ہماری شہزادی کو قتل کردیا گیا. آخر ظالم، درندے، دہشت کے متوالے کامیاب ہیوگئے. انہوں نے جمہوریت کی ہماری امید کو قتل کردیا. اللہ تو میری والدہ کو صبر دے، اللہ تو پاکستانی قوم کو صبر دے، اللہ تو ہماری شہزادی کے بچوں کو صبر عطا فرما انہیں حوصلہ عطا فرما. یاللہ اس مشکل گھڑی میں ہماری مدد فرما. محترمہ بے نظیر بھٹو آپ ہمیشہ ہمارے دلوں میں زندہ رہیں گی.
تبصرے:
Comments are closed.
نعمان، آپ نے تو ایسے لکھا ہے کہ میری آنکھوں میں آنسو آ گئے ہیں۔ اب تک میں نے بہت مشکل سے روکے ہوئے تھے۔
ماوراء میری والدہ تو شام سے نڈھال ہیں اب ذرا کچھ دیر کو لیٹی ہیں۔ مجھے یقین نہیں آتا کہ میں کسی پاکستانی لیڈر کے مرنے پر رو سکتا ہوں۔ یہ ایک سیاستدان کا قتل نہیں، ایک ماں، ایک بیٹی، ایک بیوی، اور ایک محبوب لیڈر کا قتل ہے۔
مجھے بالکل ایسے محسوس ہو رہا ہے جیسے میرا کوئی انتہائی قریبی رشتہ دار بچھڑ گیا ہو ۔ اور نعمان جس کے بھی سینے میں دل ہے وہ ضرور رویا ہوگا، آپ اکیلے نہیں ہیں،
اللہ تعالیٰ آپ سب کو صبر جمیل عطائ فرمائے خسوصا آپکی والدہ ماجدہ کو۔ انہیں بتائےے کہ جو شہزادے یا شہزادیاں کھوپڑیاں سجانے والوں کی صف میں کھڑے ہوتے ہیں انہیں بھی ایک دن جان ہتھیلی پر رکھ کر پیش کرنی ہی پڑتی ہے
حافظ عبداللہ لوگ اتنے بے وقوف نہیں کہ اس بکواس میں آئیں گا۔ لوگ جانتے ہیں کہ کھوپڑیاں سجانے والے کون لوگ ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو کراچی میں ڈیڑھ سو لوگوں کو ماردیتے ہیں اور بالآخر ان ڈیڑھ سو لوگوں کی شہزادی کو بھی۔ لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ درندہ صفت کون ہے۔
لڑنے کی بجائے دعا کریں کہ اللہ محترمہ اور تمام مرحومین کی مغفرت فرمائے۔ اٰمین
مجھے سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ ڈیڑھ سو لوگوں کو مارنے والے تو کھوپڑیا ں سجانے والے ہوئے لیکن ڈیڑھ کڑوڑ لوگوں کو مارنے والوں کا بغل بچہ بننا ہلاکوخان کی یاد ہ تازہ کیوں نہیں کرتا؟
ساجد صاحب ٹھیک فرمایا آپنے ہمیں لڑنا نہیں چاہئے مگر صدمے میں بھی ھقائق کو پامال کرنا عقلمندوں کا شیوہ نہیں ہے!
حافظ عبداللہ صاحب حقائق آپ مسخ کررہے ہییں۔ آپ وحشی درندوں کی حمایت کررہے ہیں جو اپنے ہم مذہبوں اور ہم وطنوں پر حملہ کرتے ہیں۔ میں اسوقت ٹی وی دیکھ رہا ہوں جس پر بیت اللہ محسود اور ایک دہشت گرد مولوی کی گفتگو سنائی جارہی ہے جس میں دہشت گرد ملا جاہل کمانڈر کو بتا رہا ہے کہ بلال اور حمید نے اسے ماردیا۔ اور وہ سبحان اللہ ماشاءاللہ کہہ کر ایک دوسرے کو مبارکباد دے رہے ہیں۔
آپ کو شرم نہیں آتی کہ آپ کھلے عام درندوں کی حمایت کررہے ہیں جن کی وجہ سے ملک ایک لیڈر سے اور بچے اپنی ماں سے محروم ہوگئے۔
نعمان کن سے بحث کر رہے ہو؟ دولا شاہوں کی نمائندہ سوچ سے
آج کراچی سے خیبر تک ماتم کناں قوم خود جواب ہے ان ہلاکو خانوں کے لیے!
کیا یزید کے چیلے مزید ثبوت چاھتے ہیں کہ انہوں نے کیا اندھیر کر دیا ہے اور مظلوم کون ہے؟
قبائلی دھشت گرد جنہوں نے ہمیں پچاس سال پرانے لیاقت باغ میں دھکیل دیا یا
یہ نڈر خاتون جس سے سیاسی اختلاف تو کسی کو بھی ہوسکتا تھا مگر جس کی بہادری کی اب دنیا قائل ہوگئی ہے۔
اب تو ان عقل کے اندھوں کو ہوش کے ناخن لینا چاہییں۔
نعمان بلاشبہ یہ صدمہ بہت ہی شدید ہے۔
مجھے محترمہ کی موت پر صدمہ ہے ! یہ ایک فطری بات ہے ۔ لیکن جنہوں نے یہ بزدلانہ حرکت کی ہے انہوں نے صرف محترمہ کی جان نہیں لی بلکہ اور بھی 20 لوگ ساتھ مرے ہیں ۔ اگر بحیثیت انسان دیکھا جائے تو سب کی جان قیمتی ہے ؛ سب کے گھر لٹے ہیں ؛ سب کے بچے یتیم ہوئے ہیں صرف محترمہ کے نہیں ! ہمیں سب پر دکھی ہونا چاہیئے ۔ مجھے نہیں معلوم کہ محترمہ کو مارنے والا کوئی “قبائیلی دہشت گرد“ یا پنجابی ، بلوچی ، سندھی دہشت گرد کیوں اب تک کوئی ثبوت نہیں ملے اور اس کی ذمہ داری ویسے القاعدہ نے قبول کرلی ہے ۔ لیکن خدا کے لئے کسی ایک شخص کی غلطی کے لئے پورے قوم کو مورد الزام مت ٹھہرائیں ؛ آپ کبھی وزیرستان ، باجوڑ اور سوات جاکر دیکھیں کہ ادھر لوگوں پر کیا گزر رہی ہے ۔ ہمیں گالی مت دیں اپنے لوگوں کے کرتوت بھی دیکھیں جنہوں نے عورتوں بچوں بوڑھوں اور بے گناہوں کو بھی مارا ہے ۔ آخر ان کا کیا قصور ہے ہمیں ہر بے قصور اور بے گناہ کے قتل پر افسوس کرنا چاہیئے اور اس کی مذمت کرنی چاہیئے ۔ اللہ بے نظیر کی مغفرت نصیب کرے انہیں جنت الفردوس میں جگہ دے اور ان کے بچوں اور خاندان کو یہ صدمہ برداشت کرنے کی ہمت دے ۔ آمین
لیکن خدا کے لئے کسی ایک شخص کی غلطی کے لئے پورے قوم کو مورد الزام مت ٹھہرائیں ؛
اس جملے کو یوں پڑھیں :
لیکن خدا کے لئے کسی ایک شخص کے جرم یا ظلم کی وجہ سے پورے قوم کو مورد الزام مت ٹھہرائیں ؛
وقار معصوم لوگوں کا قتل جائز نہیں۔ کسی صورت نہیں۔ لیکن پاکستان پر عوام کے منتخب کردہ نمائندہ کی حکومت ہونی چاہئے۔ نہ دہشت گردوں کا نام نہاد اسلامی جھنڈا ہونا چاہئے اور نہ فوجی بندوق کی نوک۔ فوج کو بھی سیاست چھوڑنا ہوگی اور اسلامی انتہاپسندوں کو بھی اپنی دکانیں بند کرنا ہونگی۔ اور اس کے لئے بےنظیر سے بہتر آپشن اس ملک کے پاس نہیں تھا۔ لحاظہ اسلامی انتہاپسندوں اور پاکستانی اسٹیبلیشمنٹ دونوں کے لئے ضروری تھا کہ وہ اپنی دکانیں چمکائے رکھنے کے لئے اور امریکہ سے دہشت گردی کے نام پر رقوم وصول کرتے رہنے کے لئے اس کانٹے کو نکال دیں۔
