اسلام کے نام پر پاکستان کے عوام کے ساتھ جاری مسلسل ڈرامے بازی کا نیا ایکٹ حسبہ بل کے عنوان سے سرحد اسمبلی کے تھیٹر میں منظور ہوچکا۔ اس قانون کی کئی شقیں انتہائی متنازعہ ہیں۔ جن سے عدلیہ کے انتظام سے ہٹ کر ایک متوازی عدالتی نظام کیا گیا ہے۔ اس سے کیا فائدہ ہوگا۔ صرف یہ کہ طالبانائزیشن کو ڈنڈے کے زور پر منوایا جاسکے گا، مخالفین کو ہراساں کیا جاسکے گا اور مذہب کے نام گلی محلوں کی سطح پر بھی ڈرامے اسٹیج کئے جاسکیں گے۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے اس بل پر کڑی تنقید کی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی اسے ازمنہ وسطی کی جہالت گردانا ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ پاکستان میں جمہوریت اور قانون کی عملداری کے لئے ایک سنگین دھچکا ہے۔ ایسی دیوار جو پہلے ہی شکستہ ہے ایسے زیادہ جھٹکے برداشت نہیں کر پائے گی۔ واضح رہے کہ حسبہ بل کی منظوری تبلیغی جماعت کے اجتماع کے ختم ہوتے ہی عمل میں آئی ہے اور باجوڑ واقعے کی وجہ سے سیاسی لحاظ سے یہ بالکل مناسب وقت تھا اس قانون کو منظور کرانے کا۔
حسبہ بل کا پرانا سپریم کورٹ کا مسترد شدہ مسودہ انٹرنیٹ پر دستیاب ہے۔ نیا مسودہ فی الحال دستیاب نہیں۔ ویکیپیڈیا پر انگریزی میں اس بارے میں ایک مضمون موجود ہے جو اس لائق ہے کہ غور سے پڑھا جائے۔
قطعِ نظر اس کے کہ حسبہ بل ميں کيا لکھا ہے اور اس کا استعمال کيا ہو گا ميں آپ کو ياد دہانی کرا دوں کہ ہر اسمبلی کو حق حاصل ہے کہ وہ قانون سازی کرے جو کہ متعلقہ اسمبلی کے ارکان کی اکثريتی رائے سے ہوتی ہے ۔ جمہوری نظام کے تحت نہ مجھے حق حاصل ہے کہ متعلقہ اسمبلی کی کاروائی ميں دخل اندازی کروں اور نہ آپ کو يہ حق حاصل ہے کيونکہ ہم دونوں اس اسمبلی کی قانونی حدود ميں نہيں رہتے ۔ ايک طرف تو ہم جمہوريت کا واويلا کريں اور پھر دوسروں کے جمہوری حق کے خلاف بوليں يہ کيسی جمہوريت پسندی ہے ۔
Its all about democracy. The fact of the day is that bill was passed by a clear majority so if you are a democracy preacher then accept it. Why dont we learn some lesson from Bush who welcomed Demos despite of he doesnt like their views. Maybe even a moron BUsh is far better than our so called enlightened Pakistanis?
دین کی طرف آنا اچھی چیز ہے۔ لیکن اگر اس میں کسی ایک فرقے کو دین بنا کر پیش کیا گیا ہے، اپنے خود ساختہ نظریات مسلط کرکے دوسروں کا جینا حرام کرنے کی کوشش کی گئی ہے تو اس کا نتیجہ صرف اور صرف فساد کی صورت میں نکلے گا۔
مجلس عمل بھی ڈرامے کرتی ہے۔ انھوں نے بل پاس کردیا ہے تو کیا ہوا گورنر دستخط کرے گا تو حسبہ بل قانون بنے گا پہلے جو اسلام یہ لے کر آئے ہیں سب جانتے ہی ہیں۔ ان سے اچھا تو مولانا اعظم طارق تھا جس نے اسمبلی میں آتے ہی شریعت بل کی بات کی تھی وہ الگ بات ہے یار لوگوں نے اسے ہی اٹھوا دیا کہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔
اب تو یہ حال ہے پچھلے 4 سال سے حکومت کے خلاف تحریک چلانے کی باتیں کرتے ہیں اور ابھی تک کچھ بھی نہیں ہوا۔ ہر عید، بقر عید اور رمضان، محرم کے بعد تحریک چلانے کے اعلانات ہوتے ہیں اور بس۔۔۔۔
چند ماہ رہ گئے ہیں پھر سب کو الیکشن کی پڑ جائے گی۔۔
پاکستان کا آئین کسی اسمبلی کو اس بات کا اختیار نہیں دیتا کہ وہ ایسی قانون سازی کرے جو آئین کے خلاف ہو۔
ظالم قوانین کیخلاف چاہے وہ پاکستان کی کسی بھی اسمبلی نے منظور کئیے ہوں آواز اٹھانے کا اختیار ہر پاکستانی کو ہے چاہے ہم اس اسمبلی کی جیوریڈیکشن میں نہ بھی رہتے ہوں۔ یہ بات بھی آئین میں درج ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ کوئی بھی پاکستانی اس قانون سازی کو سپریم کورٹ میں لیجا سکتا ہے۔
ایک تو ہم پاکستانیوں میں ایک دوسرے کا منہ بند کرانے کی بڑی بری عادت ہے۔ جمہوریت کا بنیادی جزو مکالمہ ہے۔ خدارا مکالمہ کیا کجیئے منہ بند رکھنے کی درخواستیں نہ کیا کیجئے۔
NOman similarly anyone could could go to court and challenge the ammendments in Hudood law. What do you say about it? will you accept this right?
ANd please prove this law is against Pakistani law.According to Law one can bring ammendments which are according to Quran and SUnnah since Quran and Sunnah is the spreme law according to 73’s constitution. Kindly go thru the law first.
واہ کیا بات ہے۔ یہاں مذہب کے نام پر فاشزم کو رواج دیا جا رہا ہے اور اس کو قرآن و سنت کا نام دیا جا رہا ہے۔ پتا نہیں آخر پاکستان کے عوام کے ساتھ قران و سنت کے نام پر یہ دھوکہ بازی کب تک جاری رہے گی۔ان پلاٹ اور پرمٹ کی سیاست کرنے والے ملاؤں کی اہلیت اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے کہ یہ اشتہاروں کے سائن بورڈ کالے کرتے رہیں یا پھر عورتوں کی میراتھن کا پیچھا کرتے رہیں۔ وہاں بیچارے عام عوام اور زلزلہ زدگان مصائب کی چکی میں پس رہے ہیں اور ان نام نہاد خدا کے نائبین کے نزدیک دنیا کا سب سے اہم کام حسبہ بل کا نفاذ ہے ، جیسے اس کے بعد بد نصیب عوام کے تمام مسائل حل ہو جائیں گے۔ یہ ہمارے ہی اعمال کی سزا ہے جو اس ملا ملٹری الائنس کی صورت میں ہمارے سر پر مسلط ہو گئی ہے۔
عدنان صديقی صاحب نے صحيح لکھا ہے ليکن آپ کی عادت ہے کہ جو آپ کہيں صرف وہی ٹھيک ہے ۔ آپ خود تو سينہ زوری سے ہر بات منوانا چاہتے ہيں اور سينہ زوری کا الزام دوسروں پر ديتے ہيں ۔
آپ بغير آئين اور قانون کی الف بے جانے فيصلے ديئے جاتے ہيں ۔ کيا اسی کو آپ جمہوريت کہتے ہيں ۔ آپ بحث کرنے اور کسی چيز کو فاشزم قرار دينے سے پہلے يہ تو بتائيں کہ پاکستان کے آئين کی کونسی شق کی خلاف ورزی ہوئی ہے ؟ اگر آئين کی خلاف ورزی ہوئی ہوتی تو پيپلز پارٹی کے بابر اعوان صاحب نے اب تک سپريم کورٹ ميں آئينی درخواست داخل کر دی ہوتی ۔
بہت شکریہ اجمل صاحب۔ آئندہ ہم بابر اعوان کی سپریم کورٹ میں آئینی درخواست کے دائر ہونے یا نہ ہونے پر ہی کسی مسودہ قانون کی موزونیت کو جانچا کریں گے۔ باقیوں کو بھی قانون کی ایسی ہی سمجھ ہونی چاہیے۔ دوسرے چند تنگ نظر اور محدود ذہنیت کے ملا اخلاقی اقدار کے نفاذ کے نام پر شہری آزادیوں کو سلب کر رہے ہوں تو کیا یہ فاشزم نہیں ہے؟ محض ووٹوں کی اکثریت ہونا من مانی قانون سازی کی دلیل نہیں ہوتی۔ پاکستان کے آئین میں طرح طرح کی مذہبی شقوں شامل کرکے فوجی آمر اپنے مفادات حاصل کرتے رہے ہیں اور اس کے نتیجے میں اقلیتوں اور عورتوں کی زندگی حرام کی جاتی رہی ہے۔ اب یہی ڈرامہ جمہوریت کے نام پر کھیلا جا رہا ہے اور اس کو کبھی قران و سنت کہا جا رہا اور کبھی نظریہ پاکستان کی مجہول تشریحیں اس پر تھوپی جا رہی ہیں۔
محترمو بڑی بات تو یه هے که ایک قانون اسمبلی نے پاس کیا هے اس کو غلط یا صحیع هونے کا آگر مسقبل میں بهی احساس هو جاتا هے ـ آگر اسمبلیاں هوں گي تو اس کابهی کوئی ناں کوئی حل نکل هي آئے گا ـ انسان کے بنائے هوئے قوانین کبهی بهی حرف آخر نہیں هوتے ـ اسمبلی میں بهی اس قانون کی مخالفت کرنے والوں کو کوئی ناں کوئی بات نظر آئی هی هو گي ـ نعمان صاحب کو بهی آگر اس سے کوئی اختلاف هے تو اس کی بهی تو وجه هوگي ـ بیري کے گرد کهڑے سارے لوگوں کو بیروں کی لوکیشن مختلف نظر آتی ـ اسی طرح قانون کی بهی کئی جہتیں هیں ہے ادمی اپنی طرف کی جہت دیکھ رها هے ـ
اچهی بات تو یه هے که سب کمنٹس لکهنے والے اپنی آپنی سمجھ کے مطابق خلوص نیّت هیں ـ
باقی جس خطرے کا نعمان بتا رہا هے یه نعمان کے لکهے سے کہیں زیاده خطرناک هے
ـ
یہاں سب اپنے اپنے قوانین بنانے پر تلے ہیں۔ کچھ مذہبی ہیں تو کچھ معتدل ہونے کے لیے ہر اخلاقی حد پھلانگ سکتے ہیں۔
