اسلام آباد میں جامعہ حفصہ نامی ایک مدرسے کی طالبات نے اسلام آباد میں ایک مکان پر دھاوا بول کر تین خواتین کو یرغمال بنالیا جنہیں بعد ازاں مدرسے منتقل کردیا گیا ہے۔ پولیس نے جوابی کاروائی کرتے ہوئے مدرسے کی چار استانیوں کو حراست میں لے لیا ہے۔ مدرسے کے منتظم نے پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ اگر استانیوں کو فورا رہا نہ کیا گیا تو جہاد کا اعلان کردیا جائے گا۔ مدرسے کے منتظم نے بتایا کے یرغمال بنائی جانیوالی خواتین جنسی کاروبار میں ملوث تھیں اور انہیں اہل محلہ کی جانب سے ان کے خلاف شکایتیں موصول ہونے پر کاروائی عمل میں لائی گئی۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ ان خواتین پر زنا کا مقدمہ چلایا جائے ورنہ مدرسے کے اندر ہی قاضی عدالت لگا کر شریعت کی رو سے ان خواتین کو قرار واقعی سزا دی جائیگی۔ ادھر وزیرستان میں مقامی طالبان، پنجابی طالبان اور ساری دنیا سے جمع کئے گئے طالبان ازبک غیر ملکیوں کے خلاف برسر پیکار ہیں اور حکومت پاکستان خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے۔ وزیرستان، باجوڑ، صوبہ سرحد کے شہری علاقوں اور دیگر علاقوں سے آئے دن اس قسم کی خبریں آرہی ہیں۔
کبھی نائیوں کو داڑھی مونڈھنے پر بم سے اڑانے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔
کبھی بچیوں کے اسکولوں کو خودکش حملے سے تباہ کرنے کی دھمکیاں ملتی ہیں۔
کبھی کسی علاقے میں ویڈیو شاپس کو نذر آتش کردیا جاتا ہے۔
کبھی مدرسے کی طالبات قانون ہاتھ میں لیتے ہوئے لائبریریوں پر قبضہ کرلیتی ہیں۔
ملک میں انارکی اور لاقانونیت بڑھتی جارہی ہے اور معاشرہ تیزی سے مذہبی جنونیت کا شکار ہوتا جارہا ہے۔
دو باتیں: پہلی یہ کہ ایک مدرسے کے منتظم کی اتنی مجال نہیں ہو سکتی، دیکنا چاہیے کہ ان کے پیچھے کون ہے، ورنہ وہ اس معاشرے کا فرد پہلے سے ہی ہیں اور اب تک کوئی کاروائی کیوں نہیں کی؟ دوسری بات: جب سٹیٹ ناکام ہو جائے تو لوگ اس قسم کی حرکت یعنی قانون ہاتھ میں لینا، کرتے ہی ہیں۔ مثلآ ایک صاحب میرے منہ پر تھپڑ مارتے ہیں، ایک شہری کی حیثیت سے انصاف ملنا میرا حق ہے۔ اب اگر کافی تھپڑ کھانے کے بعد بھی میرا کوئی پرسانِ حال نہ ہو تو میں خود ہی کچھ کرونگا نا؟
سلام
میرا نہیں خیال کہ معاشرہ تیزی سے مذہبی جنون میں مبتلا ہو رہا ہے۔ یہ تیزی سے بیہودگی کی طرف جا رہا ہے۔ ایسے میں کچھ انفرادی طور پر پریشان لوگ غلط ہاتھوں پر چڑھ کر انفرادی کوشش کر بیٹھتے ہیں جسکو کم عقل الٹے سیدھے نام دیتے ہیں۔
فیصل کی بات سے سبھی کو مکمل اتفاق ہو گا یہ سب ڈرامے بازیاں ہیں قوم کی توجہ بٹانے کو۔ ایسے میں کم از کم آپ جیسے باشعور انسان سے ایسی سطحی پوسٹ کے بجائے مختلف سوچ کی امید کی جاتی ہے۔
ایسی خبروں کے آنے کا پتہ چلتا ہے یہ نہیں پتہ چلتا کہ وہاں ہوا کیا تھا جو یہ ہو رہا ہے۔ میرے خیال سے جب تک دونوں طرف کی کہانی کا علم نہ ہو قیاس آرائی بےوقوفی ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارا میڈیا ایسے کاموںمیں شیر ہے۔
