میں اکثر پاکستانی معاشرے کو درپیش چلینجوں کے بارے میں سوچ بچار کرتا رہتا ہوں۔ پر افسوس کی بات یہ ہے کہ حکمرانوں کو میرے ایسے لائق و فطین مفکر کی موجودگی کا علم تک نہیں۔ حالانکہ میں اپنی خدمات مفت پیش کرنے کو تیار ہوں اور صدر پاکستان کی ذمہ داریاں بہ احسن طریق نبھانے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہوں۔ اسلئیے آپ درج ذیل پوسٹ کو حاسد کے دل کے پھپھولے پھوڑنے سے زیادہ خیال نہ کیجئیے گا۔
پاکستان میں آجکل حدود آرڈینینس کے ترمیمی بل کا بڑا چرچا ہے۔ قومی اسمبلی کے فلور پر بڑی گرما گرم بحث ہوا ہی چاہتی تھی کہ اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ مدت کے لئیے ملتوی کردیا گیا۔ علمائے کرام نے اپنا روایتی فریضہ نبھاتے ہوئے فوجی حکمران کے لکھے ہوئے اسکرپٹ پر بخوبی اداکاری کی اور اب ان کی پرفارمنس کو صدر بش کے ساتھ ملاقات میں زیر بحث لایا جائیگا۔ صدر بش کو بتایا جائے گا کہ اگر پاکستان فوج کی پاکستانی عوام پر بالادستی برقرار نہ رکھی گئی تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ پاکستان میں طالبان آجائیں گے جنہیں بڑی مشکل سے فی الوقت وزیرستان میں ایک مبہم، مشکوک اور نامعلوم معاہدے کے تحت قابو کیا گیا ہے۔
میرے خیال میں قانون سازی اور پاکستان ایک دوسرے کی قطعا ضد ہیں۔ پاکستان چونکہ اسلامی ملک ہے اور اسلام میں قوانین کا منبع قرآن، حدیث اور سنت رسول ہیں تو قانون سازی کے لفظ کا استعمال ہی غلط ہے۔ کیونکہ آئین پاکستان میں واضح طور پر درج ہے کہ پاکستان کے قوانین کی حدود کیا ہیں۔ جب اللہ نے قوانین بنا کر دے دئیے ہیں تو قانون سازی کا کیا جواز ہے؟ صرف قوانین کی تشریح ہونی چاہئیے اور اس کے لئیے بی اے پاس اسمبلی ممبران نا اہل ہیں کیونکہ اللہ کے قوانین کی تشریح کرنے کے لئیے ضروری ہے کسی عالم دین، باعمل اور باشرع مسلمان کو منتخب کیا جائے جسے فقہی امور پر مکمل دسترس حاصل ہو۔ یہ اسمبلیاں وغیرہ بنانا تو سراسر فضول اور غیر اسلامی کام ہے۔ انہیں بند کرکے قوم کا قیمتی وقت بچایا جائے جو وہ پرائیویٹ ٹی وی چینل کے ایسے غیر اسلامی موضوعات پر مبنی مباحثہ دیکھتے ہوئے ضائع کرتی ہے۔
یہ اور بات ہے کہ ہمارے حکمران سودی معیشت کے ضمن میں ان احکامات کی صریحا خلاف ورزی کرتی ہے۔ یہ بھی اور بات ہے کہ کئی دیگر معاملات میں بھی ہمارے علمائے دین، فوجی حکمران اور سیاستدان اسلامی قوانین کے بالکل برخلاف قوانین کو پاکستان کی ضرورت سمجھتے ہیں۔ تاہم چونکہ یہ پیچیدہ اور گنجلک مسائل ہیں اسلئیے ان کے سلسلے میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں بس اللہ سے آخرت میں معافی مانگ لی جائیگی۔
(وضاحت اس پوسٹ کا مقصد مسلمانوں کی دل آزاری نہیں تاہم اگر کسی کے جذبات مجروح ہوجائیں تو خدارا مجھے قتل نہ کیجئیے گا! میرے چھوٹے چھوٹے بہن بھائی ہیں اور ابھی تو میری شادی بھی نہیں ہوئی ہے۔)
دیکهیں اردو لکهنے اور پڑهنے والے عموما پاکستانی مسلمان هیں ـ اور ان کی اکثریت ذہنی طور پر نابالغ هے ـ اس لئے آپ مذہبی معاملات پر نه لکها کریں ـ اور آپ بهی اسی پاکستانی معاشرے کا حصه ہیں اس لئے آپ کی ذہنی بلوغت بهی مشکوک ہو سکتی هے ـ
آپ نے دیکها هے؟؟پوپ صاحب کے ساتھ کیا هوا؟
پوپ صاحب کا نازی بیک گرونڈ ان کو مار گیا ـ
پوپ صاحب نے صرف آپنی تقریر میں ایک تاریخی حواله دیا تها که چوهدویں صدی کے بادشاه نے یه کہا تها ـ
اور میڈیا نے مسلمانوں کو بتایا که پوپ صاحب نے نبی پاک صعلم کو برا کہا هے ـ
اسلئے مسلمان لٹھ لے کر چڑه ڈوڑے ـ
کسی نے بهی یه نه سوچا که کہا کیا گیا هے ـ
اس لئیے نعمان صاحب