روشن خیالو اگر تم لوگوں کو اسلام سے اتنی ہی چڑ ہے تو اپنے مسلمانوں جیسے نام بھی بدلو۔ میں حسبہ بل کی کچھ شقوں کو پسند نہیں کرتا لیکن یہ کیا جمہوریت ہے کے زیادہ عوام چاہیں کے منظور ہو اور چند ایک روشن خیال کہیں نہ ہو؟
جہاں تک ملاؤں کے سائن بورڈ کالے کرنے کا سوال ہے تہ یہ غلط ہے لیکن کیا عورتوں کو دوڑا کر ان کے پوشیدہ اعضاء کی ہل جل اور ان کی نمائش میراتھن ہے تو لعنت ہے میراتھن پر۔ سائن بورڈ کالے کرنا غلط سہی کیونکہ ان میں کسی کا نقصان ہوتا ہے لیکن روشن خیالو۔ اگر مرد کی چڈی بنیان کا اشتہار ہے تو اس میں عورت کا کیا کام؟ انٹرنیٹ کیا صرف عورتیں استعمال کرتی ہیں؟ انٹرنیٹ کے کارڈز پر صرف عورتوں کی تصاویر ہی کیوں ہوتی ہیں؟ شیونگ کریم یا جیلیٹ بلیڈ کے اشتہارات میں عورتوں کی نمائش کیوں ہوتی ہے؟ تم لوگ روشن خیالی کے نام پر عورتوں کا استحصال کر رہے ہو۔ اور اگر کوئی اس کے خلاف بولتا ہے تو وہ تنگ نظر، فاشسٹ، طالبانائزیشن کا حامی، ملا، انتہا پسند اور نا جانے کیا کیا بکواس کی جاتی ہے۔ کسی کی بہن بیٹی بھاگ جائے تو اسے سمجھانا عورتوں کی آزادی کے خلاف ہے۔ کوئی عورت منہ کالا کر کے آئے تو اسے کچھ کہنا انتہا پسندی ہے کارو کاری ہے۔ اگر یہ سب عام کرنا ہے تو عورتوں کے گھر والوں کو عزت بھی خرید کر دے دیا کرو۔ زنا کی سزا دی جائے تو یہ بھی شہری آزادی کے خلاف ہے۔ نا جانے لوگ اپنے گھروں کے ماحول کو دوسروں پر کیوں تھوپتے ہیں؟ اقلیتوں کے یہ نا خدا خود گٹر صاف کرنے والوں کا مذاق اڑاتے ہیں۔ کسی کا رنگ کالا ہو تو اسے کالا عیسائی کہا جاتا ہے۔ معذرت روشن خیالو لیکن ہمارا اسلام تو ہمیں اس کی اجازت نہیں دیتا۔ کچھ مذہبی بھی ایسا کرتے ہیں لیکن آزاد خیال کیونکہ آزاد خیال ہیں وہ کچھ بھی کر سکتے ہیں، بھائی بہن کے سکینڈل، مان بیٹے، باپ بیٹی کے سکینڈل ان آزاد خیال خاندانوں ہی سے نکلتے ہیں۔ میرے پاس ثبوت ہے ان چیزوں کا۔ لاہور اور کراچی کے (دوسرے شہروں میں بھی)بہت سے آزاد خیالوں کو کارناموں کو جانتا بہت قریب سے ہوں میں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو بہنوں کو دوسروں کے ساتھ ڈانس کرتے دیکھ کر لطف اندوز ہوتے ہیں۔ سارا خاندان اکٹھے بیٹھ کر شراب پیتا ہے، انہی میں نہاتے ہوئے سگی ماں بہنوں کو جھانکنے کا رجحان بھی ہے یہی لوگ اپنی رنگ رلیوں کو موبائل فون سے ریکارڈ کر کے انٹنیٹ پر بھیجتے ہیں اور اپنی ساتھی آزاد خیال لڑکی کی عزت کا سامان کرتے ہیں یہ۔ اگر یہ اعتدال اور روشن خیالی ہے تو ویلکم طالبانائزیشن۔ اور ہاں نظریہ پاکستان اسلام تھا صرف اور صرف اسلام۔ روشن خیالوں اور پرویز مشرف جیسوں کہ لیے یہ ایک جھوٹ ہے۔ وہ مغربی عوام کی چمک دیکھ کر پاکستان کو سیکولر کہتے ہیں اور اسے لادین بنانا چاہتے ہیں۔
آئیندہ آئین اگر کبھی بنا تو نعمان اور نبیل جیسوں سے پاس کرایا جا ئے۔ تاکہ ہمیں ترقی کی منازل تہ کرا سکیں۔
اگر حسبہ مل منظور ہو گیا ہے تو اس کا متن کہاں ہے؟ بغیر اصل بل دیکھے تو کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
پچھلے سال جو حسبہ بل سامنے آیا تھا اس میں تو سب سے بڑی خامی یہی تھی جو مسلمانوں میں عام رہی ہے کہ قانون اور موریلٹی میں کوئی فرق نہیں سمجھتے۔
سلام
میرا خیال تھا کہ خاموش تماشائی بنو گا مگر کیا کروں سمجھ نہیں آ رہی کسی نے نہ بل کا مسودہ دیکھا نہ یہ دیکھا جا رہے ہے کہ اس کا نفاذ کہا ہے اور وہاں کی معاشرتی اقدار کیا ہیں؟
خیر اس کا ایک فائدہ تو ہوا مجھے کم از کم ایک معتدل ملا تو ملا۔ جو بری زبان استعمال کرنے کی بجائے دلیل سے بات کرنے کا روادار ہے۔
this is a bit off topic laikin mujhay "aik mulla” sahab ki baton se kuchh ikhtilaf hai. aakhir aap aur aap ke ham khayal logon ka sara islam aurton se shuroo ho ker aurton per hi kyoon khatam hota hai? mardon ki izzat un ke apnay aamal per kyoon munhasir naheen hai, har mard ki izzat ka dar-o-madar us ki behen aur beti kay aamal per kyoon hai? mard chahay kuchh bhee ker ke ghar aa jaey, us ki izzat per harf naheen aata, laikin agar us ki behen kisi mard se mukhatib ho to us ki izzat khatray main per jati hai. ye kahan ka islam hai? mujhay yaqeen hai aap mardon ko khuli chhutti denay kay haami naheen hon gay, laikin bat jab bhee hoti hai aurton ki hi hoti hai. samajh main naheen aata kyoon. aur jahan tak behen baityon ke bhagnay ka talluq hai to wo bhee hamaray aurton ke liye muasharti rawwayon ki waja se hi hota hai. koi larki akeli ghar se naheen bhagti, kisi mard ke sath hi jati hai, laikin main ne kabhi kisi pakistani mard ko kisi larki ke sath bhag janay walay larkon ko bura kehtay naheen suna.
پاکستان کی کوئی بھی اسمبلی کوئی بھی قانون پاس کرتی ہے تو اس کے لئیے آئین میں کچھ شرائط اور حدود طے ہیں۔ حسبہ بل ان شرائط پر پورا نہیں اترتا، دوسرا یہ کہ حسبہ بل ایک ایسے ادارے کی تشکیل کا خاکہ پیش کرتا ہے کہ جس کے فرائض براہ راست پاکستان کی عدلیہ سے متصادم ہیں۔ انصاف کی فراہمی کے لئے دنیا میں کہیں یہ طریقہ (ماسوائے سعودی ریاست کے) اختیار نہیں کیا جاتا کہ ایک مخصوص قسم کا نظریہ رکھنے والے لوگوں کو قانون پاکستان کی سمجھ بوجھ کے بغیر، صرف اس اہلیت کی بنیاد پر فیصلے کرنے کا اختیار دیا جائے کہ وہ مذہبی اور اخلاقی واعظ ہیں۔
حسبہ کے ترمیم شدہ بل میں بھی ونہی عن المنکر نامی ادارہ مذہبی چوکیداری کے فرائض ادا کرے گا اور سزائیں بھی سنائے گا۔ یہ فیصلے پاکستان کی کسی عدالت میں چیلینج نہیں کئے جاسکتے بلکہ ان کی اپیل پر صرف وزیر اعلی کاروائی کرسکتے ہیں۔ کیا یہ مضحکہ خیز اور بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی والی بات نہیں۔
اس ادارے کے فرائض میں مساجد کے لاؤڈ اسپیکر مانیٹر کرنا ہی نہیں۔ بلکہ یہ بات بھی شامل ہے کہ لوگ اذان کے احترام میں گانے نہ بجائیں، کاروبار معطل کریں۔ فحاشی اور بے حیائی کو کنٹرول کرنے کی بھی اس میں شرائط ہیں۔ اور بھی بہت ساری شقیں ہیں جو احمقانہ ہیں جیسا کہ محتسب ادارے کی والدین کی نافرمانی کرنے والوں کی نگرانی۔ علاوہ ازیں خصوصا فحاشی، بے حیائی اور نیکی کو عام کرنے والی شقیں انتہائی قابل اعتراض ہیں کیونکہ اس سے ایک مذہبی پولیس کو لوگوں کی مذہبی زندگیوں اور معاشرتی و معاشی سرگرمیوں میں بغیر کسی ثبوت اور گواہ کے رخنہ اندازی کی چھوٹ حاصل ہوگی۔ پاکستان میں ہر کوئی جانتا ہے کہ فحاشی اور بے حیائی کو کنٹرول کرنے کے نام پر حدود آرڈینینس ایسی سنگین غلطی ہم پہلے کرچکے ہیں اسلئے ایسا کوئی بھی قانون عملی طور پر نافذ عمل نہیں لایا جاسکتا۔
میرے خیال میں اس یہ بات واضح ہوگئی کہ اس آئین پاکستان کی کونسی شقیں متاثر ہوتی ہیں؟ اور واضح رہے کہ ہم یہ ترمیم شدہ بل کی بات کررہے ہیں نہ کہ پچھلے سال والے بل کی۔
مولوی اقبال حیدر نے اس بل کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کردی ہے۔ لہذا آپ بابر اعوان کا انتظار نہ کریں۔ اور جیسا کہ نام سے ظاہر ہے مولوی اقبال حیدر بذات خود ملا ہیں۔ یہ وہی صاحب ہیں جنہوں نے بلاگ اسپاٹ پر پاکستان میں پابندی لگوائی تھی۔
اس قانون کے بارے میں جناب اسماعیل خان کا روزنامہ ڈان میں شائع ہونے والا تجزیہ پرمغز ہے اور صورت حال کی کافی صحیح عکاسی کرتا ہے۔ میں اس سے ایک اقتباس نقل کررہا ہوں:
Perhaps, the only thing this bill seeks to achieve, says one analyst, is to institutionalise the clergy in the NWFP. While the elephant may leave, if one were to use this euphemism for the MMA, it would leave its tail behind as and when the elections are held.