کسی بھی ملک میں لاقانونیت کبھی بھی مذہب کا تحفہ نہیں ہوتی۔ مذہبی جنونیت کے حوالے سے آپ نے ابھی تک شائد دوسرے مذاہب خاص طور پر عیسائوں اور یہودیوں کا ردعمل نہیں دیکھا دیکھتے ساتھ ہی اس تہذیب غبارے سے ہوا نکل جائے گی۔
السلام علیکم،
اصل حقائق یا دونوں طرف کی کہانی نجانے کب سامنے آتے ہیں، اب تک کی رپورٹنگ سے تو ایک فاشسٹ رویے کے فروغ کا نشان ملتا ہے۔ زیادہ حیرانی ان لوگوں پر ہوتی ہے جو ہر اس قسم کے ایکشن پر خوشی سے چھلانگیں مارنے لگتے ہیں کہ بس اب اسلامی انقلاب آ رہا ہے۔
والسلام
سلام
نبیل یہ اسلامی انقلاب کی خوشیاں ان سیاسی جماعتوں کو ہوتی ہیں جو اسلام کے لبادے میں سیاست کرتے ہیں اور مطمع نطر سوائے اقتدار کے کچھ نہیں ہوتا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ دین اور دین کے لبادے میں لوگوں کو الگ پہچانا جا سکے۔ ہمارا طرز عمل لٹھ لے کر اسلام پر پل پڑنا بن چکا ہے اس کی وجہ سے لوگ فساد پر اترتے ہیں۔
اب تک کی رپورٹنگ بھی دیکھیں کہ کس نے کی ہے؟ اصل مسلہ یہ بھی ہے کہ وہاں کی ثقافت پر اثرات مرتب ہو رہے ہیں جس کے لئے پرانی جنریشن مدافعت کر رہی ہے پہلے بھی ہوتی تھی لیکن تب آپ کے پاس صرف ایک چینل تھا جسکو حکومت کی بک بک سے فرصت نہیں تھی اب سو چینل ہیں اور سب کے سب ایک دوسرے پر سبقت کے لئے ایسے معاملات کو اچھال کر اپنا فائدہ کر رہے ہیں باقی سب جائں جہنم میں ان کو پرواہ نہیں۔
لہذا یہ سوچنا کہ اب ایک دم یہ شروع ہوا صیح نہیں۔ یہ سب شروع سے ہے فرق اتنا ہے کہک پتہ اب چلان شروع ہو ا ہے۔
فیصل نے لکھا ہے:
جب سٹیٹ ناکام ہو جائے تو لوگ اس قسم کی حرکت یعنی قانون ہاتھ میں لینا، کرتے ہی ہیں۔ مثلآ ایک صاحب میرے منہ پر تھپڑ مارتے ہیں، ایک شہری کی حیثیت سے انصاف ملنا میرا حق ہے۔ اب اگر کافی تھپڑ کھانے کے بعد بھی میرا کوئی پرسانِ حال نہ ہو تو میں خود ہی کچھ کرونگا نا؟
میں اس بات سے بالکل متفق ہوں کہ یہ ریاستی اختیار کو نافذ کرنے میں ناکامی کے اشارے ہیں۔
بدتمیز لکھتے ہیں:
ایسے میں کچھ انفرادی طور پر پریشان لوگ غلط ہاتھوں پر چڑھ کر انفرادی کوشش کر بیٹھتے ہیں جسکو کم عقل الٹے سیدھے نام دیتے ہیں
میرا نہیں خیال کی یہ انفرادی کوششیں ہیں۔ وزیرستان میں اسلامی امارت کا قیام، باجوڑ میں شورش، لشکر کشی، صوبہ سرحد میں وڈیو، میوزک کی دکانوں پر حملے ہورہے ہیں، کئی علاقوں میں نائیوں نے دکانیں بند کردی ہیں۔ مبینہ امریکی جاسوس کھلے عام پھانسی لٹکائے جارہے ہیں، پنجاب کے شہروں سے آنیوالے مدرسہ طالبعلم قبائلیوں کے ساتھ ازبکوں سے جنگ لڑرہے ہیں اور روز دسیوں لوگ ہلاک ہورہے ہیں۔ اور اگر آپ بی بی سی پر جامعہ حفصہ کی سلائڈ دیکھیں تو اس میں آپ کو ڈنڈا بردار، نقاب پوش مذہبی جنونی باقاعدہ پہرے داری پر معمور نظر آئیں گے۔ انفرادی کوششیں عموما اتنی منظم، اتنی وسیع اور ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں اس حد تک نظریاتی ہم آہنگ نہیں ہوتیں۔
