ملائیت کی طرف ایک قدم اور

اسلام کے نام پر پاکستان کے عوام کے ساتھ جاری مسلسل ڈرامے بازی کا نیا ایکٹ حسبہ بل کے عنوان سے سرحد اسمبلی کے تھیٹر میں منظور ہوچکا۔ اس قانون کی کئی شقیں انتہائی متنازعہ ہیں۔ جن سے عدلیہ کے انتظام سے ہٹ کر ایک متوازی عدالتی نظام کیا گیا ہے۔ اس سے کیا فائدہ ہوگا۔ صرف یہ کہ طالبانائزیشن کو ڈنڈے کے زور پر منوایا جاسکے گا، مخالفین کو ہراساں کیا جاسکے گا اور مذہب کے نام گلی محلوں کی سطح پر بھی ڈرامے اسٹیج کئے جاسکیں گے۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے اس بل پر کڑی تنقید کی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی اسے ازمنہ وسطی کی جہالت گردانا ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ پاکستان میں جمہوریت اور قانون کی عملداری کے لئے ایک سنگین دھچکا ہے۔ ایسی دیوار جو پہلے ہی شکستہ ہے ایسے زیادہ جھٹکے برداشت نہیں کر پائے گی۔ واضح رہے کہ حسبہ بل کی منظوری تبلیغی جماعت کے اجتماع کے ختم ہوتے ہی عمل میں آئی ہے اور باجوڑ واقعے کی وجہ سے سیاسی لحاظ سے یہ بالکل مناسب وقت تھا اس قانون کو منظور کرانے کا۔

حسبہ بل کا پرانا سپریم کورٹ کا مسترد شدہ مسودہ انٹرنیٹ پر دستیاب ہے۔ نیا مسودہ فی الحال دستیاب نہیں۔ ویکیپیڈیا پر انگریزی میں اس بارے میں ایک مضمون موجود ہے جو اس لائق ہے کہ غور سے پڑھا جائے۔

تبصرے:

  1. محترم نعمان صاحب!
    آپ کا مضمون بہت اچھا لگاکہ آپ نے ملائیت پر اظہار خیال فرمایا ہے اور آپ نے بہت ہی اچھی بات کی ہے کہ ہمیں مکالمے کی ضرورت ہے نہ کہ صرف مخالف کا منہ مند کرنے کی ضرورت-
    میں آپ سے ایک امر کے بارے میں پوچھنا چاہتا ہوں : میں بھی سبزہ او آر جی پر بلاگ لکھنا چاہتا ہوں- مہربانی فرما کر مجھے طریقہ کار سے آگاہ فرمائیں-

  2. محترم نعمان صاحب! اسلام و علیکم!
    محترم ایک بات سے مجھے خشگوار حیرت ہوئی ہے کہ orthodox مسلم پاکستانی ایک متوازن۔ انصاف پسند۔ غیر جانب ذہن رکھتا ہے ۔ آپ کی بہت نوازش ہو گی کے آپ مجھے اپنا ای میل ایڈریس دیجیئے-آپ کی نوازش کا منتظر ہوں-

  3. مبشر آپ کے سبزہ پر بلاگ لکھنے کے بارے میں استسفار کے جواب میں آپ کو ایک ای میل ارسال کی ہے۔ اگر وہ آپ کو مل گئی ہے تو میرا ای میل ایڈریس بھی مل گیا ہوگا۔

  4. علماءکرام اسلام کا ٹھیکیدار اور چوکیدار
    —————————————————————————

    مرکز نےاسمبلیوں کیطرف ٹیڑھی آنکھ سےدیکھا تو علماءبندوق اٹھانےپر مجبور ہونگی: اکرم درانی
    خواتین بل منظور نہیں، استعفوں کا مطالبہ کرنیوالےخود مستعفی کیوں نہیں ہوتی، کیا وہ مسلمان نہیں ؟ قائدین نےاستعفےمانگےتو سب سےپہلےدونگا

