باجوڑ اور وزیرستان میں ایسا کیا ہورہا ہے کہ حکومت پاکستان کو اتحادیوں کی مدد سے وہاں بمباری کرنا پڑی۔ جس طرح عید پر دیکھا گیا کہ رویت ہلال کے مسئلے پر متفقہ رویت ہلال کا فیصلہ ماننے کے بجائے سرحد میں لوگوں نے اپنی اپنی عید منائی کچھ اسی قسم کا کام وزیرستان، وانا اور باجوڑ میں انجام پارہا ہے۔ پاکستان کے قبائلی علاقہ جات آج سے نہیں بلکہ ایک عرصے سے افغانستان کے معاملات میں کھلم کھلا مداخلت کا گڑھ بنے ہوئے ہیں۔ کبھی حکومت پاکستان اعلانیہ اس مداخلت کو شہ دیتی ہے اور کبھی اس سے انکاری بنی رہتی ہے۔ جنرل مشرف کہتے رہے ہیں کہ پاکستان میں دہشت گردی کے کوئی کیمپ موجود نہیں۔ تو پھر یہ کیا تھا؟ ایسے کتنے کیمپ اور ہیں اور کیا جنرل صاحب ان کے خلاف بھی کاروائی کا ارادہ رکھتے ہیں؟
اب باجوڑ کے قبائلیوں نے کھلم کھلا جہاد کا اعلان کردیا ہے۔ ڈرنے کی کوئی بات نہیں جہاد کے اعلان کرنا قبائلیوں کا شغل ہے۔ جیسے ہم فارغ اوقات میں فنون لطیفہ سے لطف اندوز ہوتے ہیں ایسے ہی یہ فارغ اوقات میں جہاد کے اعلانات کرتے ہیں۔ اور فارغ اوقات کی ان کے پاس بہت فراغت ہے۔ کیونکہ روزگار کے مواقع ناپید ہیں اور نوجوانوں کے پاس کرنے کو کوئی قابل ذکر کام نہیں کہ جس سے وہ اپنی صلاحیتیں منوا سکیں۔ تو وہ کہتے ہیں چلو جہاد ہی کرلیں۔
یہ جہاد کیسا ہوگا اس کی ایک تصویر میں آپ کو دکھا سکتا ہوں۔ دو چار مہینے بعد کراچی میں (نہ لاہور، نہ اسلام آباد، نہ پشاور میں) بم دھماکے ہونگے جس میں کوئی امریکی ہلاک نہیں ہوگا بلکہ پاکستانی سیکوریٹی اہلکار اور عام شہری نشانہ بنیں گے۔ افغانستان میں طالبان کو افرادی قوت اور اسلحے کی سپلائی جاری رہے گی اور پوست کی اسمگلنگ سے ان سرگرمیوں کو فنڈ کیا جائے گا۔ امریکہ اور مغربی ممالک کو مسلسل یہ باور کرایا جاتا رہے گا کہ پاکستان میں طالبان کو کنٹرول رکھنے کے لئے جنرل کا اقتدار بہت بہت بہت ضروری ہے۔ جیسے جیسے انتخابات نزدیک آئیں گے ویسے ویسے جماعت اسلامی اپنے روئے کو سخت کرتی رہے گی۔ توڑ پھوڑ جلاؤ گھیراؤ کی بھی نوبت آئے گی۔ ہوسکتا ہے اس دوران کوئی شرپسند مسلمانوں کے مذہبی جذبات ( جو بڑے ہی نرم و نازک ہیں بالکل کانچ جیسے) کو ٹھیس پہنچانے کی کوئی سنگین غلطی بھی کربیٹھے تو سونے پہ سہاگا ہوجائے گا۔
یہ سراسر حکومت کی رٹ کو للکارنے کے مترادف ہے۔ یا شاید نہیں۔ ہوسکتا ہے ہماری حکومت ہی اس کی سرپرستی کررہی ہو۔ کیونکہ دس نہیں تو پندرہ سال بعد تو اتحادی افواج کو افغانستان چھوڑ کر جانا ہی ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ تمام دہشت گرد تنظیمیں اس بات کا اعلان کررہی ہیں کہ حملے میں افواج پاکستان ملوث نہیں۔ اور ہو بھی کیسے سکتی ہیں۔ ان کی مدد کے بغیر تو اسلحے، پاکستانی طالبان اور پوست کی اسمگلنگ دشوار ہے۔
آپ نے وه محاوره سناهے ـ
جاہلوں کی مسخریاں ماں بہن سے ـ
یہی پاک جرنیل کر رہے هیں ـ بیگانوں سے پنگا لیں تو لوگ مارتے هیں ـ پتهر کے زمانے اور تورا بورا کا ڈرلگتا هے ـ
اس لئیے مہم جوئی کا ٹهرک آپنے گهر په هي پورا کر لیا جاتا هے ـ
کبهی اسلام آباد کو فتح کر کے کبهی بلوچستان باجوڑ وزیرستان ـ
ستر کی دهائی کا ایک زبان زد عام ایک فقره ـ
{وه آئے جنہاں ڈهاکے بم چلائے }
پاکستان کے اصل معمار بنگالی تهے نه که پنجابی ـ
پاک جرنیلوں نے ان کو غدّار کہاتها ـ
باقی رهي بم دهماکوں کی بات تو جناب یه نه تو مذهبی لوگ کرواتے هیں اور نه سیاسی یه بهی پاک لوگوں کا کام ہے ـ
