پکنک ان ہسپتال

عید پر اعجاز بھائی کو بخار ہورہا تھا۔ جو کسی طرح اترنے کا نام نہ لے رہا تھا۔ تیسری عید کو ان کے گھر والے انہیں ہمدرد یونیورسٹی ہسپتال لے گئے۔ وہاں جا کر وائرل انفیکشن تشخیص ہوا اور انہوں نے ایک کمرا اعجاز بھائی کو الاٹ کردیا۔ نورالعین مناہل کو ہمارے گھر چھوڑ کر خود سارا دن ہسپتال میں رہتی۔ تین دن بعد ہسپتال والوں نے انہیں چھوڑ دیا۔ اب ماشاءاللہ وہ خیریت سے ہیں۔

ہمارے یہاں لوگوں کو اتنا شوق عیادت کا نہیں ہوتا جتنا ہسپتال جانے کا ہوتا ہے۔ ادھر سنا کہ فلاں شخص ہسپتال میں ہے ادھر اس کی عیادت کو دوڑے۔ وہی شخص جب گھر میں ہوتا ہے تو کوئی اس کی عیادت کو نہیں آتا۔ اعجاز بھائی کو بھی تین دن تیماردار اور عیادت دار گھیرے رہے۔ وہیں بیٹھے بیٹھے اعجاز بھائی کے سرہانے رکھے سارے پھل کھاجاتے، خوب کولڈ ڈرنکس اور چائے پیتے، ادھر ادھر کی برائیاں کرتے، بیماریوں پر اپنی اپنی تحقیقاتی روپورٹس شیئر کی جاتیں۔ مریض کو ایسے سب قصے سنائے جاتے جہاں ایک آدمی معمولی بخار کے وائرس سے پاگل ہوگیا یا عازم سفر اخیر ہوا۔ اگر مریض ڈرنے سے انکار کردیتا تو اسے یہ بتایا جاتا کہ یہ بخار کسی موذی بیماری کا پیش خیمہ بھی ہوسکتا ہے۔ بوڑھی خواتین منہ ہی منہ کچھ بدبدا کر پھونکیں مارتیں۔ مرد حضرات مریض کے سرہانے بیٹھ کر اپنے کاروبار کے اسرار و رموز ایکدوسرے کو بتاتے۔ کبھی پالیٹیکس پر بات ہوتی کبھی زلزلے پر۔

اعجاز بھائی کے پاس رات کو ان کی والدہ یا رشتے کی نانی رکتیں مردوں میں ان کا ایک کزن رکتا جو ہسپتالوں میں بطور تیمار دار رہنے کے حوالے سے خاصا تجربہ کار ہے۔ اور یہ سب اٹینڈینٹس ساری رات گھوڑے ہی نہیں، گدھے، گائے بھینسیں، بکری، دنبے، کتے، بلیاں اور کوے بیچ کر سوتے اور صبح دس بجے تک کروٹ بھی نہ لیتے۔

مناہل بڑی بہادر بچی ہے۔ تین دن تک اس نے ایک بار بھی اپنے پاپا کے پاس جانے کی ضد نہ کی اور جب پاپا نے ہسپتال سے فون کیا تو بولی۔ "پاپا آپ مجھے بہت یاد آرہے ہیں مجھے نانی کے ہاں سے لے جائیں”۔ اس سارے عرصے میں اس نے ہمارے گھر میں کسی کو تنگ نہ کیا، نہ روئی نہ ضد کی۔ ورنہ جب وہ اپنی امی کے ساتھ ہوتی ہے تو اتنا شور مچاتی ہے اور بہت ضد کرتی ہے۔ جب اس کے پاپا گھر آگئے تو وہ گھر جاکر اجنبی سی بنی رہی۔ اس کے پاپا نے اسے پاس بلایا تو پھر شرماتی شرماتی ان کے پاس چلی گئی اور بڑے جذباتی انداز میں بولی پاپا میں تو آپ سے اتنا پیار کرتی ہوں اور آپ مجھے نانی کے ہاں چھوڑ کر چلے گئے۔

