اگر آپ کے گھر میں کوئی دعوت ہو اور سب سے پوچھا جائے کہ اس دعوت میں کن کھانوں کا اہتمام کیا جائے۔ تب آپ چپ رہیں اور اپنی رائے کا اظہار نہ کریں تو یقینا باقی لوگ اپنی مرضی کا اہتمام کرلیں گے۔ کیا اس اہتمام پر آپ کو شکوہ کرنے یا ناپسندیدگی کا اظہار کرنے کا حق ہوگا؟ اگر آپ ناپسندیدگی کا اظہار کریں گے یا شکوہ کریں گے تو کیا باقی لوگ یہ نہیں کہیں گے کہ آپ سے پوچھا گیا تھا، مگر آپ نے اپنی رائے نہیں دی۔ لحاظہ اب آپ چپ رہیں اور دوسروں کی رائے اور پسند کا احترام کریں۔
پاکستان میں لوگوں کی ایک بڑی اکثریت انتخابات میں اپنا ووٹ استعمال نہیں کرتی۔ عجیب بات یہ ہے کہ کم پڑھے لکھے، جاہل اور غریب لوگ زیادہ ووٹ ڈالتے ہیں۔ بنسبت تعلیم یافتہ اور زیادہ یا درمیانی آمدنی والے افراد کے۔ مجھے ایک اور بات جو عجیب لگتی ہے وہ یہ ہے کہ یہی پڑھے لکھے لوگ اکثر محفلوں میں ملکی حالات پر مایوسی کا اظہار کرتے ہیں، یہ سیاستدانوں سے نالاں ہیں، فوج سے شاکی، میڈیا پر انہیں یقین نہیں، اداروں پر انہیں اعتماد نہیں۔ لیکن جب وہ دن آتا ہے کہ اچھے یا برے نمائندوں کو منتخب کیا جاسکے تو یہ لوگ اپنی ناراضگی اور مایوسی کا اظہار گھر بیٹھ کر کرتے ہیں۔ حالانکہ یہ ووٹ ڈالنے نہیں جاتے ان میں سے اکثر اس دن بھی ٹیلیوژن پر الیکشن نشریات دیکھتے ہیں، نتائج پر تبصرے کرتے ہیں، جب وہی گھسے پٹے نمائندے جیتتے رہتے ہیں تو یہ پھر اپنی مایوسی کا اظہار کرتے ہیں اور اگلے دن سے پھر انہی معمولات میں مشغول ہوجاتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ جب یہ لوگ جمہوریت کی راہ میں ووٹ ڈالنے جیسے ایک اہم ترین قومی فرض کو بھی ادا نہیں کرتے۔ تو کیا انہیں مایوس ہونے، تبصرے کرنے اور حالات پر کڑھنے کا حق ہے؟
کیا آپ آٹھ جنوری کو اپنے ووٹ کا حق استعمال کریں گے؟
شاید دوں شاید نہیں۔ ابھی سوچا نہیں اس بارے میں۔ کسے ووٹ دوں ایک تو وہی پرانے کھلاڑی ہیں۔ دوسرے فرزند دلبند ہیں ایک پرانے کھلاڑی کے۔ سوچ رہا ہوں اگلی بار خود کھڑا ہوجاؤں اور پھر خود کو ہی ووٹ دے کر سکون پراپت کروں۔
سوال یہ ہے کہ ووٹ کی کوئی وقعت بھی ہے یا نہیں پاکستان میں؟ جس ملک کی 60 سالہ تاریخ میں صرف ایک بار کے الیکشن کو قدرے شفاف قرار دیا جائے وہاں ووٹ کی حیثیت ایسی ہی ہوگی جیسے دعوت میں جب آپ سے پوچھا جائے تو آپ اپنی پسند بتائیں بھی لیکن ملے آپکو کچھ نہیں۔
ووٹایک امانت ہے۔۔۔مان لیا۔ لیکن اگر کوئی اس امانت کا حقدار ہی نہیں تو ہم کیا کریں؟
ووٹ امانت ہے آپ کے ملک کی۔ عجب بات ہے کہ اتنے لوگ جو الیکشن میں کھڑے ہیں ان میں کوئی حقدار نہیں لگتا؟ شاید شاکر ٹھیک ہی کہہ رہا ہے ہمارے یہاں لوگ کسی پر اعتماد نہیں کرتے اور صرف خود کو ہی سب سے بڑا پارسا اور راست باز سمجھتے ہیں۔
آپ کو کچھ ملے یا نہ ملے لیکن اگر آپ سے رائے طلب کی جائے تو وہ آپ کو ضرور دینی ہے کیونکہ یہ آپ کی ذمہ داری ہے۔ اگر کوئی اپنی ذمہ داری ٹھیک سے ادا نہیں کرتا تو وہ جوابدہ ہوگا لیکن اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ آپ بھی اپنی ذمہ داری ادا نہ کریں۔