آگر کسی دن "” انہیں "” احساس ہو گیا ناں که آپ کي بلاگنگ "” ان "” کے لئے خطره پیدا کر سکتی هے تو آپ کی بهی کسی بات کو میڈیا میں اچهال کر ہواؤں کو آپ کے خلاف کیا جاسکتا هے ـ
نعمان صاحب
آپ نے جس بحث کا آغاز کیا ہے مجھے نہیں لگتا کہ اس سے مسلمانوں کی دلآزاری ہوئ ہوگی بلکہ آپ نے مسلمانوں کو اس طرف سوچنے کی ترغیب دی ہے
یہ بات تو ہر پڑھا لکھا عرصے سے دہرا رہا ہے کہ قوانین بنانا اور ان کو بدلنا آسان ہے مگر ان پر عمل کرانا مشکل کیا ناممکن ہے۔ حدود آردینینش پر بحث ہوئی مگر کسی نے اس کی تاریخ پڑھنے کی کوشش نہیں کی یعنی جب سے یہ قانون بنا ہے کتنے لوگوں کو اس کے اطلاق کا فائدہ ہوا اور کہاں کہاں لوگوں کو اس کی وجہ سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے بعد ہمیں چائیۓ تھا کہ ان مشکلات کے اذالے کیلۓ حدود آرڈینینس کو جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ کرتے ہوۓ زیرِ بحث لاتے اور اسلام کے دائرے کے اندر رہتے ہوۓ اس میں ترمیم کرتے۔ ہم نے ایک پوسٹ جدید ٹیکنالوجی کے استعمال پر لکھی ہے جو جلد ہی شائع کرنے والے ہیں۔
خاور صاحب کی پوپ والی بات درست نہیں۔ جب کسی تاریخی بات کا حوالہ دیا جاتا ہے تو اس کا مطلب اس کی تائید یا نفی ہوتی ہے اور ظاہر ہے پوپ صاحب نے اس کی تائید کی ہے اور یہی بات غلط ہے۔
امید ہے باقی قارئین بھی آپ کی اس پوسٹ کے جواب میں اپنی اپنی راۓ کا اظہار ضرور کریں گے۔
سلام
قتل والی بات بچگانہ سی لگی۔ کتنے بندے ایسے قتل ہوئے ہیں اور کیا پتہ کہ ان کو باعمل اور باشرع مسلمانوں نے ہی مارا یا مروایا ہے؟
Noumaan saab.
aap ne bilkol drust likha hai. yeh sab dramay baaz hain. yeh mullahz jin ky apna bachay europe aor america main parhatay hein likn galian phir bhi america aor euorope ko hi dayn gay.
maray khyal main hadood ko khatam kar dayna chahyay. waisay bhi har bura kaam yahan hota hai. is kw khatam karnay say kya qyamat aa jaye gi. aoraton ko har tarha ki aazadi hasil honi chahyay.
khawar ki baat sy maein mitaffaq nahin karta. mera pakstan bhi mullah hi hein. maein nay bhi yeh likh kar apna naam list main likha lia hai. ab pata nahin mujhay kon qatal karay ga.
yaar noumaan yeh uurdu kaisay likhtay hein. plz btatao yaar.
bewaqoof
پوپ صاحب کے بارے میں یہاں عام رائے یہی ہے کہ یہ اہم نہیں کہ پوپ نے کیا کہا؟ یہ اہم ہے جو پوپ نے نہیں کہا۔
میگزین میں تو آپ ّچکے ہو اب شاید آپکا سیاست میں آنے کا اردادہ لگتا ہے
خاور صاحب اسی ڈر کے مارے تو پیشگی معذرت کرلی ہے۔ بدتمیز صاحب آپ کا شکریہ کہ آپ میری پوسٹ کو واجب القتل نہیں سمجھتے۔ ملاؤں کے بچے اس لئیے امریکہ یورپ میں پڑھتے ہیں کیونکہ ملاؤں کو بخوبی علم ہے کہ پاکستان میں تعلیم (دینی اور دنیاوی کی تفریق نہیں کیونکہ ہمارے یہاں عام اسکولوں میں بھی دینی ہی تعلیم دی جاتی ہے) کا انہوں نے فوجیوں کے ساتھ مل کر کیسا بیڑا غرق کیا ہے۔
میرا پاکستان صاحب میں تو قانون سازی کی بات ہی نہیں کررہا۔ میں تو یہ عرض کررہا ہوں کہ جب اللہ کے قانون قرآن اور حدیث کی روشنی میں بیان ہیں تو صرف ان کی تشریح ہونی چاہئیے اور مملکت خداداد میں قانون ساز اسمبلیاں نہیں بلکہ علماء کی مجالس کو قانون کی تشریح کا کام کرنا چاہئیے۔
ميں نے آپ کی اس تحرير کا بغور مطالع کيا ہے ميں اس پر سير حاصل لکھنا چاہتا ہوں ليکن آپ اجازت ديں کہ ميں آپ کو يہ تبصرہ ای ميل کے ذريعہ بھجوں پھر آپ مناسب سمجھيں تو شائع کريں
ديگر ذرا مندرجہ ذيل سائيٹ پر گمنام کا آپ کے نام سے تبصرہ اور ميرا جواب پڑھ ليجئے
http://www.blogger.com/publish-comment.do?blogID=12650315&postID=115467648230903084&r=ok