    بنوں ( نمائندہ ایکسپرس) وزیراعلیٰ سرحد محمد اکرم خان درانی نےکہا ہےکہ اگر مرکز نےغیر آئینی طریقہ اختیار کر کےاسمبلیوں کی جانب ٹیڑھی آنکھ سےدیکھا تو پُر امن علماءکرام بندوق اٹھانےپر مجبور ہو جائیں گی، استعفےدینا ہمارا جمہوری اور آئینی حق ہی، قائدین نےجب بھی استعفیٰ مانگا تو سب سےپہلےمیں دوں گا۔ وہ گزشتہ روز بنوں میں ایک کالج کےافتتاح اور ایک ظہرانےسےخطاب کر رہےتھی۔ انہوں نےکہا کہ پوری دنیا جانتی ہےکہ وزیر ستان کی آگ بجھانےمیں مولانا فضل الرحمن اور میں نےکلیدی کردار ادا کیا ہے،ہم دنیا کو امن کا پیغام دینےوالےلوگ ہیں، ہم چاہتےہیں کہ ہر تبدیلی آئینی حدود کےاندر رہ کر لائی جائےاس مقصد کیلئےحسبہ بل صوبائی اسمبلی سےمنظور کرایا گیا، انہوں نےکہا کہ ہمیں پر امن اسلامی انقلاب برپا کرنےدیا جائےورنہ ہم بندوق کی زبان میں بات کرنا بھی اچھی طرح جانتےہیں، ہم شریعت بل اور حسبہ بل منظور کرتےہیں تو وائٹ ہاوس اور مرکز میں کھلبلی مچ جاتی ہی۔ انہوں نےکہا کہ حقوق نسواں بل کا مقصد بےرہ روی کو فروغ دینا ہےجسےہم کسی صور ت تسلیم نہیں کریں گی، ہم سےاستعفوں کا تقاضا کرنےوالےپیلز پارٹی اور اےاین پی کےاراکین مستعفی کیوں نہیں ہوتےکیا وہ مسلمان نہیں ہیں؟ انہوں نےکہا کہ علماءکرام اسلام کا ٹھیکیدار ہونےکےساتھ اس کےچوکیدار بھی ہیں۔ انہوں کےکہا کہ آنےوالا وقت بھی ایم ایم اےکا ہے، اپنےاسی کردار کےبل بوتےپر ایم ایم اےنہ صرف سرحد بلکہ باقی تین صوبوں میں بھی بھاری مینڈیٹ حاصل کرےگی۔ انہوں نےکہا کہ آج کےطالب علم نےکل کا حکمران اور جرنیل بننا ہے، اساتذہ ایسےجرنیل پیدا نہ کریں جو منٹوں اور سیکنڈوں میں ملک کا سودا کر بیٹھیں نہ ہی جھکنےاور بکنےوالےسیاستدان پیدا کریں۔
    (روزنامہ ایکسپرس لاہور اتوار26 شوال 1427ھ 19 نومبر 2006)

