مشرف کا پاکستان

بی بی سی اردو پر عامر احمد خان لکھتے ہیں:

"یہ تو وہی پاکستان ہے جسے میں جانتا ہوں، پہچانتا ہوں، اپنے ہاتھوں کی لکیروں کی طرح۔ یہ وہی فوج ہے جو میری زندگی کی غلام گردش کی محافظ ہے اور اگر وہ چوک بھی جائے تو اسے راہ راست پر لانے کے لیے عدالت ہے نا۔”

قاضی صاحب، عمران خان اور ن لیگ کے علاوہ تمام قانونی، آئینی، اور سیاسی ماہرین کو علم تھا کہ کیا فیصلہ آنے والا ہے۔ اور شاید قاضی صاحب کو بھی کیونکہ ان کی ایم ایم اے نے ہی تو صدر کو دو عہدے رکھنے کی پارلیمانی منظوری دلوائی تھی۔ فیصلہ منصفانہ ہے۔ ڈکٹیٹروں کے راستے آئین یا عدلیہ نہیں روک سکتی۔ ان کے راستے پارلیمان، سیاستدان اور عوام ہی روک سکتے ہیں۔ پارلیمنٹ صدر جنرل کے قبضے میں ہے، سیاستدان ان کی مٹھی میں ہیں اورعوام بھیڑ بکریوں کی طرح جس طرف کوئی ہانک دے وہیں چل دیتی ہے۔

تبصرے:

  1. کہتے ہیں لوہے کا ہتھوڑا تب تک لکڑی کو نہیں کاٹ سکتا جب تک لکڑی خود دستہ بن کر ہتھوڑے کا حصہ نہیں‌بن جاتا۔ اسی طرح فوج کے حامی کہتے ہیں کہ فوج کو ہمیشہ سیاستدان ہی دعوت دیتے ہیں۔ لیکن دوسری طرف سیاستدان ہی فوج کو سپورٹ کرتے ہیں۔ اگر سیاستدان فوج کا ساتھ نہ دیتے تو فوج کبھی بھی اتنی دیر اقتدار میں‌نہ رہتی۔

  2. آپکا کہنا درست ہے نعمان۔ کسی کو زرا بھی سمجھ بوجھ ہو تو یہ فیصلہ پہلے سے جان لیتا۔ عدالت بغیر کسی ٹھوس دلیل کے کس طرح شرفو کی مخالفت میں فیصلہ دیتی؟ اپوزیشن کے وکلاء نے کوئی ایک متاثر کن دلیل پیش نہیں کی کیونکہ محبان وطن پہلے ہی سترھویں ترمیم کے زریعے وہ سودے کر چکے ہیں جس کے بعد چراغوں میں کوئی روشنی نہیں باقی۔
    عدلیہ نے ایک منصفانہ فیصلہ دیا ہے۔ سیاسی تنظیموں میں دم خم ہو تو کچھ کر کے دکھائیں، عدالتوں کو ملامت کرکے کچھ نہیں ملے گا۔

Comments are closed.