آپ کو ایسا نہیں محسوس ہوتا کہ ڈنڈا بردار نقاب پوش طالبات کی تصاویر سے پرویز مشرف دنیا کو یہ بتانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ مغربی دنیا کے لئے ناگزیر ہیں اور یہ کہ پاکستان میں آزاد عدلیہ وغیرہ کے مطالبات کی طرف زیادہ توجہ نہ دی جائے۔
پاکستان کے مذہبی حلقوں کا فوج کے ہاتھوں میں اس طرح کھیلنا بہت شرمناک ہے۔
اس قسم کے اقدامات بدنامی کا باعث بنتے ہیں، اور “کچھ“ لوگ جو ایسی ہی خبروںکی تاک میں رہتے ہیں فورا اچک کر ڈھنڈورا پیٹنا شروع کر دیتے ہیں۔ جبکے روشن خیالی کے نام پر کچھ ھوتا رہے انکے کانوں پر جوں نہیں رینگتی۔ 🙂 مذہبی جنونیت اور لامذہبی جنونیت دونوں انتہاوں سے بچنا ضروری ہے۔
مسلہ یہ ہے کے دونوں انتہا پسندیوں سے بچو تو مشرف کی اعتدال پسندی کے ہتھے چڑھ جاؤ:(
قوم بےچاری عجیب ہی کشمکش میں ہے،جو دین وسط تھا اسے تو چھوڑ ہی دیا ہے اور اب جائے رفتن نہ پائے ماندن کی کیفیت ہے،
اور ایسے میں جس کا جہاں بس چلتا ہے وہ وہاں ہاتھ مارنے کی کوشش کررہا ہے،
بات نہ اجتماعی مفاد کی ہے نہ قومی، بات ہے انفرادی مفادات کی،
سلام
انفرادی کوشش کو آپ سمجھ نہ سکے۔ خیر انفرادی کوشش میں خود کش بم دھماکے اور قتل ہیں۔
اس قسم کی کوششوں کو میرے خیال سے حکومت کی مکمل سپورٹ ہے آپ بی بی سی کے ساتھ ساتھ ذرا جیو لگا کر حکومتی ارکان کی باتیں سن لیں اور تھوڑا ذہن استعمال کریں آپ کو ان کی سب ڈرامے بازیں سمجھ آ جائیں گیں۔
میرا ہمیشہ سے یہ اعتقاد ہے کہ جوانوں کو اگر اپنی عقل سے کام لینے دیا جائے اور صرف ان کی ضروری رہنمائی کی جائے تو ان کی سوچ پختہ اور پاکیزہ ہوتی ہے ۔ یہاں کیا گیا تبصرہ میرے مؤقف کی تائید کرتا ہے ۔
میرے مطالعہ اور علم کے مطابق عوام کیلئے ہر لحاظ سے حالات دگرگوں ہو چکے ہیں ۔ مہنگائی ۔ ڈاکے ۔ قتل ۔ اغواء برائے تاوان ۔ پولیس کی زیادتیاں بشمول عورتوں کی عزت لوٹنا ۔
ایک طرف روم جل رہا تھا اور نیرو بانسری بجا رہا تھا کا منظر ہے اور دوسری طرف تنگ آمد بجنگ آمد کا ۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ذرائع ابلاغ ہر غلط قدم کو ہوا دے کر بھڑکاتے ہیں کہ ان کی کمائی زیادہ ہو ۔
آصف میں آپ کی بات سے اتفاق کرتا ہوں۔ لیکن عوام کو یہ سوچنا ہوگا کہ مغرب کو دکھانے کے چکر میں انہیں کس آگ میں جھونکا جارہا ہے۔
اجمل نے لکھا ہے:
تو کیا آپ متفق ہیں کہ یہ غلط قدم ہے؟
سب انتہا پسندی کی اور دوسری باتیں تو کر رہے ہیں ، مگر کیا کوئی اُن لوگوں کا نقطہ نظر پیش کر رہا ہے ؟ ہم یکطرفہ اُن لوگوں کو کیوں قصوروار ٹھہر ا رہے ہیں ؟ جب کہ ہم سب اس میں شریک ہیں ، کیا کسی نے اس محلے والوں سے پوچھا ہے کہ بھائی تم لوگوں نے ایسا کیا دیکھا کہ اتنا بڑا قدم اٹھایا گیا ؟ ، کیا بنوں اور ٹانک میں حملہ آور افراد سے اس حملے کی وجہ دریافت کی گئی ؟
