کراچی میں عدالتی حکم پر دہلی گورنمنٹ اسکولز کی عمارات سیل کردی گئی ہیں۔ اسکول کے سینکڑوں طلباء اور اساتذہ نے کل احتجاج کے دوران سیل توڑ دی۔ طلباء اور اساتذہ کا مطالبہ ہے کہ یا تو انہیں جلد از جلد متبادل جگہ فراہم کی جائے یا پھر مسئلے کے حل تک درس و تدریس کی اجازت دی جائے۔ طلباء اور اساتذہ نے احتجاجا سڑک پر درس و تدریس کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ ٹاؤن ناظمین جب انہیں وہاں سے منتشر کرنے پہنچے تو طلباء اور اساتذہ اشتعال میں آگئے۔ جس کے بعد انہوں نے اسکول کی عمارتوں کی سیل توڑ دی اور بہت مشکل سے انہیں اسکول سے نکالا گیا۔ اسکول کی پرنسپل صاحبہ نے اعلان کیا ہے کہ جب تک اسکول کا مسئلہ حل نہیں ہوتا اساتذہ اور طلباء روز اسکول کے سامنے احتجاج کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔ اس موقع پر رقت آمیز مناظر دیکھنے میں آئے، صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کئی طالبعلم رو پڑے۔ ان کا اسکول بند ہوگیا اور انہیں سمجھ نہیں آرہا کہ وہ اب کہاں جائیں گے۔ اساتذہ اور پرنسپل پریشان ہیں کہ وہ اب کہاں جائیں بچوں کو کیا جواب دیں۔
دہلی گورنمنٹ اسکول میں چار ہزار پانچ سو کے قریب طلباء و طالبات زیر تعلیم ہیں۔ طالبعلموں، ان کے والدین، اور اساتذہ میں شدید اشتعال پایا جاتا ہے۔ گورنمنٹ دہلی اسکول فیڈرل بی ایریا کے علاقے میں واقع ایک سرکاری اسکول ہے۔ روایتی سرکاری اسکولوں کے برخلاف یہاں تعلیم کا معیار بہت اچھا تھا اور ثانوی امتحانات میں ان کے طلباء اور طالبات شہر کے نامور پرائیویٹ اسکولوں سے زیادہ نمبر لیتے رہے ہیں۔ ایک ایسا سرکاری اسکول جو اتنا اچھا پرفارم کررہا ہو، جہاں طالبعلموں کی ایک بڑی تعداد زیر تعلیم ہو اور جو علاقے کی ایک اہم ضرورت ہو ایسے اسکول کے ساتھ حکومت سندھ کا رویہ انتہائی ناروا رہا ہے۔ عدالت عالیہ نے حکومت سندھ کو اسکول کی منتقلی کے احکامات کافی پہلے سے دے رکھے تھے جن پر نہ تو عملدرآمد ہوا نہ ہی حکومت سندھ نے اصل مالکان سے کوئی بامعنی مذاکرات کرنے کی کوشش کی۔ یہاں تک کہ جب عدالت نے سیل کرنے کا حکم دے دیا تب بھی اسکول کی پرنسپل کو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ کل وہ بچے لے کر کہاں جائیں گی۔ اب جب وہ بچے سڑک پر آگئے ہیں تب بھی حکومت سندھ کی طرف سے نہ کوئی شنوائی ہے نہ دادرسی۔
گورنمنٹ دہلی اسکول کے علاوہ شہر کے اور کئی سرکاری اسکول عدالتوں میں اس سے ملتے جلتے کیسز ہار چکے ہیں۔ محکمہ تعلیم کا کیس عدالت عالیہ میں اتنا کمزور پڑچکا ہے کہ اب قومیائے گئے تمام اسکولوں کے کیسز کا فیصلہ پہلے فیصلوں کی بنیاد پر ہی ہورہا ہے۔ حکومت سندھ کے وکلاء عدالتوں میں وقت پر حاضر بھی نہیں ہوتے اس لئے کیس کی شنوائی مکمل طور پر یکطرفہ رہی اور حکومت سندھ کی انتہائی نااہلی کے سبب سینکڑوں اساتذہ کی نوکریاں اور ہزاروں طالبعلموں کا مستقبل خطرے میں پڑگیا ہے۔
وزیر تعلیم حمیدہ کھوڑو صاحبہ اختیارات کی جنگ میں ایسی مصروف ہیں کہ صوبے میں تعلیم کی زبوں حالی تباہی کی تمام حدیں پھلانگ گئی ہے۔ محترمہ ایک عرصے سے نہ اپنے دفتر میں بیٹھتی ہیں اور نہ ہی وزارت کا کوئی کام کرتی ہیں۔ میٹرک کے امتحانات کا مسئلہ ہو، کالجوں میں داخلوں کا مسئلہ ہو، یا قومیائے گئے سرکاری تعلیمی اداروں کی واپسی کا۔ ہر مسئلے کا حل وزارت تعلیم کے بجائے گورنر سندھ کو کرنا پڑتا ہے۔ اگر محترمہ صوبائی بیوروکریسی اور پالیسیز سے اختلاف رکھتی ہیں تو انہیں وزارت چھوڑ دینی چاہئے نہ کہ یہ مفت میں تنخواہ اور مراعات بٹورتی رہیں۔ ان کا ایر کنڈیشنڈ دفتر جو انہوں نے عرصے سے استعمال بھی نہیں کیا پھر بھی اسے چھوڑنے کو تیار نہیں جبکہ گورنمنٹ دہلی اسکول کے بچے سڑکوں پر کڑی دھوپ میں کھڑے ہیں۔ افسوس کا مقام ہے کہ قوم کے بچوں کو تعلیم حاصل کرنے کے لئے احتجاج کرنا پڑرہا ہے۔ اور اس سے بھی زیادہ افسوس کی بات معاشرے کی بے حسی ہے۔
حکومت کی پریشانی سمجھ میں آتی ہے ۔ عام لوگوں کے بچے پڑھ گئے تو وڈیروں کیلئے مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں ۔ آپ کے وزیرِ اعلٰی نہ تو ڎریفک سارجنٹ ہیں اور نہ سکول ماسٹر وہ تو حاکم ہیں حاکم
آج جاوید چوھدری کا کالم پڑہنے والا جس میںانہوں تعلیم کے محکموں کا رونا رویا ھے۔ یھ سچ ھے کھ اب تک کوئی بہی حکومت تعلیم پر سنجدگی سے توجھ نھیںدے پائی۔
اجمل آپ نے درست فرمایا ہمارے وزیر اعلی بذات خود دیہی وڈیرہ کلچر کے نمائندہ ہیں۔ انہیں تعلیم سے کوئی دلچسپی نہیں۔ افضل یہ سنجیدگی تو درکنار صوبہ سندھ میں تو محکمہ تعلیم تقریبا غیر فعال ہی ہوتا جارہا ہے۔