امریکی انتخابات ساری دنیا کے لئے انتہائی دلچسپی کا باعث ہوتے ہیں۔ لیکن اس مرتبہ انتخابات سے پہلے ہی ڈیموکریٹ پارٹی کے صدارتی امیدوار کی نامزدگی کی دوڑ بھی انتہائی دلچسپ مرحلے میں پہنچ چکی ہے۔
مقابلہ سنیٹر ہیلیری کلنٹن جو کہ سابق امریکی صدر بل کلنٹن کی بیوی ہیں اور سینیٹر بیرک اوباما کے درمیان ہے۔ بیگم کلنٹن کا خیال ہے کہ دنیا کو اس وقت ایک ایسے امریکی صدر کی ضرورت ہے جس کے پاس تجربہ ہو اور جسے معلوم ہو کہ اس کیا کرنا چاہئے۔ کلنٹن صاحبہ اپنے شوہر کے عرصہ صدارت کی کامیابیوں کا تواتر سے ذکر کرتی ہیں اور اس بنیاد پر ہمدردیاں حاصل کرنا چاہتی ہیں۔ وہ ایک یونیورسل ہیلتھ کئیر پروگرام کا وعدہ کرتی ہیں۔ لیکن سچی بات یہ ہے کہ ان کی پالیسیاں غیرواضح ہیں۔ عموما مباحثوں میں دیگر ڈیموکریٹ امیدواران انہیں سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ خصوصا ان کی غیر واضح پالیسی بیانات پر اعتراضات اٹھائے جاتے ہیں۔
بیرک اوباما پانچویں افریقی امریکی سینیٹر ہیں اور موجودہ سینیٹ میں واحد افریقی امریکی ہیں۔ اوباما عراق جنگ ختم کرنا چاہتے ہیں، توانائی کے منصوبوں، بجٹ خسارہ، صحت عامہ (جو کہ امریکہ میں صدارتی انتخابات کا ایک اہم ایشو ہے)، امیگریشن اور ماحولیات کے بارے میں ایک واضح نقطہ نظر رکھتے ہیں۔ انہوں نے بائیو فیولز سیکیوریٹی ایکٹ متعارف کرایا، وہ ایبارشن اور فیملی پلاننگ کے خواتین کے حق کے حامی ہیں، انہوں نے اس وفاقی مسودہ قانون کے خلاف ووٹ دیا تھا جس کے منظور ہونے پر امریکہ میں شادی صرف مرد اور عورت کے درمیان قرار پاتی تاہم ان کا موقف ہے کہ شادی مذہبی معاملہ ہے اور وہ ہم جنس گروہوں کے لئے سول یونین کے حمایتی ہیں۔ ایران کے مدعے پر وہ ایکشن کی حمایت کرتے ہیں لیکن اس سے پہلے معاشی پابندیوں اور ڈپلومیسی کو موقع دینا چاہتے ہیں۔
ڈیموکریٹ امیداوان کی نامزدگی کے شور میں ری پپلکن امیدواران کی طرف میڈیا کی توجہ بہت ہی کم ہے۔ ان میں سب سے آگے جارہے ہیں روڈی گیولیانی جو کہ گیارہ ستمبر کے سانحے کے وقت نیویارک شہر کے مئیر تھے۔ ان کی قائدانہ صلاحیتوں کے لوگ معترف ہیں۔ گرچہ روڈی گیولیانی جارج ڈبلیو بش کے زبردست حامی ہیں پھر بھی انہیں نسبتا معتدل ری پبلکن سمجھا جاتا ہے۔ ایران اور عراق کے بارے ان کی پالیسی واضح ہے۔ ان کے پاس بھی ایک ہیلتھ کئیر پلان ہے جو ہیلتھ سیونگز کو ٹیکس ڈیڈکشن فراہم کرتا ہے اور براہ راست صحت عامہ کو فنڈ کرنے کے بجائے ٹیکسوں میں چھوٹ اور رعایات کے ذریعے ریلیف فراہم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ ایبورشن کے خلاف ہیں لیکن ان کا خیال ہے کہ جلد یا بدیر قانون کو خواتین کو فیصلہ کرنے کی اجازت دینا ہی ہوگی۔ ان کی مئیر شپ کے دوران نیویارک شہر میں جرائم میں ساٹھ فیصد کمی آئی۔ انیس سو پیسنٹھ کے بعد سے وہ نیو یارک کے پہلے ری پبلکن مئیر تھے۔ ریاست نیویارک ڈیموکریٹس کی مضبوط حمایتی رہی ہے۔
گیولیانی اگر ری پبلیکن امیدوار نامزد ہوجاتے ہیں تو انہیں کلنٹن اور اوباما کے مقابلے میں زیادہ بہتر پوزیشن حاصل ہوگی۔ ایک تو وہ سفید فام ہیں، دوسرا مرد ہیں، تیسرا یہ کہ وہ لبرل اور کنزرویٹیو دونوں حلقوں میں پسند کرے جاتے ہیں۔
اگر ہیلیری کلنٹن امریکہ کی صدر منتخب ہوجاتی ہیں تو امریکہ پر بش اور کلنٹن صدور کی حکمرانی کو پورے اٹھائیس سال ہوجائینگے۔
بیرک اوباما، ہیلیری کلنٹن، اور دوڈی گیولیانی تینوں بیسٹ سیلنگ کتابوں کے مصنف ہیں۔
بیرک اوباما کی دوکتابیں Dreams from My Father: A Story of Race and Inheritance اور The Audacity of Hope: Thoughts on Reclaiming the American Dream ہیں۔
ہیلیری کلنٹن کی کتابیں It Takes A Villageاور Living History بیسٹ سیلنگ رہ چکی ہیں اور وہ دو مرتبہ اپنی آڈیو بکس کے سلسلے میں گریمی کے لئے نامزد ہوچکی ہیں۔
روڈی گیولیانی کتاب Leadership کے مصنف ہیں۔ اس کتاب میں وہ بطور مئیر نیویارک اپنے تجربات بیان کرتے ہیں کہ کس طرح انہوں نے اس شہر میں جرائم کو کنٹرول کیا، معیشت کو مضبوط کرا اور گیارہ ستمبر کے سانحے سے نمٹا گیا۔
امریکہ میں ووٹر صدر کے براہ راست انتخاب میں حصہ نہیں لیتے بلکہ الیکٹورل کالج کے ممبران کو منتخب کرتے ہیں جو پھر صدر کو ووٹ دیتے ہیں۔
امریکہ کی کئی ریاستوں میں ایسا کوئی قانون نہیں جو کسی پاگل کو ووٹ دینے سے روکتا ہو۔ ویسے ہمارے یہاں تو مردے اور فرشتے بھی ووٹ ڈال دیتے ہیں۔
کئی ریاستوں میں سزا یافتہ مجرمان کو عدالتیں ووٹ دینے کے حق سے محروم کرسکتی ہیں۔
امریکہ میں ماسوائے شمالی ڈکوٹا کی ریاست کے باقی تمام ریاستیں ووٹرز سے درخواست کرتی ہیں کہ وہ اپنا ووٹ رجسٹر کرائیں۔
آپ کیا کو کرا کیوں لکھتے ہیں؟
قدیر میں سمجھا نہیں۔