شمالی علاقوں کے عوام کا مستقبل اب جتنا غیر یقینی ہوگیا ہے اتنا ستائیس دسمبر سے پہلے نہ تھا۔
مولوٰیوں کو انتہا پسند کہنے والوں کو نعمان صاحب کے ارشادات کا مطالعہ کرنا چاہئے اور یقین کرلینا چاہئے کہ:-
1-بینظیر ڈیل کے تحت پاکستان نہیں آئیں تھیں وہ مغربی طاقتوں کی ہرگ ز ہرگز آلہ کار نہیں تھیں۔
2-انہیں جان لینا چاہئے کہ امریکہ بالکل بھی ظالم نہیں ہے، عراق، افغانستان فلسطین اور کشمیر کے مظلوم بچے شوق شہادت میں مر رہے ہیں، اور بے چارے ہیرو شیما والے تو غلطی سے ایٹم بم کا شکار ہوگئے تھے، اور بینظیر صاحبہ اسی مہذب امن پسند امریکہ کے لئے وہ کچھ کرنے کا وعدہ نہیں کر رہی تھیں جو میڈیا میں آتارہا ہے، در اصل پوری دنیا کا میڈیا انکی طرف غلط بیانات منسوب کر رہا تھا۔
3-یہ بھی جان لینا چاہئے کہ پیپلز پارٹی ایک امن پسند جماعت ہے، الذوالفقار سے اسکا کوئی واسطہ نہیں ہے اور وہ مزدور دوست ہیں نہ کہ وڈیرے اور جاگیردار جو مزدوروں کے لئے سرے محل بناتے پھریں۔ وہ عسکریت پسندی کے خلاف ہیں مگر ووٹ کے لئے یہ بھی کہ سکتے ہیں جو لیاقت باغ جیسے جلسوں میں کہا گیا کہ میں نے ملک کو میزائل ٹیکنالوجی دی اور بڑے بھٹو صاحب نے ایٹم بم دیا، اور نعمان صاحب جیسے بزعم خود سول سوسائیٹی کے اینٹی اسلحہ لوگوں کو اس موقع پر بھول جانا چاہئے کہ وہ کس کے ہم نوا ہیں۔
4-یہ بھی جان لینا چاہئے کہ مولوی تو بے وقوف ہیں جنہوں نے لال مسجد کے سانحہ کے بعد احتجاج نہیں کیا بینک نہیں جلائے، لوگوں کو قتل نہیں کیا اپنے ہی ملک کو آگ نہیں لگائی اور بے چاری عوام کا اربوں کھربوں کا نقصان نہیں کیا، وہ جاہل ہیں اور تھے،کم ازکم پیپلزپارٹی کی احتجاجی حکمت عملی سے فائدہ تو اٹھاتے!
5-ساری دنیا کو بھول جانا چاہئے کہ خودکش حملے کیوں ہوتے ہیں؟ فوجیوں کے اندر کھاتے تلوے کیوں چاٹے جاتے ہیں؟
فوجیوں کی ظالمانہ کارروائیوں میں انکی ہمنوائی کا ڈھنڈورا کیوں پیٹا جاتا؟
انہیں صرف یہ یاد رکھنا چاہئے کہ مولوی جاہل ہیں،اور دنیا میں فساد کی جڑ مولوی ہی ہیں،مولویوں کو ختم کردو امن ہوجائےگا۔کیونکہ انڈیا کا امن تامل ٹائیگرز کے مولانا غارت کر رہے ہیں، کردوں کا حشر ترکی کے ملا کر رہے ہیں،ہسپانیہ میں علم بغاوت مولانا ہی بلندکر رہے ہیں؟ بلوچستان میں جلاو گھیراو میں مولانا اکبر بگٹی فاضل جامعہ آکسفورڈیہ کے ہمنوا ہی شامل ہیں؟
اور کیا کیا بتائوں بس دنیا جہاں میں فتنہ یہ مولوی ہی ہیں۔
تمہارا وہی نظریہ ہونا چاہئے جو بش کا ہے، جسے لارا بش کی پریگننسی کی اطلاع دی گئ تو بوکھلائے ہوئے بش نے کہا کہ لگتا ہے اس میں بھی اسامہ کا ہاتھ ہے؟
خبردارہ اپنی قائدہ بے نظیر کی بات ہرگز تسلیم نہ کرنا کہ مجھے کون قتل کرارہا ہے؟ ہمیں تو بس اس بات پر یقین کرنا چاہئے جو حکومت کہ رہی ہے کہ بیت اللہ محسود نے مارا ہے۔
اور سوری نعمان صاحب نہ میں کسی کی حمایت کر رہا ہوں ن مخالفت، میں تو وہ سچ اگل رہا ہوں جو آپ نگلنا نہیں چاہ رہے ہیں، اور اگر آپ نے تاریخ کا مطالعہ کیا ہو تو امریکہ کے مظالم کا عشر عشیر بھی نہیں یہ خود کش حملہ جسکی حمایت آپکی آنجہانی قائدہ کھلے عام کرتی تھیں، پھر کاہے کی شرم؟
قبائلی دھشت گرد جنہوں نے ہمیں پچاس سال پرانے لیاقت باغ میں دھکیل دیا
مجھے یقین ہے یہ بیان آپ نے جذبات سے مغلوب ہو کر لکھا۔ اور مجھے یہ بھی یقین ہے کہ سرکاری پروپیگنڈا پر آنکھ بند کر کے یقین نہیں کرتے ہونگے۔ اگر یہ بات ثابت ہو جائے تو آپ حق بجانب ہیں ایسا کہنے میں۔
رضوان صاحب آنجناب کی سوچ عالیہ آپکی گفتگوئے ممالیہ سے خوب عیاں ہورہی ہے۔
میں ذاتی نوعیت کے رکیک حملہ آوروں سے بات کرنا پسند نہیں کرتا ہوں، مجھے صرف نظریاتی موضوعات پر سود حاصل بحث سے دلچسپی ہے، لیکن آپکی بات کا جواب اس لئے دے رہا ہوں کے آپکی رائےنہصرف آپکے نظریے کی طرح درآمد شدہ ہے بلکہ آپکی سوچ بھی کم سے کم الفاظ میں حماقت زدہ ہے،
میری سب بلاگروں سے استدعا ہے کہ اپنا مشن بھڑاس نکالنے کی بجائے معاملہ فہمی کو بنائیں، تاکہ تاریخ کم ازکم مولویوں کی بجائے بلاگروں کو ہی مہذب شمار کرلے
نعمان
میرے خیال میں بے نظیر مرحومہ ان حالات میں بہتر آپشن نہیں تھیں ہاں آپ اسے best possible کہہ سکتے ہیں کیونکہ پاکستان کے بچارے عوام کو زیادہ آپشن ہی نہیں دیئے جاتے ۔
دوسری بات ہم تو آپ کے ساتھ متفق ہیں کہ اس ملک نہ تو فوج کی حکومت ہونی چاہیئے اور نہ انتہاپسند مولویوں کی ۔ لیکن آپ لوگ سارے پختونوں کو یا سرحد و بلوچستان میں رہنے والے لوگ کو انتہاپسند کہہ رہے ہیں کیونکہ آپ نے رضوان کی بات کی مخالفت نہیں کی ۔ انتہاپسندی اور دہشت گردی کے سب سے بڑے ہدف ہم ہیں ؛ ہمیں زیادہ نقصان اٹھانا پڑرہا ہے اور لوگ ہمیں گالیاں بھی دیتے ہیں ۔ یہ کہاں کا انصاف ہے ۔ ہم (سارے پختون یا سرحد کے عوام) پہلے اسلامی دہشت گرد تھے اور اب ماشائ اللہ قبائیلی دہشت گرد بن گئے ہیں ۔ بعید نہیں کہ کل کو ہم پختون اور بلوچ دہشت گرد کی اصطلاح بھی سن لیں !!
اگر آپ کو اس سے اختلاف ہے تو لکھ دیں !!
