صبح عید

آج ہم نے عید کی نماز پڑھی۔ امام صاحب نے ٹی وی کے کسی پروگرام میں آنے والے ایک عالم دین کا حوالہ دیا جو کہ مرنے والوں کو ایصال ثواب پہنچنے کو نہیں مانتے۔ اس پر امام صاحب نے پندرہ منٹ فصیح و بلیغ تقریر فرمائی ٹی وی کے میزبان کے خوب لتے لئے۔ واضح رہے ہمارے محلے کی مسجد کے امام صاحب بھی ٹی وی کے چند ایک پروگراموں پر آتے ہیں۔ انہوں نے ارشاد فرمایا کہ اہلسنت و الجماعت ہی حق فرقہ ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ اس کے بعد انہوں نے ہمیں عید کی نماز کا طریقہ سمجھايا۔ نماز کے بعد انہوں نے عربی خطبہ ارشاد فرمایا جس کے دوران تمام لوگ اونگھتے رہے۔ پھر دعا فرمائی۔ اس دعا میں انہوں نے اللہ تعالی سے فرمائش کی کہ وہ پاکستان کو ایٹمی سے ایٹمی اور سب سے طاقتور ایٹمی ریاست بنادے۔ خصوصا انہوں نے امریکہ کے بیڑے غرق کرنے کی دعا بار بار دہرائی۔ ساتھ ہی کفار یہود و نصاری کو جی بھر کر کوسا۔ اور درود شریف پڑھایا۔ ایکا ایکی انہیں یاد آیا کہ کشمیر کے مسلمانوں کا ذکر تو رہ ہی گیا۔ تو پھر کشمیر کے مسلمانوں کے لئے دعا کی گئی اور انہیں ہنود کے مظالم سے نجات ملنے کی دعا فرمائی۔ آخر کار پھر درود شریف پڑھا اور نماز عید ختم ہوئی۔

یعنی عید کے دن کا آغاز امام صاحب نے جی بھر کے مخالف فرقوں کی لعن طعن، کفار کو کوسنے اور بددعائیں دینے، سے کیا۔ مجھے یقین ہے کہ امام صاحب کو ہرگز یہ علم نہیں ہوگا کہ ایٹمی قوت سے کیا کام لئیے جاسکتے ہیں اور مجھے پکا یقین ہے کہ اس سے ان کی مراد وسیع پیمانے پر قتل و غارت گری پھیلانے والے ہتھیار ہی تھے۔

اللہ ہم سب پر اپنا رحم فرمائے اور ہمیں معقول تعلیم یافتہ علماء کرام کے وعظ سننا نصیب فرمائے۔ آمین۔

تبصرے:

  1. یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمیں ایسے علمائے دین میسر ہیں جن کی آپس کی لڑائیاں ہی ختم نہیں ہوتیں۔
    خیر اللہ ہم پر رحم کرے اور اس ملک پر اپنی رحمت رکھے۔ یہ اس کی رحمت ہی ہے کہ یہ ملک ایٹمی طاقت ہے اور یہ ہماری بےغیرتی ہے کہ ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود ہمیں جو چاہے سفارتی محاذ پر رگیدے پھرتا ہے لیکن۔۔۔۔۔۔
    میں مایوس نہیں وقت آئے گا جب ہماری باری ہوگی۔ کاش کہ ہم جاگ جائیں۔ اللہ ہم پر رحم کرے۔

  2. جناب عید مبارک!!!!!
    ممکن ہے کہ کسی تعلیم یافتہ عالم دین کا بھی ایسا ہی وعظ سننے کو مل جائے ٓپ کو پھر آپ معقول نہ جانے اسے!!!!

  3. امام ليڈر ہوتا ہے ۔ حيرت ہے آپ جيسے ذہين ۔ تعليم يافتہ اور ترقی يافتہ شخص نے ايک ايسے شخص کو امام تصور کر ليا اور اس کے پيچھے نماز پڑھی جن کو بقول آپ کے ہرگز یہ علم نہیں ہوگا کہ ایٹمی قوت سے کیا کام لئیے جاسکتے ہیں اور اس سے ان کی مراد وسیع پیمانے پر قتل و غارت گری پھیلانے والے ہتھیار ہی تھے ۔ دوسرے الفاظ ميں وہ امام جاہل ہيں

  4. شاکر بھائی، ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود جو دنیا ہمیں رگیدتی ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم ایٹمی صلاحیت کو صنعت و حرفت، علاج معالجے اور کئی اور شعبوں میں استعمال نہیں کرپارہے۔ یہ ایک الگ موضوع ہے جس پر جنرل مشرف کئی بار اظہار خیال کرچکے ہیں مگر بات اظہار خیال سے آگے نہیں بڑھتی۔

