کراچی میں کسی زمانے میں ایک سینما ریوالی ہوا کرتا تھا۔ یہ سینما اس علاقے میں تھا جہاں آج نشیمن اور افشاں سینما بدستور فلمی انڈسٹری کی زبوں حالی سے لڑ رہے ہیں اور بری بری فلمیں چلا کر کسی نہ کسی طرح ابھی تک کھلے ہیں۔ کچھ مہینے پہلے جوبلی سینما بھی ڈھادیا گیا ہے۔ خیر تو ریوالی کے برابر میں ایک لسی والے کی دکان تھی۔ جب لوگ فلم دیکھ کر نکلتے تھے تو اس دکان سے لسی پیا کرتے تھے۔ سالوں بعد وہ سینما تو نہیں رہا مگر لسی والے نے خوب ترقی کی۔ سینما کے ختم ہونے کے بعد وہ علاقہ گاڑیوں کے پارٹس کی خریداری کا مرکز بن گیا۔ کچھ دور مزید نئے شاپنگ سینٹر بھی کھل گئے۔ آج بھی وہ دکاندار ڈیڑھ سو من دودھ کی روزانہ لسی، دہی، دودھ، دودھ کی بوتلیں بیچ رہا ہے۔ اور یہ دکان اب اس علاقے میں ریوالی کے نام سے مشہور ہے۔ میری دکان اس دکان سے تھوڑی ہی دور ہے۔ لیکن ہماری دکان کی طرف ایک بہت گنجان قدیم رہائشی علاقہ ہے۔ ہماری زیادہ دکانداری گھریلو صارفین پر مشتمل ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ہماری لسی زیادہ نہیں بکتی۔ ہاں دودھ اور دہی خوب چلتے ہیں۔
ریوالی والا ہماری دکان سے مشرق کی سمت پر ہے۔ مغرب میں ایک اور دکاندار ہے۔ چنوں پہلوان۔ یہ صاحب کوئی تیس سال پہلے سڑک پر پتھارا لگا کر دودھ بیچا کرتے تھے۔ آج دکان میں بیٹھ کر ساٹھ من دودھ دہی لسی وغیرہ بیچ رہے ہیں۔
شمال میں بے شمار دودھ کی چھوٹی موٹی دکانیں دکانیں ہیں اور جنوب میں دلپسند مٹھائی والا ہے۔ یہ صاحب ایک متروک بلڈنگ میں جلیبیاں بیچا کرتے تھے اور آج ان کی مٹھائی باہر ملکوں میں بھیجی جارہی ہے۔ ان کی دکان کے بالکل سامنے صابری نہاری ہاؤس ہے۔ یہ وہی نہاری والے ہیں جن کی نہاری کی ساری دنیا میں دھوم ہے۔ ان کی دکان کے پیچھے اردو بازار ہے اور اس سے آگے برنس روڈ جہاں کی حلیم، نہاری، ربڑی، بریانی اور کٹاکٹ نے دنیا بھر میں مقبولیت کے جھنڈے گاڑے ہیں۔ برنس روڈ سے اگر آپ بس میں بیٹھیں تو صرف پانچ منٹ کے فاصلے پر صدر ہے. جہاں شفیق کا میرٹھی کباب ہاؤس ہے جو سن سینتالیس سے چل رہا ہے۔ اس سے آگے ایک قلفی کی دکان ہے۔ جو تاریخی بھی ہے اور بے حد مشہور بھی۔ اس کے بعد غوثیہ ہوٹل ہے جو اب بند ہوچکا ہے کیونکہ ایک پارٹی نے غوثیہ سنز کی آپسی چپقلش کا فائدہ اٹھا کر یہ کروڑوں روپے کا ہوٹل بہت اچھے داموں میں خرید لیا ہے۔ اس سے پیچھے گلی میں ایس سلیمان مٹھائی والے ہیں۔
برنس روڈ واپس آئیں تو فریسکو سوئٹس، بھاشانی سوئٹس اور حافظ کے سموسے اور منی گلاب جامن بھی وہ تاریخی جگہیں ہیں جو آج بھی معیار اور ذائقے کی پہچان ہیں۔ برنس روڈ ہی پاکستان کا وہ علاقہ ہے جہاں سے بن کباب نکلا جو برگر کی کلانچوی شکل ہے۔ جس ٹھیلے سے یہ بن کباب نکلا تھا وہ ٹھیلا آج بھی فریسکو کے سامنے موجود ہے اور آج بھی کراچی کا بیسٹ بن کباب وہیں سے مل سکتا ہے۔ یہ سب دکانیں کہاں واقع ہیں اسے دیکھنے کے لئیے گوگل ارتھ استعمال کریں اور لےیرز میں٘ گوگل ارتھ کمیونٹی چیک کردیں۔
کراچی کے کھانوں میں دہلی سے آئے ہوئے مہاجروں کا بڑا حصہ ہے اوپر بیان کی گئی زیادہ تر دکانیں دہلی والوں ہی کی ہیں۔ مگر آج اگر نہاری، حلیم، بریانی، چکن تکوں کی بات ہو تو دہلی کی مثال کوئی نہیں دیتا۔ کراچی حلیم اور بریانی کے نام سے ریستوران شمالی امریکہ میں بھی چل رہے ہیں اور صابری نہاری کے نام سے ایک ریستوران شکاگو میں چل رہا ہے۔ کراچی کا سوہن حلوہ اور مصالحہ جات دنیا بھر میں ایکسپورٹ ہورہے ہیں۔