میری نظر میں یہ مسلہ بھی ایسا ہی ہے کہ جیسے دھشت گردی اور حق خود ارادیت کے درمیان میں فرق کرنا ۔ ۔ کیا ہم سب لوگ جو خود کو بزعم خود مسلمان کہتے ہیں وہ ہی بات نہیں کر رہے جو اسرائیل اور امریکہ کر رہے ہیں ؟ کہ سب مسلمان دھشت گرد ہیں ، اور ہماری یہ ہی باتیں ان لوگوں کی سوچ کو مزید تقویت دے رہیں ہیں ۔۔ ۔ اگر کچھ ناداں دوست اسلام کو “مکروہ“ بنا کر پیش کر رہے ہیں تو کیا ہم اس کی تردید کی جگہ ان لوگوں کو اور اسلام کو ہی برا بنا رہے ہیں ، میں تو سمجھتا ہوں کہ ہم ان ڈنڈا برادر لوگوں سے زیاد بڑے دھشت گرد ہیں اور اسلام کے مخالف ہیں ۔ ۔۔ ۔ جو چپ چاپ تبصرے کر رہے ہیں اور جب اسلام کی سچائی نظر آتی ہے تو ہم کہتے ہیں کہ یہ نجی معملات ہیں کہ کوئی کیا پہنے کیا کرے ۔۔ ۔ اسلام انفرادی سوچ نہیں رکھنے دیتا بلکہ اجتماعیت کا درس دیتا ہے ۔ ۔ ۔ اور ہم اجتماعیت کے بجائے اپنا اپنا راگ الاپتے ہیں ۔ ۔ اور عملی طور پر ہم سب زیرو ہیں ۔۔ غیر ہم سے آگے صرف اسلئے ہیں کہ وہ جو کہتے ہیں کرتے ہیں ۔ ۔ ہم یہاں پر تو بڑے مزے سے نجی زندگی کو بچا لیں گے مگر ہماری زندگی کا اثر دوسروں پر کیا ہے ، کیا اس کا ہمیں احساس بھی ہے ۔ ۔۔ بس یہ ہہ مسلہ ہے ۔ ۔ ۔ ۔اللہ ہم سب کو ہدایت دے (آمین)
اظہر بی بی سی اردو پر، یو ٹیوب پر اور جیو پر مدرسے کے منتظم کی پریس کانفرنس موجود ہے۔ رہ گئی بات مبینہ شاکی محلے داروں کی تو میں نہیں سمجھتا کہ اس قسم کی کوئی شکایت مدرسے کو موصول ہوئی ہوگی۔ اور اگر ہوئی بھی ہوگی تو مدرسے کی انتظامیہ کو چاہئے کہ بجائے ڈنڈے بردار نقاب پوشوں کے ان گواہوں کو میڈیا کے روبرو پیش کیا جاتا۔
ہم یہاں اسلام پر بحث نہیں کر رہے موضوع گفتگو پاکستان میں پیش ہونے والے واقعات ہیں جن میں ایک منطم گروہ اسلام کے نام پر لوگوں کی جان و مال، عزت و آبرو اور املاک کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ آپ براہ مہربانی گفتگو کو امریکہ اسرائیل سے خلط ملط نہ کریں۔
چونکہ میرا تعلق ڈیرہ اسماعیل خان سے ہے جو کہ صوبہ سرحد میں ہے اور ٹانک اور وزیرستان کے قریب ہے اسلئے کچھ اندازہ ماحول کا کر سکتا ہوں میڈیا میں پیش کی گئی تصویر سے ہٹ کر۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ اسوقت سرحد میں حزبِاختلاف کی حکومت ہے؟ اور مرکز کے ساتھ انکی چپقلش بھی سب کو معلوم ہے۔ میڈیا میں طالبان، پٹھان اور داڑھی والوں کو کچھ عجیب ہی مخلوق بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ یہ پنجابی طالبان کون ہیں؟ اب تک یعنی کئی سالوں سے کہاں تھے۔ جناب یہ ایجنسیاں ہی ہیں جو وزیرستان میں لڑ رہی ہیں اور لوگوں کو دکانیں بند کرنے کی دھمکیاں دے رہی ہیں۔ طالبان بچارے تو اپنی جانیں بچانے کو بھاگ رہے ہیں وہ پشاور میں موسیقی کی دکانیں تو بعد میں بند کرائیں گے پہلے خود تو بچ جائیں۔ حکومت اتنی گر سکتی ہے اسکا اندازہ مجھے حالیہ عدالتی تنازعے کے بعد ہوا۔ چن چن کر لوگوں کو مارا جا رہا ہے، غائب کیا جا رہا ہے، کئی فوجی افسر اٹک میں قید ہیں، کیا یہ سب بھی “جنگ گروپ والے“ دکھاتے ہیں۔ میں نے تو تنگ آ کر نوائے وقت پڑھنا شروع کر دیا ہے۔
نعمان شاکر کے بلاگ پر اجمل انکل نے یہ لکھا ہے “ اسلام آباد کے تقریباً ہر سیکٹر میں جنسی کاروبار کے اڈے بن چکے ہیں جو کہ شاید دس سال قبل نہیں تھے ۔ ان کے قریب رہنے والے لوگ گاہے بگاہے شور کرتے رہتے ہیں کہ رہائشی علاقوں سے ریسٹ ہاؤس ہٹائے جائیں ۔ مگر کو سنتا نہیں ۔ یہی حال لاہور اور کراچی کا ہے“