    اجمل اور شعیب، فرض کیجئے مجھے بخار ہوجاتا ہے۔ تو میں کہاں جاؤں گا؟ ڈاکٹر کے پاس اور مجھے کیسے پتہ چلے گا کہ وہ ڈاکٹر ہے؟ ظاہر ہے اس کے پاس سند ہوگی جس کا اظہار اس نے کلینک کے دروازے پر لگی تختی پر کیا ہوگا۔ اسی طرح اگر ایک مسجد کا خطیب، امام خود کو بطور علامہ متعارف کراتا ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ وہ لائق فائق ہوگا۔ افسوس کے علمائے دین کے بارے میں یہ نہیں کہا جاسکتا کیونکہ ہمارے علمائے دین کی تعلیمی استعداد انتہائی غیر معیاری اور ناقابل بھروسہ ہوتی ہے۔ اس طریقہ تعلیم میں صدیوں سے تبدیلی نہیں آئی۔ اور تقریبا تمام مساجد کے امام جدید ٹیکنالوجی اور معاشرت پر سیر حاصل گفتگو کرنے سے بعذر لاعلمی قاصر ہیں۔

    بہتر ہوگا کہ اس بات کا ہمیں ادراک ہو تاکہ اس کا تدارک کیا جاسکے بجائے اس کے کہ جہالت کا دفاع کیا جائے۔

  5. جہالت کا دفاع؟؟؟ بھائی میں جہالت کا دفع ہر گز نہیں کر رہا!!! آپ نے بات کی ڈاکٹر کی پہچان اس کی سند سے ہوتی ہے اور عالم کی پہچان لفظ علامہ سے!! علماء دین کا تدریسی نظام بہت پرانا ہے!!! چلو مان لیا!!! مگر میں نے کئی عالم دین ایسے بھی دیکھے جو جدید علم سے نا صرف واقف ہیں بلکہ اس پر دسترس بھی رکھتے ہیں!!! اور مذہب کی روشنی میں اس پر سیر حاصل گفتگو بھی کر لیتے ہیں!!! اور ایسے بھی جو جدید ٹیکنالوجی کی تعلیم رکھتے ہیں اور کسی طرح دین کی طرف راغب ہو گئے اور پھر معقولیت کی جدید تعریف پر پورے نہ اترے!!!! ان کے بارے میں آپ کی رائے کیا ہے!!!!
    ہاں جہاں تک دوسرے فرقوں کو برا بھلا کہنے کی بات ہے تو اس پر دینی علم کے حامل افراد کی مزمت کرنی چاہئے!! اس میں کوئی شک شبہ نہیں ہے۔

  6. شعیب مجھے بھی بتائیں ایسے کونسے علماء ہیں جو جدید ٹیکنالوجی پر بنیادی معلومات بھی رکھتے ہیں اور مذہب اور ٹیکنالوجی کے حوالے سے بات چیت کرلیتے ہیں۔ ان کے اس میدان میں کئے گئے کاموں کا حوالہ بھی دیں۔ (براہ مہربانی ایسے لوگوں کا حوالہ نہیں دیجئے گا جو مذہب کو سائنس کے حوالے سے ثابت کرنے کے ویبسائٹ چلاتے ہیں)۔

    "۔۔۔ایسے بھی جو جدید ٹیکنالوجی کی تعلیم رکھتے ہیں اور کسی طرح دین کی طرف راغب ہو گئے اور پھر معقولیت کی جدید تعریف پر پورے نہ اترے۔۔۔”

    یہ ایک دلچسپ تذکرہ آپ نے چھیڑا ہے۔ عموما دیکھا یہ گیا ہے کہ جس گروہ کی آپ اوپر مثال دے رہے ہیں وہ عموما مذہب کی طرف مائل ہونے پر ٹیکنالوجی سے بیزار ہوجاتے ہیں۔ غالبا یہی بیزاری نامعقولیت کا تاثر دیتی ہوگی۔

  7. نعمان جی ایسے لوگ موجود ہیں۔ اگرچہ کم کم۔
    کریڈٹ کارڈ کی مثال ہی لے لیں۔ اس پر بڑی جامع کتب موجود ہیں اردو میں بھی اور عربی میں بھی۔ کریڈٹ کارڈ کیا ہے کیا جدید ٹیکنالوجی نہیں۔ چناچہ بیدار مغز علماء کی نظر جدید تقاضوں مسائل اور شریعت کی روشنی میں ان کے حل پر رہتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ فرقہ بندی ہمیں چین نہیں لینے دیتی۔

  8. آپ کا استدلال ناقص ہے ۔ تعليم ضروری ہوتی ہے سند نہيں اور اسناد کسی شخص کی قابليت پر دلالت نہيں کرتيں ۔ آپ سائنس کی ہی بات سمجھتے ہيں اسلئے ميں ايک مشہور سائنسدان کی مثال ديتا ہوں اور چونکہ آپ کو مُسلم جاہل لگتے ہيں اسلئے ايک غير مسلم کا ہی نام ليتا ہوں جو يہودی گھرانے مين پيدا ہوا اور عيسائی گرجا کے مدرسہ ميں پڑھا ۔ البرٹ جو آئنسٹائن کے نام سے مشہور ہے اس کے پاس کس سکول يا کالج يا يونيورسٹی کی کونسی سند تھی ؟