یہ سب لکھنے کا سبب بنا اجمل صاحب کا میری پچھلے پوسٹ پر تبصرہ جس سے مجھے یہ سوچنا پڑا کہ اگر وہ میری دکان آئے تو میں انہیں لسی کے علاوہ اور کیا کھلاؤں گا۔ دیکھیں اجمل صاحب آپشنز کی کمی نہیں بس جلدی سے ٹکٹ پکڑ کر آجائیں۔ قدیر کو بھی دعوت ہے۔ لیکن قدیر میاں میں نے یہ سنا ہے کہ ملتان میں ایک دکان ہے جہاں کی لسی بے مثال ہے۔ آتے ہوئے ان سے ذرا گر پوچھتے آنا۔ شعیب صفدر تو کراچی میں ہی رہتے ہیں بائیک پر بیٹھ کر منٹوں میں پہنچ سکتے ہیں۔ کراچی کے ایک روشن خیال بلاگر تو سمجھیں میرے ہی محلے میں رہتے ہیں اور ان سے ملاقات بھی ہوچکی ہے۔ لیکن وہ دکان پر نہیں آئے حضور آپ بھی کبھی وقت نکالیں۔ بے فکر رہیں میری دکان میں پلاسٹک کے کپ بھی ہیں اور اسٹرا بھی۔ دیگر بلاگر حضرات و خواتین کو بھی دعوت ہے۔اب اتنا سارا ذکر کھانے کا ہوا ہے اور رمضان بھی ختم ہوگئے ہیں تو میں چلا حلوہ پوری کھانے خداحافظ۔
ميرا بچپن گوجرانواله كے ايكـ گاؤں ميں گذرا هے ـ
ميرے داداجان ايكـ دهڑوائى تهے (وه ادمى جسےاجناس كے ماپ تول كا اختيارهوتاهے)ـ
هم اكثر گوجرانواله جاتے رهتے تهے اور چسكا كى سارى دوكانيں ميرے داداجان نے مجهے ديكهائيں هوى هيں ـ
آپ كى تحرير نے گوجرانواله ياد كرواديا ـ
كراچي ايكـ بڑا شهر هے مگر كهانوں ميں گوجرانواله كا بهى ايكـ اپنا مقام هے
کراچي کے کھانے مزے دار ہيں مگر کھانے والے جتنے آپ کو لاہور اور گوجرانوالہ ميں مليں گے اور کہيں نہيں مليں گے۔ آپ کا کبھي لاہور يا گوجرانوالہ کا چکر لگے تو آپ نوٹ کريں گے کہ شائيد ان لوگوں کو کھانے کے سوا کوئي اور کام ہي نہيں ہے۔ يہ سب کھاتے پيتے پہلوان قسم کے لوگ آپ ديکھ کر شائيد اپني دکان کراچي سے لاہور شفٹ کرليں۔
سري پاۓ، چڑياں، بٹير، مرغ روسٹ، مرغ چھولے،دودھ لسي، گلاب جامن، ہر جگہ آپ کو بھيڑ ہي بھيڑ نظر آۓ گي۔
نعمان صحاب آپ کی دوکان کی لسی اپریل میں پیو گا ؛) ویسے ہو میں بھی کراچی کا ہی مگر کافی عرصے سے آئرلینڈ میں مقیم ہو
لاہور کے کھانوں کی کیا بات ہے جناب۔ کبھی کھائے نہیں مگر تعریف ضرور سنی ہے البتہ گوجرانوالہ کا اس معاملے میں کبھی ذکر نہیں سنا۔ بتانے والے کہتے ہیں کہ لاہوری کھانے کے شوقین ہوتے ہیں۔ اور اب تو فوڑ اسٹریٹ کھلنے کے بعد اور بھی مزہ آتا ہوگا۔ کراچی میں ایسا نہیں یہاں لوگ کھانے سے زیادہ اس بات سے خوش ہوتے ہیں کہ وہ کہیں باہر جاکر کچھ ذائقہ دار چیز چکھیں۔ نوے کے خونی دہائی کے بعد سے کراچی کے لوگوں کی عادات پر بہت فرق پڑا ہے اور ریستوران اب پکنک اسپاٹ بھی ہیں تو لورز اسپاٹ بھی۔ اب تو ملٹی نیشنلز بھی اپنی ہائی پروفائل میٹنگز ریستورانوں میں کرنے لگی ہیں۔ کھانے سے ان لوگوں کو کوئی لگاؤ نہیں ہوتا۔ کھانا کیسا اور کہاں کھایا جارہا ہے یہ بات تفریح کا سبب مانی جاتی ہے۔ جواد تمہیں ہر وقت خوش آمدید کہا جائے گا۔
Dude! i miss karachi and i still remeber we friends mostly go for hoteling when we r in school it was so fun. When i was in karachi last year i saw the whole road from Gulshan Chowrangi to Karachi Expo center … is seems like a food street. i still remeber My friends and me visit Lasanya resturent @ Gulshan. I stay in karachi like 17 days but it was lot of fun …
