منافقت کی ایک اور قسم

جناب افتخار احمد اجمل صاحب نے اپنے بلاگ پر ایک پوسٹ لکھی ہے۔ آپ لوگ اندازہ لگا چکے ہونگے کہ میں ایسے موضوعات پر نہیں لکھتا۔ لیکن چند دنوں سے افتخار صاحب کے بلاگ کا معائنہ کرنے کے بعد اور ان پر دئیے گئے تبصرہ جات پڑھنے کے بعد مجھے یہ احساس ہوا کہ اس معاملے میں لکھنا ضروری ہے۔ یہ احساس ہونے کے بعد میں نے افتخار صاحب کی پوسٹ پر ایک تبصرہ بھیجا جو انہوں نے رد کردیا۔ اسلئیے میں وہ تبصرہ مزید اضافے کے ساتھ یہاں شائع کر رہا ہوں۔ بہتر ہوگا کہ پہلے آپ افتخار اجمل صاحب کی پوسٹ پڑھ لیں اور پھر آگے پڑھیں۔

محترم افتخار اجمل صاحب نے اپنی اس پوسٹ دو اہم غلطیاں کی ہیں۔ پہلی تو یہ کہ وہ ڈیوڈ ارونگ کو تاریخ دان لکھتے ہیں۔ دوسری یہ کہ وہ اس کی گرفتاری کو یہودیوں کے ہالوکاسٹ کی حقیقت بیان کرنے کا شاخسانہ ظاہر کرتے ہیں۔

یہ دونوں باتیں غلط ہیں۔ ڈیوڈ ارونگ کا ذکر اس مقدمے کے بغیر ادھورا ہے جو ارونگ نے امریکی تاریخ دان ڈیبوراہ لیپسیڈ اور ان کے پبلشر پینگوئن بکس پر کیا تھا۔ امریکی تاریخ دان نے اپنی کتاب میں ڈیوڈ ارونگ کی ہالوکاسٹ کے بارے میں تحقیق کو فضول قرار دیا تھا اور اس پر الزام لگایا تھا کہ وہ تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ عدالتی کاروائی کے دوران ہی ڈیوڈ ارونگ کو اپنی غلطی کا اندازہ ہوگیا کیونکہ مصنفہ اور ان کے پبلشر نے مقدمے کے شروع ہی میں اس بات کے ثبوت پیش کردئیے تھے کہ ڈیوڈ ارونگ کی تحقیق جھوٹ کا پلندہ ہے۔ جب صورتحال یہاں پہنچی تو ڈیوڈ نے فورا اس جنگ کو آزادی اظہار کی جنگ بنادیا۔ بہر حال وہ مقدمہ ہار گیا۔ اسی مقدمے کے دوران مصنفہ ڈیبوراہ نے کیمبرج کے پروفیسر رچرڈ جے ایونز کی بطور ماہر گواہ خدمات حاصل کی۔ گرچہ ڈیبوراہ لیپسیڈ اور چند مزید تاریخ دان پہلے ہی ارونگ کے کام میں کئی نقص ڈھونڈ چکے تھے مگر کسی نے اس کے کام کا اسقدر گہرا مشاہدہ نہیں کیا تھا۔ پروفیسر ایونز نے دو سال تک ارونگ کے کام کا معائنہ کیا اور اپنا تبصرہ ان الفاظ میں دیا:

"Not one of [Irving’s] books, speeches or articles, not one paragraph, not one sentence in any of them, can be taken on trust as an accurate representation of its historical subject. All of them are completely worthless as history, because Irving cannot be trusted anywhere, in any of them, to give a reliable account of what he is talking or writing about. … if we mean by historian someone who is concerned to discover the truth about the past, and to give as accurate a representation of it as possible, then Irving is not a historian.”

میرے خیال میں اس سے یہ تو واضح ہوگیا کہ ارونگ ایک تاریخدان تو قطعا نہیں ہے۔ اب آتے ہیں دوسری غلطی کی طرف جو یہ ہے کہ چونکہ ارونگ نازیوں کے ہاتھوں یہودیوں کے ہالوکاسٹ کو مبالغہ آمیز مانتا ہے تو اسلئیے اسے آسٹریا میں گرفتار کیا گیا۔