    البرٹ اُلم [جرمنی] ميں پيدا ہوا ۔ ميں نے اس کی جائے پيدائش 1966 ميں ديکھی تھی اور اس کے متعلق لوگوں ميں مشہور کہانياں بھی سُنی تھيں ۔ اس نے بولنا تين سال کی عمر ميں شروع کيا اور نو سال کی عمر تک بہت ہچکچاتا تھا ۔ البرٹ سکول کی تعليم ميں دلچسپی نہيں ليتا تھا اور اپنی مرضی کا مالک تھا ۔ رياضی بارہ سال کی عمر ميں پڑھنا شروع کيا ۔ اس کے پاس سيکنڈری سکول کی سند بھی نہ تھی يعنی سند کے اعتبار سے وہ ميٹرک پاس بھی نہ تھا ۔

    اب ميں آتا ہوں دين کی طرف ۔ عمر رضی اللہ عنہ کے پاس کونسی اسناد تھيں ؟ آج کی ترقی يافتہ دنيا کے ايڈمنسٹريٹو سٹرکچر کے وہ بانی ہيں ۔ ارنڈ لِيو ۔ سِک لِيو وغيرہ دنيا ميں پہلی بار اُنہوں نے رائج کی ۔ اُن سے پہلے چھُٹی کا تصور ہی نہ تھا ۔ آرگينائيزيشن کا تصور بھی انہوں نے متعارف کرايا ۔ اور ان کے بنائے ہوئے نظام ميں کوئی بنيادی تبديلی آج تک نہيں کی گئی

    اب آجکل کے مُلا کی طرف آتے ہيں ۔ ہماری قوم يا ملک کا مسئلہ يہ ہے کہ قابض انگريزوں کا بنايا ہوا امام مسجد نظام کافی حد تک ابھی بھی رائج ہے ۔ ايک وجہ يہ نظام جاری رہنے کی يہ ہے کہ امام مسجد کی تنخواہ اتنی کم ہے کہ مدرسہ کی سند رکھنے والے امام مسجدنہيں بنتے ۔

    دوسرے لوگ تعليم يافتہ اور جاہل ميں تفريق نہيں کرنے کی بجائے دين اسلام کو بدنام کرنے چل پڑتے ہيں ۔ اللہ کے فضل سے اپنے ہی ملک ميں بلکہ اس کے ہر بڑے شہر ميں صحيح علم رکھنے والے عالمِ دين موجود ہيں مگر پياسا کنويں کے پاس جاتا ہے کنواں پياسے کے پاس صرف اس وقت جائے گا جب پياسا اللہ کا اتنا قُرب حاصل کر لے کہ علامہ اقبال کا شعر ۔ خدا بندے سے پھر پوچھے بتا تيری رضا کيا ہے ۔ صحيح ثابت ہو ۔ مدرسے کی تعليم کو آپ غير معياری اسلئے سمجھتے ہيں کہ آپ کو دين اور اس کی پيروی کرنے والوں سے نفرت ہے ۔ ايک ادنٰی سی مثال کراچی کے ايک دينی مدرسہ کے ايک طالب علم کی اس رابطہ پر ديکھئے ۔ عدنان کاکا خيل نے دوسرا انعام حاصل کيا ۔
    http://www.youtube.com/watch?v=LiTnSozGdtU&search=student%20convention%20pakistan%20musharaf

    اب کچھ خود تعريفی ۔ ميرے پاس کمپيوٹر کی کوئی سند نہيں نہ ہی ميں نے کوئی کمپيوٹر کورس ايک دن کيلئے بھی اٹينڈ کيا ۔ آج سے اٹھارہ سال قبل آپ کے اس ملک پاکستان ميں سب سے وسيع کمپيوٹرائزڈ اِنوينٹری مينيجمنٹ سسٹم ميں نے ملک کے ايک ميراتھان ادارے ميں رائج کيا ۔ مجھ سے کئی بڑے اداروں کے افسران نے تربيت حاصل کی ۔ اور مجھ سے سند يافتہ دو ہزار سے زائد جوان مختلف اداروں ميں اچھی حيثيت ميں کام کر رہے ہيں ۔ اس کے علاوہ جاننے والے مجھے سپريڈ شيٹ کا استاد گردانتے تھے ۔ اب ميری عمر 69 سال ہو جانے کے باعث لامحالہ ميری ايفيشينسی اور يادداشت کم ہو گئی ہے

  9. افتخار معاف کیجئے مگر میں ایک مسجد میں جاتا ہوں اور کوئی شخص خود کو عالم دین بتاتا ہے تو میں اسے عالم دین سمجھ لیتا ہوں۔ سند سے اگر کچھ نہیں ہوتا تو میرے خیال میں وہ سند ناقص اور غیر ضروری ہے تو پھر اسے بانٹنے کا سلسلہ بند ہونا چاہئے۔