آج ایک گانا پیش خدمت ہے۔ میں رقص بھی پیش کردیتا مگر اس ڈر کے مارے یہ جسارت نہیں کر رہا کہ کہیں میرا رقص دیکھ کر آپ لوگوں کو ہمدرد یونیورسٹی ہسپتال کے شعبہ امراض خلل دماغ میں مشورے کے لئیے نہ جانا پڑجائے۔ اور اتنے پیسے تو آپ کے علاج میں خرچ نہیں ہونگے جتنے پیسوں کی آپ کے رشتہ دار چائے پی جائیں گے۔ دیکھا مجھے آپ لوگوں کی بچت کرانے کا کتنا خیال رہتا ہے۔ تو یہ رہا گانا، اور اس گانے کے ساتھ اردو بلاگرز سے ایک عرض کرنی ہے کیوں نہ ہم لوگ بلاگز کے ذریعے انتاکشری کھیلیں؟ بس شرط یہ ہوگی کہ گانا تھوڑا سا لکھنا ہوگا اور گانے کے ڈاؤنلوڈ کا لنک دینا ہوگا۔ کیا خیال ہے؟

ایسی نظر سے دیکھا اس ظالم نے چوک پر
ہم نے کلیجہ رکھ دیا، چاقو کی نوک پر

( تماشائیوں کا شور: سبحان اللہ! کمال کردیا! او میں تو مر گیا! )

میرا چین وین سب اجڑا
ظالم نظر ہٹالے

برباد ہورہے ہیں جی
تیرے اپنے شہر والے

ہو میری انگڑائی نہ ٹوٹے تو آجا

کجرارے ! ! !

کجرارے کجرارے تیرے کارے کارے نینا
او کجرارے کجرارے تیرے کارے کارے نینا
ہو میرے نینا میرے نینا میرے نینا جڑواں نینا
کجرارے کجرارے تیرے کارے کارے نینا
او کجرارے کجرارے تیرے کارے کارے نینا

امیتابھ اور ایشوریا کا تباہی ڈانس نمبر۔ اس گانے کی خاص بات ایشوریا نہیں ہے بلکہ اس گانے کے بول اور موسیقی ہیں۔ دیکھیں پہلے شعر کے بعد جو تماشائی واہ واہ کرتے ہیں اگر صرف اسے گانے سے نکال دیں تو یہ پورا گانا بیکار ہوجائیگا۔ اس گانے کی چند ویڈیو کلپز یہاں دیکھی جاسکتی ہیں۔

تبصرے:

  1. میں پچھلے سال اکتوبر میں اور اس سال جنوری فروری میں کراچی رہ کر آیا ہوں ۔ تمام عزیو واقارب کو مل چکا ہوں ۔ اب ان کی باری ہے اسلام آباد آنے کی ۔ کراچی کی سیر کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی ۔ میں کراچی نائین زیرو کے علاوہ تمام بار بار دیکھ چکا ہوں اس لئے دیکھنے کی کوئی حسرت بھی نہیں ہے ۔ ویسے بھی کراچی آپا دھاپی کا شہر ہے تو اسے کیا دیکھنا ۔ بس اب اگر آپ کی خالص دودھ سے بنے دہی کی لسی نے اللہ سبحانہ و تعالی سے منظوری حاصل کر لی تو انشاء اللہ آ کر آپ کی اصلیت دیکھوں گا ۔ آپ نہ تو کم پڑھے لکھے ہیں اور یہ دودھ دہی والا بھی ۔۔۔۔۔