رضوان مذہبی لبادہ اوڑھے ان لوگوں کی بات کررہے ہیں جو ۔۔۔ لیکن خیر چھوڑئے۔ پھر آپ کہیں گے کہ قبائلیوں اور مولویوں کو دہشت گرد کہا جارہا ہے۔
عراق میں اتنے مسلمان امریکی بموں سے نہیں مرے جتنے ان لوگوں نے آپس میں لڑ کر ماردئے ہیں۔
اگر کبھی کہیں ایسا ہو کہ امریکہ اور ہمارے ملک کے مفادات ایک ہی ہوں تو کیا ہم صرف اسلئے نقصان کی راہ پر چل پڑیں کہ وہ امریکہ کے خلاف ہے۔
اگر امریکہ زیادہ بڑا ظالم ہے۔ تو کیا ہم چھوٹے ظالموں کو گلے لگالیں۔ اور انہیں اجازت دیں کہ وہ ہمارے ملک کی گلیوں کو خون سے نہلائی
جن فوجیوں پر خودکش حملے ہورہے ہیں کیا وہ پاکستانی مسلمان نہیں ہیں؟
میں بے نظیر کے بارے میں آپ کو وضاحت پیش نہیں کرونگا۔ کیونکہ آپ لوگ یہاں دلائل سننے نہیں آئے بلکہ یہ ثابت کرنے آئے ہیں کہ قبائلیوں نے اگر پاکستانی فوج، عوام اور لیڈروں کے خلاف حملے کرنے کی ٹھانی ہے تو کچھ غلط نہیًں کیا۔ مگر معاف کیجئے چاہے قبائلیوں پر کتنے ہی ظلم ہوئے ہوں وہ مظالم کبھی دہشتگردی کا جواز نہیں ہوسکتے۔
اور اس مشکل صورتحال سے نکلنے کا یہی حال تھا کہ ایک منتخب حکومت اس صورتحال کو سلجھاتی۔ لیکن وہی بات اگر صورتحال سلجھ جاتی تو انتہاپسند مولوی کی دکان کیسے چلتی، امریکہ سے دہشتگردی کے خلاف جنگ کے نام پر ڈالر کیسے بٹورے جاتے۔ اور کیسے ان سے اسلام آباد میں گالف کورس بنوائے جاتے۔
نعمان آپکی والدہ کی بابت پڑھا تو مجھے اپنی والدہ کی وہ حالت یاد آ گئی جو ضیاالحق کی وفات کا سن کر ہوئی تھی، وہ تقریبآ بیہوش ہو گئی تھیں اور ہم سب انتہائی پریشان تھے۔
میری جہاں تک بات ہے تو مجھے اسوقت بھی افسوس ہوا تھا اور اب بھی ہوا ہے، جو بھی ہوا ہے بہت غلط ہوا ہے۔ مرحومہ کی سیاست جیسی بھی تھی وہ اپنی جگہ لیکن یہ کوئی طریقہ نہیں ہے۔ اس کے یقینآ پاکستان پر دوررس اثرات ہوںگے۔ خدا اس وفاق کو سلامت رکھے اور محترمہ کو جنت میں مقام نصیب کرے، آمین۔
اب آپکو شائد میرا نقطہ نظر بھی سمجھ آ رہا ہو۔ میں پہلے ہی دن سے اس الیکشن کے خلاف تھا، کیونکہ بہرحال ہر الیکشن کیلئے چند بہت ہی بنیادی باتوں کا ہونا ضروری ہوتا ہے جو ہمارے موجودہ حالات میں عنقا تھیں۔ ایک غیر جانبدار الیکشن کمیشن اور حکومت، امن و امان، لوگوںکا مجموعی مزاج وغیرہ وہ سب عوامل ہوتے ہیں جو کسی بھی الیکشن کو کامیاب بناتے ہیں اور جمہوریت کو مضبوط کرتے ہیں، وگرنہ تو ہمارے نبی نے بھی ایک مسجد ہو مسمار کرنے کا حکم دیا تھا کہ اس سے فتنہ پھیل رہا تھا۔
موجودہ حالات میں نواز شریف نے سب سے بہتر اور غیر جذباتی بات کی ہے کہ یہ حکومت مستعفی ہو جائے اور تمام پارٹیوںپر مشتمل ایک قومی حکومت قائم کی جائے جو پاکستان کے وفاق کو بچانے کا سامان کرے۔ اسی حکومت کے تحت انتخابات ہوں اور سب مشترکہ طور پر اسکے نتائج قبول کریں۔ یہی بات وہ پہلے بھی کہہ چکے تھے لیکن محترمہ کی جانب سے انکار پر سیاسی مصلحتوں اور اپنی پارٹی دباؤ کا شکار ہو گئے تھے۔
قبائلی علاقہ جات سے متعلق میں آپکے ریمارکس پر احتجاج کرتا ہوں اور آپ سے استدعا کرتا ہوں کہ جذبات کا شکار نہ ہوں اور حق کو حق ہی کہیں۔ باقی آپ خود پڑھے لکھے سمجھدار انسان ہیں۔
فیصل اگر آپ نشاندہی کردیں تو میں وہ حصہ مٹائے دیتا ہوں۔ تاہم آپ سے بھی استدعا کہ ظلم کو ظلم ہی کہیں مظلوموں کا ردعمل نہ کہیں۔
نعمان صاحب لگتا ہے کہ آپ کی معلومات درست نہیں ہیں یا آپ غلط بیانی سے کام لے رہے ہیں
میں پھر دوبارہ سہ بارہ یہی کہونگا کہ امریکا نے صرف عراق کے جتنے بچے مارے ہیں آجتک پوری دنیا میں ہونے والے خود کش دھماکوں یا دوسری کارروائیوں میں اتنے نہیں مرے۔ اور یہ بات تاریخ پر ثبت ہے جسے آپکو بھی اپنے دماغ مبارک پر ثبت کرنا چاہئے۔
قبائیلی علاقوں میں مرنے والے فوجی اگر حقیقی مسلمان ہوتے تو اپنے مسلمان بھائیوں کو کبھی بھی نہ مارتے۔ اور جب وہ انہیں مارتے ہیں تو جواب میں مرتے ہیں۔
منتخب حکومت کی بات ایک ڈھکوسلے کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے بقول پیپلز پارٹی کے مان لیا جائے کہ اگر بھٹو دور حکومت ہی منتخب دور حکومت تھا اس میں کتنوں کو حقوق ملے اور کتنوں سے زیادتی ہوئی؟ اور نہ سہی کسی لائیبریری میں جاکے اس دور کے انصاف کی ایک جھلک اخبارات میں دیکھ لیں اندازہ ہوجائے گا۔ اور یہ منتخب حکومت آپکے نزدیک وہی ہوگی جو آپ جیسوں کی ہو، چاہے پوری دنیا اسلام پسندوں کو ووٹ دے دے وہ جمہوری نہیں ہے، جیساکہ فلسطین میں حماس کے ساتھ ترکیا میں اسلام پسندوں کے ساتھ ہوتا چلا آرہا ہے، منتخب حکومت وہی ہوگی جسے امریکہ بہادر کی طرف سے منتخب ہونے کا شرف حاصل ہو۔ اور یہ مجلس عمل کو بھی تو سرحد میں ووٹ ملے تھے؟ ان سے ہزار ہا اختلاف کے باوجود آزادانہ قانون سازی کے حق سے محروم رکھنے کو نہیں جھٹلایا جا سکتا ہے۔
اور رہا قبائیلیوں یا مولویوں کی مزاحمت کا جواز تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کے فا عتدوا بمثل مااعتدا علیکم، انکے ساتھ ویسا ہی کرنے کا تمہیں حق ہے جیسا انہوں نے تمہارے ساتھ کیا ہے۔
اب یہاں کوئی یہ دلیل نہ دینے لگ جائے کہ اسلام برداشت سکھاتا ہے وغیرہ، اسلام برداشت اور اخلاق کی تعلیم ضرور دیتا ہے جہاں انفرادی معاملہ ہو، یعنی کسی نے کسی ایک کو قتل کردیا دو تو بدلہ لے سکتا ہے لیکن بہتر ہے معاف کردے، مگر جہاں اجتماعی معاملات یا اجتماعی زیادتی کا سامنا ہوتو اسلام حکم دیتا ہے کہ بدلہ لیا جائے۔ وہ کہتا ہے اذن للذین یقاتلون با نہم ظلموا یعنی اجازت ہے ان لوگوں کو قتال کی جن پر ظلم کیا گیا ہے۔ کیونکہ اگر مزاحمت کو جائز قرار نہ دیا جائےنہ تو اسلامی تشخص کی بقا ممکن ہے اور نہ ہی انسانی تمدن کی فلاح۔
