قتلِ گل

کراچی میں تہرے قتل کی ایک لرزہ خیز واردات میں ملک کے معروف مصور جناب گل جی، ان کی اہلیہ زرین گل اور گھریلو ملازمہ مردہ پائے گئے ہیں۔ ایک طرف تو ملک کے معروف مصور کا قتل جہاں ایک بڑا قومی نقصان ہے وہیں یہ معاشرے میں بڑھتے ہوئے عدم تحفظ کے احساس کو اجاگر کرتا ہے۔ اگر ایک معروف آدمی جس کا گھر جدید ترین سیکیوریٹی آلات سے لیس اور کراچی کے انتہائی پوش علاقے میں واقع تھا وہ محفوظ نہیں تو عام آدمی کے تحفظ کی تو کوئی ضمانت ہی نہیں ہے۔ المناک بات یہ ہے کہ قتل کی یہ واردات چار روز قبل ہوئی اور گھر کے دوسرے حصے میں رہائش پذیر گل جی کے صاحبزادے امین گل جی کو اس کی خبر ہی نہیں تھی۔ سی سی پی او کراچی اظہر فاروقی نے موقع واردات پر صحافیوں کو بتایا کہ بظاہر گھر سے کوئی قیمتی چیز نہیں غائب نہیں معلوم ہوتی۔ گل جی کا گھر کراچی کے سب سے خوبصورت گھروں میں شمار ہوتا تھا۔ ہزار ہا ٹی وی ڈراموں اور ٹیلیویژن شوز میں ان کا گھر دکھایا جاچکا ہے۔ اس گھر کی ایک ایک دیوار خود اپنے آپ میں آرٹ کا ایک نمونہ تھی۔ اس لئے اظہر فاروقی صاحب کس طرح یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ گھر سے کوئی چیز غائب نہیں جبکہ اس گھر میں تو میز پوش تک فن کے انتہائی خوبصورت نمونے ہیں۔ گل جی کا ڈرائیور ایک گاڑی سمیت غائب ہے اس کا پتہ لگانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ گھر میں کسی افراتفری یا مزاحمت کے آثار نظر نہیں آتے۔ گل جی کے صاحبزادے کا بیان ہے کہ ان کی والدین سے ناراضگی چل رہی تھی اس لئے ان کی والدین سے عرصے سے ملاقات نہ ہوئی تھی۔ کراچی پولیس اپنی "روایتی جانفشانی” سے تحقیقات میں مشغول ہے۔ لیکن ملک میں پہلے ہونے والے سینکڑوں اہم قتلوں کی فائل کے ساتھ سال دو سال میں اس قتل کی فائل بھی کہیں گم ہوجائیگی۔

گل جی نہ صرف یہ کہ ایک عظیم فنکار تھے بلکہ ایک عظیم انسان بھی تھے۔ پاکستان میں آرٹ کو ایک نئی جدت، سمت اور پہچان دینے میں ان کی خدمات کبھی فراموش نہیں کی جاسکیں گی۔ انہوں نے اسلامی کیلیگرافی پر بہت کام اور تحقیق کی۔ ان کی خطاطی کے نمونے ملک کی اہم ترین سرکاری عمارتوں پر کندہ ہیں۔ یہ ایک بڑا قومی نقصان ہے۔ قاتلوں کو شاید کوئی کبھی نہ جان پائے، مگر امین اسماعیل گل جی اپنے کام کی بدولت ہمیشہ جانے جاتے رہیں گے۔

تبصرے:

  1. گل جی کا قتل میری سمجھ سے باہر ہے ۔ جہاں تک ہمارے ملکی حالات کا تعلق ہے ان سے بُرے حالات شائد دنیا کے کسی ملک میں نہ ہوں ۔ کل کا ٹرین کا حادثہ جس میں 58 جانیں ضائع ہوئیں ۔ بچوں کی وین کا حادثہ جس میں سولہ کے سولہ بچہ ہلاک ہوئے ۔ یہ قتلِ عام نہیں تو کیا ہے ؟ کیا ان سب کا بوجھ پرویز مشرف کے کاندھوں پر نہیں ۔ کیا ہم اسی نبی کی اُمت نہیں جس کے دوسرے خلیفہ نے بحیثیت امیر کہا تھا کہ اگر دجلہ کے کنارے ایک کتا بھی بھوکا مر جائے تو اس سے متعلق عمر سے پوچھا جائے گا ۔

  2. خون آلود عید۔۔
    مجھے بہت افسوس ہوا گل جی کی موت سے۔ اللہ انہیں جنت الفردوس نصیب فرمائے۔ اٰمین

Comments are closed.