ایک گمنام ملا کے کمنٹ میں کوئی بات قابل جواب نہیں۔ تاہم میں منزہ کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ ان کی تشویش بجا ہے اور اس میں وہ اکیلی نہیں بلکہ میرے جیسے مرد بھی شامل ہیں۔ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ چڈی بنیان کے اشتہار میں شلوار قمیض، یا جینز پتلون پہنی عورت کے آنے پر تو ملائیت معترض ہے لیکن اگر اسی اشتہار میں کسی مرد کو بنیان پہنے، یا لائف بوائے کے اشتہار میں بغیر قمیض کے جسم پر صابن ملتے ہوئے دکھایا جائے تو یہ فحاشی نہیں۔ عورت کا دوڑنا فحاشی اور مردوں کا لنگوٹ پہن کر کھلے میدانوں اور ٹی وی پر کشتی لڑنا اسپورٹس۔ یہ تو عجیب دوغلا پن ہے۔
بدتمیز جس جگہ پر اس قانون کا نفاذ ہوگا (قبائلی علاقہ جات نہیں بلکہ صوبہ سرحد کی حدود میں آنے والے علاقے) وہ جیسا کہ اسماعیل خان صاحب نے بھی اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ غیر قانونی اسلحے کی تجارت کے مرکز ہیں۔ ایم ایم اے کی حکومت کے باوجود پشاور میں فحش کیسٹس، سی ڈیز کھلے عام فروخت ہوتی ہیں۔ یہ کہنا کہ یہ علاقے طالبانائزیشن کو خوش آمدید کہنے کو تیار ہیں قطعا غلط ہوگا کیونکہ وہاں لڑکیاں اسکول اور کالجوں میں تعلیم حاصل کرتی ہیں، پشاور شہر کے بازاروں میں خریداری کرتی ہیں اور بھارتی رقص و موسیقی سے وہاں کا ہر شخص حسب توقع لطف اندوز ہوتا ہے۔ ایم ایم اے ہی کو نہیں ان لوگوں نے عوامی نیشنل پارٹی، پختونخواہ ملی عوامی پارٹی، پیپلز پارٹی، ق اور ن لیگ حتی کہ تحریک انصاف کو بھی ووٹ دئیے ہیں۔
gokay mera blog naheen hay phir bhi tabsira karnay ki jurat kar rahi hoon agar kisi ko aitraz ho to zaroor muttla karain,shukria,Islam deene wast hay laikin log usay aik intiha say dosri intiha ki taraf ghaseetay phirtay hain,Nouman aap nay saudi muashray ki taraf ishara kia hay hum Pakistan or yahan dono jagah ka mwazina kartay hain yahan hum raat kay 3 bajay bhi apnay bachon kay sath akailay ghom saktay hain yahan tak kay apnay shohar kay bagair sea side per bhi sirf apni bachion kay sath bethay rahain to koi dar khof naheen hota, Madeenay say wapsi kay safar main 400 kilo meter door aakar hamari gari subah 4bajay highway par aik sunsan jagah kharab hoi gari main hamaray bachay jin main 3 no jawan larkian bhi theen or mardon main sirf hamaray mian or hamara 15 sala beta tha or dor dor tak koi shahar naheen tha us waqt sirf Allah ka aasra tha or bus,sardi ki shidat ka yeh aalam kay hadion ka goda thanda ho jaay abhi is pareshani main 1/2 ghanta guzra tha kay ghup andheray say aik police ki gari namodar hoi us nay pocha kia masla hay foran wireless per call ki or Madeenay say aik to truck mangwa kar (yahan to truck aadhi gari hotay hain or aadhay truck) us main hum sab ko or hamari gari ko sawar kia or wapis madeenay pohnchaya yahan truck walay nay hamari majbori ka koi najaaiz faida naheen uthaya or na hi police nay humain lotnay ki koshish ki,Islam jitna bhi nafiz hay kia khob nafiz hay,jis ghutan ki aap log shikayat kertay hain humain to yahan door door tak nazar naheen aati balkay aik aazadi or tahafuz ka ahsas hota hay,log apnay gharon main jo chahian kerain laikin unhain mushray ko kharab karnay ki ijazat naheen di jasakti,agar europ main bachay maan baap ki shikayat ker saktay hain or unhain jail karwa saktay hain to maan baap ko olad ki ziadti per shikayat kernay ka haq bhi hona chahiay,Aap nay Jack straw kay naqab walay bayan par to kuch na likha or yon chup sadh li jaisay koi baat hi na ho waisay to aap urton kay hoqooq kay baray alam berdar bantay hain,koi mosiqi sunna chahta hay to woh apnay ghar main sunay dosra naheen sunna chahta to usay zabardasti sunwana insani huqooq ki khilaf warzi naheen hay kia?koi apnay ghar main kuch bhi keray Islam ko us say koi masla naheen magar woh jo bhi kar rah hay usay sirf us ki zaat tak mahdood rahna chahiay,Islami qawaneen nafiz kernay ka kaam bhi Islam ka sahi faham rakhnay walon kay supurd hona chahiay,masla yeh hay kay aadha pona Islam faida mand naheen khatar naak hay isi tarah maadar pidar aazad jamhoriat bhi in saniat kay liay zahreqatil hay,
بدتمیز صاحب۔ شکر ہے کوئی کسی ملاء کو بھی معتدل کہنے لگا۔
منزہ صاحبہ آپ نے جس طرف اشارہ کیا ہے۔ میں اس چیز کو مانتا ہوں۔ آپ سے متفق بھی ہوں۔ لیکن پوری دنیا میں یہی رواج ہے عورتوں سے ہی عزت کو منسوب کیا جاتا ہے یہ صرف اسلامی معاشرے کا خاصہ نہیں۔ مغرب میں بھی جو لوگ کٹر ہیں ان کی بھی یہی سوچ ہے۔ اور پھر عورتوں کے ساتھ مغرب میں بھی کوئی اچھا سلوک نہیں ہے۔ عام گھرانوں میں عورتوں کے فرائض میں مردوں کی جنسی ضرورت کو پورا کرنا جس میں شوہر بھی ہیں اور بوائے فرینڈ بھی۔ اس کے علاوہ گھریلو زمہ داریاں۔ بچوں کی دیکھ بھال خواہ مشرق کی طرح نہیں بہحال کرنا ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ کام یعنی جاب بھی کرنا ہوتا ہے۔ تو عورتوں کا احتصال تو ہر جگہ ہوتا ہے پھر اسے اسلام کا قصور کیوں کہا جاتا ہے؟ عورتوں کو خاندانی نظام دے کر اسلام نے انہیں مجبور نہیں کیا بلکہ انہیں عزت دی ہے۔ اور جہاں تک مردوں کو ساتھ لے کر بھاگنے کی بات ہے تو محترمہ۔ کوئی مرد کسی کو زبردستی بھگانا تو دور کی بات کسی عورت کو چھو بھی نہیں سکتا (زنا بالجبر الگ چیز ہے) اور عورتیں کیسے بہکاتی ہیں یہ میں بہت اچے طریقے سے جانتا ہوں۔ میں صرف عورتوں کو قصوروار بھی نہیں ٹھہراتا۔ جہاں تک مردوں کی آزادی کی بات ہے محترمہ ہم اس کی بھی زیادتی کے خلاف ہیں۔
ہمارے گھر کے قریب ایک محترمہ نے عین شادی والے دن گھر سے بھاگ کر ماں باپ اور خاندان کی عزت کو چار چاند لگا دیئے۔ یہ بظاہر روشن خیال لوگ ہیں۔ بیٹی سے باقائدہ اجازت لی گئی تھی ( لڑکی کا اس لڑکے سے معاشقہ تھا)بیٹی نے سارے خاندان کے سامنے اس لڑکے سے شادی پر رضامندی ظاہر کی تھی۔ لیکن منگنی کے بعد اسی لڑکی نے اپنے کالج میں ایک نیا معاشقہ شروع کر دیا۔ اور کسی کو بھی نہیں کہا۔ اور عین شادی کے دن اپنی دوست کی مدد سے گھر سے فرار ہو گئی۔ اب خاندان والے حقیقتا مجبور ہیں۔ اوپر سے سماج کی بے عزتی بھی سہنا پڑ رہی ہے ۔ تو قصور کس کا ہوا؟ اسلام کا؟ ماں باپ کا بھائیوں کا؟ خاندان کا؟ یہا صرف اور صرف اس ایکیلی لڑکی کا؟
نعمان کے پاس ایک بہت اچھا ہتھیار ہے وہ یہ کے کسی کی دلیل سے بھرپور بات کو بھی یہ کہنا کے اس کی بات جواب کے قابل نہیں۔ جواب کے قابل نہیں یا بولتی بند ہو گئی؟ اور یاد رکھا جائے کے ہم لائف بوائے کو ننگے جسم پر لگاتے ہوئے مردوں کے بھی خلاف ہیں۔ کیونکہ یہ بھی فحاشی ہی ہے۔ ہر گھر میں بہن بیٹیاں بھی ہوتی ہیں۔ لیکن نعمان سلمان خان صاحب کو تو ہر گھر میں دیکھا جاتا ہے۔ ان کے بدن پر تو کپڑے نہیں ہوتے تو یہ کس کا قصور ہے؟ اب ماں باپ ان کو دیکھنے والی بیٹیوں کو منع کریں تو پھر انتہا پسندی؟ چڈی بنیان پہنے مردوں کی سپورٹس کے نام پر بے حیائی بھی غلط ہے لیکن ہم اسے بند کریں گے تو شہری آزادی کے خلاف بات ہو جائے گی۔
mulla sahab, assalam alaikum
maghrib ke baray mein aap ki baat sahee hai. laikin jo raey aap ki aurton ke baray mein hai us per mujhay hairat hai. aur mein ye bhee batati chaloon ke khuda nakhwasta mujhay islam ke ahkamat se koi ikhtilaf naheen hai (alhamdulillah main musalman hoon aur is per mujhay fakhar hai), na hi main islam ko kisi bat ke liye qusoorwar thehrati hoon. qusoorwar meri nazar mein pakistani muashray ke rawayyay hain aur buhat se mardon ke hathon islam ki ghalat interpretation hai. aap ne kaha ke aap acchi tarha jantay hain aurtain kaise behkati hain. mera nazarya is se mukhtalif hai: tali kabhee aik hath se naheen bajti. aurat naheen behkati, shaitan mard aur aurat donon ko behkata hai. agar aap samajhtay hain ke aurtain behkati hain to ye bhee samajhte hon gay ke mard agar behek jaey to us ka itna qusoor naheen, wo bhee bechara kya keray, aakhir ko mard hi to hai. ye jo baat aap ne kahi hai aisa hi kuchh australia ke aik influential imam (taj-el-din ker kay kuchh nam hai un ka) kuchh dinon pehlay farma chukay hain jis ko sun ker mera dimagh ghoom gaya tha. un ka kehna tha ke jo aurtain poori tarha baahaya libas (baahaya libas ki un ki nazar mein kya definition hai who knows) naheen pehenteen wo mardon ko zina biljabr ki dawat deti hain. un ki aur aap ki bat ka bhee yehi matlab akhaz kiya ja sakta hai ke islam ne mardon ki koi zimmaydari naheen rakhi khud per qaboo rakhnay ki. ye ghalat hai. jo bat hamaray pakistani bhai aksar bhool jatay hain wo ye hai ke islam mard ko nigah neechi rakhnay ka hukum deta hai. aur ab agar aap ye kahain gay ke larkiyon ko (un ki marzi se hi) ghar se bhaganay walay mard neechi nigahon walay hi hotay hain jo badqismati se chalak aurton ke behkaway mein aa jatay hain, to mujhay hansi aaey gi.