    ایک مخصوص نظام تعلیم کے تحت تربیت پانے والے افراد کی اکثریت مخصوص جہالت کا ثبوت دیتی ہو تو لازمی سی بات ہے کہ وہ نظام تعلیم تنقید کا نشانہ بنتا ہے۔ امید ہے آپ مدارس کے نظام تعلیم اور دین اسلام میں فرق سمجھیں گے۔ مدارس کے نظام تعلیم کی خامیوں پر آپ خود ایک پوسٹ لکھ چکے ہیں۔ واضح رہے کہ مدارس کے نظام تعلیم کا بنیادی ڈھانچہ بھی اسی انگریز کا بنایا ہوا ہے جس نے مسجدوں کے اماموں کا موجودہ نظام ترتیب دیا۔

    پاکستان کے ہر بڑے شہر میں ایسے عالم دین ہونگے جو بقول شخصے "بگ بینگ کیوں ہوا؟” جیسے سوالات کرکے لوگوں کو لاجواب کرسکتے ہوں۔ مگر افسوس کہ میری علم کی پیاس وہ نہیں بجھاسکتے۔

    پتہ نہیں اس ویڈیو میں آپ مجھے کیا دکھانا چاہتے تھے۔ ذرا وضاحت فرمائیے۔

  10. بینکاری میں زیادہ کام ہونے کی وجہ واضح ہے کہ تحقیق کے لئے درکار فنڈز مالیاتی ادارے فراہم کردیتے ہیں۔ مگر مجھے یہ بتائیں درس نظامیہ کا سند یافتہ شخص جو دس بیس سال کسی مدرسے میں لگا کر آئے گا وہ کیسے ان ریاضی، طبیعیات، معاشرتی اور ثقافتی مسئلوں پر بحث کرے گا؟ اور جب رہنمائی کی بات ہو تو وہ کیونکر رہنمائی کرے گا؟

  11. Waisay is mamlay main hum aap kay hum khayal hain kay ulma kay liay deeni or dunyawi dono taleem lazmi hona chahiay khas kar is dor main,laikin kia kia jaay jo sahi aalim hain unhain aik aik karkay oper pohnchaya ja raha hay takay aisay kath mulaon ka izafa kia jasakay jo awam ko aapas main larwa kar hokomat ka kaam aasan kar sakain,

  12. مہر افشاں صاحبہ ڈاکٹر اسرار احمد کے چند مضامین طبیعات کے حوالے سے پڑھ چکا ہوں اور انہیں مضحکہ خیز خیال کرتا ہوں۔ حیرت انگیز طور پر ڈاکٹر اسرار احمد تخلیق کے نظرئیے کے حامی عیسائیوں اور ہارون یحیٰی کے نظریات سے متاثر نظر آتے ہیں اور ساتھ ہی اسلام کو سائنس سے مطابقت دینے کی خواہش میں ان میں اپنے نظریات بھی شامل کرتے چلے جاتے ہیں۔ طبیعات اور سائنسی علوم سے ان کی دلچسپی وہیں تک ہے جہاں یہ علوم انہیں مذہبی نظریات سے متصادم معلوم ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ اگر آپ روح، جنات اور پراسرار علوم پر ان کے مضامین پڑھیں تو طبیعیات کے حوالے سے ان کی کم علمی کا ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے۔

    جب میں بات کرتا ہوں پڑھے لکھے سمجھدار عالموں کی تو میں ہرگز نہیں کہتا کہ وہ طبیعیات یا حیاتیات پر تحقیقی مقالے پیش کرنے لگیں۔ بلکہ میرا مقصد یہ ہے کہ انسان کو بنیادی باتوں کی معلومات تو ہونی ہی چاہئے۔ ڈاکٹر اسرار احمد کے مضامین میں اکثر سائنسی حوالے بالکل غیرسائنسی ہوتے ہیں اور اس کوشش میں وہ بہت برا تاثر چھوڑتے ہیں۔ کبھی موقع ملا تو ان کے مضامین پر بھی ایک پوسٹ ہوگی۔

