بی بی سی کی سیریز بات تو کرنی پڑے گی ان دنوں شوق و ذوق سے پڑھی جارہی ہے۔ اس سیریز میں پاکستانی عوام کے جنسی مسائل کو کہانیوں کی صورت بیان کیا گیا ہے۔ جس سے عوامی زندگی کے ایک اندھیرے اور مایوس کن پہلو پر روشنی پڑتی ہے۔ گھٹن اور اندھیرا اس سے کہیں زیادہ ہے کہ جتنا اس سیریز میں بیان کردہ کہانیاں پڑھ کر معلوم ہوتا ہے۔ وہ لوگ جو اسے فحاشی سمجھتے ہیں وہ بھی اس سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اس پر یقینا انہیں اعتراضات ہیں، مگر وہ ان اعتراضات پر بھی بات کرنا پسند نہیں کرتے۔ چاہے کوئی کتنا ہی اصرار کرے کہ جناب بات تو کرنا ہوگی۔
جنسی مسائل کے حوالے سے پاکستانی خواتین تو مظلوم ہیں ہی لیکن مرد بھی اس گھٹن کا شکار ہیں۔ انسانی سوچ پر تو کوئی پابندی نہیں لگا سکتا۔ مگر لوگوں کی بات کرنے کی اہلیت، اظہار کی طاقت، معلومات کا حصول اور تجربات کا تبادلہ، معاشرتی اقدار نے اس طرح دبادیا ہے کہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ پاکستانی عوام کی کوئی جنسی خواہشات، احساسات یا جذبات ہی نہیں۔
اوپر سے فحاشی کے قوانین، حدود کے قوانین، اسکولوں کالجوں میں انتہا پسندوں کے ہاتھوں طلباء کو ہراساں کرنا اور خاندانی اقدار۔ پاکستانی مرد اور عورتوں کے ذہن میں پتہ نہیں کیسی کیسی جنسی پیچیدگیاں ہیں جن کا نہ کسی کو ادراک ہے کسی کو درد۔ ان کو حل کرنے کا مسئلہ تو تب آئے گا جب لوگ بات کرنے کو تیار ہونگے۔ مگر لوگ بات کیسے کریں گے؟ کیا ظالم سماج لوگوں کو بات کرنے دے گا؟ اس سے خواتین کی حیا اور عصمت پر کیا کیچڑ اچھلے گی اور مرد کس طرح معاشرے کے سامنے یہ اقرار کرپائیں گے کہ انہی جنسی مسائل کا سامنا ہے؟ نام بدل کر، کسی غیر ملکی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دینے سے بات کا صرف ایک رخ سامنے آتا ہے، گھٹن کا۔ اس کا دوسرا رخ کہ گھٹن کو کیسے دور کیا جائے پر بھی بات کرنی پڑے گی۔
پھر معاشرے کا ایک بڑا حصہ اس بات کا حامی ہے کہ ان مسئلوں پر بات کرنے کی ضرورت ہی کوئی نہیں ہے۔ ان کے نزدیک یہ فحاشی عام کرنے ہتھکنڈے ہیں جو پاکستان کے اسلامی تشخص کو تباہ کرنے کے لئے آزمائے جارہے ہیں۔ لیکن کیا اسلامی تشخص رکھنے والے انسانوں کی کوئی جنسی زندگی نہیں ہوتی؟
نوٹ: یہ تبصرہ دیگر قارئین کی دلآزاری کے سبب مٹادیا گیا ہے۔
موضوع اچہا ھے امید ھے سب لوگ تھزیب کے دائرے میں رھ کر بحث میں حصھ لیں گے۔ ثاقب صاحب کی طرح غصے میں نھیںآئیں گے۔
اچہا ھوتا اگر نعمان صاحب پھلے اپنے خیالات کا تفصیل سے ذکر کردیتے یعنی وھ کیا چاھتے ھیں اور جو وھ چاھتے ھیں وھ کیسے حاصل کیا جاسکتا ھے۔
میرا نہیں خیال کہ یہ کہانیاں اپنے موضوع سے میل کھاتی ہیں۔ موضوع جنسی مسائل ہیں اور کہانیاں یا تو چیٹنگ کے متعلق ہیں یہ بچہ روزنوں سے کیا دیکھتا ہے یا یہ کہ لاہور میں انڈرگراؤنڈ پارٹیز میں کیا ہوتا ہے۔ میرے خیال میں صرف ایک کہانی ہی موضوع کے اعتبار سے درست ہے جِس میں شوہر نے اپنی بیوی کے متعلق بات کی ہے کہ اُسے میاں بیوی کے تعلق کے بارے میں نہیں پتہ ویسے یہ مبالغہ آرائی زیادہ معلوم ہوتی ہے لیکن پھر بھی ایسے لوگ شاید موجود ہوں۔
باقی بات رہ گئی دوسری کہانیوں کے متعلق تو صرف پاکستان نہیں پوری دنیا میں لوگ ایسی ذاتی باتوں کی تشہیر نہیں کرتے ہیں جِس میں وہ کسی غیرقانونی یا دوسرے الفاظ میں غیر اخلاقی حرکت میں ملوث ہوتے ہیں، چونکہ پاکستان میں ایسی پارٹیز غیر قانونی ہیں اِس لئے لوگ انہیں بھی چھپاتے ہیں میرا نہیں خیال کہ اس کا جنس سے اتنا تعلق ہے جتنا اس کا غیرقانونیت سے ہے۔
سلام
bbc کی خبر پر یقین کرنے سے پہلے میں تین چار دفعہ ضرور سوچتا ہوں۔ آپ اس کو میرے دماغ کا فتور کہہ لیں۔
میں نے اس کی صرف ایک کہانی پڑھی تھی جو لاہور انڈر گراونڈ کے بارے میں تھی۔ اور میرا نہیں خیال تھا کہ جنس پر بات کرنے کا مطلب دراصل وہ تھا۔
جنس پر بات کرنے کی سب کو اجازت ہے اور سبھی لوگ کرتے ہیں۔ ہاں اگر کوی کہے کہ عورت اور مرد کو اس پر آپس میں بات کرنے کی اجازت ہونی چاہے تو ایسی بات کرنے والے کی عقل پر حیرانی ہی ہو گی۔
میرے خیال سے پاکستانی معاشرے میں جنسی گھٹن ہے مگر اتنی نہیں جتنی بیان کی گی ہے۔ ہاں ایک گھٹن ہے جسی کی طرف ثاقب نے قدرے سخت الفاظ میں اشارہ کیا ہے مگر میں اس کے حق میں نہیں۔
جہانزیب آپ نے غالبا نبیلہ ملک کا یہ مضمون نہیں پڑھا۔ بچہ روزنوں سے جو کچھ دیکھتا ہے اور اسے جس طرح سمجھتا ہے وہ کافی پیچیدہ ہے بنسبت اس چیز کے کہ جس کے بارے میں اس کا تجسس چھ سات سال کی عمر میں بیدار ہوچکا ہوتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ جو چیز وہ چھپ کر دیکھتا ہے۔ معاشرہ تو اس کے وجود سے ہی لاعلم بنا رہتا ہے۔
یقینا فطرت انسان کو سب سکھادیتی ہے۔ مگر کیا واقعی ایسا ہے؟ لڑکوں کو ہی لیجئے تو بتائیے اس بارے میں ان کے ذرائع معلومات کیا ہوتے ہیں؟ کیا اگر کوئی لڑکا ایسا محسوس کرتا ہے کہ اسے کسی قسم کی جنسی دشواری کا سامنا ہے تو وہ اسے شئیر کرنے کس کے پاس جائے گا۔ پاکستان میں اکثر ایسے لڑکے اپنے دوستوں سے رجوع کرتے ہیں جو خود کم عمر ہوتے ہیں اور اتنے ہی لاعلم بھی اور نیم حکیموں کے چکر میں پھنس جاتے ہیں۔ پاکستان کے کتنے ہی نوجوان اپنی زندگی کے پہلے جنسی تجربے پیشہ ور جسم فروشوں کے سے حاصل کرتے ہیں۔ جس کے بعد انہیں احساس جرم اور مزید جستجو ہی حاصل ہوتے ہیں۔
اور کیا پاکستان میں صرف مرد رہتے ہیں؟ اور کیا آپ لوگوں کے خیال میں خواتین کی جنسی خواہشات، ضروریات، اور اس بارے میں جاننے کا تجسس موجود نہیں۔
سوال یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں ان مسائل کا حل کیسے نکالا جاسکتا ہے۔ کیا ہم شترمرغ کی طرح زمین میں سردیئے بیٹھے رہیں۔ یا موجودہ دور کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسے صحت مند متبادل ڈھونڈیں جائیں کہ جن سے نوجوانوں کی رہنمائی بھی ہو اور ان کی زندگیوں میں مزید آسانی پیدا ہو۔
یہ کہنا کہ پاکستان میں ایسا کوئی مسئلہ ہے ہی نہیں سراسر بلی کو دیکھ کر آنکھیں موندنا ہے۔
میرا نہیں خیال کہ جتنا آپ نے بیان کیا ہے اتنی گھٹن موجود ہے۔ اب تو بازار میں ان موضوعات پر بے شمار کتابیں موجود ہیں اور جو کہ معقول انداز میں لکھی بھی گئی ہیں۔ اب پہلے سے زیادہ شعور موجود ہے۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ لڑکوں کو ان کے دوست ہی گائیڈ کرتے ہیں لیکن یہ بھی غلط ہے کہ ماں باپ بالکل ہی انجان بنے رہتے ہیں۔ بڑھوتری کے ساتھ ساتھ علم میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔
لڑکیوں کی جہاں تک بات ہے ان کو مائیں گائیڈ کرتی ہیں۔ لیکن یہ بات گھر کے مردوں سے اوجھل رکھی جاتی ہے۔ کیوں؟؟؟
اس لیے کہ ہماری اقدار یہی ہیں۔ جب ایک کام پردے میں ہوسکتا ہے تو اسے سرعام کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔
لیکن میں سمجھ نہیں سکا کہ آپ کس قسم کی بات کی بات کرتے ہیں۔
اور جہاں تک متبادل ڈھونڈنے کی بات ہے تو اس کا حل یہ ہے کہ مطالعہ کی عادت بڑھائی جائے، کتابیں اور بامقصد کتابیں لکھی جائیں خصوصًا انٹرنیٹ پر بامقصد مضامین اردو میں لکھے جائیں جو ہر دو اجناس کے لیے ہوں ۔۔۔
السلام علیکم نعمان بھائی اور باقی برادران!
