پاکستان میں ایمرجنسی، پی سی او اور ججوں کی معطلی کے بعد الیکشن میں حصہ لینا کچھ لوگوں کو بے معنی نظر آتا ہے۔ شاید وہ کسی حد تک صحیح بھی ہیں۔ لیکن سیاسی جماعتوں کے پاس دو راستے ہیں:
اول تو یہ کہ وہ الیکشن کا بائیکاٹ کردیں۔ ایسا ہو تو مشرف کے پاس دو راستے ہونگے۔ ایک تو یہ کہ الیکشن کا انعقاد غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کردیا جائے۔ دوسرا یہ کہ الیکشن کرائے جائیں اور ایک ربڑ اسٹیمپ اسمبلی تخلیق کرواکر آئین کے ساتھ مزید چھیڑ چھاڑ کی جائے۔ دونوں صورتوں میں اپوزیشن کے احتجاجوں سے ملکی عدم استحکام میں اضافہ ہوتا رہے گا، شمالی علاقہ جات میں کشیدگی برقرار رہے گی، دہشت گردی اور انتہاپسندی کے شعلوں کو ہوا ملتی رہے گی۔
دوسرا راستہ ہے کہ الیکشن میں بھرپور حصہ لیا جائے۔ الائنسز بنائے جائیں، لوٹا لیگ اور ملا الائنس میں دراڑ ڈالی جائے۔ پارلیمنٹ تک پہنچا جائے اور آئین کی بحالی اور ججز کی واپسی کو ممکن بنایا جائے۔
ایسی صورتحال میں کہ جب ایمرجنسی نافذ ہو، الیکشن کمیشن کی غیر جانبداری مشکوک ہو، بلدیاتی حکومتوں کی شکل میں پچھلی حکومت کی مشینری فعال ہو، تو یہ کس طرح ممکن ہے کہ انتخابات شفاف ہونگے۔ انتخابات چاہے غیر شفاف و غیرمنصفانہ ہوں لیکن آپ نتائج پر تب تک معترض نہیں ہوسکتے جب تک آپ انتخابات میں حصہ نہ لیں۔ میرے خیال میں اپوزیشن جماعتیں اگر انتخابات میں شکست کھا بھی جاتی ہیں تب بھی ان کو انتخابات سے بہت زیادہ طاقت حاصل ہوگی اور ملک میں جمہوری اداروں کے درمیان توازن کی کوئی صورت بنی رہے گی۔ ورنہ کھلی آمریت اور من مانی کے لئے راستہ صاف رہے گا۔
پاکستان کی عوام کا یہ فرض ہے اور ان کے پاس یہ موقع ہے کہ وہ انتخابات میں بھرپور حصہ لیں زیادہ سے زیادہ لوگ اپنے حق رائے دہی کا استعمال کریں۔ میرے خیال میں یہی صحیح راستہ ہے۔ باقی سب راستے انتشار، افراتفری، آمریت اور عدم استحکام کی طرف جاتے ہیں جن سے ملکی اداروں، جمہوریت، انصاف اور بحالی آئین کی مہم کو کوئی فائدہ نہ ہوگا۔
اپڈیٹ: اسی موضوع پر جہانزیب کی پوسٹ "ووٹ دیجئے”
ٹیتھ مائیسٹرو پر علی ملک کی تحریر: بائیکاٹ ایک آپشن کیوں نہیں؟
ہم بھی آپ کی سوچ سے متفق ہیں اور کئی روز سے شور مچا رہے ہیں کہ انتخابات کا بائیکاٹ اسی صورت میںکریں اگر آپ بزور بازو تبدیلی لا سکتے ہیں وگرنہ انتخابات میںحصہ لیں اور تبدیلی لانے کی اتنی کوشش کرتے رہیںجتنی کرسکتے ہیں۔
میرا ذاتی خیال ہے کہ انتخابات میں حصہ لینے سے ربڑ سٹیمپ اسمبلی کا حصہ تو بنا جا سکتا ہے لیکن مذکورہ بحران کو حل نہیں کیا جا سکتا۔ 52بی صدر کے پاس کسی نے ربڑ سٹیمپ اسمبلی میں جانے کے بعد تھوڑی اکڑ دکھائی تو اگلے دن کوئی اور ایمرجنسی نافذ ہو جائیگی۔ اور اگر 52بی کو کسی طرح اسمبلی نے رول بیک کروا دیا تو شریف الدین پیرزادہ زندہ باد۔
جاوید چودھری کا کالم
