سوتی جاگتی غیرت

عجیب بات یہ ہے کہ جب جب اہل مغرب، جرنیل مشرف سے طالبان اور القاعدہ کے خلاف مزید موثر اقدامات، اور پاکستان میں منصفانہ انتخابات کا مطالبہ کرتے ہیں تب تب لال مسجد کے طلبہ کی حمیت اور غیرت کی رگ پھڑک پھڑک اٹھتی ہے اور وہ اسلام آباد میں مردوں کو فحاشی اور گناہ کی دعوت دینے والی عورتوں کے خلاف کاروائی کر بیٹھتے ہیں۔ عجیب تر بات یہ ہے کہ جنرل صاحب کی حکومت جو کراچی میں قتل عام کے حوالے سے فہم و فراست طاق پر رکھ دیتی ہے وہ لال مسجد کا معاملہ اتنی فہم و فراست سے ڈیل کرنا چاہتی ہے کہ بس۔ ایک شخص ریاست کے آئین، قانون، اس کے شہریوں کی جان و مال کو مسلسل کھلے عام دھمکیاں دے رہا ہے اور حکومت پاکستان اس کو لاک اپ میں بھی نہیں ڈال سکتی؟

اور ساتھ ہی سلمان رشدی، جسے برطانیہ نے اعلی اعزاز سے نوازا اور پاکستانی دنیا بھر میں سراپا احتجاج ہوگئے۔ برطانیہ میں مقیم پاکستانی نژاد برطانوی شہریوں کا احتجاج تو سمجھ میں آتا ہے لیکن باقی پاکستانیوں کا احتجاج ایسا ہے جیسے ان پر ابھی بھی ملکہ کا سکہ چلتا ہو اور بطور ایک برطانوی نوآبادی یہ ان کا حق ہو کہ وہ برطانیہ کے شاہی اعزازات پر اعتراض یا ان کی منسوخی کے مطالبے کریں۔

برطانیہ کی اس سنگین مسلم دشمن حرکت کے ایک ہفتے بعد جماعت اسلامی والے لاؤڈ اسپیکر لے کر ملک بھر میں سڑکوں پر نکل آئے اور للکار للکار کر مسلمانوں کی سوئی ہوئی غیرت کو جگانا شروع کردیا۔ ویسے ان میں سے اکثریت نے سلمان رشدی کی کوئی کتاب تمام زندگی نہیں پڑھی۔ مگر عشق مصطفی میں چہار سو سے سوئے ہوئے مسلمان بیدار ہوکر سڑکوں پر نکل آتے ہیں۔ پتلے، پرچم، املاک نذر آتش کی جاتی ہیں۔ عجب ہاؤ ہو بپا کی جاتی ہے۔ خضاب لگی نورانی داڑھی والے ادھیڑ عمر نوجوان، ایک ہاتھ میں لاؤڈ اسپیکر تھامے دوسرے کا فضائی مکا لہراتے، طیش میں کف اڑاتے برطانیہ اور امریکہ کی اینٹ سے اینٹ بجادینے کی دھمکیاں دینے لگتے ہیں۔

یہ بیداری ایک فضول شب بیداری سے زیادہ کچھ نہیں۔ کیونکہ ایک دنیا جانتی ہے کہ ڈکٹیٹروں کے اقتدار کو طول دینے والے مذہبی ٹھیکیدار جتنی تیزی سے غیرت مسلمانی بیدار کرتے ہیں، اتنی ہی جلدی اسے بھلا اور سلا بھی دیتے ہیں۔ پاکستانی مسلمان کی مثال اس گڑیا کی سی ہے جسے لٹادو تو وہ آنکھیں بند کرلیتی ہے اور کھڑا کرو تو آنکھیں کھول دیتی ہے اور پہلے سے ریکارڈ شدہ پیغام دہرانے لگتی ہے۔ آپ چاہیں تو اس گڑیا میں اپنا ریکارڈ شدہ پیغام بھی چلاسکتے ہیں لیکن گڑیا سے یہ توقع بالکل نہیں کرسکتے کہ وہ کبھی خود سے کچھ کہے گی۔