بی بی سی نے یقینا ایک اچھے موضوع پر بات شروع کی ہے لیکن بغور جائزہ لیں تو اُن کی اکثر باتیں موضوعات سے ہٹ کر ہیں۔ نبیلہ ملک نے بھی اپنے مضامین کو آپ بیتی کا رنگ دے دیا ہے۔ کسی مسئلہ پر گفتگو کم اور کہانیاں زیادہ بیان کی جار ہی ہیں۔جہانتک اس پر بات کرنے کا سوال ہے تو ہمارے معاشرے میں اس پر کھل کر بات ہوتی ہے۔ کوئی گھٹن نہیں۔لوگ جنسیات کے ہر پہلو پر کھل کر اپنے دوستوں سے بحث کرتے ہیں،لیکن ایک بات ضرور ہے کہ لوگ اپنے جنسی مسائل نہیں بتاتے، وہ اس وجہ سے کہ ہمارے ہاں اس کو معیوب سمجھا جاتا ہے۔ دوسرے ہمارے ہاں ان مسائل کے حل کیلیے کوئی سپیشلسٹ طبیب نہیں ہیں۔
جو بھی ہے بی بی سی نے شروعات اچھی کی ہیں اُمید ہے اس موضوع پر جلد ہی ہم کم از کم انٹرنیٹ پر اچھی ڈسکشنز اور پڑھنے کا مواد دیکھ سکیں گے۔
ثاقب صاحب جو بھی ہیں ان کی رائے ڈیلیٹ کر دیں۔ صنف مخالف کا کوئی بھی بندہ اس قسم کی گھٹیا زبان دیکھ کر اس طرف کا رُخ نہیں کریگا۔ اور واقعی ان کی زبان دانی اُسی گھٹن کی طرف اشارہ کر رہی ہے۔
شاکر بازار میں ان موضوعات پر کتابیں دستیاب ہیں مگر:
1۔ ان میں سے اکثر کتابیں غیرمعیاری ہیں اور جو معیاری ہیں وہ انگریزی میں لکھی گئی ہیں۔
2۔ پاکستان میں کتابیں پڑھنے کا رواج قریبا ناپید ہے۔
3۔ جس طرح چھپ کر نوجوان یہ کتابیں خرید کر پڑھتے ہیں اور جس طرح انہیں پڑھنے کے بعد یا تو تلف کردیا جاتا ہے یا کسی دوست کو دے دیا جاتا ہے۔ اس سے مجھے نہیں لگتا کہ ان کے جنسی شعور میں کچھ اضافہ ہوتا ہے۔ کیونکہ اکثر ان کتابوں کو پڑھنے کا مقصد سنسنی خیز لطف کشید کرنا ہوتا ہے۔ نہ کہ سمجھنا سمجھانا۔
مجھے نہیں معلوم مگر میں نے ابھی تک کوئی ایسا گھرانہ نہیں دیکھا جہاں ماں باپ بچوں کو بنیادی جنسی تعلیم فراہم کرتے ہوں۔ اگر دس لاکھ میں کوئی ایک ماں باپ اتنے باہمت ہیں تو یہ کوئی حوصلہ افزا صورتحال نہیں۔
مائیں پاکستان میں لڑکیوں کو صرف بلوغت کے امور سے آگاہ کرتی ہیں۔ جنسیات سے نہیں۔
ایک اور بات جو مدنظر رکھنی چاہئے وہ یہ ہے کہ پاکستان کی آبادی کا ستر فیصد حصہ پڑھا لکھا نہیں ہے۔ تیس فیصد کی بھی تعلیمی استعداد مشکوک ہے۔ اتنی بڑے بے پڑھی آبادی کو جنسی تعلیم دینے کے لیئے ڈاکٹر کیول ناتھ شرما کی سیکس گائیڈ پر انحصار کرنا تو بیوقوفی ہوگی۔
ہاں انٹرنیٹ پر اس بارے میں بامقصد مضامین ہونا چاہئے۔ یہ ایک نہایت عمدہ تجویز ہے۔
ساجد اقبال، بی بی سی کی یہ سیریز یہی بتارہی ہے کہ پاکستان میں جنسیات کے موضوع پر لوگ کھل کر کیسے بات کرتے ہیں۔ غیر شادی شدہ پاکستانی نوجوانوں کی جنسی زندگی کا سارا تجربہ پیشہ ور جسم فروشوں سے حاصل کیا گیا ہوتا ہے۔ پاکستانی نوجوان اپنے دوستوں سے بارے میں جو گفتگو کرتا ہے اس میں سارا زور اس بات پر ہوتا ہے کہ وہ اپنی مردانگی بیان کرسکے۔ اسپیشلسٹ طبیب تو بہت ہیں مگر زیادہ تر عطائی ہیں۔ لوگ عطائیوں،ڈاکٹروں کے پاس جانے سے گھبراتے ہیں اور اس بارے میں دیسی طریقہ علاج پر زیادہ زور دیا جاتا ہے۔
سلام
گھٹن گھٹن کی گردان ہے اور اس کو ختم کرنے کی بات بھی زور و شور سے کی جا رہی ہے مگر نہ گھٹن کی تعریف کی جا رہی ہے کہ یہ گھٹن کیا ہے اور کس قسم کی ہے؟ دوسرے اس کا سدباب کیا ہے؟ جنسی تعلیم دی جانی چاہے مگر کیسی؟ اور کس طرح؟
بنیادی جنسی تعلیم کیا ہے؟ آسانی کے لیے آپ ہمت کریں اور آپ اس کو بیان کریں تاکہ اس کا سب موازنہ کر سکیں کہ ان کو یہ معلومات کس عمر میں کس ذریعے سے ملی۔
اگر آپ بنیادی جنسی تعلیم اس کو کہتے ہیں جو کہ مغرب میں ہے تو اس کا مقصد علم دینے سے زیادہ بیماریوں کی روک تھام ہے۔ ابھی آج ہی میں سٹی کونسل میں تھا تو وہاں اس پر سیمنار ہو رہا تھا جسمیں اس سب کو ڈسکس کیا گیا تھا۔
دوسرے آپ کا کہنا کہ جنسی تعلیم پر معیاری کتب اردو میں نہیں۔ کراچی کا پتہ نہیں اردو بازار لاہور میں آسانی سے مل جاتیں ہے۔ ہاں اگر آپ فٹ پاتھ سے خریدیں تو “سنسنی خیز“ کتابیں ہی اس موضوع پر ملیں گی۔
جنسی مسایُل عام طور پر ٹین ایج میں سراسر وہم ہوتے ہیں بعد میں اگر کچھ ہو تو وہ بھی فضول حرکات کی برکات ہوتی ہیں۔
بدتمیز، کتنے نوجوان جنسی تعلیم کے حصول کے مقصد سے اردو بازار لاہور سے معیاری کتابیںخریدتے ہیں؟
گھٹن یہ ہے کہ جنسی جذبات ایک فطری جذبہ ہیں جو ہر انسان میں موجود ہوتے ہیں۔ لیکن پاکستان میں معاشرہ ان جذبات کو اسقدر اسفل گردانتا ہے کہ اس بارے میں کوئی بات، اچھی یا بری ہونے ہی نہیں پاتی۔ پاکستانی اپنی عمر ایسی پارسائی میں گذاردیتے ہیں جہاں احساس جرم اور گناہ ان کے فطری جذبات کی بالکل نفی کردیتے ہیں جو معاشرے میں جرائم اور معاشرتی برائیوں کا سبب بنتے ہیں۔
کیسی تعلیم دی جانی چاہیئے دیکھیں یہ ربط۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ہمیں یہی تعلیم دینی چاہئے مگر ہم اس معلومات کو مناسب ڈھنگ اور طریقے سے پیش کرسکتے ہیں۔
میں یہ ہرگز نہیں کہتا کہ ہمیں مغرب کی تقلید میں جنسی آزادی اپنانی چاہیئے۔ لیکن ہمیں اس بات کی اہمیت اور ضرورت کو سمجھنا چاہئے اور اپنی اقدار اور سماجی روایات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسے حل ڈھونڈنا ہونگے جو ہمیں مناسب معلوم ہوتے ہوں۔
جو بیماریاں مغرب میں ہیں وہ پاکستان میں بھی موجود ہیں۔ لیکن ہمارا “نہ کہو نہ سنو“ والا کلچر ہمیں خطرے سے آگاہ نہیں ہونے دیتا۔ پڑوسی ملک بھارت میں بھی اس پر تب بات ہوئی جب ایڈز کا عفریت بالکل بے قابو ہوگیا۔ جسم فروشی کا کاروبار پاکستان میں بھی ٹھیک ٹھاک پیمانے پر ہوتا ہے اور ایسی گھریلو خواتین جن کے شوہر باہر منہ مارتے ہیں خصوصا ان بیماریوں کی ہٹ لسٹ پر ہوتی ہیں۔ ایڈز اور دیگر جنسی طور پر منتقل ہونے والی بیماریوں کی ٹیسٹنگ پاکستان میں انتہائی معیوب سمجھی جاتی ہے۔ پڑوسی ملک چین میں صرف پچھلے سال کئی گنا زیادہ ایڈز کے کیس رپورٹ ہوئے ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ چین نے ٹیسٹنگ کی سہولیات کو بے حد عام اور ارزاں بنادیا۔ ہمارے ملک میں تو لوگوں کا ٹیسٹنگ کے لئے جانے کا سوچنا ہی محال ہے کجا یہ کہ حکومت ٹیسٹنگ کے مراکز عام کرے۔
ایڈز اور جنسی طور پر منتقل ہونے والی بیماریاں تو اس لاعلمی کا صرف ایک پہلو ہیں۔ خاندانی منصوبہ بندی، جنسی صحت، نفسیاتی مسائل، معاشرتی برائیوں اور کئی دیگر مسائل کا حل اسی بات چیت میں پوشیدہ ہے جس سے ہم گریز کرتے ہیں اور جس کی ضرورت کو قبول کرنے سے سراسر انکاری ہیں۔
سلام
ہر وہ شخص جو پڑھنا جانتا ہے اور وہاں جا چکا ہے وہ ضرور خریدتا ہے۔
ایسا سوچنا کہ ہر کسی کے ساتھ ایسا ہوتا ہے غلط ہوگا آپ کے بلاگ پر تبصرہ کرنے والے ہر بندے نے لکھ کہ اس کو ایسا کوی مسُلہ نہیں اس پر کیا کہے؟ ضروری نہیں اگر کچھ کے ساتھ یہ ہے تو سب کے ساتھ ہوگا۔
دوسرے اس کا یہ بھی مطلب ہے کہ زیادہ تر لوگوں کو ایسا کوی مسلہ نہیں یا اگر ہے تو ان کے پاس اس سے نمٹنے کا طریقہ ہے۔
