بھارتی ہفتہ وار جریدے آوٹ لک کے نمائندے کو دبئی میں مقیم بے نظیر بھٹو اور ان کے بچوں کا خصوصی انٹرویو بمع تصاویر۔ میری والدہ بھٹو خاندان کی بہت بڑی فین ہیں۔ میری والدہ کی پسند کے پیچھے سیاسی افکار سے زیادہ بھٹو خاندان کے ساتھ وفاداری کا جذبہ ہے۔ یہ بہت عجیب سی بات ہے، نہ ہم سندھی ہیں نہ بھٹو خاندان نے ہمارے اوپر کبھی کوئی احسان کیا ہے۔ مگر یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ آج بھی پاکستان میں ایسے ہزاروں لوگ ہیں جو بھٹو خاندان کو کسی شاہی خاندان کی طرح سمجھتے ہیں، ان سے وفاداری بذریعہ ووٹ نبھاتے ہیں اور ان کے بچوں کی تصاویر جمع کرتے ہیں۔ یہ تصاویر دیکھ کر میری والدہ اور ان جیسے لوگوں کا پہلا تبصرہ یہ ہوگا، "اف کتنی جلدی کتنے بڑے ہوگئے یہ بچے” دوسرا تبصرہ غالبا یہ ہوگا کہ بلاول اپنے نانا اور ماموں جیسا دکھائی دیتا ہے۔ اوربلاول کی عینک والی بردبار تصویر دیکھ کر تو میری والدہ شاید وصیت نامہ ہی تیار کروادیں کہ میری اپنے بچوں اور ان کے بچوں سے فرمائش ہے کہ وہ ہر الیکشن میں بے نظیر یا بلاول کو ہی ووٹ دیں۔
میں نوعمری سے ہی بے نظیر سے اس لئے متاثر ہوں کہ ایک تو میری والدہ بھٹو خاندان کی پرستار ہیں، دوسرا یہ کہ بے نظیر ایک عورت ہیں۔ مجھے لگتا تھا کہ جس ملک مرد حکمرانوں کو سولی پر ٹانک دیا جاتا ہے وہاں کسی عورت کا وزیراعظم بننے کے لئے کوشش کرنا اور کامیاب ہوجانا محض اتفاق یا قسمت نہیں بلکہ اس خاتون میں ضرور کوئی تو قابلیت ہوگی۔ اس کے علاوہ بے نظیر کی خوش لباسی اور عوام کے لئے جو درد ان کے دل میں ہے وہ بھی کافی متاثر کن ہے۔ میں ابھی بھی بے نظیر کے تمام انٹرویو بہت شوق سے دیکھتا اور پڑھتا ہوں۔ اور آپ چاہے کچھ کہیں، مگر میں بےنظیر کو ایک مدبر، ذہین، باوقار، اور باہمت لیڈر تسلیم کرتا ہوں اور ان کی صلاحیتوں کا معترف ہوں۔ تاہم ایسا نہیں جیسے نو عمری میں تھا مگر پھر بھی مجھے لگتا ہے کہ اگر میں ووٹ دینے جاؤنگا تو تیر کے نشان کو دیکھ کر مجھے بلاول، بختاور، آصفہ اور محترمہ کی تصویر یاد آجائے گی اور میں محترمہ اور ان کے شوہر پر لگے کرپشن کے الزامات بھول کر تیر پر مہر لگادوں گا۔ شاید۔۔۔ شاید میں بھی ان پاکستانیوں جیسا ہی ہوں جو وفاداری کا طوق خوشی سے گلے میں ڈالتے ہیں اور قائد عوام، قائد جمہوریت، دختر مشرق کی ہر آمد پر گل پاشی کرتے ہیں۔