تبصرے:

  1. تلخ لیکن حقیقت کی آئینہ دار پوسٹ ہے ایک گذارش ہے کہ تنقید کرتے ہوئے ذاتی ساخت کو نشانہ نہ بنایا کریں خاص کر داڑھی کو ۔ ہر داڑھی والے کو مذہب کا نمائندہ سمجھنا اور اس کا الٹ غلط اپروچ ہے ۔ اور مرتبہ داڑھی کا حوالہ دینے سے لوگ داڑھی رکھنے سے کترانے لگے ہیں اس سنت کو ختم کرنے میں نا دانستہ طور پر اپنا حصہ نہ ڈالیں

  2. جیسا کہ آپ نے خود کہا کہ تلخ مگر حقیقت۔ افسوس صد افسوس کے ان ادھیڑ عمر نوجوانوں کا حلیہ بغیر داڑھی کے بیا ن کے مکمل نہیں ہوتا۔ اور کوئی داڑھی رکھے یا نہ رکھے۔ لوگوں کو داڑھی رکھنے کی ترغیب دینا یا ان کی حوصلہ شکنی کرنا میرا کام نہیں۔ میں ایک تماشائی ہوں، مبلغ نہیں۔

  3. آپ مسلمان ہیں تو لوگوں کو اسلام کی طرف بلانا سب سے اہم ذمہ داری ہے۔ محض تماشائی کہنا مناسب نہیں۔آپ کو اس سلسلے میں حوالہ جات بھی مل جائیں گے۔ اگر مذہبی حضرات کی غلطیوں کی نشاندہی کریں تو اسی طرح کریں جس طرح لبرل حضرات کی غلطیوں کی کرتے ہیں اور یہ نہیں کہتے کہ وہ سوٹ پہنے تھے یا پاجامہ ان کا چہرہ داڑہی والا تھا یا نہیں۔ بلکہ ان کے قول اور عمل پر نشانہ رکھتے ہیں۔

  4. نعمان ‘ حکومت اور لال بجھکڑوں کی اس نورا کشتی نے مجھے 90 کی دہائی کے اس دور کی یاد دلا دی کہ جب اسی طرح کے واقعات و حالات اور حکومتی سرپرستی نے طالبان کو جنم دیا تھا۔ اس وقت ان طالبان کا جنم پشاور اور قبائلی علاقہ جات میں ہوا تھا۔ لیکن آج کے حالات اس سے کہیں زیادہ خطرناک ہیں کہ ان طالبان کے خود ساختہ شدت پسندانہ نظریات کو اسلام کا نام دے کر پاکستان کے دارالحکومت میں ان کو عملی طور پر نافذ کرنے کا آغاز ہو چکا ہے۔ اور جنرل صاحب اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئیے ان عناصر کو نہ صرف ڈھیل دے رہے ہیں بلکہ ان کے ساتھ ڈیل بھی کر رہے ہیں۔ یہ منافقت جنرل صاحب کی ذات کے لئیے تو شاید کچھ نافع ہو لیکن اس کا جو نقصان ملک کو ہو گا اس کا ادراک شاید ہم میں سے کسی کو بھی نہیں۔
    بر اعظم افریقہ کے جن ممالک میں تعلیم اور قانون معدوم ہیں وہاں بھی کوئی کسی کے گھر میں اس طریقے سے گھس کر اغواء کی وارداتیں نہیں کرتا کہ جس طریقے سے یہ حضرت اسلام کے نام پر کر رہے ہیں۔
    یہ بات اظہر من ا لشمس ہے کہ مولوی غازی کو پاکستانی عوام کے کسی بھی طبقے کی حمایت حاصل نہیں ہے ۔ حتی کہ علماء دین نے بھی ان کے ایسے افعال سے لا تعلقی ظاہر کرتے ہوئے ان سے کنارہ کشی کر لی ہے۔ تو پھر یہ حضرت کس کی شہ پر یہ ساری وارداتیں بڑے دھڑلے سے کئے جا رہے ہیں؟
    اگر ان صاحب کا ایسے افعال انجام دینے کا مقصد لوگوں کی اصلاح کرنا ہے تو کیا اصلاح صرف تخریب اور تشدد سے ہی ممکن ہے؟
    اسلام کو بدنام کرنے والے یہ نام نہاد مبلغ کیا اس بات کا جواب دیں گے کہ حضور علیہ صلوۃ و السلام اور ان کے رفقاء نے دین کی تبلیغ اور لوگوں کی اصلاح کے لئیے کتنے لوگ اغواء کئیے تھے؟
    کتنوں پر زنا کا الزام لگا کر ان پر ڈنڈے برسائے تھے؟
    کتنے گھروں کے دروازے توڑ کر اسلام ان گھروں میں (زبردستی) داخل کیا تھا؟
    نہ جانے یہ لوگ کس منہ سے خدا کے سامنے پیش ہوں گے۔

