اخباری اطلاعات کے مطابق ایم کیو ایم کے ممبر برائے قومی اسمبلی کنور خالد یونس نے ایوان میں حدود آرڈینینس میں ترمیم کا بل پیش کرنے کیلئے تحریک پیش کی ۔ جسے ایوان نے کثرت رائے سے مسترد کردیا۔
جنرل مشرف اور ان کی سرکاری جماعت ق لیگ بارہا کئی مواقع پر یہ اعلان کرچکے ہیں کہ ہم روشن خیال ہیں، خواتین کی عصمتوں کے تحفظ کے حوالے سے بہت حساس ہیں بلکہ جنرل صاحب تو کئی مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ حدود آرڈینینس میں ترمیم کی ضرورت ہے۔ پھر ق لیگ کے کسی ایک بھی رکن اسمبلی نے اس تحریک کی حمایت کیوں نہیں کی؟
کنور خالد یونس کا کہنا ہے کہ حدود آرڈینینس میں زنا کے حوالے سے موجود شقیں جنرل ضیاء الحق نے سعودی عرب کی خوشنودی کیلئیے شامل کی تھیں۔ اس وقت تمام اسلامی ممالک میں صرف پاکستان اور سعودی عرب میں یہ قانون نافذ ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان شقوں میں خواتین کے خلاف امتیاز برتا گیا ہے اور انہیں مردوں کے برابر حیثیت نہیں دی گئی جو کہ آئین پاکستان کی روح کے منافی ہے جس کے تحت تمام پاکستانی مرد و عورت برابر کے شہری ہیں۔
وزیر برائے پارلیمانی امور ڈاکٹر شیر افگن نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ یہ اسلامی قوانین آئین پاکستان اور شریعت کی روح کے عین مطابق ہیں اور انہیں آٹھویں آئینی ترمیم کے تحت تحفظ حاصل ہے۔متحدہ مجلس عمال کے ایم این اے صاحبزادہ ابوالخیر نے کہا کہ حدود کے تمام مقدمات میں فیصلہ قرآن اور سنت کی روشنی میں ہی ہونا چاہئیے۔ وزیر قانون وصی ظفر نے کہا کہ حکومت نے خوتین کو مکمل حقوق دے رکھے ہیں۔
رائے شماری میں حکمران مسلم لیگ اور متحدہ مجلس عمل کے ارکان نے اس تحریک کے خلاف ووٹ دیکر تحریک ناکام بنادی۔ تحریک مسترد ہونے کے بعد مجلس عمل اور مسلم لیگ ق کے اراکین نے ڈیسک بجا کر مسرت کا اظہار کیا۔ بعد ازاں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کنور خالد یونس نے کہا کہ حکمران جماعت اور مجلس عمل ضیاءالحق کی باقیات میں سے ہیں اس لئیے انہوں نے اس بل کی مخالفت کی۔ لیکن ہم آئندہ ہفتے حدود آرڈینینس کی مکمل تنسیخ کا بل پیش کریں گے۔
کنور صاحب کو شکر کرنا چاہئیے کہ مجلس عمل نے صرف ڈیسکیں بجانے پر اکتفا کیا ورنہ ان کی قبائلی اور جہادی روایات کے مطابق تو انہیں کلاشنکوف سے ہوائی فائر کرنے چاہئیے تھے۔
میری ناقص رائے میں حدود آرڈینینس سے پاکستان کو جلد از جلد چھٹکارا پالینا چاہئیے لیکن یہ کہنا کچھ زیادہ مشکل نہیں ہے کہ کنور صاحب کے اگلے بل کا ایوان میں کیا حشر ہوگا۔ یا تو کنور صاحب اور ان کی جماعت یہ بل پیش کر کے روشن خیالوں میں مقبولیت پانا چاہ رہے تھے، یا شاید کنور صاحب اپنے ضمیر کا قرض اتار رہے تھے۔