جناب نعمان صاحب،لگتا ہے کہ آپ اس بار مسٹر اینڈ مسز 10٪ کو فل چانس دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ خیر جناب جمہوریت ہے اور آپ کے حق کا ہمیں دل و جان سے احترام ہے۔ ویسے ایک بات ہے کہ ہم انسانوں کا تو بھلا ہو نہ ہو لیکن کچھ گھوڑوں کی قسمت پھر سے چمک اٹھے گی۔ واہ کیا عیاشی ہو گی۔۔سیب کے مربے، ائر کنڈیشنڈ اصطبل، غیر ملکی سائیس۔
معجزے بھی رونما ہوا کریں گے۔ مثال کے طور پر لاکھوں روپے سالانہ انکم ٹیکس دینے والا صنعتکار اور بزنس مین تو زیادہ سے زیادہ اسلام آباد کے ایک درمیانے درجے کے علاقے میں اپنا بنگلہ بنا کر خوش ہو جائے گا لیکن 992 روپے کا خطیر انکم ٹیکس دینے والی دختر مشرق، مغرب میں واقع سرے محل کی مالکن بنے گی۔
جب میں لاہور میں اور آپ کراچی میں بیٹھ کر ہاتھ والا پنکھا جھُلا کر اپنی تپتی “روح“ کو تسکین پہنچا رہے ہوں گے تو اسلام آ باد کے یہ عیاش جانور (گھوڑے) میڈ ان یو ایس اے ایر کنڈیشنرز کی ٹھنڈی ہوا میں بیٹھ کر ہماری :اوقات“ پر ہنسا کریں گے۔
نعمان ویسے یار سچ بتاؤ آپ سیریس ہیں تیر پر مہر لگانے میں یا آپ کو بھی کچھ “آفر“ ہوئی ہے۔ میرا مطلب ہے نوٹوں شوٹوں یا نوکری کی؟
انتہائی حیرت انگیز بات ہے کہ تعلیم یافتہ حضرات بھی کارکردگی کو نہیں دیکھتے بلکہ جدی پشتی پیری فقیری کی طرح پارٹیوں کو ووٹ دیتے ہیں۔
یہ بات آپکی ہی نہیں میں نے خود اپنے خاندان میں دیکھا ہے کہ مانتے ہیں کہ اک پارٹی قتل وغارت گری سے شہر کو جھنم بنا چکی ہے لیکن ووٹ کی بات آئے تو پھر اسی کو ووٹ دیتے ہیں۔ اصل میں ہماری آنکھیں شائد قبر میں ہی کھلیں گی ابھی ہم انہیں کی حمائت کرتے رہیں گے ساتھ روتے بھی رہیں گے کہ یہ مسئلہ اور وہ مسئلہ۔
چاہے امیر ہو یا غریب بھگتنا ھر کسی کو کبھی نہ کبھی ضرور پڑتا ہے
شائد اس شہراس ملک کا علاج یہی ہے کہ اسکے باسی رگڑ رگڑ کے زندگی گزاریں تا آنکہ عقل آجائے۔
ویسے محترمہ کہ حالیہ پینترے دیکھنے کہ باوجود بھی حمائت کہ لئے ضمیر کو کیا سونگھا کر سلایا جا سکتا ہے ؟:) آج کا نیر ذیدی کا کالم بھی محترمہ ہی کی جانب ہے
ساجد اور احمد میں دراصل پرانی وضع کا آدمی ہوں، کوئی خاتون مجھ سے کچھ مانگیں تو انکار کرنے کو جی گوارہ نہیں کرتا، اور پھر یہ خاتون تو اپنے شہید بھائیوں اور باپ کے حوالے دیکر، اپنے شوہر کی نو سالہ اسیری کا واسطہ دے کر اور دیار غیر میں اپنے ننھے بچوں کے ساتھ غریب الوطنی میں گزارے دنوں کے قصے سنا کر صرف میرا ووٹ ہی طلب کررہی ہے۔ نہیں نہیں میں اتنا سنگ دل نہیں ہوسکتا، کوئی بھی کیسے ہوسکتا ہے؟