منزہ اسلامی لباس کے بارے میں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم وضاحت فرماچکے ہیں،آپ نے حضرت اسماء سے فرمایا عورت جب بالغ ہوجائے تو اس کے جسم کا کوئ حصہ نظر نہیں آنا چاہیئے بجز اس کے اور اس کے اور آپنے اپنی ہتھیلیوں اور چہرے کی طرف اشارہ کیایہ گھر میں رہتے ہوئے کرنا ہے اور باہر نکلتے ہوے سورہ احزاب میں صاف صاف حکم ہھ”اے نبی اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہ دو کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے گھونگھٹ ڈال لیا کریں اس سے توقع کی جاتی ہے کے وہ پہچانی جائیں گی اور ان کو ستایا نہ جائے گااور مردوں کو حکم ہے کے نگاہیں نیچی رکھو،نبی پاک نے فرمایا پہلی غیر اختیاری نگاہ معاف ہے لیکن دوسری نگاہ حرام ہے،پھر آپنے فرمایاجو عورتیں کپڑے پہن کر بھی ننگی رہتی ہیں اور مردوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہیں وہ نہ تو جنت میں جائیں گی اور نہ اس کی خشبو پائیں گی حالانکہ وہ میلوں دور سے سنگھائ دے گی،اس میں کپڑے پہن کر بھی ننگی سے مراد وہ لباس ہے جو باریک ہو یا چست ہو کے جسم نمایاں ہو یا نیم عریاں ہو،
ان عالم صاحب نے جو کہا وہ کسی حد تک تو ٹیک ہے سوائے اس کے کہ انھوں نے مرد کو بے قصور کہا انھیں یہ کہناچاہیئے تھا کے جب عورت بے حجاب نکلتی ہے تو اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی میں وہ بھی اتنی ہی قصور وار ہو تی ہے جتنا مرد،
باقی اس بات پر ہمیں بھی شدید غصہ آتا ہے کے کوئ معاملہ ہو جاہل مرد ایک دوسرے کی ماں بہن کو اس میں گھسیٹنا لازمی سمجھتے ہیں،
ویسے مینے کہیں پڑھا تھا کے اپنی نظر میں حیا پیدا کرو تاکہ تمھاری ماں بہن بیٹی اور بیوی بری نظر سے بچ سکیں
میرا خیال تھا کہ اس بحث کا کوئی فائدہ نہیں رہا کیونکہ حسبہ بل کا اصل مسودہ سامنے نہیں آ رہا۔ میں تو یہاں ایک ملا کی باتیں سن کر آ گیا ہوں۔ یہ بڑے عقلی دلائل پیش کرنے کا دعوٰی کرتا ہے لیکن وہی روش خیالی کی گھسی پٹی لائن پکڑ کر اسے رگیدتا ہوا اکیلا ہی کہیں جا رہا ہے اور اصل بحث سے بالکل کنی کترا رہا ہے۔ اس نے اپنا نام بالکل صحیح ملا رکھا ہے اور یہ واقعی ملائیت کا نام روشن کر رہا ہے۔ یہاں بحث عورتوں کی میراتھن کے حس و قبح پر نہیں ہو رہی مسٹر ملا، ذرا غور سے پڑھو یہ جاہل ملاؤں کی قانون سازی کے بارے میں بات ہو رہی ہے اور تمہیں عورتوں کے پوشیدہ اعضاء کی ہل جل دیکھنے سے ہی فرصت نہیں ہے۔ لگتا ہے تم بھی مولانا الیاس قادری کے مدرسے سے تعلیم یافتہ ہو۔
ماشاء اللہ مہر افشاں صاحبہ نے رومن اُردو اور پھر اُردو رسم الخط ميں بالکل صحيح لکھا ہے اور ميں اس کی تائيد کرتا ہوں ۔ اللہ کريم نے مجھے سعودی عرب کے علاوہ بھی کچھ ٣عرب ملکوں ۔ يورپ کے کئی ممالک اور امريکہ اور ترکی ميں قيام کے مواقع فراہم فرمائے ۔ ايک بار ميں بيوی بچوں سميت جدہ سے مکہ مکرمہ حرم شريف کے قريب ايک ہوٹل کے سامنے ٹيکسی سے اُترا ہی تھا کہ عشاء کی اذان شروع ہو گئی ۔ ہم اپنا سارا سامان يعنی دو سوٹ کيس اور تين بيگ سڑک کے کنارے چھوڑ کر حرم شريف چلے گئے ۔ نماز کے بعد عمرہ مکمل کيا پھر باہر نکلے اور سامان کے پاس پہنچ کر ہم نے ديکھا کہ ميری بيگم اپنا پرس جس ميں سارے پيسے ۔ زيور اور پاسپورٹ تھے وہ بھی وہيں چھوڑ کر چلی گئيں تھيں ۔ سب کچھ وہيں موجود تھا حالانکہ لوگ آ جا رہے تھے ۔ ہم طرابلس [ليبيا] ميں عموماً کسی دکان سے سودا خريد کر دکان سے باہر رکھ کو چلے جاتے تھے اور واپسی پر اُٹھا ليتے تھے ۔ نعمان صاحب ايسی کوئی مثال اپنے محبوب مغرب کے کسی ملک کی پيش کر سکتے ہيں ؟ ميں نام نہاد آزاد مغربی دنيا کا بھی کافی تجربہ رکھتا ہوں ۔
ميں نے پہلے بھی لکھا تھا کہ کراچی يا اسلام آباد ميں بيٹھ کر باتيں بنانا بہت آسان کام ہے ۔ آج کل مسلمانوں کے نا اہل حکمرانوں کی مہربانی سے اسلام اور مسلمان کو رگيدنا دين سے متنفر لوگوں نے ايک مشغلہ بنا ليا ہے ۔ قلم چلانے سے پہلے يہ جان لينا چاہئيے کہ مُلا دو طرح کہ ہيں ۔ ايک عالم جو دين کی احياء کر رہے ہيں اور ايک جاہل جو منافرت پھيلا رہے ہيں ۔ دوسری قسم ہر حکومت کے تابع ہوتی ہے جب کہ پہلی قسم صرف اللہ اور اس کے رسول کی تابع ہوتی ہے ۔
اجمل صاحب، کیا آپ یہ ثابت کرنا چاہ رہے ہیں کہ حسبہ بل کے نفاذ سے پاکستان اسی طرح امن کا گہوارہ بن جائے گا۔ سعودی عرب پر ایک استحصالی اور پست اخلاق والی شہنشاہیت مسلط ہے اور وہاں اسلامی نظام کے نام پر جبر و تشدد کا نظام رائج ہے۔ سعودی عرب کی اخلاقی اقدار کی حقیقت تو میں پھر کبھی بیان کروں گا، آپ خود ہی بتا دیں کہ ایم ایم اے کے رہنما کو آپ کن علما میں شمار کرتے ہیں؟ کیا یہ واقعی اللہ اور اس کے رسول کے تابع ہیں؟ اور کیا ایک مجہول مسودہ قانون کی مخالفت کرنا اسلام سے نفرت کے مساوی ہوتا ہے؟
مہر افشاں، میں بھی آپ کو ایسی دس مثالیں دے سکتا ہوں جن میں سعودی قوانین کی حماقت انگیزی اچھی طرح واضح ہوجائیگی لیکن ہمارا موضوع بحث پاکستانی معاشرہ ہے۔ پاکستان اور سعودی عرب کی آبادی کا فرق، معاشی حالات کا فرق، کلچر اور روایات کا فرق بھی اگر دیکھیں تو اتنا وسیع ہے کہ ہمیں قطعا قانون سازی کے معاملے میں ان کی مثال نہیں آزمانا چاہئے۔ ایسے ہی فرق طرابلس، یورپ، کسی بھی معاشرے اور پاکستان میں ہیں۔
اجمل لکھتے ہیں: ہم طرابلس [ليبيا] ميں عموماً کسی دکان سے سودا خريد کر دکان سے باہر رکھ کو چلے جاتے تھے اور واپسی پر اُٹھا ليتے تھے ۔ نعمان صاحب ايسی کوئی مثال اپنے محبوب مغرب کے کسی ملک کی پيش کر سکتے ہيں ؟
اس کی مثال کراچی میں ہی پیش کرسکتا ہوں بلکہ میں خود اکثر سودا خریدتا ہوں تو تھیلے ڈھوئے ڈھوئے پھرنے کے بجائے ہماری سبزی مارکیٹ میں ہی کسی دکان کے باہر رکھ کر آگے چلا جاتا ہوں۔ حالانکہ کراچی تو لوٹ مار کا گڑھ ہے۔ تو جناب اجمل صاحب اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ حسبہ کے بعد صوبہ سرحد میں عظیم خوشحالی کی لہر آجائے گی۔
سعودی عرب میں کیا لوگوں کو ٹھگا نہیں جاتا؟ کیا مدینہ اور مکہ میں جرائم نہیں ہوتے؟ نبیل آپ ضرور سعودی دوغلیت پر مضمون لکھئے گا۔ میں خود لکھتا مگر پھر بات آف ٹاپک چلی جاتی۔
مجھے احساس ہورہا ہے کہ یہ "مسلمان” ساتھی صرف اسلئے حسبہ کی حمایت کرنے کی کوشش کررہے ہیں کیونکہ وہ اسلام کے نام پر پیش ہوا ہے۔ اجمل، ملا، و دیگر جب حدود بل عملا ناکام ہوا تو آپ نے اس کی ناکامی کا الزام انتظامیہ کو قرار دیا جو اسے لاگو نہیں کرسکی۔ حسبہ ناکام ہوگا تو بھی آپ کرپشن اور انتظامیہ کو ہی الزام دیں گے۔ لیکن آپ یہ دیکھیں کوئی بھی مخالف اس کی ناکامی کو اسلام کی ناکامی نہیں سمجھتا۔ تو پھر آپ لوگوں کو یہ ڈر کیوں ہے؟ اسلام لوگوں کے دلوں پر حکومت کرے وہ اچھا ہے یا چند لوگوں کا دل اسلام اور باقی لوگوں پر حکومت کرے؟
اس بات کا جواب دیں کہ ان تجربات کو پاکستان کے عوام پر کیوں آزمایا جائے؟ کیا پاکستان کے عوام کو اتنے بھی حقوق حاصل نہیں جو سائنسی لیبارٹریوں میں زیر تجربہ جانوروں کو ہوتے ہیں؟
نبیل صاحب کی تو دکھتی رگ پر پاؤں آ گیا۔
میں ساب سے پہلے ہی یہ لکھ چکا ہوںکے حسبہ بل کی کئی شقیں قابل اعتراض ہیں۔ نعمان اور نبیل نے مجھے ان کا حامی کیسے سمجھا؟ میں مسلمان ضرور ہوں لیکن احمق نہیں کہ صرف اسلام کے نام پر مشتعل ہو جاؤں۔ دوسری بات روشن خیالی گھسی پٹی نہیں خاصی اپ ٹو دیٹ لائن ہے اور یہ روشن خیالوں کے ساتھ ہی دفن ہو گی۔ انشاءاللہ
منزہ صاحبہ۔ بالکل بجا فرمایا مرد کو میں نے یقین سے کرپٹ زہن نسین کر کے ہی بات لکھی تھی۔ مرد تو شامل ہوتا ہی ہے، لیکن کیا عورتیں بہکتی ہیں اور مرد بہکاتے ہیں؟ عورتیں برابر کی شریک ہیں یہاں نبیل صاحب کے مطابق آف ٹاپک بات ہے لیکن مرد تو بہکاتے ہی ہیں لیکن آج کل (پہلے بھی تھی) ایک نئی روشن خیالی جو کے ہم جنس پرستی ہے۔ مردوں میں تو یہ ہے ہی لیکن جو لڑکیاں اس کو آزما رہی ہیں ان میں کس کا قصور ہوگا؟