آسٹریا کے قانون کے مطابق، آسٹریا میں نازی ازم کو ترویج، فروغ یا آغاز دینے کی کوئی بھی کوشش قانونا جرم ہے۔ اسی قانون کے تحت نازی مظالم کو جائز ثابت کرنے کی کوئی بھی کوشش آسٹریا میں قانونا جرم ہے۔ ڈیوڈ ارونگ آسٹریا کے انڈرگراؤنڈ نیونازی طلبہ کی تنظیموں کو بھڑکانے کے لئیے ایک عرصے سے مواد فراہم کرتا رہا ہے۔ اس کے علاوہ وہ دنیا بھر میں نیو نازی تنظیموں کا چہیتا ہے۔ اسے دنیا بھر میں اینٹی سیمیٹک گروہ خصوصی دعوت ناموں پر بلواتے ہیں۔ ارونگ کو پہلے بھی کئی بار آسٹریا میں داخل ہونے سے روکا گیا ہے۔ اس نے اپنی کتاب ہٹلرز وار میں سے نازی مظالم کے کئی مضامین شامل کرنے کے بعد مٹادئیے حالانکہ وہ واقعات تاریخی لحاظ سے درست تھے۔ جو دعوی وہ اپنے لیکچروں میں کرتا ہے ان کا تاریخ سے دور کا بھی واسطہ نہیں بلکہ وہ صرف پرو نازی اور اینٹی سیمیٹک پروپگینڈا ہوتا ہے اور اس کی یہ غلطی یورپ کی ایک عدالت عالیہ کے سامنے ثابت ہوچکی ہے۔ جس وقت اسے گرفتار کیا گیا اس وقت وہ پرو نازی مظالم لیکچر دینے کے لئیے ویانا جارہا تھا کہ دھر لیا گیا۔

گرچہ میں نازی ازم کے خلاف ان قوانین کو ٹھیک نہیں سمجھتا۔ مگر جن قوموں کا یہاں ذکر ہورہا ہے شاید ان سے زیادہ قیمت جنگ عظیم کی کسی اور قوم نے نے ادا نہیں کی اور یہ یادیں بہت تلخ ہیں۔ نازی مظالم کے حوالے سے آسٹریا کی اپنی تاریخ ہے جو یہودیوں پر ہٹلر کے مظالم کے سوا ہے۔ یورپ کی نازی ازم سے بیزاری کا اتنا تعلق یہودی دوستی سے نہیں ہے جتنی تھرڈ ریخ دشمنی سے ہے۔ جس قانون کا اوپر ذکر ہوا ہے اس کے تحت تھرڈ ریخ کے احیائے نو کی کوششیں بھی آسٹریا اور جرمنی میں جرم ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ جب ارونگ کو پتہ تھا کہ آسٹریا اور جرمنی کے قوانین اس بارے میں بہت حساس ہیں تو اسے ضرورت ہی کیا تھی کہ وہ وہاں جا کر نفرت انگیز تقریریں کرے۔ بار بار وہاں پرو نازی طلبہ تنظیموں کو اکسائے، بھڑکائے اور انہیں اپنے نظریات کی تشہیر کے لئیے استعمال کرے؟ سستی شہرت کا حصول۔

میں یہ سمجھتا کہ جناب افتخار صاحب شاید یہ سب باتیں لکھنا بھول گئے تھے لیکن چونکہ انہوں نے میرا تبصرہ مٹادیا تو اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ یہ نہیں چاہتے تھے کہ یہ باتیں سامنے آئیں۔ اسی لئیے میں نے وہی تبصرہ یہاں لکھ دیا ہے تاکہ سند رہے۔ اس کے علاوہ ان کی اسرائیل کی تاریخ کے بارے میں پوسٹس میں کئی مقامات پر کئی اہم تاریخی حوالوں اور حقیقتوں کو بیان نہیں کیا گیا۔ جس سے وہ تمام پوسٹس بالکل جانبدار ہوجاتی ہیں۔ لیکن افتخار صاحب نامعلوم کیوں اپنی پوسٹس پر لنکس نہیں دیتے۔ مثال کے طور پر اگر وہ اسرائیل کی تاریخ پر ویکیپیڈیا کا لنک دیتے ہیں تو پڑھنے والے آگے جاکر کچھ اور پڑھ سکتے ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ مستند تاریخ لوگوں کے دل میں اسرائیل سے بیزاریت پیدا نہیں کرسکتی۔ اسلئیے ضروری ہے کہ افتخار صاحب مسلمان بلاگرز کے لئیے ایسی مستند تاریخ لکھ دیں کہ وہ کبھی اسرائیل فوبیا سے باہر نہ نکل سکیں۔