ساجد جی ہاں میں اس بارے میں سنجیدہ ہوں اور محترمہ کی زندگی، ان کے ادوار حکومت اور ان کی کتابوں کا مطالعہ کررہا ہوں۔ خصوصا ان کے دونوں مختصر ادوار کے معیشت، پاکستانی کی خارجہ پالیسی اور صحت اور تعلیم کے شعبے میری دلچسپی کا مرکز ہیں۔ اسی بنیاد پر میں اپنا ووٹ دینا کا ارادہ بنا رہا ہوں۔ پھر اس کے علاوہ ہمارے علاقے سے ان کا جو نمائندہ ابھی ضمنی انتخابات میں متحدہ کے ہاتھوں ہارا ہے، وہ ایک اچھا، پڑھا لکھا اور سمجھدار آدمی ہے مجھے خوشی ہوگی اگر قومی اسمبلی میںوہ میری نمائندگی کرے۔
آپ نے جو محترمہ کی تصویر کشی کی ہے اس کو پڑھ کر آنکھوں سے آنسووں کے دریا بہ جاتے اگر ان کی عیاشانہ زندگی کا علم نہ ھوتا۔ محترمہ نے ہمیشہ ذاتی مفاد کو ترجیح دی ہے حتی کہ اس پر حقیقی بھائی سے بھی ناطہ توڑ لیا ۔ سکھوں کی لسٹ بھارت کو فراہم کرنے سے لیکر سرے محل تک کی داستانیں بکھری پڑی ہیں لیکن سب سے مزیدار شگوفے محترمہ انکل بش کو قائل کرنے کہ لئے چھوڑ رہیں ہیں، اگر انکل بش بھی اتنے ہی وضع دار نکلے جتنے آپ ہیں تو ایک خاتون کو مایوس نہیں کریں گے۔ مگر انکل کے ساتھ ایک مسئلہ یہ ہے کہ اپنے ملک کے مفاد کو سب چیزوں پر ترجیح دیتے ہیں:)
بہرحال گڈ لک !
نعمان ، مانا کہ آپ پرانی وضع (شاید قطع بھی) کے آدمی ہیں ۔ لیکن اتنی بھی کیا وضع داری کہ کوئی خاتوں آپ سے کچھ مانگے اور آپ انکار نہ کر سکیں۔ سوچو بھائی کل کلاں کسی خاتون نے آپ کا دل بمعہ کریڈٹ کارڈ مانگ لیا تو کیا ہو گا؟ مجھے بھی یہی عادت تھی ۔مجھ سے بھی ایک محترمہ نے میرے دل کی فرمائش کر ڈالی۔ چونکہ آپ کی طرح سے میں بھی وضعدار تھا سو انکار نہ کر سکا۔ آؤ دیکھا نہ تاؤ جھٹ سے ہاں کر دی۔ اس دن سے وہ خاتون نہ صرف میرے گھر پر قابض ہیں بلکہ مجھے “صراط مستقیم“ پر رکھنے کے لئے سائے کی طرح میرے پیچھے لگی رہتی ہیں۔ جی ہاں اب وہ میری “من کوحہ“ ہیں۔
اگرچہ آپ کا کیس عائلی کی بجائے سیاسی ہے پھر بھی بہت سی باتیں مشترک ہیں۔ مثال کے طور پر اگر کوئی الطاف حسین کا “چریا“ بن جائے یا بی بی کا “جی آلہ“ یا پھر منکوحہ کا “گھر والا“ تینوں صورتوں میں “وفاداری بشرط استواری“ کا مقولہ فٹ آتا ہے۔ بقول طارق عزیز “غلطی کی گنجائش نشتہ“ اور آپ جانتے ہیں کہ ہمارے سیاسی ماحول میں اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہہ کر اپنی ہی پارٹی کی پالیسی پر تنقید کرنا سب سے بڑی غلطی گردانی جاتی ہے۔ اور یہ بات آپ کراچی باسیوں سے زیادہ کون سمجھ سکتا ہے کہ جنہوں نے جمہوریت کے نام پر روا رکھے جانے والے ظلم