یا تو وہ غلط ہیں یا پھر کوئی اور چکر ہے ۔ ۔ میں صرف اتنا کہوں گا کہ
اب خدا کے لئے یہ روشن خیالی چھوڑو
ورنہ یہ آگ ایسی پھیلے گی کہ ہم سب “خوش گلو“ لوگوں کو بھی لپیٹ لے گی ۔ ۔ ۔
فیصل میں آپ کی بات سے متفق ہوں کہ ایسا بالکل ہوسکتا ہے کہ آن دی گراؤنڈ صورتحال کچھ اور ہو۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ آپ میری اس بات سے اتفاق کریں گے کہ قوم کو اس بات پر تشویش ہونی چاہئے کہ یہ کون لوگ ہیں جو طالبانائزیشن کی آڑ میں ملک میں انارکی پھیلانا چاہتے ہیں۔
میں یہ سمجھتا ہوں کہ قوم کے پاس ایک واضح سوچ ہونی چاہئے کہ آیا وہ لاقانونیت کو اسلام کے نام پر مسلط دیکھنا چاہتے ہیں۔ یا ریاست پاکستان کے آئین کا تحفظ اور قانون کی بالادستی چاہتے ہیں۔
اظہر بات روشن خیالی کی نہیں ہورہی۔ بات ہے ریاست کے قانون کی عملداری کی، لاقانونیت کی، اور اس کے نتیجے میں پھیلنے والے مذہبی جنون کی۔ روشن خیالی کی پتہ نہیں آپ کے دماغ میں کیا تعریف ہے۔ غالبا وہی گھسی پٹی پاکستانی سوچ کے روشن خیالی ننگے دھڑنگ گھومنے اور آزاد جنسی تعلقات کا نام ہے۔ میرے خیال میں آزاد خیالی، تعمیری سوچ اور جدت فکر انسانی معاشرے کی ترقی اور بقا کے لئے لازم ہیں۔ میں یہ نہیں سمجھتا کہ میں آزاد خیال، تعمیری یا جدید طرز فکر رکھتا ہوں۔ البتہ یہ ضرور چاہتا ہوں کہ میں اپنی سوچ اور سمجھ کو وسیع کروں اور صحیح طرز فکر اپنا سکوں۔
جسم فروشی دنیا کا قدیم ترین پیشہ ہے اور اس سے نمٹنے کے لئے ملک میں قوانین موجود ہیں اگر یہ قوانین بہتر نہیں تو یہ عوام کے منتخب نمائندوں کا کام ہے کہ انہیں بہتر بنائیں اور عوام کی ذمے داری کہ وہ اپنے نمائندوں کو اس بات پر مجبور کرے۔ لیکن کسی بھی فرد یا گروہ کو ، کسی بھی حالت میں، قطعا اس بات کی اجازت نہیں ہونی چاہئے کہ وہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لے۔ یہ ریاست کے لئے، اور اس میں بسنے والے لوگوں کی جان و مال اور عزت و آبرو کے لئے براہ راست خطرہ ہے۔
نعمان آپ کس آئین کی بات کر رہے ہیں اور کس قانون کی؟ آئین تو جب بھی فوج آتی ہے، ریپ ہو جاتا ہے اور قانون کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے وہ آپ دیکھ رہے ہیں۔ بچے بڑوں سے سیکھتے ہیں اور عوام اپنے حکمرانوں سے۔ ہمارے حکمران ہمیں کیا سکھا رہے ہیں؟ جو سکھایا ہے وہی کچھ عوام کر رہے ہیں۔ اگر پاکستان میں طالبانزیشن ہو رہی ہے تو وہ کیا ہے جو یورپ میں ہو رہا ہے؟ مسلمان خواتین کیوں حجاب کی جنگ لڑ رہی ہیں؟ امریکہ میں لوگ کیوں مسلمان ہو رہے ہیں؟ جتنا دبایا جا رہا ہے اتنا ہی ابھر کر سامنے آتا ہے۔ رہی بات پاکستان کی تو یہاں تو انتہا پسندی حکومت کی ضرورت ہے، تا کہ وہ اپنے آقاوں کے سامنے خود کو ناگزیر ثابت کر سکے۔ بڑے بڑے کھیل ہیں بھیا، ہم چھوٹے لوگ کیا جانیں؟
آئین کا تحفظ ہر پاکستانی کی ذمے داری ہے۔ اور اس کے لئے ملک کا باشعور طبقہ ہمیشہ مزاحمت کرتا بھی رہا ہے اور آئندہ بھی کرتا رہے گا۔ عوام حکمرانوں سے کیوں سیکھنے لگے؟ کیا عوام اتنی ہی بے شعور ہے۔ کیا آپ کے خیال میں حکومت کے غیر ملکی آقا اتنے لاعلم اور بیوقوف ہیں کہ وہ انتہاپسندی کے ڈراموں کے پس پردہ کرداروں اور مقاصد سے واقف نہ ہوں۔
