برسات کے دن

ابھی کچھ زیادہ عرصے پہلے کی بات نہیں، ایک وقت تھا کہ کراچی میں لوگ بارش کو ترسا کرتے تھے۔ ذرا سی پھوار پڑتے ہی لوگ خوشی سے جھوم اٹھتے تھے۔ ہمارے گھر میں آلو بھرے پراٹھے اور پکوڑے بنائے جاتے تھے۔ لوگ اپنے گھروں میں اونچی آواز پر برسات کے نغمے چلادیتے۔ ملکہ ترنم کی آواز گونجتی

کچھ دیر تو رک جاؤ
برسات کے بہانے

اور مہدی حسن خان صاحب کی فریاد گونجتی

اے ابر کرم
آج اتنا برس،
اتنا برس کے وہ جا نہ سکیں

ذرا اور نئی نسل علی حیدر کو سنتی

بارش کا ہے موسم
چلے ٹھنڈی ہوا
کونے پر گلی کے
کوئی ہے کھڑا

ہمارے محلے میں لوگ اپنے فلیٹوں سے نکل کر سڑکوں پر اور خواتین بلڈنگوں کی چھتوں پر بارش سے لطف اندوز ہوا کرتی تھیں۔ فضا میں محبتیں بکھر جاتی تھیں۔ لوگ خواہ مخواہ رومانٹک ہوجاتے تھے۔ کہیں نئے معاشقے شروع ہوتے تو کہیں پرانے گلے شکوے دور ہوجاتے۔ بچے گندے پانی میں چھپاچھپ کرتے پھرتے تھے۔

اللہ میاں بارش دے
سو برس کی نانی دے

مگر اب وہ دن خواب ہوئے۔ اب تو یہ عالم ہے کہ ادھر ذرا سی گھٹا چلی ادھر سارا شہر خوفزدہ ہوجاتا ہے۔ ٹریفک جام، لوڈ شیڈنگ، سیوریج کے عذاب عظیم کے اندیشے انہیں بری طرح گھیر لیتے ہیں۔ اب کے برس آسمان بھی خوب جی بھر کے برسا ہے۔ گلیاں ندی نالے بن گئی ہیں اور لوگ برسات کے گیت بھول گئے ہیں۔ محبتوں کے دن مصیبتوں کے دن بن گئے ہیں۔ خوشیاں خوفزدہ ہوگئی ہیں اور بچے بھی گندے پانی کی فراوانی سے سہم گئے ہیں۔

تبصرے:

  1. ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ برسات کے موسم کے بعد حکومتیں پھر اپنے کاموں میں‌مشغول ہوجائیں گی اور عوام دال روٹی کے چکر میں‌پڑجائیں‌گے۔ نہ کوئی اگلے مون سون کے موسم کی تیاری کرے گا اور نہ کسی کو بارش کی مصیبتیں‌یاد رہیں گی حتی کہ اگلا موسم برستا پھر اسی طرح کی بتاہی لے کر غریبوں پر ٹوٹ پڑے گا۔

  2. میں جولائی 1965ء میں کراچی ورک سٹڈی کورس پر تھا ۔ رہائش پی ای سی ایچ ایس کے کے بلاک میں تھی ۔ رات بارش ہوئی ۔ صبح کلفٹن جانے کیلئے باہر نکلا ۔ بائیں دیکھا پانی ۔ داہنے دیکھا پانی ۔ داہنی طرف کچی زمین پر پانی تھا اور بائیں طرف پکی سڑک تھی ۔ میں سوچ میں تھا کہ ایک عیسائی عورت نے بائیں طرف جاتے ہوئے جوتیاں اور لمبی جرابیں اُتاریں اور سکرٹ اُونچا کر کے پانی میں داخل ہو گئی ۔ پانی اسکے گھٹنوں کے اُوپر تک تھا ۔ میں نے بھی بوٹ جرابیں اُتاریں اور پتلون گھٹنوں کے اُوپر کر کے گذر گیا اور آگے جا کر نل پر ٹانگیں دھو کر جرابیں بوٹ پہن لئے ۔ پانی میرے گھٹنوں تک تھا ۔ بعد میں البتہ ٹیکسی والے نے دُگنی اُجرت لی ۔

    آپ کب کی بات کررہے ہیں جب بارش کیلئے دعا مانگا کرتے تھے ؟
    خیر اب تو حالات کئی گنا خراب ہیں ۔

  3. اسی اور نوے کی پوری دہائی کے دوران کراچی میں بارشوں کا اوسط انتہائی کم تھا۔ پچھلے چند سالوں سے اس اوسط میں کئی گنا اضافہ ہوگیا ہے جس کا سبب گلوبل وارمنگ ہے۔

Comments are closed.