میں کسی بھی ایسے بل کا مخالف ہوں جو تفرقہ پھیلائے۔ مطلب باقی صوبے تو روشن خیالی کی زد میں رہیں اور ایک صوبہ ملائیت کی۔ اجمل صاحب نے جن قسموں کی بات کی میرے خیال میں ایم ایم اے کے ملا دوسری قسم سے تعلق رکھتے ہیں۔ لہٰذہ مجھے ان میں مت گنا جائے۔ میں اسلامی قوانین کا حامی ہوں جو صحیح طور پر قران و سنت کی عکاسی کریں۔ اور سارے ملک میں رائج ہوں۔ نعمان نبیل صحیح قران اور سنت بھی تو عورتوں کو بے حیائی سے روکتے ہیں۔ مردوں کو تو روکتے ہی ہیں۔ لیکن یہ قوانین بھی زنا کو بری چیز ہی مانیں گے۔ میراتھن ان قوانین کی رو سے بھی غلط ہوگی۔ موجودہ میڈیا بھی اس کی زد میں آئے گا۔ اب کی بار تو اصل اسلام کی بات ہو گئی اب میں انتہا پسند ہوں یا اسلام؟
نبیل صاحب آپ کو چوٹ ایسی لگی گویا میں نے آپ کی کوئی خاصیت بیان کر ڈالی۔ میں نے ایک روشن خیال آدمی سے میراتھن پر بات کرتے ہوئے جو کچھ اس سے سنا وہی لکھ دیا۔ اس معزز ترقی یافتہ کا خیال تھا کے مجھے میراتھن سے کوئی غرض نہیں۔ مجھے تو ہلتی جلتی عورتیں دیکھنے کو ملیں گی۔ میں عورتوں کے بارے میں کبھی ایسی گھٹیا رائے قائم نہیں کر سکتا کیونکہ مجھے جنم بھی ایک عورت ےنے دیا تھا۔۔ معذرت لیکن پھر آف ٹاپک چلا گیا۔۔۔
ملا، بھائی تم تو خاصے جگت باز نکلے۔ میں تو تمہاری ملائیت ٹیسٹ کر رہا تھا۔ تم میں ملاؤں والی تمام خصوصیات موجود ہیں۔ 🙂 تم زیادہ غم نہ کرو، مجھے تم نے کوئی چوٹ نہیں لگائی۔ البتہ ایک نصیحت میں بھی تمہیں کرتا جاؤں، تم نتائج پر چھلانگ لگانے کی عادت چھوڑ دو تو شاید کوئی معقول بات کرنے کے لائق بھی ہو جاؤ گے۔
جناب ملا صاحب عورت اور مرد ہزاروں لاکھوں سالوں سے ایکدوسرے میں جنسی کشش محسوس کرتے اور ایکدوسرے کی طرف کھینچتے رہے ہیں۔ اگر انسانوں کو ایک دوسرے میں جنسی کشش محسوس ہوتی ہے تو یہ سراسر فطری اور نارمل بات ہے۔ چاہے یہ کتنی ہی غیراسلامی معلوم ہوتی ہے۔ اور چاہے آپ کی نظر میں یہ کتنی ہی بری ہو۔ مگر یہ ایسا ہے اور ایسا ہی رہے گا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس جنسی گھٹن نے آپ کا یہ حشر کردیا ہے ذرا غور سے اپنی پوسٹ پڑھیں تو پاکستان کے مروجہ اخلاقی ضابطوں کے حساب سے خود آپ کی تحریر فحش نگاری اور جنسی گھٹن کی عکاس ہے۔
بھائیو اور بہنو
کوشش کیا کرو کہ گفتگو اصل موضوع سے ہٹنے نہ پایا کرے۔ بات حسبہ بل سے شروع ہوئی اور سعودی، یورپ، کراچی، عورت اور مرد سے ہوتی ہوئی ابھی پتہ نہیں کہاں پر ختم ہوگی۔
ہمارا یقین ہے کہ قانون کوئی بھی برا نہیں ہوتا اگر اس پر عمل کرانے والے کی نیت ٹھیک ہو۔ اگر ہمارے حکمرانوں کی نیتیں ٹھیک ہوتیں تو موجودہ قوانین ہی کافی تھے۔ پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ ابھی تک حدود آرڈینینس کے تحت کسی کو سزا نہیں ہوئی، نہ ہی ملاوٹ کرنے والوں، جعلی دوائیں بنانے والوں اور ٹیکس چوروں کو جیل کی ہوا کھانا پڑی ہے۔ اس کی وجہ حکمرانوں کی خود غرضی اور لالچ ہے۔ اگر آج ہمیں نیک اور صالح حاکم مل جاۓ تو دیکھۓ گا سارا معاشرہ کیسے ٹھیک ہوتا ہے۔
حسب بل ہو یا حدود آرڈینینس سب کاغزی باتیں ہیں۔ یہ معاشرہ اس قدر بگڑ چکا ہے اسے ٹھیک کرنے کیلۓ بہت بڑے آپریشن کی ضرورت ہے اور اتنی طاقت ابھی کسی مائی کے لال میں نہیں ہے۔
بات یہی ٹھیک ہے کہ پہلے حسبہ بل کو غور سے پڑھا جاۓ اور پھر اس پر بحث کی جاۓ۔ میں گارنٹی سے کہ سکتا ہوں کہ حسبہ بل جیسا بھی ہے اگر اسے نیک نیتی سے لاگو کیا جاۓ گا تو سب کا بھلا ہی ہوگا وگرنہ بندر کے ہاتھ ماچس لگنے والی بات ہوگی۔
نبیل اور نعمان آپنے غور نہیں کیا کہ ہم نے سعودی حکومت کو ہرگز اسلامی حکومت نہیں کہا اسلامی حکومت تو نبی پاک اور خلفائے راشدین کے بعد رہی ہی نہیں جو رہی وہ نری آمریت تھی،ہم نے تو اسلامی قوانین کی بات کی تھی کے ان کا نفاذ زندگیوں کو سکون اور اطمنان مہیا کرتا ہے اگر خلوص نیت سے کیا جائے،جرائم یہاں بھی ہوتے ہیں لیکن ان کا ریشو کتنا کم ہے یہ تو آپ بھی جانتے ہوں گے،کام یا اچھا ہوتا ہے یا برا کرنے والا کون ہے اس سے اتنا فرق نھیں پڑتا،ہم لوگ نہ تو مولوی ہیں اور نہ ان کے چمچے ہم تو ادنا مسلمان ہیں جو اپنی حد تک صحیح مسلمان بننے کی کوشش کر تے ہیں،آپنے پاکستان اور سعودی عرب کے کلچر اور ماحول کے فرق کی بات کی ہے ہمارے خیال میں مسلمان کا صرف ایک کلچر ہے اور وہ ہے اسلام اور ہر کلچر جو اسلام سے متصادم ہو اسے باقی رکھنا کسی مسلمان کو گوارا نھیں ہو سکتا،
آپ لوگ ضرور سعودی عرب میں جو غلط ہے اس کے بارے میں لکھیں،
ہمارے ملک کے عوام اتنے بے ایمان نہیں جتنے قانون نافز کرنے والے ادارے بے ایمان ہیں،
رہی حسبہ بل کی بات تو سب جانتے ہیں کہ یہ ملاؤں کے مردہ گھوڑے کو زندہ کرنے کی ایک کوشش ہے لیکن ابھی تو ہمیں یہی پتہ نہیں کے تھیلے سے باہر کیا نکلنے والا ہے جب سارا معاملہ سامنے آجائے گا تبھی کھل کر بات ھو سکے گی،
میں پہلے بھی لکھ چکی ہوں کے اسلام دین وسط ہے لیکن لوگ اسے ایک انتہا سے دوسری انتہا کے طرف گھسیٹتے پھر رہے ھیں کبھی کٹھ ملائیت کی طرف تو کبھی روشن خیال اعتدال پسندی کی طرف ،جبکہ اسلامی قوانین نافز کرنے کام بھی اسلام کا صحیح فہم رکھنے والوں کے سپرد ہونا چاہیئے جس طرح آدھا پونا اسلام فائدہ مند نہیں بلکہ خطرناک ہے اسی طرح مادر پدر آزاد جمہوریت بھی انسانیت کے لیئے زہر قاتل ہے،ہمارا خیال ہے کہ ہم نے اپنا موقف خاصی حدتک واضح کردیا ہے،
جناب اجمل صاحب ہماری بات کی تائید کرنے کا شکریہ
افضل صاحب آپ صحیح کہ رہے ہیں بات کچھ موضوع سے ہٹ گئ ہے لیکن یہ تو بتائیے ایسا نیک اور صالح حاکم ملے گا کہاں سے اور اگر مل بھی گیا تو اسے کرپٹ اسٹیبلشمنٹ زندہ رہنے دے گی؟
ایک غلط فہمی جو رفع ہوجانی چاہئے وہ یہ ہے کہ حدود آرڈینینس کے تحت پاکستان میں کئی لوگوں نے اپنی ہی بہن بیٹیوں کا روایات سے بغاوت کے جرم میں جیلوں میں بند کرایا ہے۔ اسلئے اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ حدود پاکستان میں عملا نافذ نہیں تھی اور اس سے عورتوں کی آزادی کو کوئی فرق نہیں پڑتا تھا تو وہ اپنی غلط فہمی رفع کرلے۔
مہر، جرائم کم ہونے کا سہرا اسلامی قوانین کو نہیں دیا جاسکتا دیگر عوامل بھی دیکھیں۔ ایک ایسے ملک میں جس کی آبادی محض ڈھائی کروڑ ہو اور اس میں سے بھی چھپن لاکھ لوگ بیرون ملک سے آئے ہوئے روزگار کے متلاشی ہوں۔ جہاں تیل کی ندیاں بہہ رہی ہوں۔ جہاں صحافتی آزادی تقریبا ناپید ہے، معلومات کے ذرائع پر شہنشاہیت کا سخت کنٹرول ہے، جہاں معیشت اور معاشرت کے پر پہلو کو شہنشاہیت کنٹرول کرتی ہے وہاں جرائم کے کم ہونے کا سہرا اسلامی قوانین کو نہیں دیا جاسکتا۔
خواتین کے حقوق کے مقابلے میں بھی سعودی عرب کا ریکارڈ نہایت خراب ہے۔ وہاں نہ خواتین ووٹ دے سکتی ہیں۔ نہ زرق برق لباس پہن سکتی ہیں۔ خواتین پر تشدد وہاں کوئی بڑی بات نہیں سمجھی جاتی۔ انہیں ہسپتالوں، اسکولوں میں تو امتیاز کا سامنا ہے ہی عملی زندگی میں بھی انہیں آگے آنے کی ہرگز اجازت نہیں۔ اگر یہ قوانین آپ کو اطمینان بخش معلوم ہوتے ہیں تو بتاتا چلوں کہ باقی دنیا انہیں انسانیت سوز قرار دیتی ہے۔
اب اصل موضوع کی طرف۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے اگر بے ایمان ہیں تو اس کا مطلب ہے نئے ادارے تشکیل دے کر ان میں ملا بھرتی کئے جائیں اور پھر ان ملاؤں کو مکمل اختیار دے کر مسلمانوں پر اسلام کے نفاذ کا ٹھیکا دے دیا جائے تاکہ مزید کرپشن کی راہ ہموار ہوسکے؟
اور یہ مادر پدر آزاد جمہوریت کیا ہوتی ہے؟
meher afshan: "aurat jab bayhijaab nikalti hai to apnay sath honay wali zyadti mein wo bhi utni hi qusoorwar hoti hai jitna mard”
aik aurat se aisi bat sun ker afsos to hua laikin zyada hairat naheen. is ke baray mein buhat kuch likha ja chuka hai kyoonkay aisay khayalat dunya bhar mein paaey jatay hain. here’s something that i think sums up the reasons behind such attitudes pretty well:
"Why do people assign blame to apparently innocent [rape] victims for their injuries? One explanation–one that applies well beyond the crime of rape–is that we want to believe that the world is just, i.e. that innocent persons–like ourselves–will not be victimized. Therefore, we rationalize that victims are partially responsible for their own fate.”