    ڈاکٹر ذاکر نائک کے بارے میں کچھ کہہ نہیں سکتا۔ کہ ان کا لکھا کچھ پڑھا نہیں۔

  13. جناب نعمان صاحب
    پہلے تو آپ یہ بتائیے کہ جدید تقاضوں کے مطابق دین کی تشریح سے آپ کی مراد کیا ہے؟ اگر اآپ یہ مراد لیتے ہیں کہ شرعی اصول و قواعد کو نئی پود کے ذہنوں کے مطابق تشریحات سے مزین کیا جائے تو یہ تو بہت اچھی بات ہوئی، لیکن اگر آپ یہ چاہتے ہیں کے نئی روشنی کے چکر میں پرانے اطوار بھلا دئے جائیں تو یہ ایک نامناسب ہی نہیں بلکہ لا ابالی سوچ ہے!
    دوسری بات یہ ہے کہ جہاں تک مدارس کے تمام کے تمام فضلاء کا آپ جیسے ذہین فطین انسانوں کی سمجھ سے مطابقت نہ رکھنے کی بات ہے تو یہ کوئی اچھنبے کی بات نہیں، کتنے ہی لوگ ہیں اسکول و کالج کے فضلاء میں سے جو مہذب امریکا کی مقدس جنگ میں اسکے پیروکار ہیں؟
    البتہ کچھ ہی لوگ ہوتے ہیں جو قابلَ قدر خدمات انجام دیتے ہیں مثلا آپ کے ہاں کراچی میں مولانا مفتی تقی عثمانی صاحب موجود ہیں، کیا جدید موضوعات خصوصا بینکنگ پر آپ نے انکی تصانیف کا مطالعہ کیا ہے؟
    کیا آپ نے انکی تازہ ترین انگریزی تفسیر کا مطالعہ کیا ہے؟
    اگر نہیں تو ضرور کیجئے، اور ہاں کسی بھیقسم کے موضوع پر جناب کو مولویوں کی تصنیفات کے مطالعہ کا شوق ہو تو عنوان لکھیں انشائ اللہ تحقیقات سے پردہ ہم اٹھائیں گے!

  14. عطاءاللہ صاحب، بہت شکریہ کہ آپ تشریف لائے اور تبصرہ فرمایا۔

    جدید تقاضوں سے میری ہرگز یہ مراد نہیں کہ دین کو لوگوں کی سہولت کے مطابق کردیا جائے۔ میری خواہش یہ ہے کہ علماء کو جدید دور کے معاشرتی، معاشی، سیاسی ارتقاء کے ساتھ دین کی تشریح میں بہتری لانی چاہئے۔ عصر حاضر کے مسائل پر مسلمان نوجوان کی رہنمائی کرنی چاہئے۔ نوجوانوں کو یہ سکھایا اور بتایا جائے کہ کس طرح وہ دین اور اپنی سو کالڈ ماڈرن دنیا کو ساتھ لے کر چلیں۔ ہمارے علماء کے انداز و اطوار برائے تدریس و تبلیغ و وعظ و نصیحت انتہائی فرسودہ اور غیر موثر ہیں۔ کیونکہ نوجوان کو اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ دینداری اس کی جدید دنیا میں معاشرتی اور معاشی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن جائیگی۔

  15. 1- دیکھئے جب آپ مائیکرو سافٹ ورڈ میں کام کرنا چاہتے ہیں تو آپ انہی خطوط پر کام کریں گے جو مائیکرو سافٹ نے کام کرنے کے لئے وضع کی ہوئی ہیں۔اگر آپ کورل ڈرا والا کام مائیکرو سافٹ ورڈ میں کرنا چاہیں گے تو اس میں کامیابی مشکل ہے۔
    اسی طرح دین کے فہم اور جدید تقاضوں کے مطابق تشریح کے لئے بھی دین کے بنیادی اصول و ضوابط یعنی قرآن وحدیث کی تعلیمات کو مد نظر رکھتے ہوئے، انہیں اپنا راہنما مانتے ہوئے اور سیکھنے کا جذبہ اور اعتقاد دل میں رکھتے ہوئے نواجوانوں کودیکھنا ہوگا کہ کس طرح وہ دین اور اپنی سو کالڈ ماڈرن دنیا کو ساتھ لے کر چلیں!
    اب آپ بتائیںً کہ ہم مسلمان بھی کہلوانا چاہیں اور دین کی بنیادی تعلیمات کو اپنی آراء ، تبصروں اور زندگی میں جگہ نہ دیں تو یہ کورل کا کام ورڈ میں کرنے والی بے جا ضد ہے کہ نہیں؟
    اب میں آپ سے یہ پوچھنا چاہوں گا کہ آپ دین کے قوانین و اصول قرآن وحدیث کو تسلیم کرتے ہیں یا نہیں؟ اگر کرتے ہیں تو کیا آپکا بلاگ اس راہنمائی کا عکاس ہے؟
    اگر آپ قرآن وحدیث کو راہنما تسلیم کرتے ہیں مگر مولویوں کی گھسی پٹی تشریحات سے ہم آہنگی نہیں رکھتے تو وہ کونسا قرآن ہے یا حدیث ہے جہاں سے نئی دنیا کی ماڈرن رنگینیاں ( ناچ گانا، خدا کے لئے جیسی فلمیں بنانا اور ووٹنگ میں ایک امن پسند شہری نعمان صاحب اور ایک منشیات فروش دونوں کی برابری حیثیت، اور دوسرے آپکے بہت سے فرمودات جو اس بلاگ پر نمایاں ہیں ) انفرادی معاملہ اور بنیادی حقوق کہلائیں بھی اور بندہ مسلمان بھی کہلائے ؟
    2- دوسرا مجھے یہ بتائیے کہ اگر علماء اپنے فرائضِ منصبی سے غافل ہیں تو آج وہ کونسی ڈیمو کریٹک یا سولایزڈ سوسائیٹی ہے جہاں اپنی ذمہ داریاں اور اپنوں اور دوسروں کے حقوق کے بارے میں پورا پورا انصاف کیا جاتا ہے؟
    یا وہ کونسی مندرجہ بالا نظریات کی حامل شخصیات ہیں جنہیں بطور رول ماڈل آپ پیش کرنا چاہیں گے؟
    خلاصہ یہ نکلتا ہے کہ اگر آپ مسلمان کہلاتے ہوئے جدید دنیا کا حصہ بننا چاہتے ہیں تو حق اسلام بھی ادا کرنا ہوگا ، اوراگر کوئی اپنے نظریات و آراء کے تاج محل کھڑے کرنا چاہے اور اسلام کا لیبل استعمال کرے تو یہ بھی کھلی دہشت گردی ہی کہلائے جانے کی مستحق ہے۔
    لیکن اگر کوئی دائرہ اسلام میں رہتے ہوئے نئی دنیا میں باعزت زندگی چاہتا ہے تو اعتراض و تنقید کی بجائے استفسار و تفہیم کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنانا ہوگا۔
    چلئے آج ہم ہی پہل کرتے ہیں اور سب سے پہلے اس بات کو فائنل کر لیتے ہیں کہ مسلمان رہتے ہوئے ہم کن اصولوں کو مشعل راہ بنائیں اور کس طرح اپنی نئی زندگی میں انکو لاگو کریں؟
    ہوسکتا ہے ایک مولوی اور ایک جدت پسند نوجوان کی یہ پہل کسی بڑی کامیابی کا پیش خیمہ ہوجائے!