جو کام افتخار صاحب نہایت عرق ریزی سے انجام دے رہے ہیں وہ نان فکشن مضامین اور کتابوں کی ایک پوری نسل کا سلسلہ ہے۔ اسرائیل کے کچے چٹھے کھولنے کی یہ مہم پوری دنیا میں زور و شور سے جاری و ساری ہے۔ افتخار صاحب منافقت کا ذکر کرتے ہیں تو اس میں کچھ اضافہ کرتا چلوں کہ اسرائیل اور نام نہاد صیہونی سازشوں پر جتنی کتابیں سفید فام عیسائیوں نے لکھی ہیں مسلمانوں نے اس کا دس فیصد نھیں لکھا۔ اور ایسی اکثر کتابیں امریکہ میں شائع ہوتی ہیں اور گرم گرم کیک کی طرح دھڑادھڑ فروغ ہوتی ہیں۔ اگر امریکہ کے میڈیا پر یہودیوں کا اتنا ہی کنٹرول ہے تو کیونکر یہ کتابیں نہ صرف شائع ہوجاتی ہیں بلکہ واشنگٹن پوسٹ جیسے موقر جریدوں میں ان کے طویل تبصرے شائع ہوتے ہیں؟

حقائق کو چھپانا، اپنی مرضی کے حقائق شائع کرنا اور لوگوں کے محنت اور تحقیق سے لکھے گئے تبصروں کو مٹانا، یہ منافقت نہیں ہے کیا؟

تبصرے:

  1. جناب نعمان صاحب،
    افتخار صاحب کے بلاگ پر میرے بھی کئ تبصرے رد ہو چکے ہیں۔ اسلئے مجھے اپنے بلاگ پر کچھ کہنے کی اجازت دیں۔ افتخار صاحب سے مجھے ایک ہی اختلاف بے، وہ باتیں منافقت کے خلاف کرتے ہیں اور اپنی منافقت پر نظر نہیں ڈالتے۔ وہ اِس بات کو تسلیم نہیں کر سکتے کہ مسلمانوں نے بھی غلطیاں کی ھیں۔میرے خیال میں اُن کی معلومات کا ذریعہ جماعت اسلامی کی کتابیں اور نسیم حجازی کے ناول ہیں۔اُس پر طرُہ یہ کہ “مستند ہے مِرا فرمایا ہوا“
    افتخار صاحب، مشرف کو برا بھلا کہنے کے بعد آپ اپنے دوست کی تیماردای کے وقت ایک فوجی کو لوگوں کو دور رکھنے پر مامور کرتے ھیں۔ گستاخی معاف، کیا اُس فوجی کی تنخواہ آپ اپنی جیب سے دیتے ہیں؟ جناب، مقدور بھر اپنے اختیارات کا ناجائز فائدہ آپ بھی اٹھاتے ھیں۔ کیا یہ منافقت نہیں ہے؟

  2. thats why i m not visiting his blog and neither i’m reading his posts in urdu planet any more.
    the fact is, he is belong to a group of people that don’t want truth they just want the peoples listen and do agree with them no matter what. They have limited access to knowledge and after all that they want the youngsters to respect them because of age….. and let me write that they have their own defination of respect.

  3. شیپر اور غازی بھائی

    مجھے اپنا تبصرہ رد ہونے پر کوئی حیرت نہیں ہوئی تھی۔ مجھے قوی امید تھی کہ وہ میرا تبصرہ رد کردیں گے کیونکہ میں نے ان کی جن دو غلطیوں کی طرف اشارہ کیا تھا وہ سہوا سرزد نہیں ہوئی تھیں۔ بلکہ جان بوجھ کر نظر انداز کی گئیں تھیں۔ اگر وہ یہ تبصرہ رد نہیں کرتے تو ان کے پاس کوئی دلیل نہیں تھی جس سے وہ بحث کر سکتے ہاں ایک آپشن ان کے پاس ابھی بھی باقی ہے وہ ہے ملامت کا آپشن۔

    اگر انہوں نے یہاں اس پوسٹ پر کبھی کمنٹ کیا بھی تو وہ کچھ اس قسم کا ہوگا کہ پہلے تو وہ مجھے یہودی نواز قرار دیں گے پھر میرے عقیدے اور دین کے حوالے سے اعتراض داغیں گے اور تیسرا اپنی جوانی کے دنوں کے کارنامے بیان کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کریں گے کہ وہ بہت عالم فاضل ہیں اور آخر میں میری قابلیت پر طعنے تشنے مار کر رخصت لیں گے۔ نہ وہ ڈیوڈ ارونگ پر کوئی بات کریں گے نہ آسٹریا اور جرمنی کے نازی قوانین کے بارے میں۔