Melvin J. Harper, The Desire for Justice and Reactions to Victims in Altruism and Helping Behavior 205 (J. Macaulay & L. Berkowitz eds. 1970).
khair, ye behes buhat lambi khinch sakti hai. shukriya noumaan, finally aap ne wo bat likh di jo meray khayal mein hasba bill ke baray mein poori behes ka khulassa hona chahiye: "islam dil mein hona chahiye.” danday ke zor pe nafiz kiya janay wala islam kisi ko behtar musalman naheen bana sakta, balkay is se log islam se mutannafir hotay hain. mujhay abhee is bill ke baray mein zyada ilm naheen is liye aur kuchh zyada naheen keh sakti.
نعمان ہمارے خیال میں تو عام طور پر دولت کی زیادتی جرائم میں اضافہ کا سبب سمجھی جاتی ہے،
ہاں لوگوں کا کم ہونا ایک وجہ ہو سکتی ہے لیکن آپ یہ بھی تو دیکھیں جہاں پوری دنیا سے ہر طرح کے لوگ آتے ہوں وہاں قانون کی پابندی کروانا کتنا مشکل کام ہوتا ہے،
اور آپ سے یہ کس نے کہا کہ وہاں خواتین زرق برق لباس نہیں پہن سکتیں ایسا بلکل نہیں ہے یہاں کی خواتین تو ایساے زرق برق لباس پہنتی ہیں کہ آپ یا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے ہاں یہ دوسری بات ہے کے انہیں پہن کر سٹکوں پر نمائش نہیں کر سکتیں،
خواتین پر تشدد تو پوری دنیا میں عام ہے اس کے لیئے مردوں کے عمومی رویہ کو بدلنے کی ضرورت ہے جب مرد عورت کو اپنا غلام یا دست نگر یا اپنے سے کمزور یا صرف اپنے استعمال کی چیز سمجھنا چھوٹ کر اپنے جیسا انسان سمجھنے لگیں گے،
قرآن میں دیئے ایک حکم کو مردوں نے اپنے ہاتھ کی لاٹھی بنا لیا ہے ہر باقی قرآن اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی جو عورت کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیتی ہےاسے اٹھا کر طاق پر رکھ دیا ہے اس میں قصور اسلامی تعلیمات کا نہیں انسانی سمجھ کا ہے اپنے نفس کو خدا بنا لینے کا ہے،
آپ سکولوں اور ہسپتالوں میں امتیاز کی بات کرتے ہں تو بھائ میرے یہ تو ہم خواتین کے لیئے موجب اطمنان ہے کے ہم ان جگہوں پر اطمنان اور سکون سے ہوتے ہیں ہمیں کسی مرد کے ڈومینیٹ کرنے کا خوف نہیں ہوتا،
اب سوال ہے ملازمتوں کا تو جن کے گھروں میں دولت کی ریل پیل ہے ان ملازمت کی بھلا کیا ضرورت،
ہم نے ایسا بلکل نہیں کہاکے قانون نافز کرنے والے ادارے بےایمان ہیں تو ملا بھرتی کرلیں اصل مسلہ ہے اسلام کو سمجھنا ہر اس پر عمل کرنا یعنی اسلامی قوانین بمع اسلامی تعلیمات آپ مانیں یا نہ مانیں انسانیت کی بقا صرف اور صرف اسلام میں ہے،
مادر پدر آزاد جمہوریت وہی ہے جو مغربی اقوام نے اپنے یہاں نافز کی ہوئ ہے اور اس کے نتائج بھی بھگت رہے ہیں،
سعودی عرب میں اگر واقعی کسی کے ساتھ ظلم ہورہا ہے تو وہ ہیں باہر سے آئے مزدور اور صفائ وغیرہ پر معمور بنگالی لیکن پھر بھی لوگ جوق در جوق چلے آتے ہیں کیوں؟کیوں کہ ان کے اپنے ملک کے حالات اس سے بھی خراب ہیں انھیں وہاں اس سے بھی بد ترین حالات کا سامنا ہوتا ہے،
منزہ آپ میری بات سمجھ نہ پائیں یا میں سمجھا نہ سکی،اللہ سب کو برے وقت سے محفوظ رکھے آمین،
یہ تو سچ ہے کے انسان جب جانور بنتا ہے تو پردہ یا بے پردہ کچھ نہیں دیکھتا لیکن پیاری بہن اگر ہم اللہ کے احکامات پر عمل پیرا ہوں تو وہ بہرحال ہمارا حامی اور مدد گار ہوتا ہے لیکن جب ہم اس کی دی ہوئ حدود کو توٹتے ہیں چاہے اس کی وجہ کچھ ہھ ہماری لاعلمی یا کوئ مجبوری یا ہماری غریبی یا کمزوری تو اس وقت ہم خود اپنے آپ کو بھڑیوں کےآگے پیش کر دعتے ہیں،گو کہ اوپر دی گئ وجوہات میں سے کوئ بھی بے حجابی کے لیئے جواز نھیں ہیں،
آخری بات اسلام ڈنڈے کے زور پر نافز بھی نہیں کیا جاسکتا،اسلام دین فطرت ہے اور وہ خود ان فطرتوں میں جزب ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے جو اس کی طرف میلان رکھتے ہیں،جزاک اللہ خیر،
کچھ الفاظ غلط لکھے گئے ہیں اس کی وجہ ہمارے کمپیوٹر پر الفاظ کا واضح نہ ہونا ہے جن میں سڑکوں،چھوڑ توڑتے،بھیڑیوں اور دیتے شامل ہیں ان سے تحریر کا مفہوم سمجھنے میں مشکل نہ ہو اس لیئے وضاحت مناسب سمجھی،شکریہ
مہر میں نے یہ ہرگز نہیں کہا کہ سعودی عوام کے پاس دولت کی ریل پیل ہے۔ دولت پر سعودی شہنشاہیت کا قبضہ ہے اور درحقیقت سعودی عوام اتنے امیر نہیں جتنا کہ انہیں ہونا چاہئے تھا۔ ملک کی چودی فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ ملک میں افراط زر کی صورتحال بھی کچھ اچھی نہیں۔ دیکھیں یہ ربط۔
حجاب اور طالبانائزڈ برقعے میں زمین اور آسمان کا فرق ہے۔
ملازمتوں کی ضرورت انسانوں کو صرف خوراک کے لئے نہیں ہوتی۔ انسان اپنی صلاحیتوں کے اظہار کے لئے بھی ملازمتیں اور کام حاصل کرتا ہے۔
مادر پدر آزاد جمہوریت کو آپ ابھی بھی بیان نہیں کرسکی ہیں۔ اگر اس کا مطلب عورتوں کو ساحل سمندر پر بکنی پہننے کی آزادی ہے۔ تو آپ خود بتائیں کہ کتنی پاکستانی خواتین ایسا کرنا چاہیں گی؟ یہ ہمارے ملک کا کلچر نہیں۔ اس لئے آپ کا یہ خوف کہ مادر پدر آزاد جمہوریت تباہ کن ہوگی غلط فہمی پر مبنی ہے۔ دوسرا یہ کہ اسی جمہوریت کے مغرب کو جو بیش بہا فوائد حاصل ہوئے ہیں کبھی ان پر بھی غور کریں۔
گاڈ
میں نام نہیں لوں گا مگر ایسا لب و لہچہ آپکو زیب نہیںدیتا۔ دوسرے صاحب نے بھی حسب توقع جواب دیا ہے کیا تھا جانے دیتے۔
ہمیں ڈاییلاگ کرنا بلکل نہیں آتا۔ اکثر لوگ میری طرح بات کرنا شروع کر دیتے ہیں۔
its kinda shockin
نعمان ہم نے آپ کا دیا ہواربط پڑھا اب اگر ہم یہ کہیں کہ لکھنے والا ایک یورپین ہے تو آپ کہیں گے کہ یہ تو تعصب ہے،
آپ نے چودہ فیصد عوام کے خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے کی بات کی ہے،یہاں سعودیوں کے لیئے تعلیم اس حد تک مفت ہے کے کتابیں ٹرانسپورٹ اور دوپہر کا لنچ تک حکومت مہیا کرتی ہے،یہاں علاج مفت ہے اس حد تک کہ ہر بیماری کاماہر اور جتنا دوا علاج کاخرچ ہے حکومت کے زمہ ہے بمع ہسپتال میں داخل رہنے اور اس دوران عمدہ کھانے پینے سمیت گورنمینٹ ہسپتالوں کا اسٹینڈرڈ کسی بھی طرح یورپین ممالک سے کم نہیں،
کھانے پینے کی چیزیں سستی اور خالص اس وقت پاکستان میں جو چیزیں روپوں میں مہنگی ہیں وہھ ریالوں میں بھی سستی پڑ رھی ہیں ہم جیسوں کو بھی جو ہر چیز کو روپے میں کنورٹ کرناے کاے عادی ہوتے ہیں،
