آگ اور خوف

iqbal-center-fire.jpg
پرسوں رات میں دکان پر کھڑا تھا۔ بجلی ابھی تھوڑی ہی دیر پہلے جھلک دکھلا کر واپس جا چکی تھی۔ کوئی سوا دس کے قریب کا سماں تھا اور چائے کی طلب محسوس ہورہی تھی۔ سامنے ہوٹل والے کو اشارہ کرنے کو جو ہاتھ اٹھایا تو دیکھا وہاں سب لوگ سامنے والی گلی کی طرف منہ کرے اوپر کی طرف کچھ دیکھ رہے ہیں۔ میں دکان سے باہر نکلا تو دیکھا کہ سیاہ رنگ کے دھوؤیں کے مرغولے آسمان کی طرف اٹھ رہے ہیں۔ کچھ ہی دیر میں پتہ چلا کہ اقبال سینٹر میں آگ لگ گئی ہے۔ آسمان پر چھاتی دھوؤیں کی سیاہی سے ہی پتہ لگ رہا تھا کہ آگ بڑے پیمانے پر پھیل چکی ہے۔ فائر بریگیڈ، ایمبولینسوں، پولیس موبائلوں کے سائرنوں کی بھی اس کی تصدیق کردی۔ افراتفری کا عالم تھا۔

ساری رات آگ بھجائی جاتی رہی۔ دکانداروں کا کروڑوں روپوں کا نقصان ہوگیا۔ چند تو بالکل دیوالیہ ہوگئے۔ اس عمارت میں گراؤنڈ، اور بیسمنٹ پر سینکڑوں دکانیں ہیں اور اوپر ایک بالائی کارپارکنگ کے بعد چھ رہائشی منزلیں۔ شکر ہے کہ رہائشی بلاکس کے آنے جانے کا انتظام مارکیٹ سے بالکل ہٹ کر تھا اور بلڈنگ فورا خالی ہوگئی ورنہ اس عمارت میں سینکڑوں لوگ دم گھٹنے سے ہلاک ہوجاتے۔

جیسا کہ ہمارے شہر کا رواج ہے، اس سانحے کے بعد ہر طرف سے صدائے افسوس، سازشوں اور پراسرار ہاتھ کے ملوث ہونے کہ چہ مگوئیاں سامنے آرہی ہیں۔ اس عمارت کے تعمیر ہونے سے قبل اس زمین پر ایک قبرستان کی کھنڈرات تھے جنہیں ہموار کرکے یہ عمارت کھڑی کی گئی چند لوگوں کا ماننا ہے کہ یہ بلڈنگ شروع ہی سے بدروحوں کے زیر اثر تھی۔ اس عمارت کے سامنے ریڈیو پاکستان کی قدیم عمارت ہے۔ جس میں رہنے والی خوبرو ہندو دوشیزہ کے گھنگروؤں کی آوازیں تو علاقے میں رہنے والے ہر شخص کا والد یا دادا یا وہ خود سن چکا ہے۔ سنا ہے کہ وہ حسین ہے، افسردہ ہے اور راتوں کو ریڈیو پاکستان کی عمارت کے ارد گرد منڈلاتی ہے۔ میری دکان پر آنے والی ایک بزرگ خاتون نے بتایا اقبال سینٹر سے آگے جو ایک اور عمارت ہے کوئی بیس پچیس سال پہلے وہاں بھی آگ لگ گئی تھی اور اس آگ نے برابر عمارتوں کو بھی لپیٹ لیا تھا اور کئی جانیں بھی لیں۔ مگر عمارت کے بالکل ساتھ ہی جو پیپل کا قدیم درخت ہے اس کا ایک بھی پتہ نہ جلا تھا۔

ایم اے جناح روڈ پر بڑے بڑے قدیم پیڑ ہیں جو بہت گھنے ہیں۔ ان پر رہنے والے جنوں، چڑیلوں اور بھوتوں کے قصے تو ہر خاص و عام کو معلوم ہیں اور علاقے کے لوگ تقریبا سب ہی اس امر سے واقف ہیں۔ میری دکان پر آنے والے ایک بچے زبیر نے مجھے بتایا کہ ایک رات جب وہ اپنے ابو کے ساتھ دلپسند سے آئسکریم کھا کر لوٹ رہا تھا تو اس نے وہاں ایک پیڑ پر کسی کو الٹا لٹکا دیکھا تھا۔

"میں نے چیخ ماری تو ابو بھی گھبرا گئے میں نے انہیں بتایا کہ وہاں سامنے پیڑ پر کوئی الٹا لٹکا ہوا ہے۔ مگر جب انہوں نے پاس جاکر دیکھا تو وہاں کوئی نہیں تھا۔ مگر وہ وہاں تھا اس کی شکل بہت ڈراؤنی تھی۔”

"تو کیا اس بھوت یا چڑیل نے اقبال سینٹر میں اگ لگائی ہے؟ ” میں نے اس سے پوچھا۔

"کیا پتہ؟” اس نے کندھے اچکائے۔

انسان کیسے اپنے خوف اور ڈر کو چھپانے، بہلانے اور اس کو خلاف حقیقت حقائق سے ورغلانے کی کوشش کرتا ہے۔ اسے معلوم ہے کہ اصل وجہ کیا ہے مگر اصل وجہ اسے اتنی ڈراؤنی معلوم ہوتی ہے کہ وہ یہ چیزیں گھڑنے لگتا ہے۔ چیزیں جو بظاہر اس کے کنٹرول میں نہیں ہیں۔ حتی کہ زبیر جیسا بچہ بھی، جسے معلوم ہے مگر پھر بھی وہ یہ جاننا نہیں چاہتا کہ اقبال سینٹر کی دکانوں میں کھلے عام کیمیکلز کی خرید و فروخت ہوتی تھی۔ عمارت کے رہائشیوں، دکانداروں سب کو معلوم تھا کہ یہ مواد انتہائی آتش گیر ہے اور ذرا سی غلطی سے۔ ۔ ۔

اوہ نہیں۔ یہ سب فضول باتیں ہیں، یہ دراصل اسی ہندو چڑیل کا کام ہے، وہ اپنے محبوب کی موت کا بدلہ لینا چاہتی ہے۔

تبصرے:

  1. سائینس کی ترقی کے باوجود ہم اب تک دقیانوس ہیں اور کوشش بھی نہیں‌کرتے حقیقت جاننے کی۔

  2. اسلام علیکم
    بات صرف دلچسپی کی ہے کہ کسی بھی معاشرے میں دلچسپی کا محور کیا ہے۔ ہمارے معاشرے میں سائنس اور علوم کے بجائے قصے کہانیوں میں دلچسپی لی جاتی ہے۔
    چھوٹی سی مثال ہے کہ میرے گھر کے پاس ایک کاؤنٹی کے ہائی اسکول طالب علموں نے استعمال شدہ کوکنگ آئل سے گاڑی چلانے والا تیل بنا کر اس سے کئی گاڑیاں چلانے کا کامیاب تجربہ کیا۔ اس پر ایشیائی لوگوں کو ردعمل تھا کہ چلو اچھا ہے تیل سستا ہو جائے گا (لاگت کی وجہ سے) جبکہ گورے حضرات بیتاب تھے کہ اس کے پیچھے سائنس دیکھیں کہ کس درجہ حرارت تک گرم کر کے پانی کیسے شامل کر کے کیسے نکالا گیا (پیوریفائی)
    ہمارے معاشرے میں دو چیزیں نا پید ہیں ایک انصاف دوسرا تعلیم۔ اس سے جڑی ساری خرابیاں ہیں۔

Comments are closed.