ووٹ کی دقعت؟ ووٹ کی قدر کا اندازہ اگر آپ کو یعنی ووٹر کو ہی نہیں ہے تو واقعی پاکستان میں اس کی کوئی دقعت نہیں۔ دنیا بھر میں الیکشنز میں دھاندلیاں ہوتی ہیں۔ امریکہ کا صدر جارج بش خود دھاندلی کے ذریعے صدر بن آیا تھا۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ دنیا بھر میں لوگ ووٹ دینا چھوڑ دیں۔ آپ جارجیا کی مثال دیکھیں جہاں الیکشن فراڈ کے بعد ایک عظیم عوامی انقلاب نے ریاست کو دوبارہ انتخابات کے انعقاد پر مجبور کردیا۔
میں پھر دہراؤں گا کہ الیکشن، ووٹ، آئینی طریق جنگ یہ سب ہمارے قائد کے وہ راستے ہیں جن کی مدد سے انہوں نے پاکستان بنایا۔ ہم ان راستوں کو چھوڑ دیں گے تو پاکستان میں جمہوریت اور انصاف کی بالادستی کبھی قائم نہ ہوگی۔
چلیے مان لیتے ہیں۔
میری مشکل آسان کریں۔ ہمارے یہاں چار نیشنل اسمبلی کے امیدوار ہیں:
ن لیگ کے جاویدابراہیم پراچہ جو اپنے دور میں آٹا چوری کیوجہ سے بدنام ہیں، کوہاٹ میں بچہ بچہ جانتا ہے۔ انہیں اپنے خاندان سے بھی ووٹ نہیں ملتے۔
افتخار گیلانی(پہلے پی پی پی اب آزاد) یہ پی پی پی کی حکمرانی کے دوران منتخب ہوئے، اسکے بعد یہ حالت تھی کہ کوہاٹ میں ان سے ملنا ناممکنات میں سے تھا۔
اے این پی سے پیردلاورشاہ، بھتہ خوری کے ایمپائر کے مالک، ایک عرصہ تک انہوں نے پورے کوہاٹ کو خوف و ہراس میں مبتلا رکھا۔
ایم ایم اے (اب آزاد) مفتی ابرار سلطان، مفتی صاحب نے چندہ کر کے پچھلی بار الیکشن کمپین چلائی۔ ایم این اے بن کر لینڈکروزر، ڈیری فارم اور پلاٹس تو خرید لیے لیکن میرے گاؤں میں ان کا سب سے بڑا ترقیاتی منصوبہ پانی کے کسی منصوبہ کی تختی ہے۔
اب بتائیں کسے ووٹ دیں؟
آپ ان میں سے کتنوں کی الیکشن تقاریر سن چکے ہیں؟ مفتی ابرار سلطان برے معلوم نہیں ہوتے۔ ایک ایم این اے کی ماہانہ تنخواہ سوا لاکھ سے دو لاکھ تک ہوتی ہے۔ ان پیسوں کو اگر چار سال سے ضرب دیں تو مفتی صاحب حلال آمدنی سے بھی لینڈ کروزر، ڈیری فارم اور پلاٹس خرید سکتے ہیں۔
سیوریج، پانی، سڑکوں وغیرہ کے منصوبہ جات تو بلدیاتی اداروں کے حصے میں آتے ہیں۔ ایک ایم این اے کو حکومت پاکستان اٹھارہ کروڑ روپے ترقیاتی منصوبوں کے لئے دیتی ہے۔ ذرا مفتی صاحب سے جاننے کی کوشش کریں انہوں نے وہ پیسے کہاں لگائے۔ اگر آپ کھلے دل سے جائزہ لیں تو اندازہ ہوگا کہ ایک ایم این اے کے لئے اپنے وعدے پورا کرنا کتنا مشکل ہوتا ہے جب وہ اپوزیشن میں ہو، اس کے علاق
آپ ان میں سے کتنوں کی الیکشن تقاریر سن چکے ہیں؟ مفتی ابرار سلطان برے معلوم نہیں ہوتے۔ ایک ایم این اے کی ماہانہ تنخواہ سوا لاکھ سے دو لاکھ تک ہوتی ہے۔ ان پیسوں کو اگر چار سال سے ضرب دیں تو مفتی صاحب حلال آمدنی سے بھی لینڈ کروزر، ڈیری فارم اور پلاٹس خرید سکتے ہیں۔
