میری دکان پر کام کرنے والے غلام فرید کو کراچی کے لوگوں سے چند شکایات ہیں۔ اس کے خیال میں کراچی کے لوگ انتہائی تعصب پسند ہیں۔ ہوا یہ کہ ہماری دکان پر ایک صاحب آتے ہیں انہوں نے آج غلام فرید کو کسی بات پر مذاقا ٹوک دیا اور کہا کہ تم پنڈ سے روشنیاں دیکھنے آئے ہو تمہیں کیا پتہ بڑے شہروں میں کیا ہوتا ہے۔
حالانکہ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ غلام فرید ایک عرصے سے کراچی میں کام کررہا ہے اور کراچی سے اتنا ہی واقف ہے جتنے وہ یا میں۔ بلکہ شاید ہم سے بھی زیادہ۔ غلام فرید سے میں نے پوچھا کہ اس نے فلاں صاحب کی بات کا برا تو نہیں منایا تو وہ بولا:
‘ نہیں بھائی اب تو مجھے عادت ہوگئی ہے ان لوگوں کو پتہ تو کچھ ہوتا نہیں بس اب کیا کریں جب کوئی ایسی بات کہتا ہے تو میں چپ ہوجاتا ہوں۔’
میں نے کہا کہ تم چپ نہ ہویا کرو بحث کیا کرو تو وہ بولا ‘بھائی یہی تو میں کہہ رہا ہوں بحث تو میں تب کروں جب ان لوگوں کو پنجاب کے بارے میں کچھ پتہ ہو۔’
میں نے کہا کہ نہیں یار غلام فرید یہ جدید دور ہے ہر کوئی پنجاب کے کلچر، ثقافت اور لوگوں کے بارے میں معلومات رکھتا ہے۔ لیکن غلام فرید کا اصرار تھا کہ کراچی کے لوگ جاہل ہیں بقول غلام فرید ایک دن وہ ایک صاحب کو بتانے لگا کہ میں گاؤں جاؤنگا تو سی ڈی پر سلطان راہی کی فلم مولا جٹ دیکھوں گا تو وہ صاحب حیرت کا اظہار کرنے لگے۔ اس بات پر نہیں کہ غلام فرید سی ڈی پر فلم دیکھے گا بلکہ اس بات پر کہ غلام فرید کے گاؤں میں بجلی ہے؟ ہوسکتا ہے میری طرح اکثر پڑھنے والوں کو یہ بات مبالغہ آمیز محسوس ہو۔
بقول غلام فرید کراچی کے اکثر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ پنجاب کے دیہات میں لوگ گھروں میں لالٹین جلاتے ہیں اور جن علاقوں میں بجلی ہے وہاں بھی لوگ صرف پنجابی فلمیں دکھتے ہیں اور اکثر گھروں میں ٹی وی نہیں ہے۔ غلام فرید نے یہ بھی بتایا کہ زیادہ تر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ پنجاب میں کھیتی باڑی کے لئیے لوگ بیل استعمال کرتے ہیں اور وہاں مرد دھوتیاں پہنتے ہیں اور خواتین لانچے۔
مجھے غلام فرید کے اس بیان پر اعتراض تھا میں نہیں مانتا کہ کراچی میں کوئی شخص اتنا بے خبر ہوگا۔ مگر غلام فرید نے مزید بتایا کہ اکثر لوگ تو یہ سمجھتے ہیں کہ اس کے گاؤں میں کوئی اسکول ہی نہیں اور وہاں رہنے والے سب لوگ چٹے جاہل اور ایک دم گنوار ہیں۔
اپنے شہر کے لوگوں کے بارے میں غلام فرید کے ریمارکس سن کر میں دفاعی پوزیشن میں آگیا اور اصرار کرنے لگا کہ ایسے صرف چند لوگ ہیں۔ تب غلام فرید نے میری توجہ آج ہی کے ایک واقعے کی طرف دلائی۔ ہوا یہ تھا کہ ہماری دکان کے سامنے ایک پٹھان کا چائے کا ہوٹل ہے۔ وہ پٹھان اپنے گاؤں سے ایک چھوٹے لڑکے کو لے کر آیا ہے جسے ابھی اردو بولنا نہیں آتی۔ ہم نے پٹھان کو دو چائے کا آرڈر کیا تو اس نے اس لڑکے کے ہاتھ دس والی چائے کی چینک (کیتلی) بھجوادی۔ اس لڑکے کو ہم نے سمجھانے کی کوشش کی یہ واپس لے جاؤ اور دو چائے لے کر آؤ۔ ہم نے ہاتھ سے اشارہ کرکے اسے سمجھایا کہ دو چائے لانی ہیں اور میرا خیال یہ تھا کہ اسے اتنی اردو تو آتی ہے کہ یہ دو چائے کا مطلب سمجھ سکے۔ مگر وہ لڑکا واپس چلا گیا اور چائے لے کر نہیں آیا۔ اب میں نے غلام فرید کو بھیجا غلام فرید کہنے لگا بھائی ٹہرو کچھ دیر میں چائے آجائیگی تو میں نے کہا ‘نہیں یار اس اخروٹ کو ہمارے اشارے سمجھ میں نہیں آئے ہونگے جا کر دیکھ کیا مسئلہ ہے۔’
اخروٹ۔ مجھے افسوس ہوا کہ میں نے یہ لفظ کیوں استعمال کیا لیکن یہ لفظ استعمال کرتے وقت میرے ذہن میں ایسی کوئی بات نہیں تھی کہ سننے والا یہ لفظ ہتک آمیز محسوس کرسکتا ہے اور پھر کراچی میں یہ لفظ اتنا کثیرالاستعمال ہے کہ اکثر پٹھان اس کا برا نہیں مناتے۔
کراچی میں اس تعصب کا شکار پٹھان اور پنجابی ہی نہیں ہوتے بلکہ اکثر مہاجر بھی پنجابیوں اور پٹھانوں کے ہاتھوں اس کا شکار ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر خود غلام فرید اکثر مہاجروں کو کلوے مہمان اور ہندوستانی (ہندوستانی سے نوجوان اکثر چڑتے ہیں) کہتا ہے۔ اگر کوئی میمن ہے اور وہ ہم سے بھاؤ تاؤ کرنے کی کوشش کرتا ہے تو غلام فرید اور میں ہم دونوں اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ چونکہ فلاں شخص میمن ہے اسلئیے وہ اتنا کنجوس تھا۔ اگر کوئی سندھی ہے تو ہم خودبخود یہ فرض کرلیتے ہیں کہ وہ بہت روکھا نخرا ہوگا۔ چونکہ غلام فرید عرصے سے کراچی میں مقیم ہے اس لئیے خود اس میں بھی یہ سب عادتیں پائی جاتی ہیں جو یقینا قابل فخر نہیں۔
لیکن شاید یہ ہی ہمارے شہر کی خاصیت ہے۔ میں کبھی کراچی کے علاوہ کسی دوسرے کاسموپولیٹن شہر نہیں گیا۔ اسلئیے مجھے اندازہ نہیں کہ آیا نیویارک اور لندن میں بھی اس قسم کے تعصبات پائے جاتے ہیں یا نہیں۔ ہوسکتا ہے میری یہ پوسٹ پڑھ کر آپ لوگ سوچیں کہ کراچی کی تو ہوا ہی خراب ہے۔ نہیں آپ لوگ غلط سمجھ رہے ہیں کراچی میں لوگ ایکدوسرے کو کیسے پکارتے ہیں اس پر نہ جائیں۔ میری دکان کے پیچھے ایک مہاجر کا بھی چائے کا ہوٹل ہے لیکن مجھ سمیت اکثر دکاندار اور علاقے کے لوگ کبھی اس کی چائے کو پٹھان ہوٹل والے کی چائے پر ترجیح نہیں دیتے۔
باخدا میرا یقین کیجئیے چاہے میں ہزار بار غلام فرید کو پینڈو کہوں لیکن دل سے اسے بہت عزیز سمجھتا ہوں۔ یہ اور بات ہے کہ چونکہ وہ پنڈ سے آیا ہے اسلئیے اکثر ناراض ہوجاتا ہے اور پھر جواب میں خوب کراچی والوں میں کیڑے نکالتا ہے اور میں اسکی باتوں سے خوب محظوظ ہوتا ہوں۔
میرا ذاتی خیال ہے یہ تعصب نہیں۔۔۔۔۔
آپ خود کراچی والے ہیں اسلئیے آپ سمجھ سکتے ہیں لیکن کوئی نیا بندہ تو یہی سمجھے گا کہ ہم تعصب پسند ہیں۔
ager ye tassub ha na tou mein islambad mein rehti houn…aisa tassub yahan bhi paya jata ha..aor aisa hi tassub peshawar mein bhi paya jata hy..mein in hi 2 cities mein rahi
کراچی والے سے آپ کی کیا مراد ہے
جو لوگ کراچی میں رہتے ہیں وہ کراچی والے ہیں۔