اور یہ دنیا کا قانون ہے کے مظلوم قوم کو اپنے دفاع کا کلی حق حاصل ہے، اگر یہ بھی منظور نہیں تو کم ازکم قائد اعظم کی پالیسی ہی اپنا لو کہ قبائیلیوں کو نہیں چھیڑیں گے۔
اور آپ سے بھی گذارش ہے کہ دو رنگی چھوڑ دے یک رنگ ہوجا ایک طرف تو آپ لوگ بلوچستان اور سندھ کو مظلوم سمجھتے ہوئے انکی پرتشدد کارروائیوں سے آنکھیں بھینچ لیتے ہیں دوسری طرف قبائیلی جو حق مزاحمت رکھتے ہوئے یا مولوی جو غلامانہ زندگی کو ٹھوکر مارتے ہوئے ریاستی جبر و تشدد کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن جاتے ہیں انہیں دہشت گرد باور کرتے ہیں۔
اور جو یہ کہتے ہیں کہ سب پارٹیوں کی ایک متفقہ حکومت ہو تو یہ ایک بھونڈا مذاق ہی کہلائے گا، جو ایک میثاق پر پورے نہیں اتر سکتے وہ ایک حکومت کیسے چلاسکتے ہیں، دوسری طرف اسلام یہ بھی کہتا ہے جو عہدے کا خواہش مند ہو اسے عہدہ نہ دیا جائے۔ اور یہ سیاسی بابے اور بابیاں تو بس یہی کہتے پھرتے ہیں کہ ہماری حکومت ہی کامیاب حکومت ہوگی، اور ایوب سے لے کر مشرف تک اس کامیابی کا شکار بے چارے عوام ہی ہوتے چلے آئے ہیں
اس صورت حال کا واحد حل یہی ہے کہ ہر طبقہ زندگی کے سمجھدار لوگوں پر مشتمل ایک مجلس مشاورت بنائی جائے جو ایک مخلص سربراہ کا انتخاب کریں، اس میں کوئی ایسا آدمی نہ ہو جو کرپشن یا کسی دوسرے الزام کا شکار رہا ہو، جسنے قومی دولت لوٹ لوٹ کر رائے ونڈ فارم بنائے ہوں اور غریبوں کے کے کاسے گھوڑوں کو پلائے ہوں۔ چاہے وہ مولوی ہو جسنے ڈیزل کی شمعیں جلائی ہوں یا وہ میراثی ہو جس نے خدا کے لئے جیسے خدا دشمن فلمیں بنائی ہوں۔
اور خدارا مولوی یا اسلام پر بات کرنے سے پہلے کم ازکم ایک مرتبہ پورے قرآن پاک کا مطالعہ کرلیں، تاکہ آپکو پتا تو چلے کہ اسلام وہ نہیں جو انٹرنٹ کی سائیٹس پر آپ تلاش کرتے ہیں،
اسلام کیا ہے اس بارے میں عنقریب میں ایک تحقیقی کام لانچ کرنے والا ہوں اور آپ حضرات سے دعا کی گزارش کرتا ہوں کہ اس کام کو اللہ تعالیٰ پایہ تکمیل تک پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے۔ تاکہ ہمارے سب مسلمان بہن بھائیوں کو پتا تو چلے کہ حقیقت اسلام کیا ہے
میرے خیال میں یہ پوسٹ بےنظیر کے قتل کے بارے میں ہے۔ میںامریکا کی عراق جنگ کی وکالت نہیں کرتا۔
فوج کا الزام ہے کہ اس کی کاروائی شرپسندوں کے خلاف ہے۔ ایسے ہر قبیلے یا گروہ کے خلاف ہے جو طالبانائزیشن کو سپورٹ کرتا ہے اور ریاست کے اندر ریاست کے قیام کی کوشش کرتا ہے۔ میرے خیال میں ایسا کرنا پاکستان کے قانون کے تحت جرم ہے۔ اور پاکستان کا قانون پاکستانی فورسز کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ ایسے افراد کے خلاف کاروائی کریں۔ (یہاں ایسے افراد سے مراد وہ قبائلی نہیں جو بے گناہ اس جنگ کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں)۔ سوال یہ ہے کہ اگر مجرم مسلمان ہیں تو کیا پاکستانی فوجی ان کے خلاف کاروائی سے غیر مسلم ہوجائیں گے؟ یوں تو سب مجرموں کو کھلا چھوڑ دینا چاہئے۔
سب سے پہلا حق لوگوں کا یہ ہے کہ ان کا ملک وہ لوگ سنبھالیں جنہیں وہ ووٹ دیکر منتخب کریں۔ آپ جس آئیڈیل انصاف کے متلاشی ہیں وہ شاید طالبان کے راج کی ان ماروائی فرضی کہانیوں میں ہی پایا جاتا ہے جو آپ لوگوں کی پسندیدہ بیڈٹائم اسٹوریز ہیں۔ جمہوریت کا راستہ کٹھن ہے اور طویل ہے مگر اس کا تسلسل ہی اس کی کامیابی کی امید ہے۔ اب اگر میں بھٹو کے دور میں کی گئی اصلاحات کا ذکر کروں تو صفحے سیاہ ہوجائیں گے۔ بس اتنا عرض کرونگا کہ اس نے وہ آئین پیش کیا جو تمام پاکستانیوں کو ان کے حقوق کی حفاظت کی ضمانت دیتا ہے۔ جس پر تمام پاکستان متفق ہے۔
منتخب حکومتوں کی غلط قانون سازی کو روکنے کے لئے قوانین موجود ہیں۔ مجھے سرحد میں یا پورے پاکستان پر مجلس عمل کی حکومت پر کوئی اعتراض نہیں بشرطیکہ وہ ووٹ سے منتخب ہوکر آئیں اور آئینی راستہ اختیار کریں۔
میں چونکہ سیکولر سوچ رکھتا ہوں اس لئے میرے خیال میں مجھے ان خیالات پر تبصرہ نہیں کرنا چاہئے۔ اور آپ بھی مجھ سے ایسی امید نہ رکھیں کہ میں قرآنی آیات کو بطور دلیل قبول کرونگا۔
پہلے تو قبائلی یہ فیصلہ کریں کہ وہ پاکستانی ہیں یا قبائلی۔ قبائلی اگر ہمارے ملک کو عدم استحکام سے دوچار کرنے والی طالبانائزیشن کو فروغ دے رہے ہوں تو ان کے خلاف ضرور کاروائی ہونی چاہئے کیونکہ ایسا کرکے وہ اپنی قبائلی حدود سے باہر نکل رہے ہیں۔
آپ بھی دو رنگی چھوڑیں ایک طرف تو آپ امریکہ کے مسلمانوں پر حملے کو ظلم قرار دیتے ہیں دوسری طرف طالبانائزڈ قبائل کے پاکستانی مسلمانوں پر حملوں کی وکالت کرتے ہیں۔
پاکستان کے آئین میں حکومت بنانے کا ایک طریقہ کار واضح طور پر درج ہے صرف اسی پر عمل ہونا چاہئے۔ اگر سیاستدان ایک میثاق پر پورے نہیں اترسکتے تو مولوی کونسے مسلکوں کے جھگڑوں سے آزاد ہیں۔ اور اس کرپشن زدہ معاشرے میں آپ فرشتے کہاں سے ڈھونڈیں گے۔ اور اگر ڈھونڈ بھی لیں گے تو یہاں ان کے دامن پر کیچڑ اچھالنے والے کیا کم ہیں۔ منٹوں میں کسی بھی شریف آدمی پر کرپشن سے لیکر زنا تک کے الزامات لگائے جاسکتے ہیں۔
اللہ آپ کو ہر نیک کام میں کامیابی دے۔ میں اسلام پر بات نہیں کرتا انسانوں پر بات کرتا ہوں اور مولوی کو بطور انسان زیربحث لاتا ہوں نہ کہ بطور قرآن کا داعی۔ اور میں قرآن شریف کا ایک بار نہیں کئی بار ترجمے سمیت مطالعہ کرچکا ہوں۔ لیکن میں یہاں کوئی علمیت نہیں بھگار رہا کیونکہ میں قرآن کا مطالعہ روحانی سکون کے لئے کرتا ہوں۔ نہ کہ فتنہ اور شر پھیلانے کے حق میں یا اس کے خلاف دلائل ڈھونڈنے کے لئے۔
نہیں نعمان، کوئی بھی حصہ مٹانے کی ضرورت نہیں، میں صرف یہ عرض کر رہا ہوںکہ اس حادثے کا ذمہ دار قبائلیوں کو نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ خود پیپلز پارٹی نے اسکی تردید کر دی ہے اور حکومت کی بات جھوٹی ہوتی نظر آ رہی ہے۔