آج ہی کے اخبارات میں دوسرا چرچا تھا لاہور میں ایک ڈاکٹر کے ہاتھوں زلزلے سے متاثرہ ایک خاتون کی آبروریزی کا۔ جیسا کہ مجھ سے پہلے کئی اردو بلاگر لکھ چکے ہیں کہ پاکستان میں خواتین کے خلاف امتیازی قوانین کا جب تک خاتمہ نہیں ہوگا تب تک ہم ان ملزمان کو کیفر کردار تک نہیں پہنچا سکتے۔ ایک بات جو مجھے سمجھ نہیں آتی وہ یہ ہے کہ کیوں ہمارے ارکان اسمبلی ایسی قانون سازی کی راہ میں رکاوٹ بنے کھڑے رہتے ہیں؟ معاشرے میں خواتین کی اس رسوائی سے انہیں یا پاکستان فوج کو کیا سیاسی فوائد حاصل ہوسکتے ہیں؟ مجھے تو کوئی ایسی وجہ نظر نہیں آتی، آپ کا کیا خیال ہے، ایسا کیوں کیا جاتا ہے؟
السلام علیکم
یہ سب سے بڑی غلط فہمی ہے کہ حدود آرڈیننس کا قانون خواتین کے خلاف ہے یا اس سے خواتین کے حقوق پر حرف آتا ہے۔ زنا کی سزا مرد اور عورت دونوں کے لیے ایک جیسی ہوتی ہے ۔ لاہور میں جو کچھ ہوا وہ افسوس ناک ہے لیکن یہ فرمائیے کہ اس معاملے کا حدود کے قانون سے کیا تعلق ہے؟
جہاں تک قراداد کا تعلق ہے تو آج جو پارٹی اس کے حق میں کیا پتہ کل مخالفت میں ہو اور جو اس کے خلاف ہے وہ حمایت کرتی نظر آئے۔ حکمران ہوں یا سیاستدان یہ اس طرح کے معاملات کو کارڈ کے طور پر استعمال کرتے ہیں
عتیق صاحب تشریف آوری کا شکریہ۔ حدود کے قانون کے تحت اگر کوئی عورت زنا بالجبر کا الزام لگاتی ہے تو اسے چار مرد گواہ پیش کرنا ہوتے ہیں جنہوں نے زنا ہوتے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہو۔ گواہان نہ پیش کرسکنے کی صورت میں ریپ کا شکار ہونے والی عورت کو زنا کے جرم کا اعتراف کرنے پر سزا سنائی جاسکتی ہے۔
at least four Muslim adult male witnesses, about whom the Court is satisfied, having regard to the requirements of tazkiyah al-shuhood, that they are truthful persons and abstain from major sins (kabair), give evidence as eye-widnesses of the act of penetration necessary to the offence:
قریبا ایک سال پہلے لاہور ہائی کورٹ نے ایک فیصلے میں یہ کہا کہ حدود کے مقدمات میں ڈی این اے ٹیسٹ بطور ثبوت پیش نہیں کئیے جاسکتے۔
ایک اور اسلامی قانون دیعت اور قصاص کا ہے۔ جس کی وجہ غیرت کے نام پر قتل ہونے والی خواتین کے مجرم بچ نکلتے ہیں۔
آپ سے یہ کس نے کہا کہ ان قوانین سے خواتین کے حقوق پر کوئی فرق نہیں آتا۔ یہ بات بھی سامنے رکھنا چاہئیے کہ آپ خواتین کے حقوق کی کیا حد سمجھتے ہیں۔ کیا آپ کے خیال میں ایک خاتون کو یہ حق ہونا چاہئیے کہ وہ بغیر گواہوں کے صرف ثبوتوں کی بنیاد پر اپنے مجرم کو سزا دلواسکے؟ یا جیسے دانیال بھائی کہتے ہیں، کیا انہیں کنویں میں کود کر خودکشی کرلینی چاہئیے؟
نعمان۔۔۔۔ حدود آردینس کی شق آٹھ کے علاوہ شق “9“ اور دس اور ایک نظر
شق انیس پر بھی۔۔۔۔
http://www.pakistani.org/pakistan/legislation/zia_po_1979/ord7_1979.html
شعیب بھائی شکر ہے آپ میری بات سمجھ گئے۔ میں یہی تو کہہ رہا ہوں کہ ایک تو یہ قانون عملا بےکار ہے۔ دوسری بات یہ کہ جب اس پر چار آدمیوں کی گواہی کی شرط رہے گی تو ریپ کرنے والوں کو سزا کیسے ملے گی؟ ظاہر ہے پھر تو حد نافذ نہیں ہوگی۔ یا تو یہ گواہی والی شرط ہٹائی جائے اور ڈی این ٹیسٹ اور ڈاکٹری معائنے کو کافی ثبوت مانا جائے یا پھر اس قانون کو بند کیا جائے۔ آپ کا کیا خیال ہے؟
اسلام کے قانون کے مطابق۔۔۔۔۔