اگر ایک شخص پارسا ہے تو وہ گناہ کیسے کرے گا اور بالفرض کرتا ہے تو کیا وہ دوسروں کو بتا کر ان کو بھی ایسا کرنے کی ترغیب نہیں دے گا؟ اور کیا یہ صرف پاکستان کا معاملہ ہے؟ ایسا دنیا میں ہر جگہ ہو رہا ہے۔ میں پہلے بھی کہ چکا ہوں یہ تعلیم تعلیم کے نظریہ سے کم اور جنسی بیماریوں کے خلاف زیادہ ہے۔ اور اگر چرچ کی طرف سے دی جانے والی جنسی تعلیم کو دیکھیں تو یہ ساری بحث ہی ختم ہو جایے گی۔
جلدی سے ایک سرچ مار کر لنک دینے کی بجاے میں چاہوں گا کہ چونکہ بات آپ نے شروع کی ہے تو یقیناُ آپکے پاس کوی نا کوی گراوُنڈ ہو گی لہذا آپ اس بنیادی تعلیم کو بیان کریں اور پھر اس کا حل بیان کریں۔ صرف کہنا کافی نہیں اس کو حل پیش کرنا اصل بات ہے۔
ایسے حضرات جو بیوی کے ہوتے ہیے باہر منہ مارتے ہیں ان کی سزا کیا ہے؟ کیا ایک دو کو ایسی سزا ملے تو اس کے بعد کسی اور کی جرات ہو گی کہ وہ ایسا کام کرے؟ ہم لوگ مسُلے کو ختم کرنے کی بجایے ورک اراوُنڈ ڈھونڈتے ہیں۔
بات پھر وہی کی وہی ہیں آپ بیان کریں کہ کس قسم کی بات چیت ہونی چاہیے؟ کہاں ہونی چاہیے؟ کن کے درمیان ہونی چاہیے؟ اور کہاں تک ہونی چاہیے؟
بدتمیز ان شارٹ آپ یہ کہہ رہے ہیں
1۔ پاکستانیوں کی اکثریت کو جنسی مسائل کا سامنا نہیں ہے۔ جو کہ سراسر حقیقت کے بالکل برعکس ہے۔ مثال کے طور پر نوے فیصد لڑکے جنہیں میں جانتا ہوں وہ اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ وہ مشت زنی کرتے ہیں مگر ساتھ ہی یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اس کے ان کی صحت پر انتہائی برے اثرات پڑتے ہیں۔ یہ ان کی لاعلمی اور ان کے گنجلک جنسی مسائل کی صرف ایک مثال ہے۔
2۔ جنسی تعلیم کی ضرورت نہیں جنہیں پڑھنا آتا ہے وہ خود خرید کر پڑھ سکتے ہیں۔ پاکستان میں کتنی لڑکیاں ایسا مواد خرید کر پڑھتی ہیں؟ اور جو لوگ پڑھ نہیں سکتے ان کا کیا ہے؟
3۔ ایڈز وغیرہ کا تدارک یہ کریں کہ زنا کرنے والوں کو سزائیں دیں۔ سزا دینے سے پہلے ہی وہ اس بیماری کو آگے منتقل کرچکے ہونگے۔
قصہ مختصر جب کوئی مسئلہ ہے ہی نہیں تو پھر بات چیت کی ضرورت بھی نہیں۔ اس پوسٹ کا مقصد جنسی تعلیم کا نصاب مرتب کرنا نہیں جو کہ ویسے کوئی اتنا مشکل کام بھی نہیں دنیا کے کئی ملک اسے تعلیم کا حصہ بنا چکے ہیں (مغرب ہی نہیں مشرق میں بھی)۔ جنسی بیماریوں کی روک تھام اس تعلیم کا صرف ایک پہلو ہیں دیگر عوامل بھی ہیں جن میں عمل تولید، جسمانی اعضاء کے بارے میں معلومات، عام طور پر پائی جانیوالی غلط فہمیوں کا تدارک وغیرہ شامل ہیں۔
جنسیت پر بات کرنے کے دو انداز ہو سکتے ہیں ایک معلوماتی اور دوسرا فُحش ، فُحاشی پر اگر کوئی کہے کہ ہمارے ہاں بات نہیں ہوتی تو شاید وہ بندہ مسجد سے نکلتا ہی نہیں ، دوستوں کی محفلوں میں اگر سب سے ہاٹ ٹاپک ہوتا ہے تو یہی فُحش بھرے قصے اور لطائف ہی ہوتے ہیں۔ لیکن دوسری جانب اگر کسی کو کوئی جنسی پیچیدگی ہے تو اُس پر بات کرنے سے کترایا جاتا ہے اور میرا نہیں خیال کہ ایسا صرف پاکستان میں ہے یا یہ بے علمی صرف پاکستان تک محدود ہے۔
امریکہ میں ایڈز کے ہر چار مریضوں میں ایک اپنے ساتھی کو نہیں بتاتا کہ اُسے ایڈز جیسی مہلک بیماری ہے ، اِس لئے نہیں کہ وہ چھپانا چاہتا ہے بلکہ اِس لئے کہ اُسے خود علم نہیں ہوتا۔ اور اگر ایڈز کے بارے میں یہ حال ہے تو باقی دیگر جنسی بیماریوں کے بارے میں آپ خود اندازہ لگا سکتے ہو۔
اور یہاں میرے پہلے تبصرے کا تعلق تھا اُس کا مقصد بھی یہی تھا کہ بی بی سی کی اِس سیریز کا جھکاؤ معلومات سے زیادہ فُحاشی کے بیان پ زیادہ ہے جو کہ ایک انڈر سٹوڈ بات ہے جہاں آدم ہے وہاں سیکس ہے، لیکن اِس کا یہ مطلب نہیں کہ اگر آپ نے کچھ کر لیا ہے تو آ کر اُس کی ڈینگیں مارتے پھریں۔ اور جہاں تک آپکے اِس بات کا تعلق ہے کہ آپ کے دوستوں کی کثیر تعداد کسی فعل میں مبتلا ہے تو جہاں سیکس کی تعلیم دی جاتی ہے وہاں یہ تعداد آپکی بیان کردہ تعداد سے بھی زیادہ ہے، مطلب 99 فی صد، باقی اللہ بہتر جانتا ہے۔
سلام
یہی تو میں نے پوچھا ہے کہ وہ کونسے مسائل ہیں جن کی جانب آپ اشارہ کر رہے ہیں؟ کیا آپکو بھی کسی ایسے مسئلے سے دوچار ہونا پڑا تھا جس کا جواب ڈھونڈنے میں کافی مشکلات کا سامنا رہا؟ جس فعل بد میں آپکے دوست مبتلا ہیں اس پر پہلے تو آپ کی کمپنی پر سوالیہ نشان اٹھتا ہے کیونکہ میرے جاننے والوں میں سے صرف ایک حضرت اس عادت میں مبتلا تھے اور اس کا نتیجہ بھگت چکے ہیں۔ چلیں بالفرض ہر زندہ مرد یہ حرکت کرتا ہے تو پھر کیا آپ کے خیال میں اس حرکت سے کوئی فرق نہیں پڑتا؟ اگر آپ کا جواب ہے کہ نہیں پڑتا تو پھر تو میں چاہوں گا کہ آپ کے ساتھ ساتھ کسی ایسے بندے سے بھی اس ٹاپک کے حوالے سے بات کروں جسکے پاس تھوڑا زیادہ علم ہو۔ چونکہ اسلام کا حوالہ دینے سے آپ بھی عام پاکستانی کی طرح فتویٰ لگا دیتے ہیں لہذا میں اسلامی حوالے سے بات نہیں کر رہا اور میں کوشش کروں گا کہ اسلام کے حوالے سے بات نہ کروں۔
آپ کا کہنا ہے کہ کتنے لوگ کتاب پڑھتے ہوں گے؟ دوسرے آپکا کہنا کہ جو 30 فیصد آبادی پڑھی لکھی ہے اس کی تعلیمی استعداد بھی مشکوک ہے لیکن آپ کے خیال سے انٹرنیٹ پر مضامین ہونے چاہئے۔ تو ایک بات کی ذرا وضاحت کر دیں کہ اس 30 فیصد میں سے کتنے فیصد کے پاس کمپیوٹر کی سہولت ہے ؟ فروخت شدہ کمپیوٹر کی تعداد بتانے سے پہلے وہ کئی ملین کمپیوٹر نکالنا نہ بھولئے گا جو کہ کارپوریٹ میں شامل ہیں۔ اور اس فیصد میں سے جو کمپیوٹر استعمال کرتے ہیں ان میں سے کتنے فیصد ایسا مواد ڈھونڈ کے پڑھیں گے؟ جبکہ یہ وہی بےوقوف ہیں جو پڑھتے نہیں اور لطف ہی کشید کرتے ہیں۔
ایڈز کا تدارک کیا ہے؟ چلیں آپ بتا دیں اگر آپکے پاس کوئی بہتر حل موجود ہو۔ دوسرے ایک بات قابل توجہ ہے چاہے زنا کی سزا سخت لگے مگر اس سے بہتر حل کوئی نہیں۔
سزا دینے سے پہلے بالفرض وہ بیماری آگے منتقل کر چکے ہونگے مگر اس سزا کو دیکھ کر کتنے ہی لوگ اس سے باز رہیں گے اس پر نہیں سوچا۔
قصہ مختصر میرے نزدیک یہ ہے کہ آپ خود ہچکچاہٹ کا شکار ہیں۔ آپ بھی پاکستانی ہی ہیں اور اسی طرح بات کرنے سے کترا رہے ہیں جیسے کہہ رہے ہیں کہ پاکستانی بات کرنے سے شرماتے ہیں۔ آپ سے جنسی نصاب مرتب کرنے کا کسی نے نہیں کہا۔ آپ اگر ایک بات کر رہے ہیں تو یقیناُ کسی بنیاد پر کر رہے ہیں ہم چاہتے ہیں کہ آپ کھل کر بات کریں۔ جنسی اعضا کے بارے میں کس قسم کی معلومات دی جانی چاہئے؟ اور کن کو؟ ایک دوسرے کو یا صرف متعلقہ جنس کو؟ عمل تولید کے بارے میں کیا جانا جانا چاہیئے؟ اس پوسٹ کا مقصد کیا تھا؟ یہی نا کہ بات ہونی چاہئے تو پھر جب بات کریں تو آپ بات کرنے سے شرماتے ہیں۔ لنک فراہم کریں مگر اسی صورت میں کہ آپ اس سے 100 فیصد متفق ہوں ورنہ اپنے الفاظ میں بیان کریں کہ کیا ہونا چاہئے اور کیا نہیں۔
اگر آپ کو لگے کہ میں مخالفت برائے مخالفت کر رہا ہوں تو میں یہ کلئیر کرنا چاہتا ہوں کہ میں خود اس تعلیم کے حق میں ہوں مگر کیسی اور کس طرح اس پر میں چاہوں گا کہ آپ روشنی ڈالیں کہ باقی سب گھٹن کا شکار ہیں اور شرماتے ہیں بات کرنے سے۔ اسی کو دیکھ لیں باقی سب آتے ہیں پڑھتے ہیں اور چلے جاتے ہیں کوئی اپنا نقطہ نظر بیان نہیں کر رہا۔
جہاں تک ایڈز کی بات ہے تو اب خون دینے والے کا ایڈز اور ہیپاٹائٹس ٹیسٹ لازمًا ہوتا ہے میں خود کئی لوگوں کو دیکھ چکا ہوں خوشی خوشی خون دینے آئے اور ٹیسٹ میں پتا چلا کہ ہیپاٹائٹس ہے اور انھیں اپنے علاج کی پڑ گئی۔