اور میں نے اسکو کب مظلوموں کا ردعمل کہا؟ اگر وہ ردعمل کے طور پر کچھ کر سکتے تو خود مشرف سے چھٹکارا حاصل کرتے، نہ کہ بےنظیر مرحومہ سے۔
باقی رہی بات قومی حکومت کی جسکی تضحیک حافظ صاحب نے پہلے ہی کر دی ہے تو میں کیا کہہ سکتا ہوں۔ میری صلاحیتیں تو محدود ہیں اور اسکے باوجود میں “ہونا چاہیے“ جیسی باتیں کرنے کی بجائے ورکیبل سلوشنز پر سوچتا ہوں۔ قومی حکومت بھی ایسا ہی ایک حل ہے۔ حافظ صاحب کی تجویز کردہ ہر طبقے پر مشتمل لوگوں کی مجلسِ مشاورت تو بہترین ہے لیکن حافظ صاحب یہ بھی بتا دیں کہ یہ بنائے گا کون، اسکےلئے پیسے کون دیگا اور وقت کون۔ آپ بسم اللہ کریں تو ہم بھی ساتھ ہیں۔
نعمان آپ ہمارے (میرے ، ساجد اقبال اور فیصل ) کے موقف کو حافظ صاحب کے موقف سے گڈ مڈ کررہے ہیں ، جبکہ مجھے ذاتی طور پر حافظ کے موقف میں کئی نکات سے سخت اختلاف ہے ۔
رضوان نے کہاں “مذہبی لبادہ اوڑھے لوگوں“ کی بات کی ہے یہ تو آپ تشریح کررہے ہیں ، انہوں نے تو صاف قبائیلی دہشت گردوں کا لفظ استعمال کیا تھا ۔ ہم وہی بات کررہے ہیں جو آپ لوگ سارے کہتے جب کوئی مغرب والا مسلمانوں کو دہشت گرد کہتا ہے تو آپ کہتے کہ نہیں سارے مسلمان دہشت گرد اور انتہاپسند نہیں ۔ یہی بات ہم کہہ رہے ہیں کہ سارے پختون ، یا قبائیلی یا بلوچ یا کوئی بھی پسے ہوئے چھوٹے اقوام دہشت گرد نہیں ۔
آپ نے لکھا “لیکن خیر چھوڑئے۔ پھر آپ کہیں گے کہ قبائلیوں اور مولویوں کو دہشت گرد کہا جارہا ہے۔“
آپ کا یہ جملہ میرے موقف کی اور بھی وضاحت کردیتا ہے ، میں درخواست کررہاہوں کہ سارے پختونوں اور قبائیلیوں کو ایک ہی لکڑی سے مت ہانکیں !
نعمان صاحب بات کی تان یہاں آکر ٹوٹ تی ہے کہ ان کا کا نظریہ یہ ہے:-
ٕ میں چونکہ سیکولر سوچ رکھتا ہوں اس لئے میرے خیال میں مجھے ان خیالات پر تبصرہ نہیں کرنا چاہئے۔ اور آپ بھی مجھ سے ایسی امید نہ رکھیں کہ میں قرآنی آیات کو بطور دلیل قبول کرونگا۔ ٕٕ
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ کے نظریات آپ کو اجازت نہیں دیتے کہ قرآن و حدیث کو ذاتی اور اجتماعی زندگی میں حرف آخر تسلیم کریں۔ اور یہ ایسا بھیانک نظریہ ہے جوانسان کے دائرہ اسلام سے اخراج کا واضح سبب ہے۔ رہی بات جمہوریت کی تو اسکے بارے میں اسلام کیا ایک عقلمند انسان بھی اندازہ لگا سکتا ہے کہ یہ عوام کو فریب دینے کا ایک استعماری ڈھونگ ہے۔میں پہلے بھی کہہ آیا ہوں کہ جہاں ماجھے ساجھے اور عقلمند ترین انسان کی قوت فیصلہ اور سمجھ کو برابری کا درجہ دیا جارہا ہو اس نظام سے کیا امید رکھی جاسکتی ہے؟
اور میرا نظریہ یہ ہے کہ:- میرے نزدیک نہ کوئی نظام اور نہ ہی کوئی طرز زندگی قابلِ قبول ہے جو قرآن و حدیث سے متصادم ہو اور نہ ہی کوئی ایسا فلسفہ میری بیاض میں رقم ہوسکتا ہے جو نظریہ اسلام سے میل نہ کھاتا ہو۔
باقی آپ نے ہائی لائیٹس کے ذیل میں جتنے جوابات ارشاد فرمائے ہیں انہیں پڑھکر بس یہی معلوم ہوتا کہ میرا کاں چٹا ہے۔ اور اس بات کا جواب مجھ ناچیز کو چھوڑیئے اگر یونان کے قبرستان بھی اکھیڑ دئے جائیں تو اس مسلک کا جواب دینے سے تمام فلاسفر قاصر ہوجائیں گے۔
لہٰذا اس موضوع پر گفتگو یہاں ختم کی جاتی ہے البتہ جمہوری نظام صحیح ہے یا غلط اس بات پر قابل عمل گفتگو کا موقع موجود ہے، اور اسی طرح اس موضوع پر بھی بات کی جاسکتی ہے کہ اسلام یا کوئی بھی مذہب صرف ذاتیات تک محدود ہوتا ہے ، ہونا چاہئے یا ہر مذہب حقیقتا اجتماعیات کا پیروکار بھی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر کوئی موثر بات کرنا چاہے تو!
لیکن میں کسی موضوع پر اسی صورت میں گفتگو کرنا چاہوں گا جبکہ کوئی سمجھنے سمجھانے کے لئے بات کرنا چاہے، اگر صرف اپنا نظریہ ہی ٹھونسنا ہے، اپنے ہی راگ الاپنے ہیں تو ہماری طرف سے اللہ حافظ !
بھائی فیصل نے فرمایا!
حافظ صاحب کی تجویز کردہ ہر طبقے پر مشتمل لوگوں کی مجلسِ مشاورت تو بہترین ہے لیکن حافظ صاحب یہ بھی بتا دیں کہ یہ بنائے گا کون، اسکےلئے پیسے کون دیگا اور وقت کون۔ آپ بسم اللہ کریں تو ہم بھی ساتھ ہیں۔
میرے بھائی ظاہر ہے ورلڈ بینک یا آئی ایم ایف اسکے لئے وقت کی قیمت تو نہیں دے گا، یا یو ایس ایڈ اور برطانیہ کی محب انسان مالی معاونتیں آپکے شامل حال ہوں گی۔ اسکا واحد حل یہی ہے کہ ہم منتشر مزاجی کو چھوڑ دیں اور خالص اسلامی نظریہ کی پاسداری کرتے ہوئے انسانیت کی فلاح و بہبود کے لئے آگے بڑھیں۔ اپنا وقت اپنا پیسا دیں۔ جہاں میں اپنی ذات کے لئے کچھ کرتا ہوں وہیں دوسروں کے لئے کرنے کا جذبہ دل میں مجزن کرلیں، صرف باتیں بناتے نہ پھریں، خصوصا اس دور میں جس کے بارے میں حدیث شریف میں آیا ہے جسکا مفہوم ہے کہ، انسان دن کو مسلمان ہوگا رات کو کافر، یا رات کو کافر ہوگا دن کو مسلمان۔ ۔۔ کس وجہ سے صرف اپنی زبان اور نظریاتی کجی کی وجہ سے۔۔ جو آپ نے ورک ایبل سلوشنز کی بات کی تو جان لیجئے کہ فطرت کے اصولوں کا نفاذ جتنا آسان ہوتا ہے غیر فطری قوانین پر مھںت اتنی ہی مشکل ہوتی ہے، میں آپکو فطرت کی طرف بلا رہا ہوں آپ مجھے بناوٹ کی گتھیوں میں الجھا رہے ہیں۔میں نے تو بسم اللہ کردی ہوئی ہے اب آپکا انتظار رہے گا۔
باقی روغانی صاحب اگر انسانیت پر وسائل کی تقسیم کی جائے تو بھی پاکستان کی صورتحال آبادی کے لحاظ سے پنجابیوں کو مقدم رکھتی ہے جو دوسروں کو ہرگز منظور نہیں ہوگی اور نہ ہوتی چلی آئی ہے۔ اگر جمہوریت پر چلا جائے تو؟ کس جمہوریت کا اعتبار کریں گے؟ سندھی۔ پختون، بلوچی یا سندھی جمہوریت کا؟ قبائیلی یا شہری جمہوریت کا؟ یا ہر جگہ ایک جمہور پورہ بنانے کا سوچیں گے آپ!