کے خلاف سب سے زیادہ جانوں کی قربانی دی ہے اور ابھی تک دے رہے ہیں۔
جناب ہم تو جمہوریت اور انسانی آزادیوں کے علمبردار ہیں سو یہ تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ میں آپ کو زور زبردستی یا پھر کسی کی ذاتی زندگی پر کیچڑ اچھال کر آپ کو رائے بدلنے پر مجبور کروں۔ ویسے بھی ابھی آپ محترمہ کے سابقہ ادوار حکومت اور اس کے دوران ہونے والی ترقی/ تنزلی کا مطالعہ کر رہے ہیں۔ سچ پوچھیں تو میں نے آج تک ایسا کوئی مطالعہ نہیں کیا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ تو میرے جیسے مزدور آدمی کی روزی روٹی کے لئے تگ و دو کی وجہ سے تنگی وقت اور دوسرے کہ یہ کوئی سینکڑوں برس پرانی تاریخ نہیں ہے۔ بی بی، بابو اور بابے کے دور کا بہت اچھی طرح سے مشاہدہ ہے مجھے۔ بابا مرحوم تو دنیا سے چلا گیا۔ اللہ اس کی مغفرت کرے۔ باقی دونوں ہمارے درمیان موجود ہیں۔ اور ان کی سیاسی کھڑ بازیوں کی داستانیں بھی ہر روز اخبارات کی زینت بنتی رہتی ہیں۔ پھر بھی اگر آپ اپنے حاصل مطالعہ کے چیدہ چیدہ نکات اس سائٹ پر زیر بحث لاتے رہیں تو ہمیں بھی بہت سی باتوں سے آگاہی ہو سکے گی۔
کسی جگہ میں نے ایک شعر لکھا ہوا دیکھا تھا پورا شعر تو یاد نہیں ۔ ایک مصرعہ ذہن میں رہ گیا جو کچھ یوں ہے : سردار وہ جو سرِدار بھی آئے۔ اور ہمارے یہ سرداران اپنی قوم کو آمروں کے ہاتھوں ذلیل ہونے کے لئے ہمیشہ ملک سے فرار ہونے میں ہی اپنی عافیت سمجھتے ہیں۔
میں ٹھہرا ایک پینڈو آدمی جو صرف اتنا جانتا ہے کہ بھا گتا وہی ہے جو چور ہوتا ہے۔ قانونی موشگافیاں اور سیاسی داؤ پیچ کی یہ نورا کُشتی ہم عوام کو بے وقوف بنانے کے لئے لڑی جاتی ہے۔ بھٹو منہ پھٹ تھا اور ایک سچا آدمی بے شک منہ پھٹ ہی ہوتا ہے۔ اس نے انکل سام کو آنکھ دکھانے اور عربوں کو ان کی دولت کے ضیاع کا احساس دلایا تو وہ عبرت کا نشان بنا دیا گیا۔ وہ سولی چڑھ کر بھی لوگوں کے دلوں سے محو نہیں ہو سکا بلکہ بعد کے آنے والے حکمرانوں کی امریکہ کے آگے حد سے زیادہ جی حضوریوں نے اس کا قد مزید بڑھا دیا۔ لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ اس کی بیٹی نے صرف اپنے باپ کی لاش پر سیاست کی۔ اس کی اصلاحات کو آگے نہیں بڑھایا۔ “چاروں صوبوں کی زنجیر“ نے اقتصادی اور معاشی طور پر ملک کو گروی رکھنے کا بے نظیر کارنامہ سر انجام دیا۔ بجلی کے معاملہ پر موجودہ حکومت کی نا اہلی کے ساتھ ساتھ اس کی بے تحاشہ مہنگی قیمت کا کریڈٹ محترمہ کے انہی کاموں میں سے ایک کام ہے کہ انہوں نے ملکی سورسز (پانی اور گیس اور کوئلہ) سے صرف نظر کرتے ہوئے غیر ملکی کمپنیوں کے ساتھ انتہائی سخت شرائط قبول کرتے ہوئے تیل سے بجلی پیدا کرنے کے معاہدے کئے۔