آپ آزاد قوم کے آزاد فرد ہيں اسلئے آپ کو حق حاصل ہے کہ جو جی ميں آئے وہ لکھيں ۔ ميں صرف آپ کے گوش گذار کرنا چاہتا ہوں کہ جہاد کرنے والے اپنی جان کا نذرانہ پيش کرتے ہيں وزيروں اور جرنيلوں کی طرح دوسروں کا نہيں ۔ آپ نوائے وقت کو تو اخبار ہی نہيں سمجھتے مگر جس کے آپ معترف ہيں يعنی بی بی سی اُردو اُسے ہی پڑھ ليا ہوتا اور ان کی اَپ لوڈ کی ہوئی تصاوير غور سے ديکھ لی ہوتيں تو شايد رِپِيٹ شايد آپ کی يہ پوسٹ کچھ اور طرح ہوتی ۔
جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے شہادت پر وادیلا کیوں مچا رہے ہیں؟ کیا یہی وہ منزل نہیں جس کے حصول کی انہیں تلاش تھی؟ راہ جہاد میں کانٹے ہی نہیں میزائل، کلسٹر بم اور آگ کے گولے بھی آتے ہیں۔ شوق جہاد رکھنے والوں کو انہیں بھی قبول کرنا ہوگا۔
مگر میں یہ ہرگز نہیں مانتا کہ وہاں کوئی جہادی تھا۔ وہ بیچارے بغیر پڑھے لکھے لوگ ہیں جو صدیوں پرانی (اسلامی نہیں) قبائلی روایات میں جی رہے ہیں۔ جہاد ہو نہ ہو جنگجوئی ان لوگوں کا خاصہ رہی ہے۔ تشدد ان لوگوں میں اسقدر سرایت کرچکا ہے کہ جس دوران یہ جہاد نہیں کررہے ہوتے اس دوران ایک دوسرے کے گھر جلارہے ہوتے ہیں۔ عورتوں کو پردے کی خلاف ورزی پر گولیوں سے اڑارہے ہوتے ہیں۔ ایک دوسرے قبیلوں کے بندے مار رہے ہوتے ہیں۔ منشیات، ہیروئن، کراچی سے چوری کی گئی گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں، الیکٹرونکس مصنوعات اور اسلحہ اسمگلنگ کا مین گڑھ ہیں یہ علاقے۔ حیرت ہے شوق شہادت اور جہاد کا شعور رکھنے والوں میں قانون کی پاسداری کا قطعا کوئی شعور نہیں ہے۔ معاف کیجئے میں یہ بات تسلیم کرنے کو ہرگز تیار نہیں ہوں کہ وہاں کا نوجوان یا بوڑھا اتنا شعور رکھتا ہے کہ وہ حالات کا تجزیہ کرسکے اور اچھے برے میں تمیز کرسکے۔ لہذا یہ کہنا کہ وہ جہاد کی ضرورت سمجھتے ہیں صحیح نہیں۔ اس لئے میں نے اوپر لکھا ہے کہ جہاد ان کی ہابی ہے۔
مغل سلطنت، برطانیہ، امریکہ، سعودی عرب اور اب پاکستان سمیت تمام استعماری طاقتیں ہمیشہ سے قبائلی عوام سے جہاد کرواتی رہی ہیں۔ آپ ذرا ان لوگوں کی تاریخ دیکھیں، کونسی استعماری طاقت ہے جس نے ان سے جہاد نہیں کروایا۔ ان لوگوں کی موجودہ دور میں حیثیت صرف جنگجوؤں کی ہے نہ ان لوگوں کے کوئی نظریات ہیں (اسلامی بھی نہیں) اور نہ ہی ان کے اپنے کوئی خیالات ہیں۔ ایسی متشدد اور تعلیم و تہذیب سے عاری روش ریاست کے لئے انتہائی نقصان دہ ہے۔ اس کی ایک مثال آپ افغانستان کی دیکھ سکتے ہیں۔
مختصراًکچھ اسطرح ہے کہ حکومت نے جو کیا وہ غلط ہے نعمان صاحب کی بات میں وزن ہے کہ اس ہونے کے پیچھے کونسے مفادات ہیں اللہ جانتا ہے۔ یہ بات بھی سچ ہے کہ اس علاقے کی ترقی کیلۓ کسی نے کچھ نہیں کیا بلکہ ان سادہ لوح لوگوں کو استعمال کیا ہے۔ فوجی حکومت ہونے کے باوجود اس میں اتنی طاقت نہیں کہ وہ زمین پر ان لوگوں کو گرفتار کرسکتی اسی لۓ اتحادیوں کی مدد لی گئ۔ یہ بات بھی درست ہے کہ اگر وہ دہشت گرد تھے تو اسطرح کے کتنے ہی دہشت گرد ابھی موجود ہیں حکومت کوچاہۓ کہ ان کو ایک ہی وار میں ختم کردے۔
حکومت کو کسی سے کوئی سروکار نہیں بس اسے اپنی حکومت کی فکر ہے اور یہی فکر اسے اس طرح ہتھکنڈے استعمال کرنے پر مجبور کررہی ہے۔
کراچی يا اسلام آباد ميں بيٹھے جو جی ميں آئے لکھ دينا بہت آسان ہے ۔ کاش آپ کبھی قبائلی علاقہ ميں گئے ہوتے ۔ يہ اندرونِ سندھ اور اندروںِ پنجاب سے بہت مختلف ہے اور خاص کر وزيرستان اور باجوڑ باقی قبائلی علاقہ سے بھی مختلف ہيں ،
دوسروں پر بہتان لگانے سے پہلے انسان کو اپنے گريبان ميں بھی جھانک لينا چاہيئے ۔
اجمل، جذباتی بیانات دینے، اور دوسروں کی معلومات کو مشکوک بنانا کوئی دلیل نہیں۔
میرے خیال میں لڑنے سے کوئی فائدہ نہیں ہونے والا!!!