تو اتنا بھی معیوب نہیں ٹیسٹ کروانا بلکہ خون دینا تو معمول کی بات ہے خاص طور پر جوان مردوں کے لیے اس دوران ان بیماریوں کا ٹیسٹ باآسانی ہوجاتا ہے۔
جنسیاب پر کتابیں دستیاب ہیں میں خود اس طرح کی کئی کتابیں پڑھ چکا ہوں اپنی لائبیری سے لے کر۔ لیکن بات ہے مطالعہ کی عادت کی جس کو مطالعہ عادت ہے وہ اس بارے میں آگاہی رکھتا ہے۔
زیادہ کام خراب اصل میں بلیو فلموں نے کیا ہے جو باآسانی ٹین ایجرز کو مل جاتی ہیں۔میرے دوست نے مجھے ایک بار آفر کی تھی کہ مجھ سے ان کی سی ڈیاں لے لیا کرو اس کا آگے ایک دوست تھا جو ویڈیو کی دکان چلاتا ہے۔
موج ہے ناں۔۔۔۔۔۔
بات واقعی کرنے والی ہے کہ کیا تعلیم دی جائے۔
کیا یہ بتایا جائے کہ بیٹا کنڈوم کا استعمال کیا کرو؟؟؟
یا یہ کہ مشت زنی بری عادت ہے؟؟؟
یا یہ کہ بلیو فلموں سے دور رہو؟؟؟
جنسی تعلیم میںیہ شامل ہوکہ زوج کے پاس کیسے جایا جائے؟؟؟
میری سمجھ میں جو آرہا ہے وہ یہی ہے کہ عمومی جنسی بیماریوں کے بارے میں آگاہی دی جائے۔ احتلام، جریان، سوزاک اور آتشک، سرعت انزال اور پتا نہیں کیا کیا جن کو نیم حکیموں نے ایک ہوّا بنا رکھا ہے کے بارے میں رہنمائی فراہم کی جائے۔ مذہب کے لحاظ سے بھی اور صحت کے لحاظ سے بھی ان کے اثرات بیان کیے جائیں۔
میرا خیال ہے مجھے اپنا بلاگ پر اس موضوع پر قلم اٹھانا چاہیے۔
دیکھتا ہوں اسے بھی۔
وسلام
جنسیات پر لکھنا بھت ظروری ھے میںآپ سے متفق ھے
چلیں تو تعلیم کا آغاز یہیں سے کرتے ہیں۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ماہرین صحت مشت زنی کو صحت کے لئے نقصان دہ نہیں مانتے۔ حتی کہ جیسا کہ پاکستان میں عام رواج ہے اور جیسا کہ آپ دوستوں کی پوسٹس سے ظاہر ہوتا ہے، مشت زنی کی زیادتی بھی قطعا نقصان دہ نہیں۔ ہاں اس کی زیادتی کے کچھ نفسیاتی اثرات ہوسکتے ہیں۔ تاہم جسمانی صحت پر اس کا کوئی فرق نہیں پڑتا بلکہ الٹا فائدے ہوتے ہیں۔
ایڈز کے بارے میں ہم مان لیتے ہیں کہ پاکستان کے مردوں کو آگاہی ہوگی۔ مگر خواتین کو؟ اور یہ آگاہی صرف اتنی بنیادی ہے کہ صحیح خطرے سے لوگوں کو آگاہ نہیں کرتی۔ خواتین کو جنسی طور پر منتقل ہونے والے بیماریوں کی مکمل آگاہی ہونی چاہئے۔
جہانزیب میں بھی یہی مباحثہ چاتا ہوں کہ ہمارا معاشرے کو کس طرح ان مسائل کو ڈیل کرنا چاہئے۔ فحاشی اور صحت مند مباحثے میں کس طرح فرق کیا جائے اور کیونکر ایک ایسا صحت مند ماحول فراہم کیا جائے جہاں ہماری معاشرتی اقدار کے مطابق کھلے ذہنوں کے ساتھ بات چیت کی جاسکے۔
میں اس بات کا حامی ہوں کہ ماں باپ سے بہتر کوئی مصلح کوئی استاد نہیں ہوتا۔ اور ماں باپ چاہیں تو ان سے بڑھ کر دوست بھی کوئی نہیں ہوتا۔ مگر کس طرح ہمارے ماں باپ موجودہ نسل کے مسائل کو سمجھ اور ان سے ڈیل کریں۔ یہ سوال ہے۔
بدتمیز سب اپنا نقطہ نظر بیان کررہے ہیں۔ اور مباحثہ بہت اچھی سمت میں جارہا ہے۔
ماہرین صحت مشت زنی کو صحت کے لئے نقصان دہ نہیں مانتے۔ حتی کہ جیسا کہ پاکستان میں عام رواج ہے اور جیسا کہ آپ دوستوں کی پوسٹس سے ظاہر ہوتا ہے، مشت زنی کی زیادتی بھی قطعا نقصان دہ نہیں۔
اس کے بعد تو میں یہی پوچھنا چاہوں گا کہ کونسے ماہریں صھٹ ہیں؟ نام یا کوی آرٹیکل؟
دوسرے مباحثہ درست سمت میں جا رہا ہے مگر آپ کی طرف سے کوی جواب نہیں مل سکا جبکہ میں نے اپنے سوال کتنی ہی دفعہ دہرایے ہیں۔
جلدی سے ایک گوگل سرچ ہزارہا ویب صفحات دکھاتی ہے جن میں سے ایک یہ ہے۔
آپ کے سوالات کے جوابات میں دے چکا ہوں۔ اوپر دیکھیں۔ اگر اس سے آپ کی تشفی نہیں ہوئی تو میں معذرت خواہ ہوں۔
فائدے تو نہیں کہہ سکتے یار۔ لیکن اتنا نقصان بھی نہیں ہوتا۔
دوسرے بات یہ ہے کہ ہاتھ سے فعل کرنے والے کو مردو د قرار دیا گیا ہے بہرحال یہ گناہ کبیرہ ہے۔
سلام
آپ نے تو حیرت میں مبتلا کر دیا۔ میرا خیال تھا کہ آپ کسی بڑے نام یا جدید سائنس کے حوالے سے بات کریں گے مگر یہ لنک فراہم کر کے آپ تو بچوں کی کہانیوں سے متاثر نکلے۔ میرے خیال میں آپ ایک سمجھدار انسان تھے مگر افسوس آپ نے مایوس کیا۔
اس کو میری نالائقی سمجھیں کے مجھے نہیں پتا چل رہا کہ آپ نے میرے کس سوال کا جواب کہاں دیا ہے؟ سوائے اس فعل کے کسی اور سوال کا جواب حسب توقع دینے سے گریز کیا گیا ہے۔ میں نے اپنے سارے دوستوں کو دوران چیٹ آپکا لنک فراہم کیا کہ جا کر پڑھیں اور دیکھیں کے آپ کی پوسٹ اور بعد میں آپکے جوابات میں کتنی relevance ہے مگر انہوں نے بھی میری تائید کی کہ آپکو خود نہیں پتا کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں یا کیا کہنا چاہتے ہیں۔ جبکہ یہ سب کے سب اپر کلاس کے وہ شہزادے ہیں جن کو نماز روزے کا کچھ پتہ نہیں اور عید تک کی نماز یہ پاکستان میں ہو کر نہیں پڑھتے اسلام سے ان کا دور کا واسطہ نہیں لہذا ان پر ملا کی پھبتی نہیں کسی جا سکتی۔
چلیں میں سارے سوالات واپس لیتا ہوں مجھے صرف اسی فعل کی مطابقت سے کچھ سوالات کا جواب دیں۔
1 ) آپ کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا؟ اس کے اثرات کیسے ہیں اس کو جاننے کے لئے انٹرنیٹ پر سے لنک فراہم کرنے کی بجائے اگر کسی ڈاکٹر کی رائے لا دیں تو بہتر ہو گا۔ میں اس لئے کہہ رہا ہوں کہ مجھے میرے کزن کے علاج کے دوران اس کے ساتھ جانے کا اتفاق ہوا ہے اور ہم کسی عطائی کی بجائے ایم ایس ڈاکٹروں کے پاس جاتے رہے ہیں اور ان کا اعداد و شمار اور اس کے بتائے گئے اثرات خوفناک ہیں۔ مجھے hospitals and doctors کے نام دینے کی ضرورت تو نہیں کہ ہے؟
2) کیا آپکو پتہ ہے sperm کی کیمائی ساخت کیا ہے؟ اس کے کیمائی اجزا کیا ہیں؟
3) یہ کن چیزوں پر مشتمل ہے؟
4) بدن اس کو کیسے حاصل کرتا ہے؟
5) اس کی مقدار کیا ہوتی ہے؟
6) مرد کا نظام تناسل کیا ہے؟
7) یہ کن چیزوں پر مشتمل ہے؟
8) اور کیسے کام کرتا ہے؟
میری نالائقی کو مدنظر رکھتے ہوئے بہتر ہو گا کہ آپ نمبر وار ہر سوال کا جواب دے کر اپنے دعوے کو prove کریں۔ اور دوسروں کو بھی اس حد تک مطمئن ضرور کریں کہ وہ کہہ سکیں کہ ہاں واقعی آپ نے سوالات کے جواب دیئے بجائے یہ کہ آپ معذرت خواہ ہوتے پھریں۔
ویب ایم ڈی کا صفحہ جس کا ماخذ کلیولینڈ محکمہ صحت ہے۔
آپ کے سوالات کے جواب کوئی نہیں دے سکتا۔ کیونکہ وہ جواب حاصل کرنے کے لئے نہیں بلکہ انہیں جھٹلانے اور پھر وہی سوال دوبارہ پوچھنے کے لئے پوچھے جارہے ہیں۔ اس لئے میں نے آپ سے معذرت طلب کی ہے۔
شاکر، چند فرقوں کے نزدیک یہ مکروہ ہے۔ شیعہ فرقہ اسے گناہ کبیرہ اور حرام سمجھتا ہے۔ لیکن اوپر بدتمیز کا تبصرہ اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ ایک اتنی مقبول عام جنسی مشق کے بارے میں بھی پاکستانی کتنے لاعلم ہیں۔
salam
well another hectic day is over, I am holdin my answer until tommorow as firstly I m tired enough to think abt anythin and 2ndly I am visitin charlottesville hospital tommorow and hope fully i will have some information abt it as i did get somethin from richmond later in the evening.