I will visit ur shop with my friends on my next visit …. Inshallah
Its really nice post
دعوت کا بہت بہت شکریہ ۔ کہتے ہیں یار زندہ صحبت باقی ۔ اللہ کو منظور ہوا تو ضرور ملاقات ہو گی ۔ آپ نے نہ صرف کھانے کے علاقہ کی سیر کرا دی بلکہ میری پرانی یادیں بھی تازہ کر دیں ۔ پھر مجھے وہ بہت پرانے دن بھی یاد آئے جب دہی کا نام سن کر کراچی والوں کو زکام ہو جاتا تھا اور دہی کی لسی کے نام پر انہیں ابکائی آتی تھی ۔ نمعلوم کس طرح کسی لاہور یا گوجرانوالا کے شخص نے صدر میں کھیر بیچنا شروع کی اور پھر دہی اور لسی شروع ہوئی ۔ اب تو یوں لگتا ہے کہ دہی اور لسی شائد کراچی کی ایجاد ہے ۔
کھانوں میں گوجرنوالا بھی لاہور سے پیچھے نہیں ہے بلکہ اب بھی کئی چیزیں لاہور والے گوجرانوالا سے منگواتے ہیں ۔ خوبی یہ ہے کہ لاہور اور گوجرنوالا میں کھانے لذیذ مگر دام کم ہوتے ہیں اس لئے عام لوگ بھی شوق سے کھاتے ہیں ۔
well i m really missing my days n karachi now that i have read ur post today..u have really a good blog n u had earned a regular visiter …there r only two urdu blog which i check regularly this seem to become the 3rd one ..happy bloggin
آپ کی دعوت سر آنکھوں پر۔۔۔۔ آئے گے ہم مگر اپنے خرچہ پر سر۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ
شکریہ جناب
جزاک اللہ
کافی دنوں کے بعد دیارغیر میں رہنے والا آپکا ہم وطن کو اس موضوع اور معلومات کو پڑھ کر تھوڑی دیر کے لیے خود کو وہاں محسوس کیا
اور یاد آگیے جب ہم نکلا کرتے تھے چوہدری فرزند علی کی قلفی کھانے اور پشاوری آیسکریم کا مزہ لینے اور ساتھ ہی ساتھ سموسہ کارنر سے گرما گرم سموسے کھانے ، اللہ پاک نے اس سرزمین کو کافی دولت سے نوازا ہے لیکن ہم اس بات کو پچھلے پچاس سال سے سمجھنے کی کوشش کررہے ہیں اور یہ گھٹی سلجھتی نہیں۔
اللہ رحم کرے۔
سُوۡرَةُ البَقَرَة
لَا يُكَلِّفُ ٱللَّهُ نَفۡسًا إِلَّا وُسۡعَهَاۚ لَهَا مَا كَسَبَتۡ وَعَلَيۡہَا مَا ٱكۡتَسَبَتۡۗ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذۡنَآ إِن نَّسِينَآ أَوۡ أَخۡطَأۡنَاۚ رَبَّنَا وَلَا تَحۡمِلۡ عَلَيۡنَآ إِصۡرً۬ا كَمَا حَمَلۡتَهُ ۥ عَلَى ٱلَّذِينَ مِن قَبلِنَا رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهِۦۖ وَٱعۡفُ عَنَّا وَٱغۡفِرۡ لَنَا وَٱرۡحَمۡنَآۚ أَنتَ مَوۡلَٮٰنَا فَٱنصُرۡنَا عَلَى ٱلۡقَوۡمِ ٱلۡڪَـٰفِرِينَ (٢٨٦)
ترجمہ
خدا کسی شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔ اچھے کام کرے گا تو اس کو ان کا فائدہ ملے گا برے کرے گا تو اسے ان کا نقصان پہنچے گا۔ اے پروردگار اگر ہم سے بھول یا چوک ہوگئی ہو تو ہم سے مؤاخذہ نہ کیجیو۔ اے پروردگار ہم پر ایسا بوجھ نہ ڈالیو جیسا تو نے ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالا تھا۔ اے پروردگار جتنا بوجھ اٹھانے کی ہم میں طاقت نہیں اتنا ہمارے سر پر نہ رکھیو۔ اور (اے پروردگار) ہمارے گناہوں سے درگزر کر اور ہمیں بخش دے۔ اور ہم پر رحم فرما۔ تو ہی ہمارا مالک ہے اور ہم کو کافروں پر غالب فرما