ایک پل کیلیے ہم مان لیتے ہیں کہ وہ لوگ قصوروار تھے تو کیا ان کی گرفتاری اس معاملے کا حل نہیں ہو سکتی تھی؟؟؟ آپ اصل معاملے کو ہضم کر کے ان کی ان پڑھ ہونے کا رونا رو رہے ہیں۔
آپ کو علم ہوگا کہ سرحد اور وفاق کے درمیان بجلی کی رائلٹی کا مسئلہ تھا۔۔۔۔تو کیا خیال ہے اس کا بہترین حل یہ نہ تھا کہ سرحد اسمبلی پر بمباری کر دی جاتی۔300ارب روپے بھی بچ جاتے اور بانسری بھی نہ بجتی۔
اجمل صاحب جذباتی ہو رہے ہیں!!! جذبات کیا صرف وہ ہوتے ہیں جنکا مظاہرہ شاہ رخ خان یا امیتابھ بچن صاحب سکرین پر کرتے ہیں؟ اگر ایسے موقع پر بھی جذبات سوئے رہیں تو ایسے جذبات کا فائدہ ہی کیا؟
آپ ان لوگوں کا جس طرح حقارت سے جاہل اور حالات سے بے بہرہ کہہ رہے ہیں اس پر افسوس ہی کیا جاسکتا ہے۔ اگر آپ کا تھوڑا سا بھی علم ہوتو آپ کو پتہ ہونا چاہیے کہ آپ کی من پسند بی بی سی کے رحیم اللہ یوسفزئی اور عمرآفریدی جیسے ’’جاہل‘‘انہی علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ آپ سینکڑوں کلومیٹر دور رہ کر یہی ہی لکھ سکتے ہیں۔ ہم سے پوچھیں ہم یہی لوگ ہیں، ہم ساتھ رہتے ہیں چاہے تھوڑے سے دور ہی سہی۔ میں حلفیہ آپ کو یہ کہہ سکتا ہوں کہ ایجنسیوں میں رہنے والے قبائل سے بہتر خوش اخلاق، مہذب اور ایک اچھا مسلمان آپ کو اس ملک میں نہیں ملے گا۔
حدیث شریف میں ہے کہ جہاد تا قیامت جاری رہیگا۔۔۔زرا اپنی وسعت نظری کو کام میں لائیں کہ دنیا میں اس وقت کہاں صحیح جہاد ہو رہا ہے؟ یا پھر نعوذ باللہ یہ حدیث ہی غلط ہے؟
ساجد صاحب جنگوں میں کوئی قصوروار یا بے قصور نہیں ہوتا۔ جنگوں میں انسانیت ہی مجرم ہوتی ہے اور انسانیت ہی مظلوم۔
اگر آپ جنگ یا جہاد کرتے ہیں تو اس کی راہ میں جدید دور میں بم برسائے جاتے ہیں۔ یہ سوچنا کہ افغانستان کے چٹیل میدانوں کی لڑائی ہمارے گھروں میں آگ نہ لگائے گی محض حماقت ہے۔
میں نہیں سمجھتا کہ ان مسائل کو حکومت پاکستان بذریعہ مذاکرات حل کرنے کی اہلیت یا ارادہ رکھتی ہے۔ لیکن اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ حکومت پاکستان یا غیر ملکی افواج کو یہ اجازت ہونی چاہئے کہ وہ پاکستان کی حدود میں بم پھینکیں۔
ایک طرف اگر ہم حکومت پاکستان، امریکہ اور مغربی اتحادیوں کے تشدد کو مسترد کرتے ہیں تو ہمیں وسعت نظری کے ساتھ قبائلیوں کے متشدد رجحانات کو بھی مسترد کرنا چاہئے۔ ہمیں اس بات کا فیصلہ کرنا ہوگا کہ ایک ریاست کے اندر ایک قانون ہوگا۔ یہ نہیں کہ جس کا جو جی چاہے کرتا پھرے۔
کیا یہ حقیقت نہیں کہ قبائلی علاقہ جات میں اسلحے کی تجارت کھلے عام ہوتی ہے؟ کیا اسمگلنگ کے الزامات بھی بے بنیاد اور من گھڑت ہیں؟ کیا یہ بھی صحیح نہیں کہ ان علاقوں سے افغانستان سے آنے والی پوست پاکستان داخل ہوتی ہے؟ کیا یہ بھی صحیح نہیں کہ حکومت پاکستان اور افغان حکومت کو انتہائی مطلوب ملزمان ان علاقوں میں روپوشی اختیار کرتے ہیں؟ کیا یہ بھی درست نہیں کہ وہاں خواتین کا قتل کوئی اتنا اہم مسئلہ نہیں سمجھا جاتا؟ کیا یہ بھی درست نہیں کہ یہ قبائلی آپسی جھگڑوں میں ایک دوسرے کے گھر جلاتے ہیں اور قتل و غارت گری مچاتے ہں؟ کیا یہ بھی غلط ہے کہ وہاں مدارس کے ذریعے طالبان کو کمک فراہم کی جاتی ہے؟
یہ کیسے اچھے مسلمان ہیں جو ریاست اور اس میں رہنے والے دیگر لوگوں سے تو وفادار نہیں ہیں مگر ویسے خوش اخلاق با تہذیب اور اچھے مسلمان ہیں؟