اگر حد نافذ نہ ہو تو حاکم وقت جو سزا تجویز کرے وہ دی جائے۔۔۔۔۔۔۔
میں آپ کی بات نہیں سمجھا اور آپ میری نہیں۔۔۔۔ قانون کو دوبارہ پڑ ھو۔۔۔۔
شعیب بھائی جیسا کہ آپ نے واضح کیا کہ اگر گواہان موجود نہ ہوں تو حد جاری نہیں کی جاسکتی۔ اگر چار متقی، ایماندار اور اچھی شہرت کے آدمی زنابالجبر ہوتے ہوئے دیکھیں گے تو کیا وہ اسے روکیں گے نہیں؟ اور اگر انہوں نے تب جبر ہونے سے نہیں روکا تو اب ایک نہ دو اکٹھے چار آدمی کیسے گواہی دینے آئیں گے؟
اگر حد نافذ نہیں ہورہی تو حاکم وقت کو فیصلہ کرنا ہے۔ تعزیرات پاکستان کے تحت حاکم وقت کو یہ اختیار نہیں ہے۔ یہ اختیار منصف کو ہے وہ ثبوتوں کی روشنی میں اور واقعاتی شہادتوں کی روشنی میں فیصلہ دے۔ سوال یہ ہے کہ اگر ایسا ہی کرنا ہے تو حدود ختم کی جائیں۔ کیونکہ ننانوے فیصد زنابالجبر کے کیسوں میں چار گواہ پیش نہیں ہوتے۔ جس سے اس قانون کی غیرافادیت واضح ہوجاتی ہے۔
آپ قانون کے شعبے سے وابستہ ہیں آپ اپنے ذاتی تجربے سے اس قانون کی افادیت پر روشنی ڈالیں
بھائی! حاکم وقت کی مرضی سے مراد وہ قانون جو اس وقت نافذ ہو(مگر اسلامی تعلیمات سے متضاد نہ ہو)۔۔۔۔
باقی قران پاک کی سورۃ النور کی چوتھی آیت میں درج ہے۔۔۔
“اور جو پارسا عورتوں کو عیب لگائیں،پھر چار گواہ معائنہ کے نہ لائیں،تو انہیں اسی کوڑے لگاؤ“
اس سے علماء اکرام(تمام فرقوں کے) نے یہ اخذ کیا ہے کہ زنا کے ثبوت کےلئے چار گواہ کا ہونا ضروری ہے۔۔۔۔۔ صرف الزام لگانے والے مرد پر ہی نہیں بلکہ عورت پر بھی جو ایسا کرے۔۔۔۔یہ ہی اس قانون میں درج ہے۔۔۔۔۔
باقی گواہ نہ ہو تو کیا کیا جائے؟؟؟؟ تو اس معاملے سے متعلق اس ہی سورۃ کی چھٹی آیت میں طریقہ کار درج ہے۔۔۔۔ مگر افسوس یہ قانون کا حصہ نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ البتہ عدالتوں نے قانون کی تشریح میں اسے اہمیت دی ہے۔۔۔۔
باقی آپ کا سوال کہ اگر وہ گواہ وہاں تھے تو انہوں نے روکا کیوں نہیں تو اس کا جواب میرے پاس نہیں۔۔۔۔ یہ سوال ہم نے اپنے استاد سے کیا تھا (ایل ایل بی میں) وہ بھی کوئی تسلی بخش جواب نہیں دے سکے تھے (جس سے میرا دل مطمین ہوتا) ۔۔۔۔۔ البتہ یہ ایک آپشن ہے کہ کیا وہ اس پوزیشن میں تھے کہ روک سکتے۔۔۔۔۔
ویسے یہ سوال آپ کے اپنے ذہن کی پیداوار نہیں ہو گا۔۔۔ کیوں کہ یہ ایک عام اعتراض ہے جو کیا جاتا ہے اس قانون کی مخالفت میں۔۔۔ پچھلے ہفتہ(٤ دسمبر) کی بات ہے کہ آرٹ کونسل میں “خواتین سے اجتماعی ذیادتی،ہمارا معاشرہ اور قوانین“ کے موضوع پر تقریر کرتے ہوئے ایک صاحب نے کہا تھا۔۔۔۔ جناب مجھے یہ سمجھ نہیں آتا اس قانون کو منسوخ کیوں نہیں کردیا جاتا، قرآن میں حد کا ذکر ہے، حدود آرڈینس کا نہیں “
ویسے قانون کتنا بھی مکمل ہو اگر دل میں کھوٹ ہو تو آدمی چور راستے اور بہانے تراش لیتا ہے (یہ ہرگز آپ کے متعلق نہیں کہا)۔۔۔ اس سلسلے میں میں پہلے ہی لکھ چکا ہو۔۔
http://pensive-man.blogspot.com/2005/05/blog-post_26.html
hi
i m off topic n jst wanted to say thanks!
thanks for linkin me 🙂
tc byes