سلام
ساجد آپکا تبصرہ delete کر دیا گیا ہے لہذا جتنی باتیں مجھے یاد ہے انکا جواب دے رہا ہوں۔ پہلی میرا مقصد نعمان کو نیچا دکھانا نہیں ہے۔ میرا مقصد تھا کہ نعمان کی صلاحیتوں سے ہمیں کوئی فائدہ مل سکے تو وہ حاصل کیا جائے لیکن جیسا آپ نے بھی محسوس کیا کہ ان کو اس بارے میں کسی قسم کی کوئی معلومات نہیں۔
دوسرے میں نے اپنے سوالات بار بار دہرائے نہیں ہیں ان سے مختلف قسم کے کئ سوالات کئے جن کے جوابات بدقسمتی سے مجھے ان سے نہ مل سکے جبکہ یہی جوابات مجھے supreme power سے لے کر ایک عام "مغربی ڈاکٹر” تک نے دے دئیے۔ اور یہ میری خوش قسمتی ہے کہ میں امریکہ میں ہوں اور آج AIDS DAY تھا جسکی وجہ سے مجھے کافی معلومات حاصل ہوئی۔
جس طرح آپ نے کہا اور ایک اور صاحب نے بھی کہ نعمان اقرار کرنے سے گھبراتے ہیں کہ مجھے نہیں معلوم وہ ایسے وقت پر گھبراہٹ میں موضوع سے ہٹ جاتے ہیں جس سے سارا مزا کرکرا ہو جاتا ہے۔ اب پوسٹ تھی جنسی تعلیم اور میرے دوست ایک فعل کو defend اور اس کی افادیت کو ثابت کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔
نعمان پہلی بات آپ نے بھی مسلمانوں والی حرکت کی کہ جیسے وہ اسلام میں سے اپنے مطلب کی بات نکال لاتے ہیں ویسے آپ نے webmd سے اپنے مطلب کا لنک فراہم کر دیا۔ اگر آپ اس پر سرچ کریں تو آپ کو اس پر کچھ دوسرے قسم کے بھی نتائج فراہم ہوتے ہیں۔ اس "مقبول عام مفید جنسی مشق” کے جو نتائج برآمد ہو رہے ہیں وہ ایسے حیران کن ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔
Richmond میں ڈاکٹر اینا سوزان سے میں نے اس فعل کے متعلق کئی سوال کئے اور آپکے لنک کا حوالہ بھی دیا انہوں نے مجھے آج Charlottesville آنے کی دعوت دی۔Charlottesville میں مجھے جس جگہ جانا تھا وہاں ایڈز ڈے کی مناسبت سے پروگرام تھا اس میں ایڈز کے مریضوں سے بات کرنے اور ان کا حال جاننے کا موقع ملا۔
اس فعل کے متعلق میری بات ڈاکٹر اسٹیورٹ ہاورڈ، ڈاکٹر ولیم ایونز اور ڈاکٹر جان مارشل سے ہوئی۔ ان کے مطابق اس "مقبول عام مفید جنسی مشق” کے فعل میں 3 سال مبتلا رہنے سے جبکہ آپ اس کو تین دن میں ایک دفعہ کر رہے ہوں مرد کی بچہ پیدا کرنے کی طاقت 14 فیصد کم ہو جاتی ہے جسکا مطلب ہے 100 میں سے 14 بندے اس قابل نہیں رہتے۔ دوسرے اس فعل میں چونکہ دماغ کو دوسرے جسم کا احساس نہیں ہوتا تو وہ اس کی کمی پورا کرنے کے لئے مدافعتی نظام میں مددگار ہارمونز کا اخراج نہیں کرتا۔ جس کی وجہ سے ایڈز میں مبتلا ہونے کے امکانات میں 39 فیصد اضافہ ہو جاتا ہے یہاں کام کی بات یہ کہ ایڈز میں مبتلا ہونا اور بات ہے اور ایڈز کا کیرئیر ہونا اور بات ہے۔
اس "مقبول عام مفید جنسی مشق” میں مبتلا رہنے والے 78 فیصد مردوں کی اپنی بیگم میں دلچسپی ختم ہو جاتی ہے اور وجہ اس کی یہ ہے کہ وہ orgasm کو نہیں پہنچ پاتے۔ 98 فیصد مرد full erection کو نہیں پہنچ پاتے۔ اور آج یہاں سکولوں میں خاص طور پر اس "مفید مشق” سے اجتناب یا پھر کم از کم ایک limit مقرر کر کے کرنے کی ضرورت پر زور دیا جا رہا ہے۔
آپ کے لنک کے بارے میں ان کی رائے تھی کہ یہ آرٹیکلز کو اکٹھا کرتا ہے اور اس کے مواد پر کوئی معیار نہیں ہے اس کو اتھارٹی نہیں مانا اور ان کا کہنا تھا کہ اس کے آرٹیکلز 4 سے 6 سال پرانے ہیں جبکہ صرف 2006 میں مجموعی طور پر اتنی ریسرچ ہوئی ہے جو 3 سال کی ریسرچ سے زیادہ ہے اس میں شامل نہیں۔ میڈیکل کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ روزانہ 10 لاکھ صفحوں کا علم out dated ہو جاتا ہے لہذا ایسے آرٹیکلز کی صحت پر ان کی طرف سے سوالیہ نشان تھا۔
میری ایک ایڈز کے مریض سے بات ہوئی اس کے مطابق وہ ایک لڑکی کو پسند کرتا تھا مگر چونکہ اس وقت وہ شادی کے قابل نہیں تھا کہ پہلے پڑھے اور کچھ بنے لہذا اس نے یہ "مفید مشق” شروع کر دی۔ آہستہ آہستہ اس نے محسوس کیا کہ erection ویسی نہیں جیسی ہونی چاہئے ڈاکٹر نے اس فعل سے منع کیا یا پھر ہفتے میں ایک دفعہ کرنے کی ہدایت دی۔ روزانہ کل سے پرہیز شروع کرونگا کرتے کرتے ان کا یہ سیسٹم تباہ ہو گیا جبکہ وہ روزانہ دن میں صرف ایک دفعہ یہ حرکت کر رہے تھے۔ 4 سال کے بعد کسی وقت ان کو اس "مفید مشق” کرنے کے دوران نتیجہ سفیدی کے بجائے سرخ نکلا۔ ان کا خون نکل آیا تھا۔ ڈاکٹر مختلف ٹیسٹ کرتا رہا مگر ایک گردہ تقریباُ تباہ تھا۔ سب سے اہم بات یہ کہ اس "مفید مشق” نے ان کے دماغ سے سیکس کے حوالے سے یہ تاثر نکال دیا کہ ان کے پرائیوٹ کو چھیڑنے والا کوئی عورت ہونی چاہئے اور اس کی تائید وہاں موجود 68 دیگر مریضوں نے کی کہ کبھی نہ کبھی ان کو بھی یہ خیال آیا تھا۔ جس کے باعث جب ان کو ایک دن ایک دوسرے صاحب نے جو کہ ایڈز کے مریض تھے نے یہ مشق کروائی صرف دیکھنے کے لئے کہ خون اب نکل رہا ہے کہ نہیں مگر چونکہ ان صاحب کے اپنے ہاتھ پر ان کا sperm لگا ہوا تھا لہذا ان سے ایڈز کے جراثیم اس کے جسم میں چلے گئے یہاں یاد رکھیں سپرم کے عام ہوا میں زندہ رہنے کا دورانیہ بہت کم ہے مگر ایڈز کے جراثیم کا نہیں۔ آج ان کی حالت یہ ہے کہ ان کی ٹانگیں بے حد پتلی ہیں ایسی جیسے 7 یا 8 سال کے بچے جسی ہوتی ہیں۔ اور abdomen بے حد پھیل چکا ہے کولہے سے گوشت اور چربی لٹک گئی ہے۔ ان کے بریسٹ ڈیولپ ہو گئے ہیں سر کے بال اور بھنویں جھڑ گئیں ہیں اور سارے سر پر ایسے زخم ہیں جن سے پیپ رستی رہتی ہے۔جو گردن سے ہوتی ہوئی ٹی شرٹ کو بھگوتی رہتی ہے۔
Off topic) میرے سوالات کا جواب ہر کوئی دے سکتا ہے مگر آپ نہیں وجہ سب کو معلوم ہے۔ فرہاد کی باتوں پر میں کبھی یقین نہ کرتا اگر آپ ساجد کا تبصرہ delete نہ کرتے۔ آپ کا تبصرہ جات کے بارے میں لکھا گیا ایکٹ میں نے پڑھ لیا ہے اور اس کا انگلش ورژن بھی میں کسی اور بلاگ پر پڑھ چکا ہوں۔ میں نے پوری کوشش کی ہے کہ آپ کی انا کو کم سے کم متاثر کرتے ہوئے ایسا لکھوں جس سے دوسرے لوگوں کا بھلا ہو سکے۔ امید ہے ہٹ دھرمی کے بجائے جامع اور مدلل جواب سننے کو ملے گا۔
بدتمیز سوال کیا ہے؟
مشت زنی کے صحت مند ہونے کے حوالے سے مذہبی رواداری کے ویب سائٹ کا خصوصی ضمیمہ جس میں اس کے میڈیکل کا نقطہ نظر بھی تفصیل سے موجود ہے۔
Human Sexuality Today یہ کتاب امریکہ کے کئی تعلیمی اداروں میں پڑھائی جاتی ہے۔
نیٹ ڈاکٹر کا صفحہ جسے ڈاکٹر ڈیوڈ ڈلون اور سائیکوتھیراپسٹ کریسٹائن ویبر نے لکھا ہے۔
اب میں چاہوں گا کہ آپ بھی فرضی لوگوں کی کہانیاں نہ سنائیں۔ بلکہ اتھنٹک روابط فراہم کریں۔
السلام علیکم!
تمام حضرات یہاں لڑنے ہی بیٹھ گئے۔ میرا نہیں خیال کسی مبتدی کو اس بحث سے کوئی فائدہ ہوا۔ بدتمیز بھائی آپ باربار اپنے سوالات کو دُہرا رہے ہیں۔ اگر آپ کے خیال میں انہوں نے جواب نہیں دیا ابھی تک تو یہی وجہ ہو سکتی ہے کہ نعمان کو آپ کے سوالوں کے جوابات نہیں پتا۔میرے خیال میں تو نعمان بھائی نے بڑی ہمت کی ہے اس موضوع پر لکھ کر ،چاہے اس سے کسی کو بڑا فائدہ نہیں ہوا۔ آپ نعمان بھائی کا امتحان لینے کی بجائے خود اس موضوع پر لکھیں۔ اور کچھ نہ ہو تو کسی مستند کتاب سے اقتباسات ہی اپنے بلاگ میں شامل کر دیں۔ تنقید برائے تنقید کا کسی کو فائدہ نہیں ہونے والا۔ یقینانعم!