حدیث کے بارے میں لکھنا بھول گیا۔ بے شک جہاد قیامت تک جاری رہے گا۔ جو میں کر رہا ہوں وہ بھی جہاد ہے۔ جہاد ہتھیار سے ہی نہیں ہوتا۔ جہاد قلم سے بھی ہوتا ہے۔ جہاد جنگوں سے ہی نہیں ہوتا، امن سے بھی ہوتا ہے۔ جہاد ظالم کو روکنے سے ہی نہیں پورا ہوتا بلکہ ظلم کو روکنے سے پورا ہوتا ہے۔ جہاد انسان کا اپنے نفس سے ہوتا ہے۔ معاشرتی بھلائی بھی جہاد ہے۔ تعلیم درس و تدریس بھی جہاد ہے۔ نیکی کا پرچار بھی جہاد ہے۔ اور صحیح سوچ رکھنا بھی ایک جہاد ہے۔
اب کچھ میری جذباتی اور مذہبی رائے۔ اسلام میں جہاد کے معنی بہت وسیع ہیں۔ اور جب تک ہم اس وسعت کو نہیں اپنائیں گے تب تک اسلام کے آفاقی پیغام کو نہیں سمجھ سکتے نہ ہی تب تک کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔ ہم جہاد سے تب تک کامیابی حاصل نہیں کرسکتے جب تک ہمارے مقاصد نیک نہ ہوں اور جب تک ہم جہاد اس وسعت نظری سے نہ اپنائیں کہ جو اس کی اصل روح ہے۔ یہ بطور مسلمان میرا عقیدہ ہے۔
Noumaan ap ki baat baja sahi laikin main yahan sirf aik hadees ka hawala dongi,aamal ka daro madar niat par hay,hosakta hay kay un ko istimaal karnay walay galat hoon likin un ki niat Allah ki rah main jihad hi hay,or unhain Allah unki niaton ka phal hi day ga,sorah Nisa main irshade Rabani hay,jo log aakhirat kay badlay dunia ki zindagi ko baichna chahtay hain unko chahiay kay Allah ki rah main jang karain,or jo Allah ki rah main jang karay or shaheed hojaay ya galba paay Hum anqareeb usko bara sawab dain gay,or tum ko kia howa hay kay Allah ki rah main un baybas mardon or urton or bachon ki khatir naheen lartay jo duwaain kartay hain kay aay parwardigar hum ko is shahar say jis kay rahnay walay zalim hainnikal kar kaheen or lay ja or apni taraf say kisi ko hamara hami bana or apni taraf say kisi ko hamara madadgaar muqarar farma(aayat74 ta 75)
aay jihad say darnay walon tum kaheen raho mot to tumhain aakar rahay gi khowah baray baray mahlon main raho,
yeh log aap ka or hum sab ka farz ada karrahay hain is waqt musalmano par jo zulm horaha hay agar yeh bhi na kharay hoon to Allah ka azab hum sab ko apni lapait main lay lay ga kay hum zalim ka haath na rok kar khod bhi unhi main shamil hain,
aik sawal aap say Jihad ki wusate nazri aap kay khayal main kia hay?
or un logon kay maqasid naik naheen hain is ka faisla aap nay kis bunyaad par kia hay?
آپکے حدیث کا حوالہ بالکل موقع بہ محل نہیں۔ کیونکہ قبائلیوں کے دیگر اعمال اتنے نیک نہیں اور ان بداعمال کو انجام دیتے وقت ان کی نیتیں بالکل ایسی ہی درست ہوتی ہیں جیسے اس نام نہاد کرائے کی لڑائی میں اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہم ان کا ظلم جائز قرار دیں۔ اور پتہ نہیں کون ہیں وہ لوگ جو ان کی مدد حاصل کرنے کو ہاتھ ہاتھ اٹھا اٹھا کر دعا کررہے ہیں۔گراؤنڈ فیکٹس قطعا مختلف ہیں۔ افغانستان کے عوام پاکستانی مداخلت کو قطعا پسند نہیں کرتے۔
Aap pata naheen kin ground facts ki bat karrahay hain bbc ka numainda sara din taliban kay sath raha or us nay bataya kay unhain Afganistan main harjagah welcome kia jata raha is kay ilawa Genaral Richard jo nato ki foj ka sarbrah hay bhi kah chuka hay kay agar 6 mah main hum koi bahtari na paida kar sakay to pora Afganistan taliban ki taraf ho jaay ga aisi tahreekain sirf awam kay tawun say hi chal pati hain,raha sawal orton ko qatl karna to yeh indivisual crimes hain or yeh to dunia main har jagah horaha hay or kia American or europian foji farishta hain woh khud is say ziada insani hokoq ki khilaf warzian kar rahay hain laikin media unka hay is liay 100 main ka 1 bata kar yeh show kartay hain kay hum kitnay insaf pasand hain wahan ki awam ki tamam tar humdardian taliban kay sath hain aap manain ya na manay
