کراچی کے ساحل کے قریب گہرے پانیوں میں سینکڑوں ڈولفن اور وہیل مچھلیوں کا پتہ چلا ہے۔ یونیورسٹی آف اسکاٹ لینڈ میرین بایولوجیکل اسٹیشن، ورلڈ وائلڈ فنڈ پاکستان، یونیورسٹی آف کراچی میرین بایولوجی ریسرچ سینڑ کے اشتراک سے قائم کردہ ٹیم نے کراچی کے اردگرد گہرے پانی میں پائی جانیوالی آبی حیات کا پہلا جامع سروے شروع کیا ہے۔ یہ ایک دلچسپ پیش رفت ہے کیونکہ اس سے پاکستان کے سمندروں میں موجود آبی حیات کی معلومات حاصل ہوگی۔ خصوصا پاکستانی Cetaceans کے بارے میں مفید معلومات ملی ہیں اور ساتھ ہی ان آبی ممالیہ کی کچھ نئی species کا بھی پتہ لگا ہے۔
یہ اطلاع اس لئے بھی دلچسپ ہے کہ آبی ممالیائی مخلوق کے ارتقاء کی کڑیاں پہلے بھی پاکستان کے شمالی علاقوں سے کی صورت فوسلز برآمد ہوئی ہیں۔ جن سے ان آبی ممالیہ کے ارتقاء کی مفید معلومات حاصل ہوئی ہیں۔ اس لئے پاکستان کے سمندر میں ان نسلوں کا پایا جانا ایک خوش کن خبر ہے۔
اللہ کرے يہ بچ جائيں ۔ پاکستان کے درياؤں سے تو ڈائينامائٹ چلا چلا کر مچھلياں پکڑنے والوں نے مچھليوں کی عمدہ نسليں يعنی ملیح ۔ سنگھاڑا ۔ راہو ۔ ڈولا ۔ کھگا ۔ مہاشير وغيرہ سب کی نسل کُشی کر دی ہے ۔
سلام
سروے ہو گیا اب تباہی آنی ہے بے چاروں پر پیسہ بنانے والے لوگ اب للچائی ہوئی نظروں سے اس کے پیچھے پڑ جائیں گے۔
ان کے تحفظ کی ذمے داری ہم سب کی ہے۔ پاکستانی فشرمین اتنی ڈیپ سی فشنگ نہییں کرتے لیکن اگر حکومت بیرونی کمپنیوں کو لائسنس دیتی ہے تو ان کے نیٹس سے ان مچھلیوں کو نکالنے اور بچانے کا انتظام ہونا چاہئے۔ اس کے علاوہ سمندری آلودگی بھی ان کی بقاء کے لئے ایک خطرہ ہے۔