  16. عطاء اللہ صاحب، مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ دین اور ماڈرن دنیا کو ساتھ لے کر چلا جاسکتا ہے۔ یہ صرف میری ناقص رائے ہے کہ امور عصری اور خصوصا نوجوانوں کی ذہنی اور روحانی اصلاح کا کام صحیح نہیں ہورہا۔ جس سے نوجوان (میں نہیں) یہ سمجھتا ہے کہ دین اس کی جدید دنیا سے متصادم ہورہا ہے۔ مجھے کوئی شک نہیں کہ قرآن اور حدیث‌ رہنما مانتے ہوئے ہی دین کی تشریح کی جانی چاہئے اور نہ اس بارے میں میری کوئی الگ رائے ہے۔ لیکن تبلیغ اور تلقین سننے والے نوجوان کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ وہ کسی جہادی کیمپ میں یا پھر تبلیغی مشنوں میں لگ جاتا ہے۔ عام نوجوان اور اس کے والدین اس بات سے بے خبر ہیں کہ جدید دنیا میں ترقی کے لئے دین ان کی کس کس طرح مدد کرسکتا ہے۔ جیسا کہ آپ نے کہا:

    اگر کوئی دائرہ اسلام میں رہتے ہوئے نئی دنیا میں باعزت زندگی چاہتا ہے تو اعتراض و تنقید کی بجائے استفسار و تفہیم کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنانا ہوگا۔

    ویسے دین میں میری دلچسپی کا محور صرف میری ذات ہے۔ اور بلوغت کے شروعاتی سالوں میں مجھے رہنمائی کا شدید فقدان معلوم ہوا اس لئے میں چاہتا ہوں کہ یہ صورتحال دور ہونی چاہئے اور نوجوانوں کو خصوصا ان کے دنیاوی معاملات میں دینی مدد کا سلسلہ ہونا چاہئے۔ جیسے مثال کے طور پر مخلوط تعلیمی اداروں میں لڑکے لڑکیوں کو اس تعلیم کی ضرورت ہوتی ہے کہ کس طرح وہ اپنی دینداری، حیا اور شرم کو بچاتے ہوئے اپنے ساتھیوں کے ساتھ ہم جماعتوں کا سا تعلق رکھ سکیں۔

    نوجوانوں کو اس امر کی تعلیم کی بھی ضرورت ہے کہ دین ان کی جنسی جبلت کے بارے میں کیا کہتا ہے۔ عموما ہم ایسے موضوعات چھپا لیتے ہیں اور ہمارا نوجوان سمجھتا ہے کہ دین اس کی جسمانی ضروریات کو نظر انداز کردیتا ہے اور اسے گناہ عظیم سمجھتا ہے۔ سو وہ اس بابت سوال نہیں کرتے اور غلط آزمائشوں پر چل دیتے ہیں۔

    اکثر نوجوانوں کو کام کی جگہوں پر دینی رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ جیسے ٹائم منیجمنٹ، پی آر، وغیرہ کے لئے وہ کس طرح دین سے رہنمائی لیں اور خود کو کامیاب بنائیں۔