ميں کسی بھی بلاگ پر تبصرہ بلاگر کی حوصلہ افزائی يا اس کی راہنمائی کيلئے کرتا ہوں نہ کہ اس کی مخالفت يا اس سے بحث کيلئے ۔
الحمدللہ ميں مسلمان ہوں اور سمجھتا ہوں کہ آپ بھی مسلمان ہيں اور چونکہ ميری عمر اور تجربہ آپ سے کم از کم دُگنا ہے اور شائد تعليم بھی آپ سے زيادہ ہے اسلئے ميرا فرض بنتا ہے کہ اگر آپ کو کسی وجہ سے غلط معلومات بہم پہنچی ہوں تو آپ کی حقيقت کی طرف راہنمائی کروں ۔
سُورة النِّسَآء کی آيت 148 ميں ہے
اللہ اس کو پسند نہيں کرتا کہ آدمی بدگوئی پر زبان کھولے اِلّا يہ کہ کسی پر ظُلم کيا گيا ہو اور اللہ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے ۔
پھر سُورة الْحُجُرَات کی آيت 12 ميں ہے
اے لوگو جو ايمان لائے ہو ۔ بہت گمان کرنے سے پرہيز کرو کہ بعض گمان گناہ ہوتے ہيں تجسُّس نہ کرو اور تم ميں سے کوئی کسی کی غيبت نہ کرے ۔ کيا تم ميں کوئی ايسا ہے جو اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھانا پسند کرے گا ؟
کسی کے متعلق کوئی بھی بُری بات کہنا بدگوئی ہوتا ہے ۔ غبيبت وہ ہوتی ہے کہ کسی شخص ميں کوئی برائی موجود ہے اور اس برائی کو اس کی عدم موجودگی ميں کسی سے بيان کيا جائے ۔ کسی ميں برائی ہونے کا ثبوت نہ ہوتے ہوئے برائی بيان کی جائے تو وہ بہتان تراشی ہوتا ہے اور غيبت سے بڑا گناہ ہے ۔
آپ کی پوسٹ اور تبصروں کے جواب پڑھ کر يوں محسوس ہوتا ہے کہ آپ نے بڑے گناہ کے مرتکب ہوئے ہيں ۔
ڈاماڈولہ ۔ باجوڑ کے جامعہ ضياء العلوم ميں 30 اکتوبر کو صبح 5 بجے امريکی مزائل حملہ ميں مرنے والے 80 طلباء ميں سے نور محمد کی عمر 9 سال تھی ۔ 4 يعنی سيف اللہ ۔ شعيب ۔ اسداللہ اور صداقت دس دس سال کے تھے ۔ خليل اللہ 11 سال کا ۔ 9 لڑکوں کی عمر 18 سال ۔ 4 کی 19 سال اور 3 کی 20 سال تھی ۔ باقی 58 کی عمريں 12 اور 15 سال کے درميان تھيں ۔ ان بچوں کو آپ نے جاہل ۔ بے عقل ۔ دہشتگرد ۔ سمگلر اور ہيروئين کے سوداگر تک کہا ہے ۔
وما علينا الالبلاغ
بڑی آہم بات تو یه ہے که آپ جہاد کے متعلق مغالطے کا شکار هیں ـ جہاد کو قلم اور باتوں تک محدود کر دینا مرزا غلام احمد صاحب کی شریعت کے ذریعے گورنمنٹ برطانیه نے نافذ کیا تها ـ
پنجابی میں اس قسم کے جہاد کو تُهک میں وڑے پکانا یا مُوتر میں مچهیاں پکڑنا کہتے هیں ـ
میں بخاری مشکواه اور اس طرح کی دوسی کتابوں کو جن کو ان کے مصنفوں نے احادیث کا نام دے رکها هے نہیں مانتا ـ آپ جس بهی مذہب یا مسلک سے تعلق رکهتے هیں ـ آگر اپ اسلام کے فلسفه جہاد کو سمجهنا چاهتے هیں تو قرآن کا مطالعه کریں ـ
آپ نے لکها هے ـ
جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے شہادت پر وادیلا کیوں مچا رہے ہیں؟ کیا یہی وہ منزل نہیں جس کے حصول کی انہیں تلاش تھی؟ راہ جہاد میں کانٹے ہی نہیں میزائل، کلسٹر بم اور آگ کے گولے بھی آتے ہیں۔ شوق جہاد رکھنے والوں کو انہیں بھی قبول کرنا ہوگا ـ
اس کا جواب یه هے
که
بیگانوں کے ساتھ جہاد کرنے والے مجاهدین نے کیا کبهی واویلا کیا ہے ؟
افغانستان میں شہید هونے والے مجاهدین کے جسم پر واویلا کیا آپ نے دیکها ہے؟
تورا بورا کے شہیدوں گا واویلا کہاں هوا تها ـ
مسلمان گهرانووں میں شہید کی ماں کو لوگ مبارک دینے آتے هیں ــ
لیکن یه جو کچھ وزیرستان میں هوا هے یه همارے آپنے هونے کے دعوے داروں نے کیا هےـ