اور حکومت سے وظائف الگ ملتے ہیں،غریب لوگوں کو گھر حکومت بنوا کر دیتی ہے،اب سوال یہ ہے کہ ان کا خرچا کیا ہے؟ہمارے میاں صاحب کے انڈر میں کام کرنے والا سعودی ان سے دوگنی تنخواہ لیتا ہے اور مہینے کے آخر میں ان سے ادھار مانگتا ہے جب وہ پوچھتے ہیں بھائ تمھاری تنخواہ مجھ سے اچھی ہے پھر تمھیں ادھار کیوں مانگنا پڑتا ہے تو وہ بتاتا ہے ہمارے یہاں جب بھی کوئ رشتہ دار آئے ہمیں لازمی بکرا کاٹنا ہوتا ہے،یا 4 لوگ کہیں اکھٹا ہو جائیں تو لازمی تھال منگوائیں گے اس تھال میں 3،4 سیر چاول بمع آدھا بکرا ڈھیروں میوہ اور نہ جانے کیاکیا،آرام سے 6،7 سو کا خرچ اور کھاہیں گے کتنا اس کا چوتھائ بھی نہیں باقی کوڑے دان میں یہ انکا حال جو یہاں لوئر مڈل کلاس کہلاتے ہیں، اب جن کو آپ خط غربت سے نیچے سمجھتے ہیں اگر کوئ ہیں تو بس وہی غیر ملکی جن کا میں پہلےزکر کرچکی ہوں لیکن وہ بھی یہاں اپنے ملک سے اچھا کھاتے ہر پہنتے ہیں،
افراط زر میں واقعی اضافہ ہوا ہے اور وہ بھی ورلڈ ٹرعڈ سینٹر کے بعدکہ اس کا سارا ملبہ امیریکا نے ان پر ہی گراےا ہے،اور پھر پٹرول بھی نکلتا تو یہاں ہے لیکن اس کی قیمتوں پر کنٹرول امریکا کاہی ہے،
آپنے لکھا اپنی صلاحیتوں کے اظہار کے لیئے بھی انسان ملازمت حاصل کرتا ہے،چونکہ بات ہیاں عورت اور مسلمان عورت کی ہو رہی ہے،ہمارے نزدیک ایک مسلمان عورت کی صلاحیت کا اظہار اس کے بچے ہوتے ہیں کہ اس نے اپنے بچوں کو کتنا اچھا انسان اور مسلمان بنایا،جو عورت اس ٹاسک میں فیل ہوگئ وہ دنیا اور آخرت دونوں میں فیل ہوگئ خواہ وہ کتنی ہی باصلاحیت ہو،
مادر پدر آزاد جمہوریت کیاہے؟
موجودہ جمہوریتیں چونکہ بادشاہی ظلم و ستم کے ردعمل میں وجود میں آئیں تو ان میں یہ بےاعتدالی نمایاں رہی کے عوام کو مطلق العان بنا کرپورے آئین اورقانون حکومت کا ایسا آزاد مالک بنایاکہ ان کے دل و دماغ سے زمین وآسمان اور تمام انسانوں کے پیدا کرنے والے خالق اور مالک کی ملکیت اور حاکمیت کا تصور ہی نکال پھینکا،اب انکی جمہوریت اللہ ہی کے بخشے ہوئے عوامی اختیار پر اللہ کی عائد کردہ پابندیوں کو بھی خلاف انصاف تصور کرنے لگیں،
اسی لیئے اسلام میں حکومت کاطریقہ یہ بتایا گیاکہ ملک کے حاکم ہوں یاعوام سب اللہ کے دیئے قانون کے پابند ہیں،اور ان پر لازم ہے کہ وہ اپنے حکمراں ایسے شخص کو منتخب کریں جو علم تقوی،دیانت،امانت،صلاحیت اور سیاسی تجربہ میں سب سے بہتر ہو اور پھر اس امیر کو مطلق العان نہیں چھوڑا گیا بلکہ اسے اہل رائے سے مشورہ لینے کا پابند بنایا گیا اور اگر امیر اہل لوگوں سے مشورہ لینا چھوڑ دے تو اس کا حکومت سے ہٹادینا بھی عوام کی زمھ داری ہے،
اب آپ لوگ سمجھ گئے ہوں گے کہ ہم ووٹ کیوں نہیں دیتے،اور کیوں اللہ فرماتاہے کہ تم جیسے ہو گے تم پر حاکم بھی ویسے ہی مسلط کیئے جائیں گے،
آخری بات آپ یہ سمجھتے ہیں کہ اس جمہورےت سے انہیں بیش بہا فوائد حاصل ہوئے اگر میں آپ سے کہوں کہ یہ صرف نظر کا دھوکا ہے تو آپ مانیں گے،آپ فوائد گنواتے جائیے ہم اس کے نقصان بتاتے جاتے ہیں،
اور پھر یہ جمہوریت انھوں نے لی کہاں سے اسلام ھی سے تو اخز کی مگر آدھی پونی اور اس کے نقصانات بھی اٹھا رہے ہیں،
تمیز دار بھائی، مجھے کچھ سمجھ آ رہی ہے کہ تمہارا روئے سخن کس جانب ہے۔ ویسے بھی میں اس موضوع پر اور کچھ نہیں کہنا چاہتا۔
آف ٹاپک: نعمان تم پلیز نام والے ایڈٹ باکس میں بھی ویب پیڈ شامل کر لو۔
سیدہ مھر افشاں کیلئے میری دعا ھے کہ اللہ کرے زور×قلم اور زیادہ ۔ اتفاق کی بات مجھے آج ہی امریکہ سے ایک ای میل ملی ہے ایک پچاس سالہ خالص امریکن عورت سے جو مسلمان نہیں اور چرچ سے بہی متنفر ہو چکی ہے ۔ میں نے اپنے ملک میں عورت کے ساتہ ظلم کا تذکرہ کیا تھا ۔ اسی میل کا انسانیت کی علمبردار دنیا سے متعلق حصہ ملاحظہ کیجئے
I worry for women in Pakistan. It is not easy to be a woman in the first place…. Here, though, it is 100 times worse. Women are victimized in ways here that would shock the rest of the world. There exists two kinds of law. It is Babylonian Law. The Law only exists for the very wealthy. For the poor, there is no justice…….there is only corruption. The poor are the slaves to the wealthy in this country. And the wealthy must keep their slaves in order, so that the slaves may serve them better.
اب روشن خیالی کی ایک مثال ۔ شیری رحمان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا سیلیکٹ کمیٹی کے اجلاس میں بھی سرکاری جماعت پاکستان مسلم لیگ مرد اور عورت کے درمیان رضا مندی سے جنسی تعلق کے بارے میں ایک شق لانا چاہتی تھی لیکن اس وقت پیپلز پارٹی نے اسے مسودہ قانون میں شامل نہیں ہونے دیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ سرکاری جماعت جو ترمیم لارہی تھی اس میں ’زنا بالرضا‘ کو تعزیر میں لایا جا رہا تھا، جس سے اس کے غلط استعمال کا خدشہ موجود تھا۔
شیری رحمان نے کے کہا کہ پیپلز پارٹی نے جو ترامیم پیش کیں ان کے تحت رضا مندی سے کیے گئے جنسی فعل پر مقدمہ میں استغاثہ کے لیے دو گواہ پیش کرنے کی شرط کے ساتھ ساتھ یہ بھی تجویز کیا گیا ہے کہ ملزم کی شخصی ضمانت پر رہائی بھی ممکن ہو۔
ربط
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/story/2006/11/061115_hadood_sherry_ns.shtml
تو جناب وفاقی حکومت کس اسلام کے مطابق قانون سازی کر رہی ہے جو آپ کو حسبہ بل نے اتنا تڑپا ديا ہے ۔ ابھی پتہ تو چلے کہ کيا منظور کيا گيا ہے اور يہ ايم ايم اے والے اس نافذ کس طرح کرتے ہيں
مہر بی بی چاہے آپ لاکھ دلائل دیں۔ بات پھر وہی ہے کہ سعودی عرب اور پاکستان میں بہت فرق ہے۔ جغرافیائی، سماجی، ماحولیاتی، معاشی، فرقہ وارانہ تضاد وغیرہ۔
اس بات کا فیصلہ کون کرے گا کہ اللہ کا قانون کیا ہے؟ اور اس میں اختلاف کیونکر نہ ہوگا، اگر اختلاف ہوگا تو آپ اور اجمل ایسے لوگ بحث نہیں کرنے دیں گے۔ کہ اللہ کے قانون کو للکارتے ہو بے عقلوں۔ تو پھر یہ بتائیں اسطرح درحقیقت عوام پر کون حکومت کررہا ہوگا؟ اللہ کا قانون؟ یا علماء کا قانون؟ اس میں عوام کہاں ہیں۔ یعنی قانون اللہ اور علماء کے بیچ طے ہونگے اور سیدھے سادھے دیہاتیوں کو مائنڈ یور کھیتی باڑی تک محدود رکھا جائے گا؟ یہ ایک بالکل الگ بحث ہے جسے اجمل اور میں نے آئندہ دنوں کے لئیے اٹھا رکھا ہے اس پر تب الگ سے بات کریں گے۔
اجمل ہم یہاں حسبہ بل پر بات کررہے ہیں۔ اس بات پر کئی علماء (سیکولر مولوی جاوید غامدی ایسے بھی) متفق ہیں کہ حدود کا موجودہ ترمیمی بل اسلامی نہیں۔ اور حقیقت یہ ہے کہ حسبہ بل کی پچھلی اور موجودہ دونوں شکلوں پر بھی بہت سے علماء کرام معترض ہیں کہ یہ قوانین حقوق اور شہری آزادیوں کے خلاف ہیں اور اس کا اسلام سے دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں۔ مخلملی تھیلی میں پھول نہیں کانٹے بھرے ہیں۔
نبیل نام کے قطعے میں بھی ویب پیڈ شامل کرونگا۔
سلام مسنون
بڑی دلچسپ بحث ہے!