)تبصرہ بغرض کلیریٹی ایڈٹ کیا گیا ہے۔(
جاوید چوہدری کا تجزیہ واقعی درست ہے
میں بھی جاوید چودہری کے تجزیے سے اتفاق کرتا ہوں اور اگر الیکشن میں حصہ لینا ہی ٹہرا تو کم از کم عدلیہ کی آزادی کے ایک نقطہ پر ضرور بہ ضرور اتفاق کیا جانا چاہیے جبکہ بی بی اور مولانا صاحب اس چیز پر راضی نہیں نظر آتے ۔۔
مجھے حیرت ہے کہ جاوید چودھری اپنے کالم میں مسلم لیگ ن کو سراسر نظر انداز کردیتے ہیں۔ مسلم لیگ ن انتخابی عمل میں شریک ہے اور بائیکاٹ نہ کرنے کی صورت میں نواز گروپ کو پنجاب میں بہت نہ سہی تھوڑی نشستیں تو مل ہی جائیں گی۔ تب سیناریو جاوید چودھری کے تجزئیے سے کافی مختلف ہوگا۔ ایم کیو ایم مسلم لیگ ق کے ساتھ سندھ میں حکومت بنانے کا ارادہ نہیں رکھتی بلکہ ان کی پیپلزپارٹی کے ساتھ کافی گاڑھی چھن رہی ہے اور عین ممکن ہے وہ سندھ میں بے نظیر کی حکومت کا حصہ ہوں۔ ایک اور عنصر عوامی نیشنل پارٹی ہے جس نے پچھلے بلدیاتی انتخابات میں صوبہ سرحد میں ایم ایم اے کے مدمقابل کافی اچھی پرفارمنس دی تھی۔ پیپلزپارٹی، فضل الرحمن اور اے این پی پہلے بھی سرحد میں مل کر حکومت بنا چکے ہیں۔ جاوید چودھری کے سیناریوز میں سقم ہیں۔
عدلیہ کی آزادی کو سیاسی ایشو اگر بنالیا جائے اور وکلاء عدلیہ کی آزادی پر متفق سیاسی جمعاتوں کے لئے کیمپین شروع کردیں تب بھی سیناریو تبدیل ہوسکتا ہے۔ ابھی تو پورا ایک مہینہ ہے، کچھ بھی ہوسکتا ہے۔
ہاہاہاہا۔۔۔نعمان کیا مذاق کر رہے ہیں اے این پی نے کب اچھی کارکردگی دکھائی تھی؟
پورے سرحد میں صرف ہمارے کوہاٹ سے انکا ایک ایم پی اے تھا۔ وہ تو اپنے گڑھ چارسدہ میں بھی ہار گئے تھے۔
ساجد میں قومی اور صوبائی انتخابات کی نہیں بلکہ بلدیاتی انتخابات کی بات کررہا ہوں۔
اس چیز کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اگر ان جماعتوں نے بائیکاٹ نہیں کیا اور ایک دفعہ اسمبلی پہنچ گئے تو اقتدار کی رسہ کشی میں ایسے مگن ہونگے کے کونسی عدلیہ اور کونسے عوام۔۔ اسکا مظاہرہ آپ پچھلے پانچ سالوں میں دیکھ ہی چکے ہیں۔۔ اگر ابھی عوامی دباؤ میں آکر بڑی جماعتیں الیکشن سے کنارہ کشی اختیار کرلیں تو پھر عدلیہ کی آزادی کی جدوجہد کے علاوہ انکے پاس اور کوئی ایشو موجود نہ ہوگا۔۔ اس لیے میرے نزدیک تو ادھر انتخابات ہوئے اور ادھر پی پی یا ملاؤں اور ق لیگ کی ملی بگھت سے اٹھارویں ترمیم منظور ہوگی جس کے بعد انصاف کی فراہمی آئینی طور پر پاکستان میں معطل ہوجائے گی۔
میرے خیال کے مطابق اسوقت اگر کوئی بھی پارٹی اپنے ضمیر کے مطابق فیصلہ کرے تو نتیجہ الیکشن نہ لڑنے کا فیصلہ ہو گا۔
جب آپکو توقع ہی نہیں کہ الیکشن منصفانہ ہونگے تو پھر حصہ لینے کی کیا تک ہے؟ یہ صرف مولانا فضل الرحمن کی کھوکھلی منطق ہے اور کچھ نہیں۔ اب اگر سیاسی پارٹیوں نے فیصلہ کر ہی لیا ہے تو عوام کو بھی دکھانا ہو گا کہ وہ کیا سمجھتے ہیں؟ کم از کم میں تو ووٹ پول نہیں کرونگا!