ان میں بھی کچھ خامیاں ہیں، لیکن یہ بات قابل ستائش ضرور ہے کہ انہوں نے اس موضوع پر ابتداء کی۔
معذرت کے ساتھ، ہم جیسے کم علم ابھی بھی وہیں کھڑے ہیں جہاں سے اس موضوع کی ابتداء ہوئی تھی۔ خدارا کچھ ایسا تحریر کریں کہ سب کو فائدہ ہو۔ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ کسی حضرت کو میری باتوں سے تکلیف پہنچی ہو تو معذرت۔
نوٹ:ساجد اقبال کا یہ تبصرہ میری نااہلی کے سبب مٹ گیا تھا۔ تاہم بدتمیز کے توجہ دلانے پر اسے واپس شامل کردیا ہے۔
میں ثبوت تو نہیں پیش کرسکوں گا لیکن جو کچھ میرے علم میں مطالعہ سے آیا ہے بتائے دیتا ہوں۔
نمبر ایک تو اس کام سے عضو کی رگیں ابھر آتی ہیں جو حکماء کی نظر میں کمزوری کی علامت ہیں( آپ اسے نیم حکیم سمجھیں شاید لیکن میں اس کے بارے میں باقاعدہ کتابوں میں پڑھ چکا ہوں اور میرا نہیں خیال کہ یہ جھوٹ ہے)۔
ٹیڑھا پن آجاتا ہے جس کی وجہ سے بچے کی پیدائش کے امکانات کم ہوجاتے ہیں چونکہ اخراج کے بعد سپرم مطلوبہ مقام تک ٹھیک طرح پہنچ نہیں سکیں گے۔
رفتہ رفتہ یہ عادت اتنی مضبوط ہوجاتی ہے کہ جاتے نہیں جاتی۔ بلکہ کوئی معمولی سا ہیجان خیز واقعہ بھی پیش آجائے تو سفید مادہ( جسے مزی کہا جاتا ہے یاد رہے یہ سفید رطوبت سپرم پر مشتمل مادے سے مختلف ہے) خارج ہونے لگتی ہے جس کی وجہ سے عجیب سی کراہت کا سا احساس ہوتا ہے بندے کو اپنی ہی پڑ جاتی ہے۔
یہ جذبہ ہوس کی طرح ہے۔ آہستہ آہستہ یہ اتنا حاوی ہوجاتا ہے کہ ہلکی ڈوز سے سکون ہی نہیں آتا جس کے نتیجہ میں مریض سکون حاصل کرنے کے مختلف ذرائع اختیار کرتا ہے جیسے انٹرنیٹ پر فحش ویب سائٹس یا بلیو فلمیں۔
بدتمیز نے جو کچھ بتایا ہے میرے خیال میں اس میں سے بھی آدھے سے زیادہ سچ ہے۔ لیکن یہ کہنا کہ یہ عادت انتہائی مفید ہے بہت ہی غلط ہوگا۔
چونکہ مذہبی طور پر بھی اس کی ممانعت کی گئی ہے۔ میرے عزیز یہ ایک غیر فطری طریقہ ہے اور ہر غیر فطری طریقے کی اسلام میں بڑی وضاحت و صراحت سے مخالفت موجود ہے۔ حکیم
خالد صاحب کی یہ تحاریر
اگرچہ ادھوری ہیں تاہم کچھ مسئلہ کلئیر کرسکتی ہیں۔
خیر مختصرًا اتنا عرض کروں گا کہ اس عادت بد سے بچنا چاہیے۔ مردانہ جنسیات کا ایک مخصوصنظام ہے۔ جس کے تحت جب خود سے مادہ حیات کو خارج نہ کیا جائے تو ایک مخصوصوقت کوئی ایک ماہ یا کم و بیش کے بعد یہ خود بخود خارج ہوجاتا ہے جس کو احتلام آنا بھی کہتے ہیں۔ چناچہ اس چیز کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔
ہاں اگر کوئی اس عادت بد میں مبتلا ہے تو اسے اللہ سےمعافی مانگنی چاہیے۔ وہ معاف کرنے والا ہے۔ اور یہ اس کی رحمت ہی ہے کہ ہم اس جنس پرستی اور نفس کی ہوس کے جال سے بہت حد تک آزاد ہیں ورنہ تباہی و بربادی ہمارا مقدر بن جاتی جو حال آج کل یورپ کا ہورہا ہے۔ اوپر حکیم صاحب کی تحاریر سے ہی ایک خبر دےرہا ہوں یورپ میں بانجھ پن دوگنا۔ چلتے چلتے بتاتا چلوں لذت حاصل کرنے کے لیے مصنوعی مشینیں اور پتا نہیں کیا کیا ان کے مرد اور عورتیں استعمال کرتے ہیں لیکن نتیجہ کیا ہے؟؟؟ پھر بھی آسودہ نہیں ہوپاتے۔
یہ کس طرف اشارہ کرتا ہے؟؟؟ یہ کھلی ڈھلی ہوس ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی ہی جارہی ہے۔ سو میرے عزیز اللہ سے پناہ مانگو کہ ہم پر کہیں وہ وقت نہ آجائے یہ جنسی ہوس کنٹرول کرلینا ہر کسی کے بس کی بات نہیں اور ہماری اوقات ہی کیا ہے اللہ ہمیں اپنے حفظ و امان میں رکھے۔ اور توبہ کرنے کی توفیق دے بےشک اسے پسند ہے کہ گناہ کرنے والا اس کے حضور گڑگڑائے اور اپنے گناہوں کی معافی مانگے۔ سو توبہ سے نہ ہچکچائیں وہ تو خود کہتا ہے کہ اگر تم گناہ نہ کرو تو میں تم کو مٹا کر ایک ایسی قوم پیدا کردوں جو گناہ کرے پھر مجھ سے معافی مانگے میں معاف کروں وہ پھر گناہ کرے پھر معافی مانگے میں پھر معاف کروں۔۔۔۔۔۔(مفہوم)
اللہ عمل کی توفیق دے۔
شاکر مجھے بہت خوشی ہوئی کہ آپ نے اتنا مدلل تبصرہ لکھا اور تفصیل سے اپنا نقطہ نظر طبی۔ معاشرتی اور مذہبی نقطہ نظر سے پیش کیا۔
قدیم زمانے میں لوگوں نے زمین کو چپٹا مان کر اس کے جغرافیئے پر ضخیم کتابیں لکھی ہیں اور لوگوں کو وہ صحیح ہی معلوم ہوتی تھیں لیکن بعد میں انسان نے جان لیا کہ ایسا نہیں ہے۔ اس سے پہلے لکھی گئی کتابوں میں موجود علم سراسر تبدیل ہوگیا۔ یوں آپ کے حکماء کا علم آؤٹ ڈیٹڈ ہے۔ مندرجہ بالا ویبسائٹس پر اس بارے میں فزیالوجسٹس، سائیکولوجسٹس، اور کئی ماہرین سینکڑوں دیگر ماہرین کی تحقیق اور تجربات کی روشنی میں یہ بات کہتے ہیں۔ حکماء کو تجربات، تحقیق اور کولابریٹیو تھنکنگ کے وہ وسیع مواقع دستیاب نہیں جو جدید میڈیکل سائنس کو حاصل ہیں۔
اوپر بیان کئے گئے سائٹس پر یہ تمام اوہام جو آپ نے بیان کئے ہیں جیسے عضو تناسل کا ٹیڑھا ہوجانا، فرٹیلیٹی میں فرق آنا، مسلز لوز ہوجانا وغیرہ کے بارے میں میڈیکل سائنس کا موقف موجود ہے کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہوتا۔
عضو تناسل کی بہت زیادہ حساسیت جس میں معمولی سنسنی خیزی سے مادہ تولید خارج ہوجاتا ہے ایک جسمانی نہیں نفسیاتی بیماری ہے جس کے مستند علاج میں تھیراپسٹس ماسٹربیشن ہی تجویز کرتے ہیں نہ کہ اس سے منع کرتے ہیں۔ اس بارے میں ملاحظہ فرمائیں یہ ربط۔
مشت زنی کے نفسیاتی اثرات اور ان اثرات کے معاشرتی نقصانات محض آپ کا اندازہ ہیں۔ افسوس پاکستانی نفسیاتی معالجین کی رہنمائی آنلائن دستیاب نہیں۔ ورنہ میں آپ کو بتاتا کہ پاکستانی اکثر مشت زنی کے بارے میں اوہام کا شکار ہوکر نفسیاتی معالجین تک بھی پہنچتے ہیں۔ میں یہ اس لئے جانتا ہوں کہ میرے ایک دوست انسٹیوٹ آف بیہیوریل سائنسز کراچی میں بطور معالج کام کرتے ہیں۔ مشت زنی کے بذات خود اتنے دقیق نفسیاتی مسائل کا باعث نہیں بنتی۔ بلکہ یہ مشق اعصاب پر کنٹرول، اسٹریس میں کمی، اور ہائپرٹینشن میں خیالات کا بہاؤ موڑنے میں بہت مددگار ثابت ہوتی ہے۔
مشت زنی یورپ اور امریکا میں بھی اتنی ہی عام ہے جتنی پاکستان یا دنیا کہ کسی بھی ملک میں۔ چاہے اس پر کتنی ہی مذہبی ممانعتیں ہوں۔ اور مذہبی پوائنٹ آف ویو کے بارے میں تو میں کچھ کہہ نہیں سکتا ہر انسان کا اپنا عقیدہ ہوتا ہے جس کے تحت وہ کسی بھی فعل کو صحیح یا غلط سمجھتا ہے۔ مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں اگر کوئی مذہبی جذبے سے خود کو اس فعل سے بچاتا ہے۔ اور میں اعتراض کرنے والا ہوتا بھی کون ہوں۔ میں صرف یہ واضح کرنا چاہ رہا تھا کہ پاکستانیوں کو اتنی عام مشق کے بارے میں کتنی درست معلومات حاصل ہیں۔
سلام
توبہ ہے نعمان آپ نے شائد تہیہ کر لیا ہے کہ آپ نے فرہاد کی ایک ایک بات کی تصدیق کرنی ہے۔ کیا عورتوں کی طرح طعنے دے رہے ہیں آپ؟ کیا آپکو لگتا ہے کہ میں فرضی نام بنا کر ان کے حوالے سے آپ سے بات کروں گا؟ اگر نیٹ ڈاکٹر کے صفحے پر ان کے لکھنے والوں کے نام نہ ہوتے تو یقینن آپ کبھی ان کے نام نہ جان سکتے۔ خیر ذرا جلدی سے گوگل پر سرچ کریں charlottesville hospital یا یونیورسٹی آف ورجینیا ہسپتال اور وہاں آپ کو تینوں ڈاکٹروں کے لنک مل جانے چاہئے۔ ڈاکٹر اینا سوزان، بدقسمتی سے مجھے ان کے current whereabouts کا علم نہیں یہ میرے انکل کے ساتھ براؤن یونیورسٹی میں PhD in chemistry کی طالب علم تھیں 1976 سے 1986 کے درمیان کا کوئی سال تھا اگر اس دوران کا طالب علم کا ریکارڈ "ہزار ہا نتائج” میں سے ڈھونڈ کے تسلی کرنا چاہیں تو شوق سے۔
مذہبی رواداری کے link سے کیا ظاہر ہوتا ہے؟ میرے خیال سے ہر ذی ہوش کی عقل میں بات فوراُ آ جانی چاہئے۔ یہ وہی لوگ ہیں جو مذہب کو modify کرنے میں لگے رہتے ہیں چاہے عیسائیت ہو یا اسلام۔ عیسائی دنیا میں چرچ کے پیچھے پڑے ہونگے اور مسلمان ہمیشہ مولوی کے پیچھے لٹھ لے کر پڑے رہتے ہیں۔
کتاب کا بتانے کے لئے میں شکر گزار ہوں۔ مگر میری ناقص عقل میں کتاب کا لنک فراہم کرنے کی سمجھ نہیں آ رہی۔ ہاں اگر آپ اپنے موقف کو justify کرنے کے لئے ایسا کر رہے ہیں تو اگر یہ درسی کتاب ہے تو اس میں اس فعل کی افادیت کے متعلق کچھ نہیں ہوگا۔ کیونکہ میں نے tri-cities, Richmond, chesterfield اور Charlottesville کے سبھی اسکولوں کی جنسی تعلیم کی کتب لا کر دیکھ لیں ہیں۔
Authentic یعنی اگر آپکے موقف کی تائید کرتا ہو تو ایسا لنک؟ انٹرنیٹ پر معلومات کے ساتھ ساتھ مواد بھی ہے اس کا فرق مجھے امریکہ آ کر پتہ چلا اس کو سمجھنے کے لئے آپکو وقت درکار ہے۔ امریکہ میں ہلدی کے ایک کمپاؤنڈ کا پیٹنٹ امریکی کمپنی نے حاصل کر لیا بھارت کے حکما نے اس کا نسخہ امریکی عدالت میں پیش کر کے یہ پیٹنٹ منسوخ کروایا۔ امریکی کمپنیاں اس وقت ہندوں حکما سے نسخے حاصل کر کے ان پر ریسرچ کر کے دھڑا دھڑ پیٹنٹ لے رہی ہیں اور دوائیاں بنا رہی ہیں۔ ایسے میں آپکا کہنا کہ حکما کا علم آؤٹ ڈیٹد ہے بڑا عجیب لگتا ہے۔ اور 3٫4 سال پرانے آرٹیکل اپ ڈیٹڈ لگتے ہیں؟ ویسے میں آپکو ڈسکوری چینل کی ڈاکیومینٹری فلم جو کہ سیکس کے بارے میں ہے دیکھنے کا مشورہ دونگا اکثر ان کے چینل پر لگی ہوتی ہے۔
