امریکی جریدے نیویارکر پر اس ہفتے پاکستان کے مستقبل کے حوالے سے ایک مضمون ایام جنون شائع ہوا ہے۔ جو اس حوالے سے دلچسپ ہے کہ ملک میں جاری اسلام پسند، جدت پسند، فوج، جمہوری لبرل سول سوسائٹی کے حامیوں کے درمیان جاری اس کشمکش میں سے کونسا پاکستان ابھر کر سامنے آتا ہے۔ اور پاکستان میں جاری یہ کشمکش دنیا بھر کے لئے کس قدر اہم ہے۔
تبصرے:
Comments are closed.
بہتر ھوتا اگر آپ اس آرٹیکل کے اہم نکات ادھر لکھ دینتے۔ چلیں ہم لکھ دیتے ہیں۔
فوجی اقتدار صرف امریکہ کے مفاد کیلیے کام کررہا ہے اسی لیے جنرل مشرف نے تمام اسلامی ذہن کا جنرلوں کا صفایا کردیا ہوا ہے۔
ملک پر امیروں کا قبضہ ہے اور ابھی تک غریبوں کیلیے کچھ نہیںکیا گیا۔ ھائی ویز اور ائرپورٹس صرف امیروں کے کام آئیںگے غریبوں کو کوئی فائدہ نہیںہوگا۔ غریبوں کو جب انصاف نہیںملے گاتو وہ فوجی اور عام سیاستدانوں سے مایوس ہو کر اسلامی جماعتوں کی طرف دیکھیں گے۔
جنرل مشرف کی حکومت سیاست کیساتھ مذاق ہے اور ملک کیلیے جمھوریت ہی بہتر حل ہے۔ لیکن مشرف کے جانے کے بعد مذہبی جمہوریت کے آنے کا زیادہ خطرہ ہے اسی لیے مشرف کا نیم جمہوری نظام مغرب کا پسندیدہ ہے۔
یہ آرٹیکل زیادہ تر عاصمہ جہانگیر کی شخصیت کا احاطہ کرتا ہے اور ان کی سول رائٹس کی کوششوں کو سراہتا ہے۔
اس آرٹیکل میں ملک کا سب سے بڑا مسئلہ جاگرداروں کا ملک پر کنٹرول اور مڈل کلاس کا سیاست میں کسی کردار نہ ہونا ہے۔
"اسلام پسند، جدت پسند، فوج، جمہوری لبرل سول سوسائٹی کے حامیوں کے درمیان جاری اس کشمکش”؟؟؟
میرے علم میں تو ایسی کوئی کشمکش نہیں ہے۔ میرے خیال میں تو جاری کشمکش کے صرف دو فریق ہیں:
1۔ فوج
2۔ عوام
تقریبًا تمام ہی حالات کا احاطہ کیا گیا ہے اور یہ انکا اپنا نقطہ نظر ہے ہم مانیں یا نہیں اس سے فرق نہیں پڑتا۔ یہ بات بھی اب لطیفہ ہی ہوگئی ہے کہ پاکستان اپنی تاریخ کے نازک دور سے گزر رہا ہے۔ “ یہ نازک دور گزشتہ ساتھ سالوں سے ہی چل رہاہے“
اور جہاں تک انقلابِ ایران سے پہلے کے حالات سے تشبیہ دی گئی ہے اسمیں پاکستان کے موجودہ حالات کئی طرح سے لگا نہیں کھاتے۔
ہاں جیسے حالات عراق میں پیدا کردیے گئے ہیں ویسے ضرور پیدا کرنے کی کوشش ہورہی ہے اور یہاں بھی کسی فوجی کاروائی سے پہلے۔ انارکی کی وہی فضاء پیدا کرنے کی کوشش ہے کہ ہم سب تنگ آکر باہر والوں کو خوش آمدید کہنے کے لیے تیار ہوجائیں۔
آصف میں آپ کی بات سے متفق ہوں۔ عجب بات یہ ہے کہ فوجی قیادت کے لبرل ازم اور روشن خیالی کے تمام تر دعووں کے باوجود عوام، چاہے وہ اسلام پسند ہوں، یا سو کالڈ روشن خیال، سیکولر ہوں یا جمہوریت و انسانی حقوق کے چیمپئن، سب ہی فوج سے نالاں ہیں۔