لیکن میری احباب سے گزارش ہے کہ اپنے لب ولحجہ کو ذرا دھیما رکھیں اور اخلاقیات کو ہاتھ سے نہ جانے دیں کیونکہ معلم اخلاق صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کی تعمیر اخلاقیات کے لیے جو کتاب ہدایت لے کر آئے اس کا سنہری اصول یہی ہے کہ:
قـــــولوا للناس حســــنا
لوگوں کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آئو
میں دیکھ رہا ہوں کہ یہاں لوگوں کے لہجے تند سےے تند اور تیز سے تیز ہوتے چلے جا رہے ہیں
بات دراصل تربیت کی ہے
اگر لوگوں کی تربیت ایسے خطوط پر کر دی جائے کہ وہ خود اپنا محاسبہ کریں اور اپنے اوپر خود ایک نظام اخلاق کا نفاذ کریں تو اصلاح ممکن ہے
ایک چھوٹی سی مثال پیش کرتا ہوں:
دور رسالت میں ایک خاتون حاضر دربار ہو کر عرض کرتی ہے
حضور مجھ سے گناہ سرزد ہو گیا مجھے پاک کر دیجیے
رحمت عالم اس کی پردہ پوشی کرتے ہوئے اسے گناہ کی نوعیت کھل کر بیان کرنے سے روکتے ہیں اور موقع دیتے ہیں کہ وہ چلی جائے لیکن
وہ عورت مصر ہے کہ مجھ سے گناہ ہو گییا ہے مجھے پاک کیا جائے اور بہ اصرار اپنا گناہ بیان کرتی ہے کہ میں زنا کی مرتکب ہو گئی ہوں اور اس کے نتیجہ میں حاملہ بھی ہوں
رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم اسے حکم دیتے ہیں کہ جائو اور وضع حمل کا انتظار کروۘـ
وہ عورت بچہ کی پیدائش کے بعد پھر آجاتی ہے اور اپنے پاک کیے جانے پر اصرار کرتی ہے
رحمت عالم اسے ایک اور موقع دیتے ہیں
حکم ہوتا ہے جائو اور بچہ کو دودھ پلائو اور اسکی دودھ پلائی کی مدت پوری کرو
وہ عورت دوسال بعد پھر آجاتی ہے ایسے عالم میں کہ اس کے بچہ کے ہاتھ میں نان کا ایک ٹکڑا ہے اور وہ اسے چبا رہا ہے عورت کہتی ہے اب اس نے دودھ پی لیا اور میں پاک ہونے کے لیے حاضر ہو گئی
ناچار رحمت عالم صحابہ کو طلب کرتے ہیں اور پوچھتے ہیں
تم میں سے کون اس بچے کی کفالت کا ذمہ اٹھاتا ہے
ایک صحابی نے ذمہ لے لیا
رحمت عالم نے ناچار حد جاری کی اور رجم کا حکم دی دیا
رجم کرتے ہوئے خالد بن ولید بہت جوشیلے انداز میں آگے بڑے اور ایک پتھر عورت کے سر پر کھینچ ماراۘ
عورت کے سر سے لہو کا فوارا جاری ہوا اور خالد کے کپڑے رنگین ہو گئے
خالد نے اپنے ککپڑوں کو آلودہ دیکھا تو غصے میں آگئے اور عورت کو گالی دی
رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر غضب کے آثار نمایاں ہوئے
خالد کو انتہائی سخت لہجے میں ڈپٹ دیا
خبردار اس عورت کو گالی نہ دینا
یہ بڑی عظیم ہے
اس نے جو عمل کیا ہے اس کی مثال کہیں نہیں ملتی
گناہ کے بعد احساس گناہ اور احساس گناہ کے بعد اس سے پاک ہونے کے لیے اتنی بڑی قربانی
مدتوں کی عبادت سے افضل ہے
ـــــــــــــ
میرا خیال ہے کہ اسلام ایسی تربیت کرنا چاہتا ہے
اسلام
اگر سخت سزائیں دیتا ہے تو اس کے لیے جرم کی پردہ پوشی کو بھی اہمیت دیتا ہے
اللہ اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ کسی کے چھپے ہوئے عیب کو ظاہر کیا جائے
لیکن ہمارا معاشرہ تو روزن در سے جھانکنے اور تجسس کی لعنت میں مبتلا ہے
ایسے معاشرہ میں قوانین کے نفاذ سے کیا اصلاح ہو سکتی ہے
حسب بل
بس ایسے ہے مخصوص طبقہ کو اقتدار اور اختیار میں لانے کے لیے بطور زینہ استعمال ہوگا اور ایک خاص مکتہ کے لوگوں کو با اختیار ملازمتیں مل جائیں گی
جو لوگوں کی نجی زندگیوں میں تجسس کے ذریعہ دخل اندازی کرتے رہیں گے اور لوگوں کی بیویاں طلاق ہوتی رہیں گی
اللہ ہماری قوم کو ہدایت دے آمین
شاکرالقادری میں بھی آپ کے اسی موقف کا حامی ہوں کہ حسبہ بل ایک مخصوص طبقے کو اقتدار اور اختیار میں لانے کے مقصد سے تیار کیا گیا ہے۔ میرے خیال میں یہ سراسر لوگوں کے مذہبی جذبات سے کھیلنا ہے کہ ان کے مذہبی عقائد میں لپیٹ کر انہی پر ظلم کی راہ ہموار کی جائے۔ مجھے اس بات کی اتنی فکر نہیں کہ اس قانون سے اقلیتی مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ کیسا سلوک ہوگا۔ کیونکہ میرا یہ خیال ہے اس کے سب سے زیادہ مضمرات مسلمان ہی بھگتیں گے۔
السلام علیکم!
آپ سب کے خیالات اپنی جگہ ٹھیک ہیں۔ شاکر بھائی کی بات سے اتفاق کروں گا کہ تہذیب کے دائرے سے نہ نکلا جائے۔ میری رائے:
ہمیں ایسے بلوں کا کوئی فائدہ یا نقصان نہیں کیونکہ کسی قانون پر عمل درآمد ہونے سے تو رہا۔ نعمان بھائی آپ نے جمبہوریت کی جس دیوار کی بات کی ہے وہ تو پہلے ہی گر چکی ہے، جس میں سے ہر کوئی اپنی مرضی کی اینٹ نکال کر اُسے جمبہوریت کہہ رہا ہے۔ جس ملک کے صدر سے لیکر ایم پی اے تک غیر جمبہوری انداز میں آئے ہوں وہاں جمبہوریت کو کون پوچھتاہے؟ خاطر جمع رکھیے۔۔۔اس بل کی منظوری سے سرحد میں کوئی اسلامی نظام نہیں آنے والا اور طالبانائزیشن کی ہم خواہش ہی کر سکتے ہیں ۔۔خواہش اسلئے کہ طالبان جو بھی تھے کم از کم ہمارے حکمرانوں سے بہت بہتر تھے۔چاہے وہ ایم ایم اے ہو یا مسلم لیگ ق،ن،م ،ہ وغیرہ۔ ایک اور مفروضہ جو میرے دماغ میں ہے وہ یہ کہ یہ الیکشن سے پہلے عوام میں اعتماد کی بحالی کی کوشش بھی ہوسکتی ہے۔
ویسے ایک بات پر مجھے حیرت ضرور ہوئی۔ سرحد میں اس پر اتنی بحث نہیں ہورہی جتنی ملک کے دوسرے حصوں میں۔۔۔شاید ہمیں پہلے ہی معلوم ہے کہ یہ اونٹ کسی کروٹ بیٹھے گا۔
جناب اجمل صاحب زور عمل کی دعا دیجیئے کہ اللہ کرے زور عمل اور زیادہ بقول علامہ
اقبال بڑا اپدیشک ہے من باتوں میں موہ لیتا ہے
گفتار کا یہ غازی تو بنا،کردار کا غازی بن نہ سکا،
نعمان یہ تو سراسر زیادتی ہے ہم نے آپکو بحث کرنے سے کب منع کیا،آپ نے اپنے خیالات کا اظہار کیا اور ہم نے اپنے،
اسلام کسی مخصوص علاقے یا مخصوص طبقہ فکر کے لیئے نہیں آیا تھا یہ تو سارے عالم انسانیت کے لیئے ہے اور جو جتنا اس پر عمل کرے گا اس کے فوائد حاصل کرے گا دنیاوی بھی اور آخروی بھی،
اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے معاملات ملا ہر علماءکے بجائے ہمارے ہاتھ میں ہوں تو جو وقت ہم گانے سننے اور فلمیں دیکھنے میں گزارتے ہیں اس کا آدھا اپنے دین کو پڑھنے اور سمجھنے کو دیں تو ملا خود بخود بیچ میں سے ہٹ جائے گا،اللہ تعالی فرماتے ہیں ہم نے قرآن کو سمجھنے کے لیئے آسان کیا ہے، تو کوئ ہے جو اسے سمجھے؟
قرآن اور حدیث کو سمجھنے کے لیئے بہت زیادہ عالم فاضل ہونا ضروری ہیں ہے پیغمبر نادانوں کو راہ بتانے جاہلوں کو سمجھانے اور بے علموں کو سکھانے کے لیئے ہی آئے تھے،سورہ جمعہ میں ارشادہوتا ہے”اس نے ناخواندوں(بے پڑھے لکھوں)میں انہی میں سے ایک ڑسول بھیجا جو انہیں پاک کرتا ہے اور کتاب و ھکمت کی تعلیم دیتا ہے،ےقینن وہ پہلے کھلی گمراہی میں تھے”
چنانچہ جو یہ کہتا ہے کے قرآن کو سمجھنا اور اس پر عمل کرنا بڑے عالموں اور بزرگوں کا کام ہے اس نے اس آےت کو ٹھکرایا اور رب جلیل کی اس نعمت کی ناشکری کی،
یہودیت اور عیسائیت کے خراب ہونے کی دیگر وجوہات میں سے ایک بنیادی وجہ یہ بھی تھی کے لوگوں نے خود دین کا علم سیکھنا چھوڑ دیا تھا اور جو ان کے پادری اور ربی کہتے تھے اس پر آنکھ بند کرکے ایمان لے آتے تھے،اسلام پر تو یہ اللہ کی خاص عنایت ہے کے اس نے اس کی حفاضت کا زمہ خود لیا ہے اور اسی لیئے یہ مزہب آج بھی اپنی اصل حالت میں موجود ہے اسے مٹانے کی کوششیں کرنے والے مٹ گئے،
جناب شاکرالقادری صاحب نے سچ کھا ہے اور ہم بھی اس خدشہ کا شکار ہیں،کیوں نعمان اب تو آپ کو یقین آگیا کہ ہم کٹھ ملائیت کے خلاف ہیں:)
ہاں ایک اور بات آپکو بتائیں یہاں آمدنی پر کوئ ٹیکس نہیں جو جتنا کمائے وہ اس کا ہے سوائے اسلامی ٹیکسوں کے یعنی زکوات وغیرہ اور وہ بھی اس کی مرضی پر منحصر ہے کہ جیسے چاہے اور جس کو چاہے دے،
غلطیوں کی تصحیح،رسول،حکمت، یقینن،آیت،
ہم میں سے اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ اسلام میں ملائیت نہیں۔ تو پھر ملائیت کو بااختیار بنا کر ہم ویسا ہی تو نہیں کر رہے جیسا رومن کیتھولک چرچ نے یورپ کے ساتھ کیا تھا؟
ڈیئر نعمان، معافی چاہتا ہوں تمہاری پوسٹ کے تبصروں میں میری پوسٹ آگئی ـ دراصل میں نے تمہاری اس پوسٹ کا لنک اپنی پوسٹ میں لیا ہے ـ
برائے مہربانی آپ یہاں سے میری پوسٹ کو ڈیلیٹ کردیں
شکریہ
شعیب
یارو کوئی بنده اس بل کی تفصیل بهی لکهو آخر اس کی کوئی سمجھ تو لگے ـ
آپ سب لوگوں کی مثال تو اس طرح هے ـ
نه سوتر نه کپاه
تے
جولاهے نال ڈانگو ڈانگی
شعیب اب آپ اتنے بھولے بھی نہیں ہیں،
بلا وجہ کی چھیڑ چھاڑ کوئ اچھی بات نہیں،
آپ ملا کو فسادی کہ رہے ہیں اور کام خود فساد والے کر رہے ہیں کیوں؟
yeh hargiz chede chad nahi
wordpress ke blogs me agar aap apni post me kisi dosri post ko link dete hain to yeh post us post ke comments me aajati hai
yakeen na aaye to naumaan ya phir kisi se pooch ke tasalli kerlen
meri niyat saaf hai
isi liye yahan doosra ab MAHER ke jawab me doosra tabsirra kiya
چلیں آپ کی بات پر یقین کر لیا:)
اور دلوں کا حال تو صرف اللہ ہی جانتا ہے،
شعیب مجھے آپ کے ٹریک بیک پر کوئی اعتراض نہیں۔