لہٰذا فلاح کا واحد ذریعہ اسلام کا ابدی نظام ہے، جو ہر جگہ کی ضرورت کے مطابق وسائل کی تقسیم پر زور دیتا ہے نہ کہ لوگوں کے کو نعروں میں بچھتا چلا جاتا ہے
آخر میں ایک بات۔۔۔۔ پاکستان میں جمہوریت کے سارے داعی وڈیرے سرمایہ دار اور جاگیردار ہی کیوں ہوتے چلے آئے ہیں؟
سیکولر ازم کے نعرہ گو سب کے سب بیرونی آستانوں کے سجد نشین ہی کیوں ہوتے آئے ہیں؟ کبھی سوچا آپنے؟
سیاست پر موروثیت کا اور سیکولرزم اور لبرلزم پر لادینیت کا کا قبضہ ہر لمحہ رہتا ہے کیوں؟
نفس پرست ،زنا کار، شراب خور ہی صف اول میں کیوں ہوتے ہیں جب اسلام کی بات ہوتی ہے ?why
غور کیجئے گا سب کچھ طشت از بام ہوجائے گا!
ایک بات کی وضاحت رہ گئی کے نعمانصاحب نے جو فرمایا!-
اگر سیاستدان ایک میثاق پر پورے نہیں اترسکتے تو مولوی کونسے مسلکوں کے جھگڑوں سے آزاد ہیں۔ اور اس کرپشن زدہ معاشرے میں آپ فرشتے کہاں سے ڈھونڈیں گے۔ اور اگر ڈھونڈ بھی لیں گے تو یہاں ان کے دامن پر کیچڑ اچھالنے والے کیا کم ہیں۔ منٹوں میں کسی بھی شریف آدمی پر کرپشن سے لیکر زنا تک کے الزامات لگائے جاسکتے ہیں۔
مولویوں نے دستور پاکستان کی تشکیل کے وقت یہ دکھا دیا تھا کہ ہم سب کو ایک ہی اسلام منظور ہے اگر نہیں معلوم تو قراردار مقاصد وغیرہ کی تشکیل میں مولویوں کے کردار کا مطالعہ کیجئے۔ اور اسلام کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم مولوی کو کھلا چھوڑ دیں جو چاہے کرتا پھرے جسے چاہے اسلام کا نام دے جسے چاہے کفر کا؟ مولوی کے لئے سزا بھی دوسرے سے زیادہ ہے۔
2-جہاں تک زنا کے الزام کی بات ہے تو الزام کا ثبوت اسلام کے نزدیک جتنا حساس معاملہ ہے پوری دنیا کے کسی بھی قانون میں ایسی توجہ نہیں پائی جاتی ہے، اور غلط سلط الزام لگانے والوں کو جو حد قذف دی جاتی ہے اور ہمیشہ کے لئے اسے بلیک لسٹڈ کردیا جاتا ہے اس سے کیسے بچا جاسکتا ہے۔
حافظ صاحب مجھے آپ کے نظریے سے اختلاف ہے مگر میں آپ کی رائے کی دل سے قدر کرتا ہوں۔ ابھی اوپر آپ پاکستانی فوجیوں کے مسلمان نہ ہونے پر دلیل کرچکے ہیں۔ اب آپ میرے سیکولر ہونے پر مجھے دائرہ اسلام سے خارج ہوجانے پر ڈرا رہے ہیں:
آپ کو شاید معلوم نہیں لیکن آپ جس نظام کی بات کرتے ہیں اس میں لوگوں کو سب سے بڑا خطرہ یہی ہے۔ کہ آپ کے پیش کردہ نظام میں اختلاف رائے کی کوئی گنجائش نہیں۔
دیگر احباب سے میں سخت معذرت خواہ ہوں کہ انہیں یوں لگا کہ جیسے میں شمالی علاقہ جات میں رہنے والے عوام کو دہشت گرد سمجھتا ہوں جس سے ان کی دلآزاری ہوئی۔ تاہم اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ پاکستان دہشت گردی کا شکار ہے اور اس سے نمٹنے کا راستہ ہمیں سوچنا ہوگا۔
1-نعمان صاحب میں نے پہلے بھی بتایا تھااور اب بھی کہتا ہوں کہ میں نہ کسی کو دائرہ اسلام سے خارج کر سکتا ہوں نہ میرے پاس کوئی ایسی اتھارٹی ہے، میں نے تو اس رد عمل کے واضح کیا ہے جو فوجیوں کے عمل اور آپ کی گفتگو کا انجام کار تھا،
2-آپ کیسے کہ سکتے ہیں کہ اسلام یا اسکے نظام میں اختلاف رائے کی گنجائش نہیں ہے؟ یہاں بھی میں وہ بات دہرائوں گا کہ قرآن کا نہ سہی تاریخ کا مطالعہ کیجئے آپ کو پتہ لگ جائے گا کہ اختلاف رائے اور آزادئ اظہار رائے میں ایک ادنیٰ مسلمان بھی کتنا کچھ آزاد تھا۔ اور آج بھی کسی مولوی نے اس آزادی کو سلب نہیں کیا ہے۔
البتہ وہ اصولی موقف جو قطعی آیات اور احادیث سے ثابت ہے میں ردو بدل یا اپنی مرضی مسلط کرنے کی اسلام ہرگز اجازت نہیں دیتا ہے۔
اس کی مچال یوں سمجئے کہ چار اشخاص جمع ہیں اور سوشل ویلفئر کا کام کرنا چا ہتےہیں اور ایک ہی جگہ کام کرنے کے وسائل انکے پاس موجود ہوں لیکن ایک کہے پنجاب میں کرنا ہے، دوسرا کہے سرحد میں کرنا ہے اور تیسرا کہے سندھ میں کرنا اور چوتھا کہے بلوچستان میں کرنا ہے تو کام کو پایہ تکمیل تک پہنچانا درکنا اسی کی فزیبلیٹی رپورٹ بھی تیار نہیں ہوسکتی ہے۔ کام کرنے کے لئے سب سے پہلے ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے علاقہ کا چناو کرنا ہوگا تب ہی بات آگے بڑھے گی۔
اور اسلامی اصولوں کو اپنا نے کا جو واویلا ہم کرتے ہیں وہ اسی ضرورت کو منتخب کرنے کے لئے وضع کئے گئے اصول ہیں کہ کس کے لئے کیا چیز فائدہ مند ہے اور کن خطوط پر چل کر فلاح پائی جاسکتی ہے، کیونکہ ہر اللہ کو ماننے والا اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ وہ اپنی مخلوق کی ضروریات سے مخلوق کی نسبت زیادہ بہتر جاننے والا ہے۔ اور دنیا کابھی قانون ہے کہ جس کی جو ایجاد ہوتی ہے اسے اپنی ایجاد کے حقائق کا ادراک بہر حال دوسروں سے زیادہ ہوتا ہے۔
اور آخر میں ایک اہم خبر کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت انڈیا کی طرح پاکستان کی بزعم خود سب سے بڑی جمہوری پارٹی کے ولی عہد کا چناو ہوگیا ہے اور جمہوریت کی دلربا گاڑی شاہانہ انداز میں رواں دواں ہوچکی ہے
نعمان
مجھے افسوس ہے کہ میری ذاتی رائے لکھنے پر آپکا بلاگ اکھاڑہ بن گیا اور حق و باطل کی جنگ ہونے لگی لیکن مجھے اپنا تبصرہ لکھنے کا حق حاصل تھا ہاں ایک بات واضح کردوں کہ لفظ قبائلی کو ملا عمر کے پیروکار یا بیت اللّہ محسودی قبائلی پڑھا جائے۔
عام قبائل اور بلوچی پختون برادران کی دلشکنی قطعًا مقصود نہیں تھی اور اس غلطی پر معافی کا خواستگار ہوں ۔