    موضوعات کی طویل فہرست ہے لیکن افسوس عام انسان یہی سمجھتا ہے کہ نوجوان کے لئے ملا کے پاس صرف کلاشنکوف ہے یا خودکش جیکٹ۔

  17. آپکے تمام پوائینٹس پر الگ الگ گذارشات یہ ہیں:
    1- جہاں تک بات کسی جہادی کیمپ میں شرکت یا تبلیغی مشن میں شمولیت کی ہے تو اس بارے میں کیا آپ مجھے بتانا پسند کریں گے کہ ایسی سرگرمیوں میں شرکت کس خدا کے قانون کو پامال کرتی ہے؟ یا کس نبی کی تعلیمات کے خلاف ہے؟
    البتہ نہ ہی علماء اور نہ ہی کوئی تبلیغی یا جہادی یہ کہتا ہے کہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اسی کے ہوکر رہ جاو۔ بلکہ اسلامی تعلیمات تویہ کہتیں ہٰیں کہ اگر معاشرے میں انجینئرز کی کمی ہورہی ہو تو امت مسلمہ پر فرض عائد ہوجاتا ہےکہ وہ انجینیئرنگ کی تعلیم کے حصول پر اپنی بھر پور توانائیاں صرف کرے اور جلد از جلد انجینئرز کی ایسی کھیپ تیار کرے جو نہ صرف معاشرے کی ضروریات کو پورا کرے بلکہ قوم کو جدید ترقی یافتہ اقوام سے برتری بھی دلا سکے۔
    2- رہی اپ اور آپ جیسے نواجوانوں کی ذاتی زندگی میں دینی راہنمائی کی بات تو میں یہ کہنے میں بلکل جھجھک مھسوس نہیں کروں گا کہ اس میں سارا کا سارا قصور مولوی سے دوری کا ہے نہ کہ مولوی یا دینی اداروں کا۔آپ کے بلاگز کی رو سے دیکھا جائے توآپ اپنے محلے کے مولوی صاحب کا تذکرہ کرکے چڑھائی شروع کردیتے ہیں۔ کیا کابھی آپنے اپنی دینی راہنمائی کی جستجو کو اپنی کمپیوٹنگ لائف کی طرح بھرپور توجہ کا مرکز بنایا ہے؟ زندگی میں کتنے علمائ اور کتنے مدارس سے آپنے اپنی ذاتی زندگی کے توجہ طلب مسائل کے بارے میں آگاہی حاصل کی ہے؟
    میرے بھائی اگر آپ کے ہاں کے امام صاحب افہام و تفہیم کا ملکہ نہیں رکھتے یا حسب ضرورت راہنمائی نہیں کر پاتے تو سب کو اسی لائن میں کھڑا کرکے شوٹ کردینا کیسا انصاف ہے؟
    جہاں تک مخلوط تعلیمی اداروں میں اپنے آپکو بچاتے ہوئے تعلیمی سلسلہ جارکھنے کا تعلق ہے تو اس بارے میں دین صاف صاف کہتا ہے کہ حد بلوغت کو پہنچتے ہی بچوں اور بچیوں کا تعلیمی سلسلہ الگ الگ ہونا چاہئے۔ اور والدین اور حکومت کا فرض بنتا ہے کہ وہ ایسے اداروں کے قیام پر توجہ دیں۔ البتہ جہاں انتہائی مجبوری آڑے آجائے اور اس تعلیم کا کوئی متبادل نظام بھی موجود نہ ہو تو وہاں دین کہتا ہے کہ اپنی نظریں نیچی رکھو حسب ضرورت بات کرو اور بے جا اختلاط اور ئنسی مزاق سے پرہیز کرو۔ دین تو بہت پیار سے سمجھاتا ہے۔ ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ:
    ایک مرتبہ ایک صحابی حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائے اور عرض کیا کہ میں زنا کرنا چاہتا ہوں؟ دوسرے صحابہ غضب ناک ہوے لیکن ہمارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس سے روکا اور منع کرنے والے سے فرمایا کہ اگر کوئی یہی بات تمہاری بہن کے بارے میں پوچھے تو اچھا لگے گا؟ ظاہر ہے جواب نہیں میں تھا، اور بات بھی بخوبی سمجھ میں آگئی۔ اور مسئلہ بھی حل ہوگیا۔
    3- اور جو آپ نے یہ کہا کہ: ٕٕٕٕٕٕ
    نوجوانوں کو اس امر کی تعلیم کی بھی ضرورت ہے کہ دین ان کی جنسی جبلت کے بارے میں کیا کہتا ہے۔
