بچوں کا احتجاج جاری

government delhi school karachi students protest

صوبائی محکمہ تعلیم کی بے حسی اور غیرفعالیت کی خبروں سے آج کا اخبار بھرا پڑا ہے۔ جہاں ایک طرف سرکاری ادارے تاحال مفت درسی کتب کی ترسیل سے محروم ہیں وہیں دوسری طرف دہلی گورنمنٹ اسکول کے طلباء اور اساتذہ کا احتجاج کل بھی جاری رہا۔ کل کے احتجاج میں محکمہ تعلیم کے افسران بھی شریک تھے اور اپنے ہی محکمے کی غیرفعالیت پر سراپا احتجاج نظر آئے۔ احتجاجی طلباء نے کہا کہ ان کا مستقبل داؤ پر لگادیا گیا ہے مگر حکام کو بھی کوئی پرواہ نہیں گزشتہ4 روز سے سڑک پر ہیں کلاسیں نہیں ہورہی ہیں مگر کوئی ان کی مدد کو نہیں آرہا ہے۔ مظاہرے میں شریک میٹرک پاس کرنے والے طلباء نے کہا کہ اسکول کو تالا لگنے کی وجہ سے ان کی مارکس شیٹ اندر بند ہیں اور وہ روزانہ مارکس شیٹ کے حصول کیلئے چکر لگارہے ہیں جبکہ کالجوں میں داخلے کی آخری تاریخ ختم ہونے میں صرف5 روز باقی رہ گئے ہیں۔ اسکول کے اساتذہ پیر سے کلاسیں ٹینٹ لگا کر چلائیں گے اور کرسیوں کی جگہ دریاں بچھائی جائیں گی۔ اساتذہ نے طلباء کو باقاعدگی سے اسکول آنے کی ہدایت جاری کی ہے۔ پروفیسرز اور لیکچرارز کی تنظیم سپلا نے بھی صوبائی محکمہ تعلیم پر شدید تنقید کی ہے۔ ادھر دہلی اسکول کی نئی نجی انتظامیہ نے نئے پرنسپل کی تقرری کردی ہے اور اسکولز میں داخلوں کے لئے بینر آویزاں کردئیے ہیں۔ اب نئے اسکول میں داخلے کے لئے طلباء کو خطیر رقم داخلہ فیس اور ماہانہ فیس بھی ادا کرنا ہوگی اور ظاہر ہے نجی پبلشنگ اداروں کی شائع کردہ مہنگی درسی کتب بھی خریدنا ہوں گی۔ نئی انتظامیہ کے ترجمان پروفیسر رضی الرحمن نے کہا ہے کہ صوبائی محکمہ تعلیم کو ہر بات کا پہلے سے علم تھا تاہم محکمے نے طلبہ و طالبات کے لئے کوئی پیشگی انتظام نہیں کیا۔

تبصرے:

  1. اس تغافل میں‌سندھ گورنمنٹ پوری کی پوری شامل ہے جس میں‌گورنر بھی ہے۔ دوسرے سٹی گورنمنٹ بھی ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی ہے۔ ہم تو یہ سمجھتے ہیں‌کہ اگر جنرل مشرف نے اپنی مرضی کا کام کرنا ہو تو اسی وقت آرڈیننس جاری کردیتے ہیں لیکن جہاں عوامی مفاد ہو وہاں تماشا دیکھتے رہتے ہیں‌اور پھر بعد میں‌الزام سپریم کورٹ پر دیتے ہیں‌کہ وہ ہر معاملے میں‌ٹانگ اڑا رہی ہے۔ یہ حکومت کی بدنیتی ہے چاہے وہ سٹی کی ہو، صوبائی یا وفاقی ہو۔

  2. افضل یہ صرف موجودہ صوبائی حکومت کے محکمہ تعلیم اور بالخصوص وزیر تعلیم کی غفلت ہے جو اختیارات کی جنگ میں ایک عرصہ دراز سے محکمے کو غیر فعال بنائے بیٹھی ہیں۔ محکمے کے دفاتر میں تالے پڑے ہیں اور محترمہ عرصے سے دفتر نہیں پہنچیں۔ ان اسکولوں کے مقدمات لڑنا ان کے محکمے کا کام ہے یہ گورنر کا کام نہیں ہے۔ لیکن ہم ایک عرصے سے دیکھ رہے ہیں کہ محکمہ تعلیم کے تمام مسائل کے حل کے لئے عوام کو براہ راست گورنر سے مداخلت کی اپیل کرنا پڑتی ہے۔ اور ہر مسئلے کا حل بالآخر ان کی مداخلت ہی ہوتا ہے۔ نویں دسویں کے مشترکہ امتحانات کا معاملہ تو ابھی تازہ ہی ہے۔ اس کے علاوہ اساتذہ کی تنظیموں کا احتجاج، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے فنڈز اور گرانٹس، درسی کتب کی اشاعت و تقسیم ہر کام اگر گورنر ہی کو دیکھنا ہے تو محکمہ تعلیم کی کیا ضرورت ہے۔

    چونکہ آپ صوبہ سندھ میں نہیں رہتے اسلئے آپ کو گورنر سندھ کی کارکردگی، افہام و تفہیم، زیرکی اور معاملات سلجھانے کی لیاقت کا صحیح اندازہ نہیں۔ متحدہ قومی موومنٹ صوبائی حکومت میں کولیشن کا حصہ ہے اور سیاسی مصلحتوں کے تحت وہ ان کی وزارتوں میں مداخلت نہیں کرسکتے۔ لیکن چونکہ سٹی گورنمنٹ اس کولیشن کا حصہ نہیں اسلئے ساری ہنگامہ آرائی سٹی کونسل کے پیر کے روز منعقد ہونے والے اجلاس میں ہوگی۔ کیونکہ جس علاقے میں یہ اسکول ہے وہاں ایم کیو ایم کا اسٹرانگ ووٹ بینک ہے اور پانچ ہزار طالبعلموں کے پیچھے کتنے ووٹر ہونگے آپ اس کا اندازہ لگائیں۔

Comments are closed.