بات چونکہ یورپ اور امریکہ کی نہیں ہورہی اسلئے اس موضوع پر ہم پھر کبھی گفتگو کریں گے۔
نعمان روشن خیالی اسلام سے زیادہ کسی مذہب میں نہیں ہو سکتی مگر بھائی ، کونسے قانون کی بات کرتے ہو، میری فیملی پنڈی میں رہتی ہے اور ہمارے گھر پر ڈاکؤں نے لوٹا تو جب پولیس تک گئے تو پتہ چلا کہ انکے ہی یار ہیں سارے، اور اسلئے ہماری رپورٹ تک درج نہیں ہوئی ، بلکہ ہمیں یہ مشورہ دیا گیا ہے کہ اپنے گھر کو خود محفوظ رکھیں ۔ ۔ ۔ آپ سے گذارش ہے کہ چلیں آپ اسی مسلے کو حل کروا دیں میرے گھر کی رپورٹ کروا دیں ۔ ۔ کسی بھی تھانے میں جہاں “قانون“ بستا ہے ۔ ۔ ۔
نعمان جن پر بیتی ہے وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ پاکستان میں قانون نام کی کوئی چیز نہیں ۔ ۔ ۔ میرے گھر میں چوری ہو جائے تو کوشش کی جاتی ہے کہ رپورٹ ہی نہ لکھی جاے ، اسی طرح سے اگر میں کسی کے غیر قانونی یا غیر اخلاقی قدم کی رپورٹ دیتا ہوں ، تو مجھ سے یہ کہا جاتا ہے کہ اگر اس میں تمہارا کچھ نہیں بگڑتا تو بھول جاؤ اسے ، اور ویسے بھی وہ لوگ تم سے زیادہ “عزت دار“ ہیں ۔ ۔ ۔ نعمان آپ سے گذارش ہے کہ آپ اجمل انکل والی بات کسی “قانون“ کو بتائیں تا کہ وہ قانونی کاروائی کرے ۔ ۔ ۔
ہم دانستہ یا نادانستہ ۔ ۔ شاید ان طاقتوں کے ساتھ ہیں جو طاقت کے زور پر روشن خیالی اور اسلام دونوں لانا چاہتیں ہیں ۔ ۔ ۔
اور جب خود پر اور اپنے خاندان پر یا اپنے دوستوں پر پڑتی ہے تب پتہ چلتا ہے کہ اصل حقیقت کیا ہے ۔ ۔ ۔ صرف باتوں سے کچھ نہیں ہوتا ، اسی وجہ سے میں عمل پر یقین رکھتا ہوں ۔ ۔ ۔ اور عمل کیسے کرتا ہوں ۔ ۔۔ یہ بھی بہت ضروری ہے ، مجھے اپنا آپ اور اپنے خاندان کو بچا کر اس برائی سے لڑنا ہے اور میں لڑ رہا ہوں ۔۔ شاید جلد ہی کچھ بتا سکوں ۔ ۔۔ ۔
اللہ ہمیں ہدایت دے (آمین)
میں بالکل متفق ہوں کہ ملک میں لاقانونیت پھیل رہی ہے اور یہ پوسٹ اسی بارے میں ہے۔ مگر لگتا ہے آپ کو اپنا موقف بیان کرنے میں دشواری ہورہی ہے۔
کیا آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ اگر لوگوں کو قانون اور انصاف نہ ملے تو وہ قانون اور انصاف خود کریں؟
یہی انارکی ہے۔
چلیں نعمان آپ بتا دیں کہ اگر قانون اور انصاف نہ ملے تو ہمیں کیا کرنا چاہییے کہ انارکی نہ پھیلے؟؟؟
اگر قانون اور انصاف نہ ملے تب بھی قانون سے مفر جائز نہیں اور قانون کی مقرر کردہ حدود کے اندر رہتے ہوئے ہی جدوجہد جاری رکھنی چاہئے۔
تنگ آمد بجنگ بہت پرانا محاورہ ہے اور یہ ہے بھی حقیقت۔ اصل بات وہی کہ جس تن لاگے وہی جانے۔ جب تک اپنے جسم کو تکلیف نہیں ہوگی ہم دوسروں کی تکلیف کا پتہ نہیںچلا سکیں گے۔
ایک آدھ واقعات یہاں درج کررہے ہیں اور ان کے حل کی تلاش میںمدد چاہتے ھیں۔