  5. محترم نعمان صاحب!‌یہ خاص طور پر آپ کے لائق توجہ ہے اس پر ضرور اپنا تبصرہ کیجیئے گا- اکرم درانی صاحب نے فرمایا ہے کےاسمبلیوں کی جانب ٹیڑھی آنکھ سےدیکھا تو پُر امن علماء کرام بندوق اٹھانےپر مجبور ہو جائیں گے، کل تک استعفوں کی باتیں کرتے تھے اور جب استعفے دینے کا وقت آیا تو بندوق اٹھانے کی نوید – ساتھ ساتھ انہوں نے آخر یہ اعلان سر عام کر دیا ہے کہ علماءکرام اسلام کا ٹھیکیدار ہونےکےساتھ اس کےچوکیدار بھی ہیں۔ بھئی واہ کیا خوب یعنی بھینس بھی انکی اور لاٹھی تو انکے خیال میں اللہ نے انہی کے ہاتھ میں دی ہوئی ہے – انکے حلوے کی طرف دیکھو تو بندوق- اور ٹھیکیدار تو یہ ہیں ہی-
    اللہ تعالیٰ نےقرآن کریم میں یہود و نصاریٰ کےعلماءکی تین خصوصیات بیان فرمائی ہیں (١) کہ وہ جانتےبوجھتےہوئےحق کو باطل سےخلط ملط کرتےہیں (بقرة۔٢:٤٣) ۔ (٢) وہ حق کو چھپاتےہیں (بقرة۔٢:٤٣) ۔ اور (٣) وہ کلام کو اس کی اصل جگہ سےہٹادیتےہیں (المائدہ۔٥:١٤)۔ رسول کریم کا ارشاد ہےکہ آخری زمانہ کےعلماءیہود و نصاریٰ کےاس قدر مشابہ ہونگےجس طرح بالشت بالشت کےاور قدم قدم کےمشابہ ہوتا ہی۔ اس مکمل مشابہت میں لازم تھا کہ قرآن کریم کی بیان کردہ یہود و نصارٰی کےعلماءکی خصوصیات آج کےدور کےمسلمان کہلانےوالےعلماءمیں بھی پائی جاتیں۔ اللہ اور اس کےرسول کا کلام سچ ثابت ہوا اور علماء کےمطالعہ نےہم پر یہ حقیقت ثابت کردی کہ یہ علماءواقعی یہود و نصاریٰ کےمشابہہ بن چکےہیں۔علماءکی ہر ممکن کوشش یہ ہوتی ہےکہ کسی شخص کا قرآن و حدیث سےبراہ راست سامنا نہ ہوسکےاور ان بنیادی ماخذین اسلام کی جو بھی تشریح وہ لوگوں کےسامنےرکھ دیں لوگ اسےبےچون و چرا مان لیں۔ عوام الناس بھی دنیا کےکام میں اسطرح مشغول ہیں کہ انہیں دین کی طرف توجہ دینےکی قطعًا فرصت نہیں اور انہوں نےدین کا سارا کام ان علماءکےہاتھوں میں سونپ رکھا ہی۔ لیکن علماءامر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو قطعی طور پر بھلا کر یا تو اقتدار کےپیچھےبھاگ رہےہیں یا آپس کےگروہی اور فرقہ وارانہ اختلافات سےفائدہ اٹھا کر اپنی دکانداریاں چمکارہےہیں تو ٹھیکیدار تو بننا ہی ہے – ملا ازم سول سوسائٹی کیلئے بہت نقصان دہ ہے-
    قرآن کریم کی طرح حدیث میں بھی دو قسم کےعلماءکا ذکر کیا گیا ہے۔ علماءکی ایک قسم وہ ہےجس کےساتھ نبی اکرم نےاپنی نسبت فرمائی ہےاور ان کو ”عُلَمَائُ اُمَّتِی´ “ یعنی میری امّت کےعلماءکہہ کر مخاطب کیا ہے، جبکہ دوسری قسم کےعلماء وہ ہیں جو کہلاتےتو مسلمان ہی ہیں لیکن نبی اکرم نےان سےلا تعلقی کا اظہار فرماتےہوئےانہیں ”عُلَمَائُ ھُم´ “ یعنی ان لوگوں کےعلماءقرار دیا ہےجن کا قرآن و سنّت سےمحض رسمی تعلق ہوتا ہےاور انہیں آسمان کےنیچےبدترین مخلوق قرار دیا ہی۔ (مشکوٰة کتاب العلم الفصل الثالث ص ٨٣، کنز العمال ص ٣٤)

  6. مبشر میں کیا کہہ سکتا ہوں۔ اکرم درانی کا بیان یقینا قابل تشویش ہے۔ لیکن اکرم درانی کی یہ جرات اور بے باکی بے سبب نہیں۔