    تو جناب بات یہ ہے کہ خوب تصویر کشی کی ہے ہسپتال میں بیمار پرسی کی ۔ ميں ہسپتال جانے کی بجاۓ مریض کے گھر والوں سے مریض کی خیریت دریافت کر لیا کرتا ہوں تاکہ مریض کم از کم ایک بیمار پرس سے بچ جاۓ ۔ ایک دفعہ ایک دوست ہسپتال داخل تھے تو ان کی بیگم صاحبہ نے کہا کہ وہ آپ کو یاد کر رہے تھے آپ ذرا ہسپتال چلے جائیں ۔ وزیٹرز ٹائم ختم ہونے کو تھا تو میں پہنچا ۔ دیکھا کہ دوست بول بھی نہیں پارہے ۔ میں چپکے سے بیٹھ گیا اور دل ہی میں پریشان ہوتا رہا ۔ دس منٹ بعد میرے دوست بولے ۔ یار اجمل تم روزانہ آ جایا کرو اور بیمار پرسی کے لئے آنے والوں کو کنٹرول کرو اور ان کے سوالوں کے بھی تم ہی جواب دینا ۔ دو گھنٹے متواتر لوگ آتے رہے ہیں اور ان کی باتوں کا جواب دیتے دیتے میں نڈھال ہو گیا ۔ ہسپتال کے کماڈانٹ میرے جاننے والے تھے میں نے ان کے کمرہ کے باہر نو وزیٹر کا بورڈ لگوا کر ایک فوجی بھی کھڑا کروا دیا تاکہ نہ ماننے والوں کو بھی اندر نہ جانے دے ۔ یہی ایک علاج ہے ہماری قوم کا ۔

  2. یہ بات تو ہے کہ کراچی آپا دھاپی والا شہر ہے۔ اسلام آباد کے مقابلے میں تو یہاں بہت ہی شور شرابہ ہے۔ میں تو بہت ہی کم پڑھا لکھا ہوں اللہ کا کرم ہے کہ تھوڑی بہت عزت مل جاتی ہے ورنہ میں کسی لائق نہیں۔ دودھ لسی سے آگے آپ کیا کہنا چاہ رہے تھےاور نائن زیرو میں دیکھنے والی کوئی چیز جو تھی وہ تو اب لندن میں ہے۔ تیمارداری کا مقصد ہمارے یہاں لوگ مریض سے ملاقات سمجھتے ہیں۔ جب کہ اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ مریض کی طبیعت معلوم کریں یعنی یہ دیکھیں کہ اسے کوئی تکلیف تو نہیں اور ہوسکے تو اس کی تکلیف کم کرنے کی کوشش کریں ورنہ دعا کریں اور واپس آجائیں۔ لیکن سمجھ داروں کو سمجھانا تو بہت مشکل کام ہے۔

  3. ميرے خايال ميں نعمان بهائى كے متعلق اجمل صاحب كا اندازه درست هے ـ
    شيپر يار بڑوں كو طعنے كوئى اچهى بات نهيں ـ
    نعمان صاحب كا انداز تحرير بتاتا هے كه يه صاحب اچهے خاصے تعليم يافته بهى هيں اور معاشرے كے نبض شناس بهى هيں اور اچهى خاصى تكنيكى صلاحيت بهى ركهتے هيں ـ

  4. میرے خیال میں اس میں کوئی بری بات نہیں ہے۔ افتخار اجمل صاحب مجھے اگر تعلیم یافتہ سمجھتے ہیں تو یہ ان کی محبت ہے۔ ورنہ میں تو بہت ہی جاہل آدمی ہوں اور اس بات پر بہت شرمندہ بھی رہتا ہوں کہ میں اعلی تعلیم حاصل نہیں کرپایا۔ دودھ دہی کی بات ہے تو شاید میں دودھ دہی والوں کی امیج پر پورا نہیں اترتا اور یہ تو کوئی بری بات نہیں۔ خاور بھائی آپکی عنایت ہے کہ آپ مجھے کسی لائق سمجھتے ہیں۔

  5. تشفین: کچھ مصروفیات کی وجہ سے تاخیر ہوئی کوشش کرونگا آئندہ پابندی سے لکھا کروں۔ آپکا بہت شکریہ کہ آپ نے اتنا خیال کیا۔

Comments are closed.