  5. احمد کیا یہ ضروری ہے کہ ہم ہر مباحثے میں یہ فرض کرلیں کہ سامنے والا شخص یا تو مسلمان ہے یا نہیں ہے؟ اور پھر اسی لحاظ سے گفتگو کریں۔

    ساجد، اب تو اس میں اسلام آباد بیکن ہاؤس اسکول کے طلباء بھی شامل ہوگئے ہیں۔ کل ایک ٹی وی پروگرام میں ایک ماہر نفسیات گفتگو کرتے ہوئے کہہ رہے تھے۔ کہ لال مسجد والوں کو ملنے والی میڈیا پبلسٹی اور حکومتی شہ سے دیگر گروپوں کو بھی اس بات کی ترغیب مل رہی ہے کہ وہ قانون شکنی کریں۔ اور وہ دن دور نہیں جب یہ قانون شکن عناصر پورے ملک میں کاروائیاں شروع کردیں گے۔

  6. نعمان ‘ میں نے آپ ہی کے بلاگ پر ایک پوسٹ میں لکھا تھا کہ اگر حکومت نے غازی جیسے قانون شکنوں کے خلاف ایکشن نہ لیا تو وہ لوگ جو ابھی تک قانون کی عملداری پر یقین رکھتے ہیں بھی قانون شکنی پر اتر آئیں گے ۔ آپ دیکھ لیجئیے کہ بیکن ہاؤس جیسا تعلیمی ادارہ ان کے ساتھ شامل ہوا ۔ لیکن ہمیں دیکھنا یہ بھی ہو گا کہ وہ کیوں کر ان کے ساتھ شامل ہوئے۔ یہ تو سمجھ میں آتا ہے کہ چینی اور یورپین عالمی سیا ست میں حریف ہیں اور چونکہ یہ حملہ چینیوں پر ہوا تو کہیں ایسا تو نہیں کہ ڈور کہیں اور سے ہلائی گئی ہو۔ کیونکہ ایک چین
    ہی ہے جو پاکستان کے ساتھ ترقیاتی منصوبوں میں تعاون کر رہا ہے ۔ یہ پاکستان اور چین کے تعلقات خراب کرنے کی کوشش بھی ہو سکتی ہے۔ یعنی ایک تیر سے کئی شکار والا معاملہ تو نہیں ہے۔
    مولانا صاحب کا تو حال ایسا ہے کہ “بدنام ہوں گے تو کیا نام نہ ہو گا“۔ سو ان کی ایسی پبلسٹی سے دوسروں پر اثر ہونا قابلِ فہم ہے۔
    پنجابی میں کہتے “جد کُتی چوراں نال رَل جاوے“ تو محترم جب ہماری حکومت ہی چُپ کی چادر اوڑھے ہوئے ان کو چھوٹ دے رہی ہے تو کیا کِیا جا سکتا ہے۔

Comments are closed.