جاوید چوہرری نے اپنے تازہ کالم میںنواز شریف دور کے ایک ٹی وی جنرل میجر سے ملاقات کا ذکر کیا ہے۔ جسے حکومت نے اتنا ذہنی اور جسمانی چور پر زچ کیا کہ وہ پاگل پن کے قریب پہنچ گیا۔ اس کا کاروبار تباہ کردیا۔ اس کی ایک بچی نفسیاتی مریض اور وہ خود بھی برطانیہ میںکسی ماہر نفسیات سے علاج کروا رہا ہے۔ اب اگر اس صورتحال کا شکار ہو جائیںتو آپ کیا کریںگے۔
کچھ عرصہ قبل ایک صوبائی وزیر کے بھتیجے نے لڑکیوں کو چھیڑنے سے منع کرنے پر ایک غریب کو قتل کردیا۔ اس کی جان بخشی کا یہ حل سوچا گیا کہ اسے بیرون ملک بھیج دیا۔ اب اگر مقتول آپ کا بھائی ھوتا تو آپ کیا کرتے۔
ڈاکٹر شازیہ کا کیس ابھی پرانا نہیںہوا جسے حکومت نے خود باہر بھیج دیا تاکہ کیپٹن کی جان بچائی جاسکے۔ اب اگر ڈاکٹر شازیہ کی جگہ آپ کی بیوی ہوتی تو آپ کیا کرتے۔
ان سب سوالوں کا مختصر جواب یہی ہے کہ اگر حکومت لا اینڈ آرڈر کا نفاذ نہیں کرپائے گی تو پھر انارکی پھیلے گی۔
اگر جامعھ حفصہ کے موجودہ کیس کا اصل محرک تلاش کرنے کی کوشش کی جائے تو ہم حکومت کو ہی قصور وار ٹھرائیںگے۔ مانا کہ جامعھ حفصھ نے جو کیا غلط کیا مگر حکومت اپنی ذمہ داری سے پہلو تہی نہیںکرسکتی۔
یعنی لوگ خود لٹتے رہیں۔ میرے خیال سے نعمان کو ورلڈ ہسٹری ضرور پڑھنی چاہئے۔ ایسی صورتحال ہر جگہ پیش آئی یہ صرف مسلمان بےوقوف ہیں جو سر پر پڑنے پر بھاگ دوڑ کرتے ہیں۔ ایسے حالات پیدا ہی نہیں ہونے دینا چاہئے تھے۔ اب پیدا ہو چکے ہیں تب بھی رونے پیٹنے۔
غیر ملکی آقاؤں کو علم ہے نہ؟ لیکن میڈیا اور دوسرے لوگوں کو؟ امریکہ کی مثال دیتا ہوں کہ خفیہ ایجنسیاں صدر کو جواب دہ ہیں ہر ایرے غیرے کو نہیں۔ آپ کے خیال سے پاکستان کی خفیہ ایجنسیاں صدر سے لے کر الطاف حسین جیسے شخص کو ساری اطلاع دیتی ہونگی؟
بیشک حکومت کی ذمہ داریاں ہیں، لیکن قحبہ خانے بند کرانے کے لئے کسی کے گھر کے دروازے توڑ کر گھسنا لاقانونیت ہے۔
بدتمیز، امریکی صدر، امریکی عوام اور کانگریس کو جوابدہ ہے۔
امریکی صدر، امریکی عوام اور کانگریس کو جوابدہ ہے۔
کیا آپکو یقین ہے؟
ویسے کیا آپکو یقین ہے امریکی کانگریس اور امریکی عوام صدر امریکہ سے صدر مشرف کے بارے میں مواخذہ کرے گی؟
جی ہاں میرا تجزیہ احمقانہ ہے ، کیونکہ مجھ پر تو بیتی ہے اسلئے میں احمق ہوں ۔ ۔ ۔ کیونکہ میرا یہ احمقانہ خیال ہے کہ اسلام زندگی کے ہر شعبہ زندگی کا حل دیتا ہے اسلئے مجھے ہر معمالے میں اسلام کی عینک سے دیکھنے کی عادت ہو گئی ہے ، میں اسلام اور زندگی کو الگ کر کہ نہیں دیکھ سکتا ۔ ۔ ۔ اور میں اپنے اوپر مشکلوں کا خود انبار لگاتا ہوں ۔ ۔ ورنہ مصلحت کا راستہ تو سامنے ہے ۔ ۔۔ میں نے نہ تو جامعہ حفصہ کے ایکشن کی حمایت کی ہے اور نہ ہی شمیم آنٹی کی ۔۔ ۔ میں صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ ان سب مسائل کا حل اسلام ہے ، چاہے وہ ہاتھ کاٹنے کی سزا ہو یا سنگسار کی ۔ ۔ ۔ پہلی بات کہ برائی روکنے والے ہاتھ اگر حکومت کے نہ ہوں تو پھر ایسے ہی لوگوں کے ہوں گے جو اپنی نادانیوں سے حالات کو مزید بگاڑیں گے ۔ ۔ ۔ اگر ہمیں “طالبانستان“ بننے سے بچنا ہے تو پھر ،ہمیں خود ہی قدم اٹھانا پڑے گا ۔ ۔ کسی بھی “ماڈرن“ این جی او کو آگے لانا ہو گا تا کہ پاکستان میں مادر پدر آزادی دی جائے ۔ ۔ ۔ کیونکہ اسلام تو رکاوٹ رہے گا ہی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ اللہ ہمیں نیک ہدایت دے (آمین)