سیوریج، پانی، سڑکوں وغیرہ کے منصوبہ جات تو بلدیاتی اداروں کے حصے میں آتے ہیں۔ ایک ایم این اے کو حکومت پاکستان اٹھارہ کروڑ روپے ترقیاتی منصوبوں کے لئے دیتی ہے۔ ذرا مفتی صاحب سے جاننے کی کوشش کریں انہوں نے وہ پیسے کہاں لگائے۔ اگر آپ کھلے دل سے جائزہ لیں تو اندازہ ہوگا کہ ایک ایم این اے کے لئے اپنے وعدے پورا کرنا کتنا مشکل ہوتا ہے جب وہ اپوزیشن میں ہو، اس کے علاقے میًں مسائل کا انبار ہو، غربت ہو بیروزگاری ہو تو یہ سب مسائل اٹھارہ کروڑ روپے میں کیسے حل ہونگے۔ ایک ایم این اے کا اصل کم قانون سازی میں حصہ لینا ہوتا ہے۔ یہ دیکھیں کیا انہوں نے اسمبلی میں علاقے کے عوام کے جذبات کی ترجمانی کرنے کی کوشش کی۔ کیا انہوں نے آمریت کی راہ میں روڑے اٹکائے، کیا انہوں نے معاشرے میں انصاف اور ملک کے امن اور سلامتی کے لئے آواز بلند کی۔
یہ سوچ کر جائزہ لیں کہ آپ انسانوں کا انتخاب کررہے ہیں، فرشتوں کا نہیں۔
نعمان بھائی
اللہ آپکے حسنِ ظن کو ہمیشہ قائم رکھے۔
میرے بھائی، آپ کیا بات کر رہے ہیں؟ چار سال کی نوکری میں لینڈ کروزر؟ یعنی تقریبآ کم از کم تیس لاکھ روپے، پھر پلاٹ، فارم وغیرہ الگ؟ میرے دوست اور کولیگ اسوقت اسی ہزار سے ڈیڑھ لاکھ تک کی نوکریاں کر رہے ہیں اور کسی کے پاس بھی لینڈ کروزر تو کجا، کرولا بھی نہیں۔
آپ نے کہا کہ ووٹ دینا رائے دینے کے برابر ہے۔ تو ووٹ نہ دینا کس برابر ہے؟ فرض کر لیں کہ ایک حلقے کے سب کے سب لوگ ووٹ نہیں ڈالتے تو آپ کیا فرض کریں گے؟ ذرا ایک امیدوار بن کر اپنے دل سے پوچھ کر بتائیے؟ چلیں اس بات کو چھوڑیں، ایک سادہ سی مثال دیتا ہوں۔ آپ مجھ سے اپنے بارے میں پوچھتے ہیں کہ میں کیسا شخص ہوں، میں بجائے جواب دینے کے خاموش ہو جاتا ہوں تو آپ کیا مطلب لیں گے؟ یہ کہ مجھے آپ بہت پسند ہیں یا یہ کہ میرے خیالات آپکی نسبت کچھ اچھے نہیں؟
پھر مجھے یہ بھی بتائیں کہ میں کسے ووٹ دوں؟ مولانا فضل الرحمن کو، پیپلز پارٹی کے امیدوار کو یا ن لیگ والے کو؟ ان میں سے ہر ایک کی اپنی اپنی کہانیاں ہیں اور تقریبآ سب سے سب آزماے ہوئے ہیں۔
میرا یہ ایمان ہے کہ جب میں کسی کو ووٹدونگا تو اگلے پانچ سال تک گویا اسکے ہر جرم میں اور ہر نیک کام میں شریک ہونگا، اب آپ بتائیے کہ میںیہ اعتبار کس پر کروں کہ وہ خود بھی اور مجھے بھی مزید گنہگار نہیں کریگا؟ کیا آپ نے یہ سوچا ہے؟ فرض کریں آپ ایم کیو ایم کو ووٹ دیتے ہیں، اسکا مطلب تو یہ ہوا کہ انکے ہر عمل پر آپ نے مہرِ تصدیق ثبت کر دی ہے، کیا ایسا نہیں؟
آپکی جیب میں ایک کروڑ روپے ہیں، اگر موجودہ سیاستدانوں میں سے کوئی آپسے یہ مانگے اور کہے کہ منافع کیساتھ لوٹا دونگا تو کیا آپ دینگے؟ جبکہ یہ بھی علم ہو آپکو کہ یہ شخص اگلے پانچ سال میری گرفت میں نہیں آئیگا؟ جب اپنے پیسے کیلئے آپ ان پر اعتبار نہیں کر سکتے تو ووٹ کی لئے کیوں؟ کیا اسلئے کہ وہ جو پیسہ کھائیں گے، اس میں سے صرف بہت تھوڑا سا آپکا ہو گا، باقی شائد ایسے لوگوںکا، جنھیں یہ علم ہی نہیںکہ انکا بھی اس پیسے پر حق ہے۔
میرے بھائی زبانِ خلق کو نقارہ خدا ہی سمجھو، آپکا تو شائد یہ پہلا موقع ہو، پاکستانی عوام تو کئی ایسے الیکشنوںمیں حصہ لے چکی ہے، ان سے پوچھو جنھوںنے اپنی زندگیاں اس میں لگائیں صرف نظریاتی بنیادوں پر، کہاں ہیں وہ لوگ؟ آج کے ٹکٹ ہولڈرز میںسے کتنے کارکن کے عہدے سے آئے ہیں؟
بس یار رہنے دو، رات بہت گزر گئی ہے۔۔۔۔
نعمان اپنا اوپن پیڈ اپ ڈیٹ کر لیں یہ تبصرے کھا جاتا ہے۔
[…] اپنے بلاگ پر کئی مرتبہ لکھ چکا ہوں کہ پاکستان کی عوام کو ہر صورت الیکشن کے دن […]