چلئے اس بات کو یہیں چھوڑتے ہیں ۔ اللہ کرے کہ اس ملک کے حکمرانوں اور سیاستدانوں کو آزادی اور اپنے ملک کی عزت کا احساس ہو جائے۔ کس کو الزام دیں۔جو آیا وہ اپنے پیش رو سے بھی زیادہ اس ملک کا نقصان کر گیا۔کسی نے جمہوریت کا جھرلو گھمایا تو کسی نے اسلامی نظام کا۔ کسی نے کراچی کو پیرس بنا نے کی بات کرکے عوام کا استحصال کیا تو کسی نے روشن خیالی کا ڈول ڈالا ہوا ہے۔کسی نے شیخ مجیب کی پیروی کرتے ہوئے لسانیت کی سیاست کی تو کسی نے قومیت کا شوشہ چھوڑ کر اپنا الو سیدھا کیا۔
پھر بھی امید پہ دنیا قائم ہے۔ ہزار برائیوں اور خامیوں کے باوجود جمہوری نظام میں اس بات کا بہر حال امکان تو ہے کہ کل کلاں کوئی صحیح آدمی بھی آگے آئے گا۔ ایسا بھی اندھیر نہیں ہے کہ دل شکستہ ہوا جائے۔ کراچی کے 12 مئی کے افسوسناک واقعات کے بعد جس طرح سے پورے ملک اور کراچی میں بھی عوام نے تحمل اور سمجھ داری کا ثبوت دیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ اور مستقبل میں یہ بھائی چارہ انشاءاللہ مزید قوی ہو گا اور نفرت پھیلانے والے عناصر کو منہ کی کھانی پڑے گی۔
ساجد، جمہوریت میں آپ فرشتوں کو منتخب نہیں کرتے۔ انسانوں کا انتخاب ہوتا ہے اور ہم سب سے اچھے نہیں بلکہ سب سے مناسب امیدوار کو تلاش کرتے ہیں۔
آپ لکھتے ہیں کہ محترمہ کے دور میں مہنگی بجلی خریدی گئی۔ بجلی نہ ہونے سے مہنگی بجلی ہونا کہیں زیادہ بہتر ہے۔ ہاں یہ بات درست ہے کہ ملک کے آبی، گیس اور کوئلے کے ذخائر کو نظر انداز کیا گیا۔ مگر ان پاور پلانٹس کی فوری تنصیب آسان تھی۔ اگر حب پاور کمپنی نہ ہوتی تو آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کراچی میں لوڈشیڈنگ کی کیا صورتحال ہوتی۔
خاندانی منصوبہ بندی، وومن ویلفئر اسکیم، لیڈیز ہیلتھ ورکرز، اور کئی ایسے منصوبے بھٹو دور میں شروع ہوئے جن کی معاشرتی افادیت مسلمہ ہے۔ تپ دق، اسہال اور پولیو کے خلاف ان کے دور میں جو مہمیں شروع کی گئیں ان سے پاکستان میں نومولود اور کم عمر بچوں کی شرح اموات میں کمی ہوئی۔ دیہات میں خواتین کی صحت کا معیار بہتر ہوا۔
کرپشن کے الزامات تو ہیں۔ اور ہوسکتا ہے کرپشن میں ان کا خاندان ملوث بھی ہو۔ تاہم چوہدری صاحبان، شریف برادران، عمران خان تک ان الزامات سے مبرا نہیں۔ اگر کم برائی کا انتخاب کرنا ہے تو میرے خیال میں پیپلز پارٹی کی پوزیشن کافی بہتر ہے۔
