میری بھانجی فرزین ابھی آٹھ ماہ کی ہے۔ اور ہم سب گھر والے اسے دیکھ دیکھ کر بہت حیران بھی ہوتے ہیں اور خوش بھی۔ جیسے جب وہ گھٹنوں کے بل چلنے کی کوشش کررہی تھی۔ وہ بار بار کوشش کرتی، کئی بار گرتی، کبھی ناک پھوڑتی تو کبھی سر۔ مگر ہر تکلیف سے بے پرواہ آگے بڑھنے کی جستجو کم نہ ہوتی۔ اور بالآخر وہ گھٹنوں چلنے میں کامیاب ہوگئی۔ اب وہ یہ چاہتی ہے کہ بس ہر وقت چلتی رہے۔ پہلے جو سب چیزیں اس کی دسترس سے دور ہوتی تھیں وہ ان سب کو چھو لینا چاہتی ہے۔ کوئی بھی نئی چیز دکھائی دے تو لپک کر اسے پکڑنے کی کوشش کرتی ہے۔ پیپسی اس کا سب سے پسندیدہ مشروب ہے۔ اس کے سامنے پیپسی کی بوتل لاکر رکھ دیں اور پھر اس کی بے تابی اور اشتیاق کا نظارہ کریں۔ اتوار کے روز ایسے ہی ایک پیپسی کی بوتل تک پہنچنے کے چکر میں وہ میری گود سے پھسل گئی اور اس کا ہاتھ اسی کے جسم تلے دب گیا۔ ایک دم سے کرچ کر کے ہڈی چٹخنے کی آواز آئی۔ ہم سب بہت ڈر گئے مگر فرزین پانچ منٹ ہی میں اپنا درد بھول کر سوگئی۔ رات گئے جب وہ سوکر اٹھی تو رونا شروع کردیا۔ کوئی اس کے ہاتھ کو ذرا سا چھوتا تو رونا شروع کردیتی۔ ہم اسے فورا ڈاکٹر کے پاس لے گئے۔ ایکسرے کرایا تو ڈاکٹر نے بتایا کہ تشویش کی کوئی بات نہیں چھوٹے بچوں کی ہڈیاں بہت نرم ہوتی ہیں اور آسانی سے نہیں ٹوٹتیں۔
اب وہ ماشاءاللہ اپنے گھر میں ہے اور اس کی امی نے بتایا خوب چل پھر رہی ہے۔ بلکہ اگلے ہی دن اس کا ہاتھ ٹھیک ہوگیا تھا۔ بچے کتنے بہادر ہوتے ہیں۔ اگر ایسا کسی بڑے کے ساتھ ہوا ہوتا تو وہ ہفتے بھر تک تو اپنی چوٹ سہلاتا اور کئی دن تک اس ہاتھ کے استعمال میں محتاط رہتا۔
مجھے لگتا ہے کہ ہم جیسے جیسے بڑے ہوتے جاتے ہیں ویسے ویسے ڈرپوک ہوجاتے ہیں، کم ہمت ہوجاتے ہیں اور جلد حوصلہ ہارنے لگتے ہیں۔ اسی لئیے بڑا ہونے پر ہماری نئی چیزیں سیکھنے کی صلاحیت زنگ آلود ہوجاتی ہے۔ چھوٹے بچے اتنی ساری چیزیں اتنی جلدی شاید اس لئے سیکھ لیتے ہیں کہ وہ بہادر ہوتے ہیں، تجربہ کرنے سے نہیں ڈرتے اور مستقل جدوجہد کرتے رہتے ہیں۔
ہمیںیاد ہے جب ہماری بیٹی نے ہوش سنبھالا تو ایک دن اس نے جلتی موم بتی کو ٹچ کرنے کی ضد پکڑ بہت سمجھایا مگر نہ مانی۔ جب اس نے موم بتی کے شعلے کو پکڑنے کی کوشش کی تو اسے آگ کی تپش محسوس ہوئی اور پھر رونا شروع کردیا۔ اس کے بعد اس نے دوبارہ آگ کو ٹچ کرنے کی ضد نہیںکی۔
میری نو ماہ کی بھانجی امراء بھی کچھ ایسی ہی ہے –