قصہ مختصر آپ جامعہ حفصہ کے ایکشن کی حمایت کرتے ہیں، اور آپ کے خیال میں دین دار لوگوں کی ایسی ایک فوج ہر شہر میں ہونی چاہئے جو جس کے گھر کا دروازہ توڑ کر گھس جائے اور لوگوں کو اغوا کرے اور ان سے توبہ کروائے؟ بہت خوب کیا اس سے پاکستان کے مسائل حل ہوجائیں گے؟
ایک دفعہ پھر ذرا ذہن کو کدورتوں سے الگ رکھ کر پڑھو میرے بھائی کہ میں نے کیا لکھا ہے ۔ ۔ ۔ میں نے جامعہ حفصہ کے ایکشن کی حمایت نہیں کی اور نہ ہی یہ کہا ہے کہ دین داروں کی فوج ہونی چاہیے ، میں صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ برائی کو روکنا چاہیے اور کم سے کم برائی کو برائی سمجھنا چاہیے ۔ ۔ پاکستان کے مسائیل ہم نے ہی حل کرنے ہیں نہ کہ بُش نے آ کر ہمیں سمجھانا ہے ۔ ۔ ۔۔ اللہ ہمیں نیک ہدایت دے ۔ ۔ آمین
اور بھائی ایک گذارش ہے کہ فوراً نتیجہ مت نکالیں ، کوئی بھی مسلمان نہ تو اسلام کے خلاف جا سکتا ہے اور نہ ہی زبردستی اسلام ٹھونسنے کی حمایت کر سکتا ہے ۔ ۔ ۔ ہم صرف اپنی سوچ کے مطابق حل دیتے ہیں ۔ ۔ اگر ہم کچھ کر سکتے ہوتے تو کچھ کر گذرتے ، مگر کیونکہ ہم “اچھے لوگ“ کچھ نہیں کر رہے ہیں اسلئے وہ “برے لوگ“ برا کر رہے ہیں ۔ ۔
برائی کو روکنے کی کوشش کا پہلا قدم اس کی مذمت کرنا ہے۔ اور یہی کام ہم یہاں کررہے ہیں کہ جو برائی جامعہ حفصہ نے کی ہے اس کی مذمت کریں۔ افسوس کہ اس کارخیر میں آپ ہمارے ساتھ نہیں۔ کیونکہ غالبا آپ ہی وہ شخص ہیں جس نے آنٹی شمیم کی توبہ پر یہ تبصرہ دیا تھا کہ اس عورت کو اسلام کی سختیاں جھیلنے کے بجائے عیسائیت اختیار کرلینی چاہئے تھی۔
اور یہ “وہ“ سے آپ کی کیا مراد ہے۔ بس جو کچھ بھی ہو تمام برائی مغرب کے سر ڈال دو۔ کچھ تو خوف خدا کریں۔ کیا اہل مغرب نے آکر جامعہ حفصہ کو اکسایا تھا کہ کسی کے گھر کا دروازہ توڑ کر مذہب کے نام پر خواتین کو حراست میں لے لو؟
میں آپ کو قطعا غلط نہیں بلکہ بالکل ٹھیک ٹھیک سمجھتا ہوں۔ اس لئے مجھے اندازہ ہے کہ صحیح اور غلط کا آپ اور آپ ایسے سینکڑوں دماغوں میں کیا تصور ہے۔ کدورت نہیں آپ لوگوں کے تو دماغ میں عقل بھی نہیں۔ سارا فہم اور ساری دلیل آکر اہل مغرب پر ختم ہوجاتی ہے۔ غالبا آپ کے محلے میں کسی دن جمعدار نہ آتا ہوگا تو آپ اس کا الزام بھی اسرائیل اور امریکہ کو دیتے ہونگے۔
نعمان تبصرہ جاتی پالیسی کیا صرف دوسروں کے لیئے ہے آپ غالبن اس سے مبرہ ہیں:)مالک بلاگ ہونے کی وجہ سے!
آپ کراچی والوں کو بہت برا پروجیکٹ کر رہے ہیں،ایک تو ویسے ہی لوگوں کو ان سے خار بہت ہے اپر سے آپ کا انداز الاماں الحفیظ!
لوگوں کو کن سے بہت خار ہے؟ اور میرے انداز کی خامیاں اگر آپ مجھے ای میل کردیں تو میں ان پر غور کروں گا۔ جی ہاں میرے بلاگ کی تبصرہ جاتی پالیسی خود مجھ پر لاگو نہیں ہوتی۔
[…] یہ کیسا جہاد ہے ڈنڈے مار کر بیان خودکش حملوں کی دھمکی روشن خیالی کا مکروہ چہرہ طالبان کے نقش قدم پر جامعہ حفصہ کی تصاویر […]