ہر سال بڑی عید پر میں اسی یاسیت کا شکار ہوتا ہوں۔ مجھے جانوروں کی اس طرح سے کی جانیوالی نمائش، ان کا شہروں میں لایا جانا، گلیوں میں ان کا ذبح کیا جانا، اور پھر ان کے گوشت کو تبرک کی طرح تقسیم کیا جانا اچھا معلوم نہیں ہوتا۔ مجھے اچھا لگتا ہے چھوٹی بچیوں کا تیار ہوکر گوشت کی تھیلیاں رشتے داروں کے گھر لے جانا۔ لوگوں کے تکے کباب بنوانا، مزے مزے کے کھانے تیار کرنا۔ مگر میرے خیال میں یہ غلط طریقہ ہے۔ ایک تو یہ حفظان صحت کے لحاظ سے مضر معلوم ہوتا ہے۔ دوسرا اس سے ہمارے پہلے سے انتہائی آلودہ شہر مزید آلودہ ہوجاتے ہیں۔ کیا یہ ضروری ہے کہ ہم شہروں میں جانوروں کو لائیں۔ ان کے گوبر سے اپنی گلیاں سجائیں۔ انہیں شہر کی سڑکوں پر ٹہلائیں، نہلائیں، کھلائیں، پلائیں اور پھر انہی سڑکوں کو ان کے خون سے سجائیں۔ کیا ہم شہر سے باہر کہیں قربانی کا اہتمام نہیں کرسکتے۔ کیا ہم یہی سب کام ذرا صفائی، تہذیب اور سلیقے سے انجام نہیں دے سکتے۔
آج عید کے تیسرے روز اہل ایمان کی بے بہا قربانیوں کے صلے میں کراچی میں بارش ہوئی۔ ایک عرصہ ہوا کہ ہم برسات کے رومانوی سحر سے آزاد ہوگئے ہیں۔ اب ماحول ایسا نہیں رہا کہ برستے ساون کی بوندوں کی رم جھم سے لطف اندوز ہوا جاسکے۔ برکھا رت میں آسمان پر نظر ڈالیں تو وہ ویسا ہی مہربان، خوبصورت، خوشنما نظر آتا ہے۔ مگر ذرا نیچے آئیں تو کوے، چیلیں، اور نیچے آئیں تو جانوروں کی آلائشیں، خون کے دھبوں پر چھڑکا گیا چونا، پلاسٹک کی ہزاروں تھیلیاں، اور ان سے بچتے بچاتے گزرنے والے راہ گیر، زمین پر منظر اتنا خوشنما نظر نہیں آتا۔ دور کہیں کسی کباب کی دکان سے گوشت اور چربی جلنے کی بولنے آرہی ہے۔ کھڑکیاں دروازے بند کر کے بیٹھ تو جائیں مگر بجلی بھی غائب۔ اگر ہم ایک مہذب قوم ہوتے تو شاید ہماری گلیاں بھی بارش کے پانی سے دھل جاتیں، ہمارے پیڑ پودے بھی لہلہاتے، ہمیں بھی کہیں سے پھولوں کی خوشبو آتی اور کہیں سے پرندوں کے نغمے سنائی دیتے۔ مگر ہم مہذب قوم نہیں ہیں، ہماری گلیاں اور سڑکیں بھی اتنی ہی گندی ہیں جتنی ہماری سوچ۔ آسمان تو ہم پر آج بھی بہت مہربان ہے، ہم خود اپنے آپ پر مہربان نہیں ہیں۔
قربانی کے جانور ذبح کرنے کا طریقہ ہمارے ہاں انتہائی غیر صحت بخش اور غیر سائنسی ہے۔ سڑکوں پر ہی ذبح کرکے گند وہیں چھوڑ دیا جاتا ہے۔ انتہائی غیر ذمہ داری اور بےحسی کا ثبوت دیا جاتا ہے۔
مسئلہ یہ ہی نہیں کہ ہمارے ہاں ادارے کمزور یا ناپید ہیں بلکہ یہ بھی ہے کہ تعلیم کی کمی کی وجہ سے ہم میں بزنس سینس ہی نہیں وگرنہ اسی ایک موقع سے اچھی بھلی کمپنی بنائی اور چلائی جا سکتی ہے جو لوگوں کو معقول معاوضے کے تحت قربای کرنے کی سہولت فراہم کرے۔
اور لوگ معاوضہ کیوں دیں گے جب وہ گلی محلے میں شیخی بھگارتے ہوئے یہ کام سستے داموں انجام دے سکتے ہیں۔ اور بدتہذیبی میں نام نہاد تعلیم یافتہ کسی سے پیچھے نہیں رہتے۔