جی نعمان، مجھے آپ کی بات سے اتفاق ہے کہ مذکورہ منصوبہ جات بھٹو دور میں شروع ہوئے لیکن ان کا کریڈٹ محترمہ کی بجائے ان کے والد مرحوم کو جاتا ہے۔ خاص طور پر محکمہ بہبود آبادی محترمہ کے نہیں بلکہ ان کے والد مرحوم کے دور میں قائم ہوا۔ لیڈیز ہیلتھ ورکر سکیم بھی اسی محکمہ کا ایک ذیلی ادارہ ہے۔ تپ دق ، اسہال اور پولیو کے خلاف ویکسینیشن پروگرام کا اگر ذکر کریں تو یہ ایک عالمی پروگرام ہے جو اقوام متحدہ کی نگرانی میں پوری دنیا میں چلتا ہے۔ اقوام متحدہ کا ہر ممبر ملک اس کے لئے فنڈ دیتا ہے اور اقوام متحدہ کے ہیلتھ سے متعلقہ ادارے اس کی نگرانی کرتے ہیں۔
نعمان ، آپ ٹھیک کہتے ہو کہ جمہوریت میں فرشتوں کا نہیں انسانوں کا ہی انتخاب ہوتا ہے۔ میں بھی اسی بات کا قائل ہوں کہ مناسب امیدوار کا انتخاب کیا جاتا ہے۔
حضور ، میں نے عمران خان سمیت پنجاب کے کسی بھی سیاستدان کی طرفداری نہیں کی۔ بلا شبہ کرپشن کے الزامات ان پر بھی ہیں۔ کسی زمانے میں مَیں شریف برادران کا بڑا حمایتی ہوا کرتا تھا لیکن جب شریف برادران بھی محترمہ اور الطاف حسین کے نقش قدم پر عمل کرتے ہوئے مُلک سے باہر جا بیٹھے تو میں نے ان کی حمایت سے بھی توبہ کر لی۔ سمجھ سے باہر ہے کہ اگر یہ عوام کے نمائندے ہیں اور عوام کو اپنی طاقت کہتے ہیں تو ملک چھوڑ کر بھاگتے کیوں ہیں؟ اور یہ بات صرف اتفاق ہی نہیں ہے کہ چوہدری برادران نے ہمیشہ حاکم وقت کا ساتھ دیا۔ سمجھنے والے اس میں پنہاں راز کو خوب سمجھتے ہیں۔ میں نے اپنے ذہن میں یہ بات بٹھا لی ہے کہ جو لیڈر بھی حکومت چھن جانے کے بعد ملک چھوڑ کر باہر جا بیٹھے وہ نہ تو اپنی قوم سے مخلص ہے نہ ملک سے۔ اس کو فکر ہوتی ہے تو اپنے اثاثوں اور بزنس کی جن کو بچانے کے لئے وہ جنرلوں سے معاہدے کر کے ان کے لئے من مرضی کرنے کا راستہ کھلا چھوڑ دیتا ہے اگر وہ حقیقی لیڈر ہو تو ملک میں رہ کر مقابلہ کرنے کو ترجیح دے۔ سو اس معیار پر پرکھا جائے تو میرے نزدیک بی بی ، بابو اور پیر صاحب ایک ہی صف میں کھڑے ہیں۔ ہاں البتہ پیر صاحب کا معاملہ تھوڑا سنگین ہے کہ جو لوگوں کے خون سے رنگین ہے۔
بہر حال آپ اپنا مطالعہ جاری رکھئے اور ہم ہمیشہ کی طرح آپ کے متوازن تجزیوں سے مستفید ہوتے رہیں گے۔
[…] میں اپنے بلاگ پر محترمہ کے ایک انٹرویو کے بارے میں لکھ رہا تھا تو مجھے معلوم نہیں تھا کہ دن اتنی جلدی آجائے گا۔ مگر […]