میرے خیال میں پاکستان کی عوام کا یہ حق ہے اور ان پر یہ فرض ہے کہ وہ ووٹ کاسٹ کریں۔ اگر کوئی جماعت بائیکاٹ کرتی ہے اور اس کے حمایتی ووٹ نہیں ڈالتے تو وہ اپنے حامیوں کو ان کے آئینی حق سے محروم کرتی ہے۔
آپ دھاندلی کا اعتراض تب تک نہیں کرسکتے جب تک آپ الیکشن میں حصہ نہ لیں۔ دوسری بات یہ کہ عوامی نمائندوں کا اسمبلی میں پہنچنا انتہائی ضروری ہے۔ اگر آپ کا نمائندہ اسمبلی میں نہیں پہنچے گا تو آپ کس حق سے اس اسمبلی کردار اور کارکردگی پر تنقید کرسکیں گے جب کہ آپ نے ووٹ ہی نہیں دیا؟
مشرف کے حمایتیوں کے ووٹر تو ووٹ ضرور ڈالیں گے۔ اگر آپ ووٹ نہیں ڈالیں گے وہ تب بھی جیت جائیں گے لیکن ووٹ ڈال کر آپ کم از کم ان کی جیت کی راہ میں ایک معمولی سی رکاوٹ تو ڈال سکتے ہیں۔
میرے پیارے بھائی
اگر دھاندلی ہوتی ہے تو پھر آپ کس کے پاس جائیں گے انصاف مانگنے؟
الیکشن میں حصہ لیے بغیر دھاندلی کا الزام نہیں لگایا میں نے، خدشہ ظاہر کیا ہے، اور یہ خدشہ حالات و واقعات سے پورا ہوتا نظر آتا ہے، اللہ نے ہم سب کو عقل اور یاداشت دی ہے آخر۔ اگر دھاندلی نہ بھی ہو تو الیکشن کا اخلاقی جواز ہی نہیں عدلیہ کی معطلی کی وجہ سے۔ عدالتیں تو معطل ہیں، اگر ساٹھ کے لگ بھگ جج فارغ کر دئیے گئے ہیں بہ یک جنبشِ قلم تو کیا یہ معمولی بات ہے؟ فرض کریں فوج کے ساٹھ سینئر ترین افسر گھر بیٹھ جاتے ہیں تو کیا کوئی فرق نہیں پڑے گا؟ کیا وفاق کے ساٹھ سینئر ترین افسر گھر بیٹھ جائیں تو معاملات معمول کے مطابق چل پائیں گے؟ اگر فوج یا سول بیوروکریسی ایسا جھٹکا برداشت نہیں کر سکتی تو عدالت کیسے چل سکتی ہے؟
جہاں رہی پارلیمنٹ کے اندر آواز اٹھانے کی بات تو ہم سبھی کو علم ہے کہ اسکی کیا اوقات ہے، اپوزیشن تو پچھلی حکومت میں بھی تھی نا؟ کتنی باتیں عوام کی مرضی کی منوا پائی وہ؟ بھیا یہ سب ٹوپی ڈرامہ ہے، سب کرسی کے چکر میں ہیں۔
آپ عوامی مفاد کو سیاسی مفاد سے ذرا الگ کر کے دیکھیں، اگر بائیکاٹ ہوتا ہے تو سیاسی پارٹیوں کا نقصان ہو گا، عوام کا نہیں۔ لوگ تو ویسے بھی سول سوسائٹی کا حصہ ہیں، سیاسی پارٹیوں کا نہیں۔ یقین نہ آئے تو بتائیے کہ کتنی جماعتوں نے عام آدمیوں کو ٹکٹ دیے ہیں؟
آپ صرف الیکشن میں حصہ لینے کے فوائد پر غور کر رہے ہیں اور وہ بھی سیاسی پارٹیوں کی عینک سے۔ ذرا عام آدمی کی نگاہ سے دیکھیے۔ اگر عدالتوں کی بحالی تک الیکشن کا بائیکاٹہوتا ہے تو مشرف مجبور ہو کر عدالتیں بحال کریگا، آج نہیں تو کل، نہیں تو ایک سال بعد، لیکن مارشل لا ہمیشہ تو نہیں چل سکتا، اسکا اسکو بھی علم ہے۔ جب عدالتیں آزاد ہوں گی تو سیاسی پارٹیاں بھی اسی سے انصاف مانگیں گی اور بار بار فوج کو بلانے کی روایت بھی ترک ہو جائے گی۔ دوسری طرف کوئی تو عوام کا سننے والا بھی ہو گا۔ میں لمبے عرصے اور سٹریٹیجک فوائد کی بات کر رہا ہوں، ایک دو سال یا اپنے محلے گی گلی پختہ کرانے جیسے فوائد کی نہیں۔