    مجھے افتخار صاحب کی بلاگنگ پر کوئی خاص اعتراض نہیں اور نہ ہی میں یہ سمجھتا ہوں کہ کسی موضوع پر بحث کرنے سے بزرگوں کے احترام میں کچھ کمی آتی ہے۔ لیکن میں یہ ضرور چاہوں گا کہ جب بزرگ نوجوانوں سے یہ امید رکھتے ہیں کہ وہ اپنی غلطیاں تسلیم کرنا سیکھیں تو بزرگ مثال کے ذریعے کیوں نہیں سکھاتے؟

  4. سادگی کا بھی اپنا مزہ ہے لیکن اس نئے ٹیمپلیٹ میں اگر کچھ رنگ وغیرہ بھی شامل کر لیے جائیں تو مزید بہتری ہو سکتی ہے ۔

    نعمان صاحب مجھے آپ کی اور اجمل صاحب کی لڑائی سے کوئی غرض نہیں ہے البتہ یہ کہنا چاہوں گا کہ آپ نے (یا عازب نے) بھی تو ان کے تبصرے رد کر دیے تھے ۔

  5. قدیر تمہیں تو معلوم ہی ہے کہ میں اس ٹیمپلیٹ کے میدان میں نیا ہوں۔ یہ ٹیمپلیٹ تو بس ایک طرح سے خاکہ بنایا ہے۔ اب آپ کے مشورے کے مطابق اس میں کچھ رنگ ڈالوں گا۔ تشفین آپ کے بھی مشورے کا شکریہ۔

    قدیر ان کا جو تبصرہ میں نے رد کیا تھا اس میں انہوں نے بحث کو مزید طول دینے کی کوشش کی تھی حالانکہ انہیں بتادیا گیا تھا کہ ہم چاہتے ہیں کہ وہ سائنس اور مذہب کی بحث نہ چھیڑیں۔ میرا تبصرہ رد ہونے میں اور ان کا تبصرہ رد ہونے میں فرق یہ ہے کہ میں نے اپنا تبصرہ ایک گھنٹے تک مختلف ویبسائٹ کھنگالنے کے بعد لکھا تھا۔ میرا تبصرہ ان کی پوسٹ میں ایک طرح کا اضافہ تھا۔ دوسرا فرق یہ تھا کہ میں نے ان کا تبصرہ بتا کر مٹایا جبکہ انہوں نے میرا تبصرہ ماڈریٹ کردیا۔ تیسرا فرق یہ کہ جب میں نے ایک اور جوابی کمنٹ یہ پوچھنے کہ لئیے لکھا کہ آیا میرا کمنٹ انہوں نے مٹادیا ہے یا وہ انہیں موصول ہی نہیں ہوا تو انہوں نے وہ کمنٹ بھی چپکے سے رد کردیا۔ جس کے بعد میں نے انہیں ای میل بھیجی جس کا انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔

    جیسا کہ میں نے انہیں مشورہ دیا تھا کہ اگر وہ بحث کرنا چاہتے ہیں تو اپنے بلاگ پر کریں بالکل وہی مشورہ میں نے اپنے لئیے بھی درست جانا اور جو بات انہوں نے رد کردی تھی وہ میں نے اپنے بلاگ پر لکھ دی اور ان کے تبصرہ رد کرنے کا برا نہیں منایا۔ براہ مہربانی آپ مجھے کوئی بدتمیز قسم کا نوجوان نہ سمجھئیے میں بزرگوں کا ادب کرتا ہوں۔

  6. صوومیرے خیال میں بڑوں کا احترام لازم ہے۔ اگر ہم ایکدوسرے کو منافق کہے بغیر اپنا موقف بیان کریں تو اور لوگ یقیننا” آپ کی بات پر سوچنا سمجھنا پسند کریں گے۔

  7. نومان، مجھے آپ کی بات سے اتفاق ہے ایک دفعہ میں نے بھی ان کی ایک تحریر پہ تبصرہ کیا تھا۔ جو انہوں نے ہٹا دیا۔ مجھے اس پر اعتراض نہیں۔ وہ جیسا چاہیں اپنے بلاگ کو رکھیں۔ لیکن وہ اکثر اپنی تحریروں میں حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں۔ اور اس پہ مذہب کا تڑکا لگا دیتے ہیں۔ تاکہ سب اس پہ سر دھنتے رہیں۔

Comments are closed.