نعمان ، اس مضمون کو پاکستان کی مختصر تاریخ بعد از 1958 کا نام دیا جاتا تو مناسب تھا۔ اس میں بیان کئیے گئے حقائق تلخ بھی ہیں اور ہمارے لئیے مستقبل کا راستہ چننے میں ماضی کی غلطیوں سے بچنے کا سبق بھی دیتے ہیں۔
اس مضمون میں تحریر کردہ کسی ایک معاملے پر بھی تحقیق کی جائے تو نتیجہ یہی نکلے گا کہ یہ مظلوم پاکستانی قوم سب سے زیادہ اپنوں کے ہاتھوں ہی لُٹی ہے۔ ایک اہم سوال جو ابھر کر سامنے آتا ہے کہ ہم خود کو درپیش مسائل کا جائزہ لینے میں بھی اس قدر ناکام کیوں ہو گئے ہیں؟ اپنے ہر مسئلے کو دوسروں کی ہمارے خلاف کی گئی سازش کا نام دے کر پلہ کیوں جھاڑ لیتے ہیں؟ ایوب خاں کا بنیادی جمہوریت کا نظام ہو یا بھٹو کا سوشل ازم ، ضیاء اور اس کے حامیوں کا دیا ہوا نعرہ نظام مصطفی (علیہ صلوۃ و السلام ) ہو یا بے نظیر کی سرمایہ دارانہ پالیسیاں ان میں سے کوئی بھی اس ملک اور قوم کے مسائل حل کرنے میں کیوں ناکام رہا؟ ہم دیکھتے ہیں کہ ہر ایک نے ایک نیا نعرہ دیا اور لوگوں کو مزید گروہوں میں تقسیم کیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ مرکز گریزی کے رجحان میں اضافہ ہوتا گیا۔ اب اپنے جنرل صاحب ہی کو دیکھئیے کہ احتساب کا نعرہ لگا کر آئے تھے لیکن ہوا کیا؟ ایک سال کے اندر وردی اتارنے کا وعدہ کر کے لن ترانیوں پر اتر آئے۔ ہمارے لیڈران کی یہی “ہوشیاریاں“ اس قوم میں مزید مایوسی کا سبب بن رہی ہیں اور ہمارے نوجوانوں کے اندر ریاست مخالف جذبات کو ہوا دے رہی ہیں۔ سیاسی عمل کا تسلسل برقرار نہ رہنے سے جہاں دوسرے ممالک کاروبار اور ٹیکنالوجی کی منتقلی سے ہچکچاتے ہیں وہیں بے روزگاری ، جہالت ، جدید علوم کی عدم موجودگی اور ناجائز ذرائع سے دولت اکٹھا کرنے کے رجحان کو تقویت ملتی ہے۔ اور پھر یہ سارے عوامل مل کر ایسی تکلیف دہ صورت حال کو جنم دیتے ہیں کہ جس کا سامنا آج ہمارا پاکستان کر رہا ہے۔
میرے خیال میں اس وقت پاکستان کو دو چیزوں کی شدت سے ضرورت ہے۔
اول: اپنے زیادہ سے زیادہ وسائل کو بہت ایمانداری سے عمومی ، فنی اور سائنسی تعلیم کے لیئے استعمال کرنا اور اس سے بہترین نتائج حاصل کرنے کے لئے اہل لوگوں کو مامور کیا جائے۔
دوئم: جتنی بھی جلدی ہو سکے سیاسی عمل کو بحال کیا جائے۔ اور بیرون ممالک موجود سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کو پاکستان آ نے کی اجازت دی جائے۔
ساجد میں بالکل آپ کے اس تجزئے سے متفق ہوں کہ تعلیم اور جمہوریت ہی پاکستان کے بہتر مستقبل کی ضمانت ہیں۔