فیصل پچھلے اور اس الیکشن میں یہ فرق ہے کہ عوامی ہمدردیاں ق لیگ اور اتحادی جماعتوں کے ساتھ نہیں۔ دھاندلی کے باوجود بھی ایسی اسمبلی نہیں بن سکتی جہاں اتحادیوں کا آسانی سے اکثریت حاصل ہوجائے۔ اسمبلی میں پہنچ کر احتجاج کرنے میں زیادہ اثر ہوتا ہے۔ کیوں کہ یہ اس بات کی علامت ہوتا ہے کہ پاکستان کی عوام نے آپ کو ووٹ دئیے ہیں۔
اگر انتخابات میں حصہ نہ لیں اور انتخابات ہوگئے اور مشرف کی مرضی کی پارلیمنٹ بن گئی تب بھی آپ انصاف مانگنے کہاں جائیں گے؟ کیوں کہ پھر تو ان کے پاس اسمبلی میں اتنی اکثریت ہوگی کہ وہ آئین کا حلیہ بگاڑدیں گے۔ تب سول سوسائٹی کے احتجاج کا کوئی اثر نہ ہوگا اور وہ دو چار مہینے میں دم توڑ دے گا۔ کیوں کہ ججز کی بحالی کا کوئی راستہ نہیں رہے گا۔
سول سوسائٹی بغیر سیاسی جماعتوں کے نہیں بنتی۔ اگر آپ الیکشن کا بائیکاٹ کرتے ہیں تو مارشل لاء کا راستہ ہموار ہوجاتا ہے۔ مشرف کے پاس ایمرجنسی کو طول دینے کا جواز ہوگا کہ ملک میں افراتفری ہے۔ عدالتوں کی آزادی سیاسی جماعتوں کے پارلیمنٹ میں پہنچے بغیر ممکن نہیں۔ کیوں کہ پارلیمنٹ ہی بالادست ادارہ ہے جو کہ قانون بناتا ہے جبکہ عدالتیں اس قانون کو صرف بیان کرتی ہیں۔ آپ مشرف کو یہ موقع نہیں دے سکتے کہ وہ ربڑاسٹیمپ پارلیمنٹ سے عدلیہ کی آزادی کے تابوت میں آخری کیل بھی ٹھونک دے۔
اگر ایک اکثریت انتخابات میں حصہ نہیں لیتی تو ایسی حکومت کے پاس کوئی عوامی نمائندگی ہی نہیں ہو گی اور ظاہر ہے کہ وہ زیادہ عرصہ نہیں چل سکتی۔ آئین کا حلیہ بگاڑنے کا دم خم ان میں ہو گا ہی نہیں۔ اس بات کو بھی ذہن میں رکھیں کہ فی الحال عدلیہ کی بحالی (میں اسکو ججوں کی بحالی نہیں کہوں گا) کسی بھی بڑی سیاسی جماعت کا نعرہ نہیں ہے، بشمول پی پی پی، ق لیگ، ایم کیو ایم وغیرہ۔ سو اگر یہ ایوان میں آ بھی جاتے ہیں تو ان سے تو کوئی امید نہ رکھیں۔
مارشل لا کا راستہ؟ بھائی مارشل لا تو لگا ہوا ہے، آپ کونسے مارشل لا کی بات کر رہے ہیں؟ میں آپکی اس بات کا جواب دے چکا ہوں یہ کہہ کر کہ ایسا لمبے عرصے تک کرنا مشرف کے بس کی بات نہیں۔
یہ بھی آپ نے خوب کہی کہ سول سوسائٹی سیاسی جماعتوں کی مرہونِ منت ہے۔ میرا خیال تو کچھ اسکے الٹ ہے۔ عوام کی نمائندہ سچی اور کھری سیاسی جماعتیں سول سوسائٹی کے خمیر سے ہی اٹھتی ہیں۔
بہرحال الیکشن ہونے میں چند ہی دن ہیں، دیکھ لیتے ہیں کہ ہم دونوں میں سے کس کی باتیں وقت کی کسوٹی پر پوری اترتی ہیں۔