    اس بارے میں میں یہ کہوں گا مدارس کے ابتدائی درجوں میں ہی اس مسئلے کی طرف توجہ دی جاتے ہے، اور جنسی اتار چڑھاو سے آگاہی کی یہ تعلیم بہشتی گوہر نامی ایک مختصر سےرسالہ سے شروع ہوجاتی ہے، اور شاید آپ کے لئے یہ بات حیرت کا باعث ہوکہ سب سے پہلا سبق مدارس مٰیں طلباء کو یہ دیا جاتا ہے کہ اپنے ذاتی زندگی کو مفید کیسے بنانا ہے اور جنسی ضروریات کو اسلامی دائرہ کار میں رہتے ہوکیسے نباہنا ہے۔
    4- جن نوجوانوں کو کام پر راہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ سچی لگن رکھتے ہیں تو انہیں مسئلہ کا حل بھی مل جاتا ہے، ایسے کئی بھائی ہمارے پاس آتے ہیں اور اپنے مسائل کا حل لے کر جاتے ہیں۔ مثلا ایک دن میں مسجد میں کھڑا تھا ، ہمارے ساتھ ہی ایک انجینئرنگ یونیورسٹی ہے وہاں سے ایک پروفیسر صاحب کا تعلیم یافتہ بیٹا آیا اور میں اور میرے ایک استاذ صاحب سے پوچھنے لگا کہ میں ایک مسئلہ پوچھنا چاہتا ہوں؟ ہم نے جواب دیا کے بھائی ضرور پوچھیں کیوں نہیں؟
    وہ کہنے لگا کے کہ جب میں قضائے حاجت سے فارغ ہوتا ہوں تو کچھ قطرے رہ جاتے ہیً، کبھی تو ایسا نہیں ہوتا مگر وہم دماغ پر سوار رہتا ہے؟ اب مجھے اسکا کوئی حل بتائیے؟
    جواب تھا کہ قضائے حاجت کے بعد quench up your organ اور استنجا کرکے بلا خوف خطر نماز ادا کرلیں، اب چاہے شک جتنی مرتبہ بھی ہو تو خیالات کو جھٹک دیں۔ اور تسلی سے نماز ادا کریں ایک دو دفعہ کے بعد آپ خود نارمل پوزیشن پر واپس آجائیں گے، مگر کسی ڈاکٹر سے ضرور رجوع کیجئیے گا تاکہ کوئی سیکسویئل پرابلم ہوتو وہ بھی ختم ہوجائے۔
    دیکھئے اس ساری گفتگو میں نہ تو کوئی حجاب مانع آیا نہ ہی پوچھنے والے کو کوئی دقت ہوئی۔
    اسی طرح دفاتر میں سیکرٹریز اور آپریٹرز سے لےکر مالک کاروبار تک کو روزانہ کی زندگی میں غیر محارم ، غیر مسالک و مذاہب کے اشخاص سے واسطہ پرتا ہے تو اس بارے میں بھی دین کی وضح راہنمائی موجود ہے اور ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو اس راہنمائی کی اقتداء کرتے ہوئے بھرپور زندگی گذار رہے ہیں۔ اس سلسلے میں سب سے واضح مثال آپ کی کراچی کے ہی ایک کامیاب ترین فرد کی کمپنی داود ہرکولیس ہے، جسکی فرمز میں نمازیں بھی ہوتی ہیں تلاوت بھی ہوتی ہے اور کام بھی ہوتا ہے۔ اسی دینداری کی برکت کہئے کہ انکا ایک کھاد بنانے والا پلانٹ شیخوپورہ کے علاقے میں کام کر رہا ہے اور اسکی پیداوار ایک سو دس فیصد ہے، جبکہ اسی کی عمر کے تمام پلانٹس جو دوسری کمپنیوں کی ملکیت تھے ناکارہ ہوچکے ہیں۔
    5- عام انسان اسلئے ایسا سمجھتا ہے کہ موجودہ میڈیا نہ تو کسی حق پرست مولوی کو اپنے نقطہ نظر کے بیان کے لئے جگہ دیتا ہے اور نہ ہی افغانستان، عراق اور دوسرے ممالک میں ہونے والی پر تشدد جوابی کارروائیوں میں استعمال ہونے والے گولہ بارود کو مولویوں کے کھاتے میں ڈال کر دکھانے کے علاوہ کوئی چیز دکھاتا اور سناتاہے۔ جہاں تک مسائل کی طویل فہرست کی بات ہے تو اس بارے میں میں آپ سے پہلے ہی کہ چکا ہوں کہ:
    چلئے آج ہم ہی پہل کرتے ہیں اور سب سے پہلے اس بات کو فائنل کر لیتے ہیں کہ مسلمان رہتے ہوئے ہم کن اصولوں کو مشعل راہ بنائیں اور کس طرح اپنی نئی زندگی میں انکو لاگو کریں؟
    ہوسکتا ہے ایک مولوی اور ایک جدت پسند نوجوان کی یہ پہل کسی بڑی کامیابی کا پیش خیمہ ہوجائے!
    لیکن ابھی تک اس پیشکش کے تسلی بخش جواب کے حصول سے محروم ہوں!

Comments are closed.