیاہ پٹیاں باندھ رکھی تھیں۔
نائب ناظمہ نسرین جلیل ان کی شکایات سننے پہنچیں تو لوگوں نے انہیں آڑے ہاتھوں لیا۔ خواتین انہیں زبردستی اندر گلیوں میں لے گئی اور ان سے اپنے نقصانات کے ازالے کا مطالبہ کیا۔ اب پتہ نہیں باتھ آئی لینڈ کی کیا صورتحال ہے۔ میرے گھر سے آگے ڈی جے سائنس کالج کے پاس ایک سڑک کھدی پڑی ہے وہاں اتنے بڑے بڑے گڑھے ہیں کہ چھوٹی موٹی گاڑی تو الٹ ہی جائے۔ ان گڑھوں میں گٹر کا گندہ پانی بھر گیا ہے جس کی وجہ سے پتہ نہیں چلتا کہ کہاں گڑھا ہے۔ موٹرسائیکل سواروں اور پیدل چلنے والوں کو بہت مشکلات کا سامنا ہے۔
وہاں سے کچھ آگے سبزی مارکیٹ ہے جہاں گٹر ابلنے اور بارش کے پانی سے ہونے والی کیچڑ سے ایسا تعفن پھوٹ رہا ہے کہ سانس لینا محال ہے۔ ستم بالائے ستم شہری حکومت کا ڈسٹرکشن دیپارٹمنٹ وہاں لوگوں کی دکانوں کے آگے لگی تجاوزات اٹھانے پہنچ گیا اور غریب ٹھیلے والوں کے ٹھیلے اٹھانے لگے جس پر عوامی اشتعال نے انہیں واپسی پر مجبور کردیا۔
چارلس نیپئیر کی ملکہ اب بیوہ نظر آتی ہے۔ اس کی مانگ اجڑ چکی ہے اس کا لباس گندا ہے اور اس کی زندگی میں کے ای ایس سی نے اندھیرے پھیلادئیے ہیں۔
مزید پڑھئیے
جسٹس اردشير کاؤس جی کی تحارير ميں عرصہ دراز سے پڑھتا ہوں مگر جو بے بسی اُن کی اپنے محلہ کی روداد بيان کرنے ميں ديکھی وہ پہلے نہيں ديکھی تھی ۔
ميں نعمت اللہ اور موجودہ ناظم دونوں کو ذاتی طور پر نہيں جانتا ليکن کراچی ميں عرصہ دراز سے بسنے والے ميرے عزيز و احباب بتاتے ہيں کہ نعمت اللہ سمجھدار اور مُخلص شخص ہيں جب کہ موجودہ ناظم صرف پيا کی پسند ہيں
ميری دعا ہے کہ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کراچی کے عوام پر اپنا خاص کرم کرے ۔ يہ دعا آپ پر احسان نہيں ميرے بڑے قريبی عزيز کراچی ميں رہتے ہيں کہ اس سے زيادہ قريبی صرف ميری اپنی ذات ہے ۔
آپ اتنی سی بات پر رو رہے ہیں ، یہاں تو یہ معمول کا کام ہے
🙂