باقی نِٹ جہادیوں کے تبصروں کا جواب آپ خوش اسلوبی سے دے ہی رہے ہیں
رضوان کوئی بات نہیں میرے خیال میں ہم یہاں صرف بات چیت کررہے ہیں۔ بات چیت کرنے سے ہمیں ایکدوسرے کے موقف سے شناسائی ہوتی ہے یہ ہمارے معاشرے کے لئے بہت ضروری ہے کہ لوگ قریب آئیں اور ایک دوسرے سے دل کی بھڑاس نکال لیں بجائے اس کے کہ لوگ بم باندھ کر ایکدوسرے پر کودیں۔
کہتے ہیں رسی جل گئی پر بل نہ گیا۔ رضوان صاحب بیت اللہ محسود یا ملا عمر کی مظلومانہ مدافعت کی تاب نہ لاتے ہوئے حکومت یا امریکہ کے حواریین کا سیخ پا ہوجانا کوئی انہونی نہیں ہے۔ اورسامراجیت کے کے چہچمہ گیروں کی دنیا میں کمی بھی نہیں ہے لہٰذا اس سلسلے میں تو ہمیں آپ سے کوئی گلہ نہیں ہے لیکن یہ بات ہمیں ضرور کھٹکتی ہے کہ دوسروں کی خیر نعمان صاحب کی طرح خوش اسلوبی سے جواب دینے کا تو سلیقہ سیکھ لیجئے۔ آپ جیسے لوگوں کے انتہاپسندانہ خیالات و گفتگو کی اشاعت کی وجہ سے آج بلاگستان تعمیری نہج پر چلنے کی بجائے اکھاڑے بنے ہوئے ہیں۔ اسلئے براہ کرم اس روش کو بل ڈالئے تاک ایک خوشنما مستقبل کے قیام اور انسانی فلاح و بہبود کے منصوبوں کی تکیل میں مدد مل سکے۔
باقی نعمان صاحب کے بارے میں میری یہ رائے ہے کہ انہیں اپنے خیالات کے تفاوت کے باوجود فی الحال تک میں نے سلیم الفطرت پایاہے
اورسامراجیت کے کے چہچمہ گیروں کو سامراجیت کے چمچہ گیروں پڑھا جائے
حافظ صاحب شکریہ لیکن پچھلے دنوں کے حالات کو مدنظر رکھیں تو جذبات میں ہم سب سخت الفاظ استعمال کرجاتے ہیں۔ رضوان بہت اچھے آدمی ہیں اور سامراجیت کے خلاف نعرے لگانے والوں کی پہلی کھیپ سے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ کیا ہم ایک دوسرے کا موقف سن اور سمجھ رہے ہیں؟
مگر معاف کیجئے چاہے قبائلیوں پر کتنے ہی ظلم ہوئے ہوں وہ مظالم کبھی دہشتگردی کا جواز نہیں ہوسکتے۔
میں اپنے اس موقف پر قائم رہوں گا ساجد۔ ظلم کا جواب ظلم نہیں انصاف ہوتا ہے۔ قبائلیوں کو انصاف کیلئے جدوجہد کرنا ہوگی جو کہ باقی پاکستان کررہا ہے۔
مظلومانہ مدافعت؟ میرے شہر میں ایک گاؤں جانے والی پک اپ کہ جسمیں غریب دیہاتی سوار تھے، خودکش بم کا نشانہ بن گئی۔ یہ صرف ایک واقعہ ہے۔
انڈس ہائے وے پر کوہاٹ کے قریب خود کو طالبان کہنے والے لوگوںکی قمیضیں اتار اتار کر دیکھ رہے ہیں کہ اہل تشیع کو الگ کر کے مارا جا سکے۔
حافظ صاحب، ہوش میں آئیے اور ظالم کو ظالم ہی کہیے، مظلوم نہیں۔ نہ جانے وہ طالبان کہاں غائب ہو گئے جو واقعی طالبان تھے، اب تو طالبان کے حلیوں میں مشرف کی بی ٹیم ہے۔ آپ کون سی دنیا میں رہ رہے ہیں؟
رضوان صاحب کی ہر بات انتہا پسندانہ گفتگو کا ایک دروازہ کھولتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ دیکھا جائے تو جہاں تک بات ہے پک اپ کے نشانہ بن جانے کی تو سردست ہم اسکی تفصیل سے آگاہ نہیں ہیں، اور نہ مکمل طور پر رجوان صاحب کی سٹیٹمنٹ پر کلی یقین رکھنے کا سوچ سکتے ہیں اس لئے کہ وہ اکثر معاملات میں ایکسٹریم ازم دکھا چکے ہیں، اور باتون کا بتنگڑ بنا چکے ہیں۔اگر ایسا ہوا ہے تو ہمارا مشورہ طالبان کو یہی ہے کہ مظلومانہ مدافعت کے دوران بھی احتیاط کا دامن انکو ہرگز ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہئے۔ لیکن جہاں تک شیعہ والی بات کی تو اس پر اچھی خاصی گفتگو کی جاسکتی ہے، لیکن خلاصتا میں یہی کہونگا کہ میرا تعلق پاکستان کے ایک ایسے علاقے سے ہے جہاں پورے پاکستان سے زیادہ شیعوں کی تعداد پائی جاتی ہے اور میں ان حضرات کے اہل سنت سے حسن و سلوک سے بھی بخوبی آگاہ ہوں، اور میں ایسے شیعوں سے بھی بخوبی آگاہ ہو ں جو شوق شہادت میں وزیرستان کی پوسٹنگ چاہتے پھرتے ہیں اور ایسی کمیونٹیز سے بھی آگاہ ہوں جہاں دن رات ظلم پسندوں کی ماتم کدائی ہوتی ہوتی ہے، اور ایران میں اہل سنت کے ساتھ کیا کیا ہوا تھا اور ہوتا ہے یہ بھی میریے دل پہ منقش ہے۔لہٰذا لوگوں کے گھروں کو بموں سے اڑانا، خاندانوں کے خاندان اجاڑ دینا اور انکی عفتوں کی پامالی کے عوض جو ملتا ہے ہر ایک کو اس پر صبر کرنا چاہئے چاہے سنی ہو یا شیعہ، لیکن ایک حل ضرور ہے اس بدمزگی سے بچنے کا۔ امن کی طرف لوٹنے کا
ا نسانی تمدن کو مساویانہ سٹیج پر واپس لانے کا کہ دوسروں کے معاملات میں دخل اندازی چھوڑدو۔ سب ٹھیک ہوجائےگا انشا ءاللہ۔۔ اس سے زیادہ خصوصا شیعہ ازم پر بات کرنے کا نہ مجھے شوق ہے نہ ہی وقت۔۔
نعمان صاحب سخت بات اگر دردِ دل لئے ہوئے ہو تو نہیں چبھتی۔ لیکن اگر یہی بات صرف چڑھائی اور میں نہ مانوں کی رٹ لگائے ہوئے ہو تو گفتگو جاری رکھنے سے زیادہ خاموشی ہی ذریعہ نجات ہوتی ہے باقی کسی بھی سخت سست پر معذرتِ تامہ۔۔۔۔
حافظ صاحب براہِ مہربانی اپنا رخ روشن فیصل کی طرف موڑیے میں تو جانے کب سے چُپ بیٹھا ہوں۔
Smile
ویسے اندر سے آپکا کتنا دل کرتا ہے اس موضوّع پر بولنے کا؟ دنیا جہاں کے سارے مسائل شاید ختم ہوگئے ہیں یا اس مسئلے کے حل ہوتے ہی ختم ہوجائیں گے؟
بھائی فیصل آپ ناراض تو نہیں کہ حافظ صاحب نے آپ کے حصے کی نیاز بھی میرے نام کردی ہے؟
اپنی اپنی قسمت ہے رضوان بھائی 🙂
حافظ صاحب یہ پک والی بات فیصل صاحب نے کہی تھی جو اسی علاقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کی بات معتبر بھی ہے اور معتدل بھی۔