کٹتے هوئے غمگین درخت سے کلہاڑے نے پوچها تها که کٹنا تمہارا مقدر ہے ـ غمگین کیوں هو؟؟
درخت نے کہا تها ـ
تمہارے کاٹنے کا غم نہیں تم میں لگے میرے بهائی لکڑی کے دستے پر دکھ آرها هے ـ
کیا آگر آپ کا آپنے سگے بهائیوں سے لین دین کا جهگڑا بن جائے تو کیا آپ ان کو قتل کر دیں گے؟
پاکستان ایک گهر ہے اور اس کے علاقے بهائی ـ آگر کسی بهائی کو رائلٹی کا یا کسی اور بات کا مغالطه لگ جاتا هے تو اس کو جمہوری طریقے سے اسمبلیوں میں حل کرنا چاهئیے ناکه اسلحه لے کر چڑه دوڑنا ـ
همارا کوئی بهائی چاهے کراچی کے بم دهماکے میں قتل هو یا وزیرستان میں اس کو قتل کرنے والا بُرا ہے ـ
اور اگر قاتل پاکستان کے سورسس پر پل کر جوان هوا هو تو اور بهی دکھ آتا هے ـ
پاک فوج کا پاکستانیوں کو قتل کرنا برداشت نہیں هو رها اس لئيے یه واویلا ہے ــ
چاهے یه قتال ڈهاکے میں هو یا ڈیره بکٹی میں یا وزیرستان میں ـ
مہر افشاں، طالبان کو افغانستان میں ویلکم کیوں کہا جائے گا وہ کہیں گئے نہیں تھے وہیں موجود تھے اور وہ افغانستان کا ہی ایک حصہ ہیں۔ اگر آپ میرا تبصرہ دوبارہ پڑھیں تو میں نے لکھا ہے کہ افغان پاکستانی مداخلت کو پسند نہیں کرتے۔ یہ ایک زمینی حقیقت ہے جسے ہم جتنی جلد تسلیم کرلیں اتنا ملک کے مفاد میں ہے۔
اجمل، رہنمائی کا شکریہ۔ ان قرآنی آیات کی روشنی میں میرا غیبت کا مرتکب ہونا قطعا ثابت نہیں ہوتا بلکہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ میں نے ظلم کے خلاف بات کہی ہے جو بدگوئی اور غیبت نہیں۔ اسمگلنگ، قبائلیوں کی آپسی لڑائیاں، غیر قانونی اسلحے کی اندرون ملک سپلائی، ظلم نہیں ہیں؟ اور تمام پاکستان اس امر سے آگاہ ہے کہ چوری کی گاڑیاں کہاں فروخت ہوتی ہیں، اسمگلنگ کا سامان کہاں ملتا ہے، اور قبائلیوں کی آپسی لڑائیاں کتنی غیر اسلامی ہوتی ہیں۔ جو بات ہر کوئی جانتا ہے اور اسے درست نہیں سمجھتا اس پر بات کرنا غیبت نہیں حق گوئی ہے جو اسلام میں عین مستحسن عمل ہے۔
ہلاک ہونے والے بچوں کی شہادت ایک افسوس ناک واقعہ ہے۔ میں ہرگز ان بچوں کو ملزم نہیں سمجھتا۔ اگر آپ اوپر دیکھیں تو میں اس کلچر پر تنقید کررہا ہوں جو غیر ملکیوں کو ہمارے معاملات میں مداخلت پر اکساتا ہے۔ اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ میں ان بچوں کو اسمگلر اور دہشت گرد سمجھتا ہوں تو فورا تصحیح کرلیں۔ یہ برائیاں جو میں نے بیان کی ہیں یہ اس سماج کا حصہ ہیں جس میں یہ بچے پروان چڑھے مگر ان کی بے قصوری میں مجھے کوئی شبہ نہیں۔
خاور ، میں قطعا جہاد کو قلم اور باتوں تک محدود نہیں سمجھتا۔ جب میں کہتا ہوں کہ جہاد کے نظرئے کی وسعت کو سمجھنا ہوگا تو اس سے مراد یہ ہے کہ جہاد کو لڑائی بھڑائی، غیر ملکی مداخلت کے خلاف مزاحمت تک محدود کرنا غیر اسلامی ہے اسی لئے موثر ثابت نہیں ہوتا۔ جہاد میدان جنگ میں نہیں میدان عمل میں ہوتا ہے اور میدان عمل صرف جنگوں کا میدان نہیں۔
ویسے جہاد کے موجودہ پاپولر نظرئیے کو بھی سلطنت برطانیہ، امریکہ اور سعودیہ نے ہی ہم پر تھوپا ہے۔ تاکہ ہم ان کے مفادات کی جنگ لڑیں۔ یہ کہنا مرزا غلام احمد قادیانی کے نظریہ جہاد کو انگریز کی حمایت حاصل تھی اسلئے بھی صحیح نہیں کیونکہ انگریز اس وقت خود ترکوں کے خلاف مسلمانوں کو عرب ریگزاروں میں جہاد کروارہا تھا۔
سمجھنے کی کوشش کيجئے نعمان ۔ ہٹ دھرمی اچھی چيز نہيں ہے ۔ اپنی غلطی کو مان لينا بہت عمدہ خصوصيت ہے جو بہت کم لوگوں ميں ہوتی ہے ۔ آپ ابھی بچے ہيں ۔ ذرائع ابلاغ کے ذريعہ پھيلائی باتوں کو بغير تحقيق کے مان لينا عقلمندی نہيں ہے ۔
