بہادر شاہ ظفر کی تدفین کیلئے منتخب کردہ جگہ آج بھی خالی ہے
1857ء کے غدر کی ناکامی کے بعد انگریزوں نے مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کو ان کی بیگم حضرت زینت محل کے ساتھ رنگون بھیج دیا تھا بہادر شاہ ظفر نے اپنے پیشرو بادشاہوں کی طرح دہلی میں اپنے لیے بھی تدفین کی ایک جگہ منتخب کی تھی مہر ولی میں قطب مینار کے نزدیک ظفر محل میں بادشاہ نے اپنی قبر کی جگہ متعین کی تھی دو قبروں کے درمیان وہ جگہ آج بھی خالی پڑی ہے۔۔۔
گیلپ پاکستان کے سروے کے مطابق پاکستان کے شہروں میں زیادہ تر لوگ مہمانوں کی تواضع شربت سے کرتے ہیں۔ تیس فیصد لوگ سافٹ ڈرنکس پیش کرتے ہیں۔ اندازہ ہے کہ دیہی علاقوں (ایسے علاقے جہاں سوفٹ ڈرنکس فوری دستیاب نہیں ہوتیں) وہاں لوگ مہمانوں کی آمد پر انہیں اسکنجین، لسی، دودھ یا شربت سے کرتے ہیں۔
روزنامہ ایکسپریس کے لاہور ایڈیشن پر ایک آدھ صفحی مضمون، اونٹوں کی جلدی بیماریوں اور ان کے علاج کے بارے میں۔ اسی صفحے پر آپ کو ذرعی پیداوار بڑھانے اور کھارے پانی کو میٹھا بنانے کے بارے میں بھی مضامین نظر آئیں گے۔ روزنامہ ایکسپریس کے کراچی ایڈیشن پر میگزین سیکشن۔ دونوں ایڈیشنوں میں کافی فرق ہے سوائے سٹی صفحات کے جہاں لاہور میں ترقیاتی کاموں کی ایک آدھ تصویر ہے۔ وہیں کراچی ایڈیشن میں بھی اس سے ملتی جلتی ایک تصویر ہے۔ لاہور ایڈیشن میں رچرڈ باؤچر کا بیان مرکزی سرخی ہے اور کراچی میں سندھ حکومت کا بجٹ۔ مجھے لگتا ہے میں اب روزنامہ ایکسپریس سے زیادہ روابط شائع کیا کرونگا۔
پاکستان میں ماحولیاتی آلودگی کے اثرات ظاہر ہونا شروع ہوگئے ہیں۔
ماہرین کے مطابق پاکستان میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے اگلے دو عشرے نہایت اہم ہیں۔ ماحولیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ عالمی موسمیاتی تبدیلیوں کے ااثرات کے باعث ملک میں کہیں بارشیں بہت کم اور کہیں بہت زیادہ ہوں گی، کہیں گرمی کم، کہیں بہت زیادہ ہوگی اور یہ سب مجموعی طور پر زراعت کے لیے نقصاندہ ہوگا۔
نامعلوم آجکل دیہات میں کس چیز سے توضح ہوتی ہے البتہ کسی زمانہ میں سردیوں میں گنے کے رس اور گرمیوں میں کنویں کے ٹھنڈے پانی سے ہوتی تھی ۔
بزرگ کہا کرتے تھے کیا معلوم کہاں کی مٹی قسمت میں ہے ۔ نورجہاں کیلئے جو مقبرہ جہانگیر نے بنوایا تھا اس میں جہانگیر دفن ہوا اور نورجہاں کا مقبرہ کچھ فاصلہ پر چھوٹا سا بنایا گیا ۔ بعد میں کسی نے نورجہاں کے مقبرہ پر لکھوا دیا ۔
بر مزارِ ما غریباں نے چراغے نے گُلے
نے پروانہ پر سوزد نے نغمہ سازد بلبلے
تاج محل کی کہانی بھی کچھ اسی طرح کی ہے ۔