آپکا کہنا کہ فزیالوجسٹ، سائنسدان ڈاکٹر سبھی آپکے موقف کی تائید کرتے ہیں۔ میں نے آپکو تین ڈاکٹروں کا بتایا آپ ان کو فرضی سمجھ رہے ہیں۔ امریکہ اور یورپ میں دواساز کمپنیوں کی اجارہ داری ہے۔ واشنگٹن میں ان کے اثر و رسوخ کے خلاف یہاں احتجاج ہو رہا ہے۔ یہاں کے رہنے والے وال مارٹ اور دیگر واقعات سے واقف ہیں۔ میڈیکل کے خرچے پر لوگ چیخ رہے ہیں وجہ؟ دواساز کمپنیاں اپنے فائدے کے لئے کیسے کیسے خوفناک کام کرتی ہیں اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ اس ساری بات کا مقصد؟ امریکہ میں سب سے زیادہ بکنے والی دوا مرد کا اسٹیمنا بڑھانے والی دوائیاں ہیں جیسے ویاگرا وغیرہ۔ ان کی فروخت ریکارڈ حد تک ہے۔ 23،24 سال کے لوگ اس دوا کو استعمال کرنا شروع کر دیتے ہیں وجہ یہی آپ کی مفید مشق۔ اگر یہ سارے آرٹیکل ختم ہو جائیں اور ڈاکٹر اس کے نقصانات کا بتانے لگ جائیں تو ایک کیمسٹ کے مطابق ان کی طاقت بڑھانے والی دوا کی سیل میں 400 فیصد کمی ہو جائے۔ یہاں کیمسٹ پاکستان کی طرح نہیں ہوتے بی فارمیسی کی چار سال کی ڈگری ہوتی ہے۔ خیال رہے کہ طاقت بڑھانے والی دوا یہاں عام کنوینیٹ اسٹورز پر بھی ملتی ہے۔
معمولی سنسنی خیزی کے نتیجے میں مادہ تولید کے نکلنے کا علاج یہی فعل کیوں تجویز کیا گیا ہے اس کے بارے میں یہاں ایک ٹرم ہے کہ clean the tube کہ اگر یہ کر کے عورت کے پاس جاؤ گے تو جب تک کھیلو گے اس وقت تک premature ejaculate نہیں ہوگا اور eventually آپ کی مردانگی پر پردہ پڑا رہے گا۔
جن فوائد کا آپ نے ذکر کیا یہ عموماُ کسی کے وفات پر بھی حملہ آور ہوتے ہیں تو کیا ایسے میں بھی اس قسم کی مفید مشق سے اعصاب کو سکون پہنچایا جا سکتا ہے؟ پوچھنے کی وجہ یہ ہے کہ میرے ساتھ والی بلڈنگ ایک ڈاکٹر صاحب کی ہے موصوف کا تعلق ہندوستان سے ہے لہذا میں ایسے ہی وہاں چلا جاتا ہوں تو آج دوپہر ایک صاحب انہی علامات کا ذکر کر رہے تھے۔
چلیں خوشی ہوئی آپ نے اس مشق کے ساتھ مفید کا لاحقہ ہٹا لیا۔ خیر چونکہ آپ کو کسی انسان کا کہو تو وہ آپ کو فرضی لگتا ہے لہذا کچھ لنک دیتا ہوں کہ ایسے ہی لوگوں کو صرف ایک قسم کے لنک فراہم ہو رہے ہیں جنکو پڑھ کر اچھے بھلے بندے کا ستیا ناس ہو سکتا ہے۔
1) یہ لنک مفید مشق کی زیادتی کے متعلق معلومات فراہم کرتا ہے۔
2)ایک اور لنک جسمیں اس مفید مشق کی زیادتی کے بارے میں معلومات ہے۔
3) سب سے قیمتی لنک جس کی وجہ میری بات کی تائید کے بجائے انہی باتوں کو پاکستان میں ڈاکٹر سے سننا اپنے کزن کا حال دیکھنا اور پھر یہاں ایڈز سیمنار میں سننا ہے۔ دوسرے اس کی اہمیت وہی سمجھ سکتا ہے جو یہ مفید مشق زور و شور سے کر رہا ہو۔
4) about.com کا ایک صفحہ جس کو معذرت کے ساتھ دے رہا ہوں
آپکی پوسٹ میں کوئی لنک موصول نہیں ہوا۔ براہ مہربانی لنک کرنے کے لئے ایچ ٹی ایم ایل ٹیگز استعمال کریں۔ جیسے اوپر میں نے اور شاکر نے کیا ہے۔
یہ لنک مفید مشق کی زیادتی کے متعلق معلومات فراہم کرتا ہے۔
ایک اور لنک جسمیں اس مفید مشق کی زیادتی کے بارے میں معلومات ہے۔
سب سے قیمتی لنک جس کی وجہ میری بات کی تائید کے بجائے انہی باتوں کو پاکستان میں ڈاکٹر سے سننا اپنے کزن کا حال دیکھنا اور پھر یہاں ایڈز سیمنار میں سننا ہے۔ دوسرے اس کی اہمیت وہی سمجھ سکتا ہے جو یہ مفید مشق زور و شور سے کر رہا ہو۔
about.com کا ایک صفحہ جس کو معذرت کے ساتھ دے رہا ہوں
سلام
off topic( آپ کی سینسر پالیسی کا بھی جواب نہیں۔ اس کی تک بندی تو شائد ثاقب جیسے تبصروں کو روکنے کے لئے ہے مگر میرے خیال میں ایسے تبصرے کرنے والی کی شخصیت کا پتہ دیتے ہیں نہ کہ آپ کی۔
جب تک میں کمپیوٹر پر تھا تبصرے کو اجازت نہیں ملی تھی لہذا مجھے پتہ نہیں چلا اب 24 گھنٹے بعد دیکھا ہے۔
ایک لنک ہربل لو کا ہے اور دوسرا آيورویدک علاج والوں کا۔ حیرت ہے آپ انہیں اتھنٹک ویب سائٹ سمجھتے ہیں۔ جیو سٹیز والا لنک ایک تیس سالہ پاکستانی مرد کا لکھا ہوا ہے۔ جو نہ کہ ڈاکٹر ہے نہ میڈیکل کے کسی اور شعبے سے وابستہ ہے۔ پانچواں لنک اسلامی موقف پیش کرتا ہے نہ کہ سائنٹفک۔
salam
I dont think so I used the word authentic while providing the links. so here is the million dollar question. Do you masturbate? and are you man enough to answer? hope you wont hesitate or would be shameful to answer.
there is no 5th link. yes someone wrote who is neither doctor nor scientis and i told you if all the doctors start givin u the exact advice what would happen and did u by any chance missed his saying about what doctors said when he discussed with them ?
there is no reason to be alergic of islamic point of view becoz it wasnt for u as i promised i wont put islamic views to prove my point it was jst to answer the "religious tolerance” link which could missguide any of ur readers.
and as for as link goes you must understand that allopathic doctors will never tell u the truth. because its not you how pay their salaries. they will always tell what they are ordered to.
you dont think the first two links are well aunthenticated to be an authority no problem what abt those other articles over at webmd? thats the auntenticated site accroding to u
so rather than to ask many questions and always been answered as if there is no question at all i jst asked u one question and we will come to kno how much courage you have to answer as you want peoples to talk on the subject.
offtopic) I am really sorry to write in english but the computer i am using doesnt have support for english and since its an ancient one clickin on urdu and then typing makes a lot of mess.
Ohh you just dared my masculinity. Oh God! now I must prove things to you. Dearest Badtmz I apologize for not answering your question and accepting my defeat. You are just too damn good at arguing no one can win over you. I accept my defeat.
🙂
سلام
میرے سوال کا جواب پھر گول۔ آپ پھر غلط سمجھ رہے ہیں میرا مقصد آپ کو نیچا دکھانا نہیں تھ۔
مسلمانوں میں مقبول عام ہوتی ویب سائٹ http://www.inikah.com
شادی کی اہمیت وافادیت پر کسی فرد کو کلام نہیں ، شادی کے بعد ایک نئی
زندگی کی شروعات تصورکی
جاتی ہے، اس کے بغیر سماجی زندگی کاتصور نہیں کیاجاسکتا،معاشرے کی ترقی اور فلاح وبہبود اسی میں پنہا
ہے، اسی سے خاندانوں میں پروان چڑھتا ہے،اور معاشرے کی تشکیل ہوتی ہے، اس کے بغیر برائیوں اور بے حیائیوں کے راستے کھلتے ہیں۔
آج سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ کسطرح اس خوبصورت لمحہ کو یادگار اور کامیاب بنایاجائے،کیوں کہ موجودہ دور میں اپنے پسند کے رشتے تلاش کرنابہت مشکل امر ہے، کچھ لوگ رشتہ طے کرانے کا
کام انجام دے رہے ہیں ،لیکن اس سماجی اور دینی کام کومشاطہ حضرات نے ایک کاروبار ی شکل دے دی
ہے،ایک رشتہ طے کرانے کیلئے اتنے پیسوں کامطالبہ کیاجاتاہے جو ایک عام آدمی اس کی استطاعت نہیں رکھتا، کچھ پڑھے لکھے طبقہ انگریزی اخباروں اور غیر اسلامی ویب سائٹس کاسہارا لیتے ہیں تو ایسی صورت میں غیر مسلم خاندانوں کی طرف سے بھی فون کالس آنے لگتے ہیں ، رشتے طے کرانے کیلئے کئی ویب سائٹس ملک و بیرون ملک کام انجام دے رہے ہیں لیکن ان سب میں لڑکیوں کی تصویروںکی زیادہ سے زیادہ نمائش کیجاتی ہے، اور ان کابیجا استعمال کیاجاتا ہے،اس طرح کے ویب سائٹس آج کل صرف تفریح و طبع کیلئے دیکھا جاتاہے، جہاں اسلامی شریعت کا کو ئی پاس و لحاظ نہیں کیا جاتا ، ان تمام صورت حال کو مد نظر رکھتے ہوئے بنگلور کی ایک مسلم سافٹ ویئر کمپنی online mPower labs (p) ltd نے دنیاکا سب سے پہلااسلامک ویب سائٹ iNikah.com کے نام سے تشکیل دی ہے جو اپنی تشکیل کے روز اول ہی سے اسلامی تعلیمات کی روشنی میںمسلمان لڑکے ولڑکیوں کے رشتے طے کرانے کی خدمات سرانجام دے رہی ہے جس سے ایک سال کے مختصر عرصہ میں ملک وبیرون ملک کی ایک کثیر تعداد استفادہ کرچکی ہے۔