آپ کی عمر اگر 26 سال کے لگ بھگ ہے تو آپ کی پيدائش کے بعد صوبہ سرحد کے قبائيلی علاقہ کے راستہ افغانستان سے پاکستان يا پاکستان سے افغانستان ہيروئين يا کسی اور چيز کی سمگلنگ کا کاروبار نہيں ہوا ۔
سمگلر ہيروئين کے نہيں دوسرے سامان کے 60 فيصد کراچی ميں رہتے ہيں اور باقی لاہور ۔ اسلام آباد ۔ پشاور وغيرہ ميں ۔ ہيروئين کے بادشاہ امريکہ اور برطانيہ ميں رہتے ہيں اور ان کے نمائندے کراچی ۔ لاہور ۔ اسلام آباد اور پشاور ميں ۔ کراچی کے علاوہ سمگلنگ بلوچستان سے ہوتی ہے ۔ بلوچستان کی سمگلنگ کو روکنا تقريباً ناممکن ہے کيونکہ وہ علاقہ ہی ايسا ہے ۔ 70 فيصد سمگلنگ پچھلے 30 سال سے کراچی کے راستہ ہو رہی ہے ليکن کراچی کا مافيا اتنا مضبوط اور لمبی جڑوں والا ہے کہ ان کی سمگل کی ہوئی اشياء سارا سندھ اور ميدانی پنجاب گذر جاتی ہيں اور دريائے جہلم سے دريائے سندھ تک کے پوٹھوہار کے علاقہ ميں کچھ پکڑوا دی جاتی ہيں تاکہ پکڑنے والوں کی نوکری بھی قائم رہے اور کاروبار بھی چلتا رہے ۔ يہ سمگل کيا ہوا سامان ۔ کراچی ۔ راولپنڈی ۔ نوشہرہ ۔ ايبٹ آباد ميں جھُگياں کے مقام پر ۔ نوشہرہ سے آگے رشاکئی ميں اور پشاور ميں حيات آباد کے مقام پر بِکتا ہے ۔
جہاں تک جہالت کا آپ کہتے ہيں تو وزيرستان نے نہ صرف جرنيل بلکہ فيڈرل سيکريٹری ۔ جج ۔ انجنئر ۔ ڈاکٹر ۔ پروفيسر اور اکاؤنٹس کے ماہر بھی پيدا کئے ہيں حالانکہ وزيرستان ميں تعليمی ادارے نہ ہونے کے برابر ہيں ۔ وزيرستان کے کچھ لوگ ملازمت ميں ميرے ساتھی اور دوست بھی رہے ہيں ۔ وزيرستان کے لوگ عام طور پر غريب اور اللہ سے ڈرنے والے ہيں ۔ يہ لوگ صوبہ سرحد کے باقی قبائيليوں کی طرح نہيں ہيں مگر دوسرے قبائل ميں بھی زيادہ لوگ اسلامی شعار پر عمل کی کوشش کرتے ہيں ۔ البتہ قبائلی علاقہ ميں کچھ سودخور اور ظالم لوگ بھی ہيں ليکن کيا ايسے لوگ کراچی ۔ لاہور ۔ اسلام آباد يا دوسرے شہروں ميں نہيں ہيں ؟
وزيرستان ميں خاص کر ہيروئين کی کاشت يا کاروبار نہيں ہوتا ۔ ديگر اگر داڑھی والے يہ کاروبار کرتے ہوتے تو جب افغانستان کے 90 فيصد سے زائد علاقہ پر مُلا عمر کی حکومت تھی تو افغانستان ميں پوست کی کاشت ختم کيوں ہو گئی تھی ۔
باتيں تو آپ ايسی کرتے ہيں جيسے سارا علم آپ ہی ميں سمو کر رہ گيا ہو مگر آپ کو تاريخ کی بھی کوئی سُدبُد نہيں ۔ قبائليوں کے متعلق آپ کہتے ہيں کہ جو حملہ آور آئے وہ ان کو لڑاتے رہۓ يعنی آپ تاريخی حقائق کو بھی جھُٹلا رہے ہيں ۔ يہ قبائلی وہ لوگ ہيں جنہوں نے کسی کی دھونس دھاندلی کبھی نہيں مانی اور نہ ہی آج تک انہيں کوئی شکست دے سکا ۔ کمال ہے کہ افغانستان کا نقشہ آپ کے سامنے ہے کہ دنيا کی بڑی طاقتيں اپنے تمام تر اسلحہ کے باوجود صرف کابل پر ہی حکومت کر رہی ہيں اور وہ بھی محفوظ نہيں ۔ وزيرستان ميں بھی آپ نے ديکھا نہيں کہ منہ زور جرنيل کو امن معاہدے پر مجبور ہونا پڑا ؟
میں نے یہ بحث پوری پڑھ لی ہے ۔ دراصل نعمان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ کئی باتوں کو خلط ملط کردیتا ہے ۔ بات وہ ٹھیک کہتا ہے لیکن ایک صحیح بات کےلئے غلط راستہ اختیار کرتا ہے ۔ ان کے کئی دلائل سے مجھے اختلاف بھی ہے ۔ مثلآ ان کی یہ بات ٹھیک ہے کہ قبائیلی علاقوں میں دشمنیاں ہیں ، ہیروئن کلچر ہے کچھ اور برائیاں بھی ہیں لیکن میرے بھائی یہ برائیاں پاکستان کے دیگر علاقوں میں بھی ہیں ۔ قبائیلی علاقوں کا اپنا ایک نظام اور طریقہ زندگی ہے ۔ اب ادھر ایسا بھی نہیں کہ جس کا جی چاہے وہ بندوق اٹھا کر کسی اور کو مار ڈالے۔