  7. آپ یقینا صحیح کہہ رہے ہیں‌کہ انکی یہ جرات اور بے باقی بے سبب نہیں – لیکن سوال یہ کہ ہم بطور ایک پاکستانی کے صحیح کو صحیح اور غلط کو غلط کہنا چاہیئے – صرف انٹرنیٹ پر بے باقی نہیں دیکھانی چاہیئے بلکہ یہ جرات جب تک ہماری عام زندگی میں‌نظر نہیں آتی تب تک حالات کا انتظار کرنا کہ وہ ٹھیک ہوجائیں گے خام خیالی ہے- یہ لوگ ہماری بزدلی کی وجہ سے ہی اتنے بے باک ہوئے ہیں – اگر مولویوں کو اسی طرح خرابی کے لئے چھوڑ دیا تو پھر یہ بھی وقت آسکتا ہے کہ عیسائیت کی طرح‌یہاں پاکستان میں بھی اسلام ایک غیر اہم چیز بن جائے گا- کیونکہ ایک غیر فطرتی چیز انسان قبول نہیں کرتا اور ان مولویوں کے دین کا اسلام سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے – بقول اقبال دین ملا فی سبی اللہ فساد- جب مولوی کا پیش کردہ غیر فطرتی مذہب کو لوگ اسلام سمجھیں گے تو لوگوں کا اسلام سے تعلق ختم ہوتا چلا جائے گا- جیسے یورپ میں عیسائییت کا حال ہوا کہ لوگوں نے کلیساء کا پیش کردہ مذہب مسترد کر دیا اور انہوں نے مذہب کو ہی افیون خیال کیا اور اس کو اپنی زندگی سے خیر باد کہہ دیا – اب اگر یہ مولویوں والا دین ہی دین ہو تو انسان کی فطرت اس کو قبول نہیں کرسکتی جبکہ اسلام تو دین فطرت ہے-

  8. नोमन् मुझेय् अप् के जवब् क् इन्तेज़र् है। अप् को अल्लह् ने बहुत् खोबियन् दि हान् अप् अप्नतब्सर ज़रोर् लिखैन्

  9. نعمان صاحب!
    یہ بحث کافی ہے ۔ میرے خیال میں اس موضوع کو یہاں پر چھوڑڑ کر قومی اسمبلی اور سینٹ کے منظور کردہ حقوق نسواں بل پر بھی کچھ لکھ دیجئے، تاکہ لوگ مستفید ہوسکیں ۔ میں‌ اپنے ویبلاگ پر جلد ہی اس بارے میں‌ ایک ماہر شخصیت کا مضموں اپ لوڈ کرنے والا ہوں ۔

  10. وقار حقوق نسواں بل کے بارے میں بات تب ہوگی جب مجلس بے عمل استعفوں کے حوالے سے کوئی واضح اعلان کردیتی ہے۔ ویسے میں حدود آرڈینینس کی مکمل تنسیخ کا حامی ہوں۔

  11. […] صوبہ سرحد اور شمالی علاقہ جات میں طالبانائزیشن کے بڑھتے ہوئے اثر رسوخ پر میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں(دیکھیں یہاں اور یہاں)۔ مجھے اس بات میں اتنی دلچپسپی نہیں کہ طالبان کی سرکوبی کے نیٹو کو کیا فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ مجھے تشویش اس بات پر ہے کہ اگر ان عناصر کی سرکوبی نہیں کی گئی تو جس طرح آج ہم جنرل ضیاء کو ان کی افغان پالیسی کے ساتھ کلاشنکوف کلچر کے لئے یاد کرتے ہیں تو ایسے ہی کل ہم جنرل مشرف کو ان کی افغان پالیسی کے ساتھ طالبان کلچر کے لئے یاد کررہے ہونگے۔ جنرل مشرف کو اسلئے بھی ان عناصر کے ساتھ سختی سے نمٹنے کی ضرورت ہے کیونکہ ہماری افغان حکومت اور بین الاقوامی برادری کے ساتھ ایک کمٹمنٹ ہے کہ ہم افغانستان کے استحکام کے لئے دراندازی کو روکیں گے۔ ہمیں یہ وعدہ پورا کرنا ہوگا ورنہ ہوسکتا ہے افغانستان میں تو طالبان آجائیں مگر پاکستان کی معیشت اور معاشرے پر اس کے ہولناک اثرات مرتب ہوں۔ […]

Comments are closed.