آپ کہتے ہیں کہ:
بےنظیر کا قتل جائز کہ وہ امریکہ کی پٹھو تھی۔
پاکستانی فوجیوں کا قتل جائز کیونکہ وہ مسلمانوں کو قتل کرتے ہیں۔
شیعوں کا قتل جائز کیوں کہ وہ ایران میں سنیوں کے ساتھ کچھ کرتے ہیں۔
حافظ صاحب پتہ نہیں آپ کا مذہب اس بارے میں کیا سمجھتا ہے۔ مگر مہذب دنیا میں قتل کے لئے اس قسم کے جواز پییش کرنے والوں کو دہشت گرد، انتہاپسند تو کہا ہی جاتا ہے۔ ساتھ ہی انہیں وحشی سمجھا جاتا ہے جو قرون وسطی کے کسی خیالی معاشرے میں جی رہے ہیں۔ یہ انصاف کا کوئی معیار نہیں کہ فلاں ظالم ہے تو اس کے گروہ پر ظلم کرکے جواب دو۔ اسطرح ہوسکتا ہے کہ ظالم ختم ہوجائیں مگر ظلم ختم نہیں ہوتا۔
کیا میں نے جائز والی بات کی تھی؟
میں تو کہہ رہا ہوں کہ ہر عمل کا ردعمل ہوتا ہے، اور ظاہر ہے وہ ردعمل اس عمل ہی کا نتیجہ ہوتا ہے۔۔اور اوپر والی تمام تحریرات میں آپ حضرات کی جانب سے ہمیشہ ردعمل کو کوسنے دئیے جاتے رہے ہیں اور میں اس رد عمل کو اس عمل کا فطری نتیجہ قرار دے کر اس
نتیجہ کو ثابت کرتا رہا ہوں؟ اور دنیا کی کسی بھی عدالت میں سوائے انسانی حقوق کی چیمپینز کی عدالتوں کے چاہے وہ اسلامی ہوں یا غیر اسلامی اس عمل اور رد عمل کا موازنہ کیا جائے تو
ابھی بھی عمل کا پلڑا رد عمل سے بھاری ہی نکلےگا اور کوئی منصف ایک پسی ہوئی قوم کو اپنے حقوق کی جنگ میں مورد الزام نہیں ٹھہرا سکے گا کیونکہ ساری دنیا ان پر چڑھ دوڑی ہے اور انکے پاس اضطراری مدافعت کے سوا کوئی چارہ کار نہیں ہے۔
چلو ہم مان لیتے ہیں انہیں؟ قتل کے جواب میں قتل نہیں کرنا چاہئے؟ تو کیا انکے کرنے کے لئے کچھ رہ گیا ہے؟ پوری دنیا کے سامنے بی باون اور کروز میزائیلوں کے ذریعے بستیوں کی بستیاں اجاڑ دی گئیں؟ کسی صاحب قوت نے انکے حق میں آواز بلند کی؟ آپ میں سے کتنے انسانیت پسند انکے لئے میدان میں آئے؟
باقی رہی بات قتل و غارت کو مشغلہ بنانے کی آج سے پہلے ہم سے خالص مسلمان تھے یہ لڑائیاں یہ شیعہ سنی فسادات کیوں نہیں ہوتے تھے؟صرف اس وجہ سے کہ خصوصا طبقہ شیعہ کی طرف سے ظلم کا بازار گرم کیا گیا۔۔ شاید آپ نے برصغیر کی تا ریخ کا مطالعہ کیا ہو۔
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نامی ایک نامی گرامی شخصیت تھیں۔۔ اسی شیعہ کمیونٹی کے کرتے دھرتوں نے انکے ہاتھ بازووں سے نکلوا دئے۔ انکی اولاد کو در بدر کیا، علاقہ بدر کرتے ہوئے تپتی ہوئی دھوپ میں انکے بیٹے شاہ عبد العزیز رحمہ اللہ کو سینکڑوں میل کا سفر پیدل کرایاگیا جس سے انکی بینائی جاتی رہی۔۔ یہ وہی خاندان ہے جس نے برصغیر میں سب سے پہلے قرآن کے فارسی اور اردو میں تراجم متعارف کرائے۔ اسی خاندان نے مرہٹوں اور انگریزوں کے ظکلم سے نجات کے لئے تحریکیں چلائیں اور جانیں دیں؟
دوسری طرف ایرانمیں خمینی انقلاب کے بعد تو اہل سنت کا وہ جنازہ نکالا گیا کہ الامان و الحفیظ، دور دور تو دور پاکستان میں اندروں پنجاب شیعہ وڈیرے اہل سنت و الجماعت کے بچوں کو پولیس کی مدد سے اپنے ڈیروں پر لا لا کے قتل کرتے رہے؟۔۔ ایسے مظالم سے پردہ ہٹایا جائے تو داستانیں بھری پڑی ہیں۔۔
میرے کہنے کا مطلب ہے عمل نے رد عمل پیدا کیا ظلم نے مدافعت کے اندھے دروازے کھولے؟ کیا کوئی پاگل ہے وہ بلاوجہ خود کش حملہ کرتا پھرے؟ یا کسی کو کسی پاگل کتے نے کاٹا ہے جو اپنا گھر بار سردار لٹاتا پھرے؟ بھائی مظلوم جب پستا ہے تو جو اسکے بس میں آتا ہے کر گذرتا ہے؟ آپ ہی بتائیے اللہ نہ کرے ہم میں سے کسی کے گھر میں ڈاکو لٹیرے گھس آئیں اور ہماری کسی بہن کی، ماں کی عزت پر حملہ آور ہوں تو جواب میں انہیں انسانی حقوق سمجھائیں گے یا؟ صبر کے جام بھرتے رہیں گے یا وہ کچھ کر گذریں گے جو بس میں ہوا؟۔۔۔۔ یہی جواب ہے میرا مظلوموں کے حق میں۔۔۔۔
میں نے پہلےکہاتھا فیصل صاحب کی گفتگو سے انتہا پسندانہ گفتگو کا دروازہ کھلتا اور اب بھی کہوں گا کہ ایسی گفتگو سے پرہیز کیا جائے میں نہیں چاہتا کہ آپکا یہ بلاگ فرقہ واریت کی نذر ہوجائے۔ والسلام
یار میں اس پر نہیں بولنا چاہتا لیکن اگر کوئی بولے تو خاموش رہنا بھی میرے بس میں نہیں ہے۔۔ چلئے گفتگو کا رخ تبدیل کرتے ہیں ،فیصل صاحب کی ایک بات نے میرے دل کے تار چھیڑ دئے ہیں اور مجھے وہ کچھ سوچنے پر مجبور کردیا ہے جس کے عدم کی وجہ سے فیصل صاحب کو سوچ کو وجود آیا۔ وہ ہے ورک ایبل سلوشنز پر بات، میری نعمان صاحب سے گذارش ہے کہ اس پر ایک نیا بلاگ شروع کریں جس میں تمام لوگ اس پر بات کریں کہ ابتداء اپنے اپنے حلقوں میں کس نہج پر کام شروع کیا جائے کہ اسکا فائدہ عام شہری کو براہ راست پہنچ سکے، کیونکہ صرف اسمبلیوں یا بیرونی امدادوں پر نظر رکھنے سے مسائل کبھی بھی ختم نہیں ہوسکتے، ہمیں خود سے کچھ کرکے دکھانا ہوگا۔ کیونکہ انسان کی مادی ضروریات کا بہتر طریقے پر انتظام ہر کس و ناکس کا بنیادی حق ہے اور اس حق کو حق دار تک پہنچانے کے لئے جدوجہد ہمارا فرض ہے، اسلام بھی یہی سکھاتا ہے اور عقل سلیم بھی اس بات کا تقاضا کرتی ہے۔
اگر عوام باشعور ہوجائے تو کوئی انکو لوٹ نہیں سکتا، الیکشنوں یا سلیکشنوں میں بے وقوف نہیں بنا سکتا، ہمیں اس شعور کی بیداری کے لئے تن من دھن قربان کرنا ہوگا، آئیے ملکر اس مقدس مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں ایک دوسرے کی بے لوث معاونت کریں۔