ہر قوم کا ایک کلچر ہوتا ہے اور آپ کو چاہیئے تھا کہ پختون علاقے پر لکھتے وقت ان کے کلچر کو مدنظر رکھتے ۔ یہ بات قابل بحث ہے کہ طالبان نے صرف اسامہ بن لادن کےلئے کیوں اپنے حکومت ختم کروائی اور اب جگہ جگہ مار کھا رہے ہیں حالانکہ پنجاب میں اور آپ جہاں رہتے ہیں وہاں کوئی اس طرح کی “حماقت“ نہیں کرے گا ۔ لیکن اس بات کو سمجھنے کےلئے آپ کو دونوں تہذیبوں کے درمیان فرق کو مدنظر رکھنا ہوگا۔
آپ نے دنیا جہاں کی برائیاں بیان فرمانے کے بعد ان سب کو قبائیلیوں اور پختونوں کے سر توپ دیا جو قطعآ صحیح نہیں اور ایک صریح ناانصافی ہے ۔ پختونوں میں برائیوں کے ساتھ ساتھ ایسی خوبیاں بھی ہیں جو دنیا کے کسی قوم میں نہیں ۔ میں یہ تسلیم کرتا ہوں کہ پختونوں اور خاص کر قبائیلی عوام جدید تعلیم سے دور رہے ہیں جس کی وجہ سے کچھ معاشرتی برائیوں نے جنم لیا ہے لیکن ہم پختون اس کےلئے خود کو نہیں بلکہ پاکستان کی حکومتوں کو قصوروار سمجھتے ہیں ۔ پختونوں کو ایک صوبے کی بجائے تین مختلف یونٹوں میں تقسیم کیا گیا مثلآ شمالی پختونخوا، جنوبی پختونخوا اور قبائیلی علاقہ جات جبکہ کچھ علاقے شمالی علاقوں اور پنجاب میں بھی شامل کئے گئے ہیں ۔ ہمیں اپنے وسائل پر اختیار نہیں دیا گیا ہے ہمارے وسائل دیگر اقوام کے ہاتھوں میں دیئے گئے ۔ اور بھی بہت سارے مسائل ہیں لیکن میرے خیال میں فی الوقت یہی کافی ہے ۔ والسلام
روغانی صاحب، برائیاں بیان کرنے سے میرا مقصد یہ نہیں تھا کہ میں قبائلیوں کو شیطان کے چیلے ثابت کروں۔ جیسا آپ نے لکھا یہ برائیاں سب علاقوں میں ہیں اور برائیاں بیان کرنے کا میرا مقصد بھی یہی تھا کہ قبائلی عوام اپنی معاشرتی برائیوں میں باقی پاکستان سے دو ہاتھ آگے ہی ہے، پیچھے نہیں۔ تو بجائے اس کے کہ اسلامی اخلاقیات کو اپنایا جائے صرف اسلام کے ایک پہلو جہاد بالسیف پر زور کیوں؟
درحقیقت جہاد تو ایک فلسفیانہ سہارا ہے ورنہ جنگجوئی قبائلی عوام کا کلچر ہے۔ اور معاف کیجئے مگر جنگوں میں لوگ مرتے ہیں۔ اگر قبائلی عوام کو یہ کلچر پیارا ہے تو لاشیں بھی قبول کرنا پڑیں گی، بے قصور لوگوں کو بھی مرتا دیکھنا ہوگا۔
پختونوں کے وسائل پر قبضہ ایک الگ موضوع ہے۔ جس پر کبھی پھر بات ہوگی۔
آپ نے بھلکل صحیح لکھا ھے۔ ان لوگوں نے جھاد کے نھم سے بھت بڑا گند پھیلا رکھا ھے
[…] صوبہ سرحد اور شمالی علاقہ جات میں طالبانائزیشن کے بڑھتے ہوئے اثر رسوخ پر میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں(دیکھیں یہاں اور یہاں)۔ مجھے اس بات میں اتنی دلچپسپی نہیں کہ طالبان کی سرکوبی کے نیٹو کو کیا فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ مجھے تشویش اس بات پر ہے کہ اگر ان عناصر کی سرکوبی نہیں کی گئی تو جس طرح آج ہم جنرل ضیاء کو ان کی افغان پالیسی کے ساتھ کلاشنکوف کلچر کے لئے یاد کرتے ہیں تو ایسے ہی کل ہم جنرل مشرف کو ان کی افغان پالیسی کے ساتھ طالبان کلچر کے لئے یاد کررہے ہونگے۔ جنرل مشرف کو اسلئے بھی ان عناصر کے ساتھ سختی سے نمٹنے کی ضرورت ہے کیونکہ ہماری افغان حکومت اور بین الاقوامی برادری کے ساتھ ایک کمٹمنٹ ہے کہ ہم افغانستان کے استحکام کے لئے دراندازی کو روکیں گے۔ ہمیں یہ وعدہ پورا کرنا ہوگا ورنہ ہوسکتا ہے افغانستان میں تو طالبان آجائیں مگر پاکستان کی معیشت اور معاشرے پر اس کے ہولناک اثرات مرتب ہوں۔ […]
نعمان صاحب آپ صحیہ پھر ما رھے ھو ان قبائلیوں نے امریکہ کو چھٹی کادودھ یاد دلا دیا زانیوں کی اولاد طالبان سے کیا لڑے گی
طالبان اللہ کے ولی امریکہ اللہ کا دشمن ھے طالبان کو برا کہ کر اپنی عاقبت مت خراب کر
طالبان بھی انسانیت کے دشمن ہیں اور امریکہ بھی. انسانوں سے پیار کرنے والے اور انسانی جان کی قدر کرنے والے ہی اللہ کے ولی ہوسکتے ہیں.