http://www.iNikah.com کے آغاز کا مقصد مسلم سماج میں شادی بیاہ کے حوالے سے موجودہ سماجی برائیوں کو ختم کرتے ہوئے شادی کے لائق مسلم نوجوان لڑکے و لڑکیوں کیلئے اپنی پسند کے رشتے کو آسان عمل بناکر پیش کرنا ہے ۔
http://www.iNikah.com کی خصوصیات یہ ہیں کہ بنیادی طور پر اسلامی تشخص کالحاظ رکھا گیا ہے ۔ اس ویب سائٹ پر لڑکیوں کی تصاویر موجود ہیں لیکن ان کا مشاہدہ اس وقت تک نہیں کیا جاسکتا جب تک کہ لڑکی کے سرپرست اس کی اجازت نہ دے دے، جب کہ دیگر رشتے لگانے والی ویب سائٹس میں ایسا کچھ نہیں ہے، نتےجتا لڑکیوں کی تصاویر لوگ تفریح و طبع اور بے مقصد بھی دیکھتے ہیں جب کہ iNikah.comمیںلڑکے والے کسی لڑکی کا بائیو ڈاٹادیکھنے کے بعد لڑکی کی تصویر دیکھنا چاہتے ہیں تو انہیں اپنا بائےو ڈاٹا بتلاتے ہوئے لڑکی والو ں کا وہ پاس ورڈ حاصل کر نا ہوتا ہے جس کو ٹائپ کر نے کے بعد ہی لڑکی کی تصویر تک رسائی ہوتی ہے۔ iNikah.comکے ذریعہ لڑکی ڈھونڈنے والے لڑکوں اور ان کے سرپرستوں سے یہ ضمانت لیتی ہے کہ وہ جہیز کامطالبہ نہ کریں ۔ شادی طے ہوجانے کے بعد دوران شادی بے دریغ مال خرچ نہ کریں۔ شادی میں ہونے والی برائےوں کو ختم کرنے کا عہد کریں۔
چونکہ ترقی کے اس دور میں جس طرح دنیا کی ساری چیزوں میں تغیرات ہوے اور ہورہے ہیں اسی طرح شادی کے سلسلے میں نوجوان طبقہ کے خیالات بھی بدلتے جارہے ہیں ،عام طورپر ہندوستانی لڑکوں کو تعلیم یافتہ اور خوبصورت لڑکیوں کی تلاش رہتی ہے ،تو لڑکیاں ایسےشوہر کی تلاش میں رہتی ہیں جن کی معاشی حالات مستحکم ہوں اوراسلامی تعلیمات سے آراستہ ہوں تاکہ اپنی بیوی کے صحیح حقوق ادا کرسے، شاید اسی لئے ردا خانم نے اپنی بیٹی کیلئے http://www.inikah.com نامی ویب سائٹ پر رجسٹر کرایا ،کیونکہ یہ ویب سائٹ نہ صرف رشتہ طے کراتی ہے ، بلکہ اسلامی شریعت کے مطابق بنائی گئی یہ ویب سائٹ جھیز جیسے بری لعنت سے بچنے کا عہد بھی لیتی ہے،اس ویب سائٹ کا دعوٰی ہے کہ ان کی بھر پور کوشش سے ایک بہترین ہمسفر مل سکتا ہے۔www.inikah.com کے(چیف ایکزیکٹیو آفیسر)احمد حسن کا کہنا ہے کہ ہندوستان میں عام آدمی کیلئے انٹرنیٹ پر رشتے تلاش کرنا اب معمولی بات ہے۔
ہندوستان میں آئی ٹی کے ماہرین نہ صرف ملازمتوں کی مارکیٹ میں مقبولیت حاصل کررہے ہیں بلکہ شادیوں کیلئے بھی انھیں سب سے زیا دہ ترجیح دیجاتی ہے۔
آئی نکاح ڈاٹ کام سے مسلمانوں کی دلچسپی کو دیکھتے ہوے کمپنی کے c.e.o. احمد حسن کا کہنا ہے کہ ” انشا ءاللہ آنے والے دوتین مہینوں کے اندراس ویب سائٹ میں اردو ،عربی اور ہندی زبان کی سہولیات فراہم کئے جائیں گے۔ “
iNikah.comملک کے بڑے بڑے شہروں میں سمپل نکاح پوائنٹس کی شروعات کرچکی ہے، جن کے ذریعہ جنھیں انٹر نیٹ کے استعمال سے شناسائی نہیں ہے وہ بھی اپنے رشتوںکارجسٹریشن آف لائن کراسکیں گے، iNikah.comایک اچھی شروعات ہے جس کی ستائش کی جانی چاہئے
۔
از: محمد تنویر عالم قاسمی
Email Id: tanveeralamqasmi@yahoo.co.in
مسلمانوں میں مقبول عام ہوتی ویب سائٹ http://www.inikah.com
شادی کی اہمیت وافادیت پر کسی فرد کو کلام نہیں ، شادی کے بعد ایک نئی
زندگی کی شروعات تصورکی
جاتی ہے، اس کے بغیر سماجی زندگی کاتصور نہیں کیاجاسکتا،معاشرے کی ترقی اور فلاح وبہبود اسی میں پنہا
ہے، اسی سے خاندانوں میں پروان چڑھتا ہے،اور معاشرے کی تشکیل ہوتی ہے، اس کے بغیر برائیوں اور بے حیائیوں کے راستے کھلتے ہیں۔
آج سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ کسطرح اس خوبصورت لمحہ کو یادگار اور کامیاب بنایاجائے،کیوں کہ موجودہ دور میں اپنے پسند کے رشتے تلاش کرنابہت مشکل امر ہے، کچھ لوگ رشتہ طے کرانے کا
کام انجام دے رہے ہیں ،لیکن اس سماجی اور دینی کام کومشاطہ حضرات نے ایک کاروبار ی شکل دے دی
ہے،ایک رشتہ طے کرانے کیلئے اتنے پیسوں کامطالبہ کیاجاتاہے جو ایک عام آدمی اس کی استطاعت نہیں رکھتا، کچھ پڑھے لکھے طبقہ انگریزی اخباروں اور غیر اسلامی ویب سائٹس کاسہارا لیتے ہیں تو ایسی صورت میں غیر مسلم خاندانوں کی طرف سے بھی فون کالس آنے لگتے ہیں ، رشتے طے کرانے کیلئے کئی ویب سائٹس ملک و بیرون ملک کام انجام دے رہے ہیں لیکن ان سب میں لڑکیوں کی تصویروںکی زیادہ سے زیادہ نمائش کیجاتی ہے، اور ان کابیجا استعمال کیاجاتا ہے،اس طرح کے ویب سائٹس آج کل صرف تفریح و طبع کیلئے دیکھا جاتاہے، جہاں اسلامی شریعت کا کو ئی پاس و لحاظ نہیں کیا جاتا ، ان تمام صورت حال کو مد نظر رکھتے ہوئے بنگلور کی ایک مسلم سافٹ ویئر کمپنی online mPower labs (p) ltd نے دنیاکا سب سے پہلااسلامک ویب سائٹ iNikah.com کے نام سے تشکیل دی ہے جو اپنی تشکیل کے روز اول ہی سے اسلامی تعلیمات کی روشنی میںمسلمان لڑکے ولڑکیوں کے رشتے طے کرانے کی خدمات سرانجام دے رہی ہے جس سے ایک سال کے مختصر عرصہ میں ملک وبیرون ملک کی ایک کثیر تعداد استفادہ کرچکی ہے۔
http://www.iNikah.com کے آغاز کا مقصد مسلم سماج میں شادی بیاہ کے حوالے سے موجودہ سماجی برائیوں کو ختم کرتے ہوئے شادی کے لائق مسلم نوجوان لڑکے و لڑکیوں کیلئے اپنی پسند کے رشتے کو آسان عمل بناکر پیش کرنا ہے ۔
http://www.iNikah.com کی خصوصیات یہ ہیں کہ بنیادی طور پر اسلامی تشخص کالحاظ رکھا گیا ہے ۔ اس ویب سائٹ پر لڑکیوں کی تصاویر موجود ہیں لیکن ان کا مشاہدہ اس وقت تک نہیں کیا جاسکتا جب تک کہ لڑکی کے سرپرست اس کی اجازت نہ دے دے، جب کہ دیگر رشتے لگانے والی ویب سائٹس میں ایسا کچھ نہیں ہے، نتےجتا لڑکیوں کی تصاویر لوگ تفریح و طبع اور بے مقصد بھی دیکھتے ہیں جب کہ iNikah.comمیںلڑکے والے کسی لڑکی کا بائیو ڈاٹادیکھنے کے بعد لڑکی کی تصویر دیکھنا چاہتے ہیں تو انہیں اپنا بائےو ڈاٹا بتلاتے ہوئے لڑکی والو ں کا وہ پاس ورڈ حاصل کر نا ہوتا ہے جس کو ٹائپ کر نے کے بعد ہی لڑکی کی تصویر تک رسائی ہوتی ہے۔ iNikah.comکے ذریعہ لڑکی ڈھونڈنے والے لڑکوں اور ان کے سرپرستوں سے یہ ضمانت لیتی ہے کہ وہ جہیز کامطالبہ نہ کریں ۔ شادی طے ہوجانے کے بعد دوران شادی بے دریغ مال خرچ نہ کریں۔ شادی میں ہونے والی برائےوں کو ختم کرنے کا عہد کریں۔
چونکہ ترقی کے اس دور میں جس طرح دنیا کی ساری چیزوں میں تغیرات ہوے اور ہورہے ہیں اسی طرح شادی کے سلسلے میں نوجوان طبقہ کے خیالات بھی بدلتے جارہے ہیں ،عام طورپر ہندوستانی لڑکوں کو تعلیم یافتہ اور خوبصورت لڑکیوں کی تلاش رہتی ہے ،تو لڑکیاں ایسےشوہر کی تلاش میں رہتی ہیں جن کی معاشی حالات مستحکم ہوں اوراسلامی تعلیمات سے آراستہ ہوں تاکہ اپنی بیوی کے صحیح حقوق ادا کرسے، شاید اسی لئے ردا خانم نے اپنی بیٹی کیلئے http://www.inikah.com نامی ویب سائٹ پر رجسٹر کرایا ،کیونکہ یہ ویب سائٹ نہ صرف رشتہ طے کراتی ہے ، بلکہ اسلامی شریعت کے مطابق بنائی گئی یہ ویب سائٹ جھیز جیسے بری لعنت سے بچنے کا عہد بھی لیتی ہے،اس ویب سائٹ کا دعوٰی ہے کہ ان کی بھر پور کوشش سے ایک بہترین ہمسفر مل سکتا ہے۔www.inikah.com کے(چیف ایکزیکٹیو آفیسر)احمد حسن کا کہنا ہے کہ ہندوستان میں عام آدمی کیلئے انٹرنیٹ پر رشتے تلاش کرنا اب معمولی بات ہے۔
ہندوستان میں آئی ٹی کے ماہرین نہ صرف ملازمتوں کی مارکیٹ میں مقبولیت حاصل کررہے ہیں بلکہ شادیوں کیلئے بھی انھیں سب سے زیا دہ ترجیح دیجاتی ہے۔
آئی نکاح ڈاٹ کام سے مسلمانوں کی دلچسپی کو دیکھتے ہوے کمپنی کے c.e.o. احمد حسن کا کہنا ہے کہ ” انشا ءاللہ آنے والے دوتین مہینوں کے اندراس ویب سائٹ میں اردو ،عربی اور ہندی زبان کی سہولیات فراہم کئے جائیں گے۔ “
iNikah.comملک کے بڑے بڑے شہروں میں سمپل نکاح پوائنٹس کی شروعات کرچکی ہے، جن کے ذریعہ جنھیں انٹر نیٹ کے استعمال سے شناسائی نہیں ہے وہ بھی اپنے رشتوںکارجسٹریشن آف لائن کراسکیں گے، iNikah.comایک اچھی شروعات ہے جس کی ستائش کی جانی چاہئے
۔
از: محمد تنویر عالم قاسمی
Email Id: tanveeralamqasmi@yahoo.co.in
http://www.inikah.com کی شروعات ایک اچھی کوشش
جناب نعمان یعقوب صاحب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
امید کرتا ہوں کہ آپ بخیر ہونگے، بڑی خوشی ہوی جب میں آپکے طرف سے بھیجا ہوا ایک الکترانک نامہ پایا،اس سے واضح ہوتا ہے کہ نعمان کی ڈائری ایک فعال بلاگ ہے۔
محترم نعمان صاحب http://www.inikah.com مسلمانوں میں بیحد مقبول ہورہی ہے کیوں کہ یہ ہر عام خاص و خواص کیلئے برابر مفید ہے ،میں اس طرح کیا واضح کروں آپ سوال کیجیئے ان شا ءاللہ میں تشفی بخش جواب دونگا،کیوں کہ کچھ باتیں ہیں جو ابھی واضح نھیں کیا جا سکا ہے ، مزید یہ کہ http://www.inikah.com اپنے محبین کی بھر پور حمایت کی وجہ سے آف لائن خدمت بھی جاری کردیا ہے۔
والسلام
تنویر
tanveeralamqasmi@yahoo.co.in