دکان پر آجکل وقت کاٹے نہیں کٹتا۔ سردیوں میں کام کم ہوجاتا ہے اور فضول وقت بہت بچ جاتا ہے۔ اس فضول وقت سے فائدہ اٹھانے کے لئیے لوگ ہماری دکان کا رخ کرتے ہیں، کہ چائے پئیں گے اور گپے ہانکیں گے۔ ایک لڑکا اویس ہے جس سے میں بہت ہی زیادہ تنگ آگیا ہوں۔ اویس کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ وہ جہاں سے گزرتا ہے لوگ سب کچھ چھوڑ چھاڑ اسے دیکھنے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ وہ سمجھتا ہے کہ وہ دنیا کا سب سے اہم شخص ہے اور محلے میں ادھر ادھر ہوٹلوں، فٹ پاتھوں اور ٹھیلوں پر کھڑے لوگ اپنی زندگی کا تمام وقت اویس کو دیکھنے اور اس کے بارے میں سوچنے پر ہی صرف کرتے ہیں۔
اسے ہر وقت یہ احساس رہتا ہے کہ وہ کیسا لگ رہا ہے اور لوگ اس کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں۔ چونکہ وہ یہ سمجھتا ہے کہ لوگ اپنا قیمتی وقت اس کے بارے میں سوچ کر ضائع کرتے ہیں اسلئیے وہ یہ بھی سمجھتا ہے کہ اسے اپنا فضول وقت لوگوں کے بارے میں سوچ کر اور ان پر تبصرے کرتے ہوئے کارآمد بنانا چاہئیے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی شریف اور غریب آدمی سڑک پر جارہا ہے اور اس کی چپل یا جوتا پھٹا ہوا ہے تو نہ صرف اویس بآواز بلند اس کے جوتے کی طرف میری توجہ دلائے گا بلکہ انگلی سے اس کی سمت اشارہ بھی کرے گا۔ یا اگر اویس کا کوئی دوست (اویس کے تمام دوست سابق دوست اور موجودہ دشمن ہوتے ہیں کیونکہ اسکی حرکتوں کی وجہ سے ہر شخص اسے جلد بھگادیتا ہے) کہیں جارہا ہو تو وہ کہے گا۔ "دیکھ ذرا اس کی شکل دیکھ روز نائی کے ہاں بیٹھا فیشل کرا رہا ہوتا ہے توبہ اللہ معاف کرے کیسی پھٹکار برس رہی ہے”۔
اویس کے لطیفے بھی اتنے خطرناک ہوتے ہیں کہ کمزور دل حضرات کو ڈاکٹر اویس سے دور رہنے کا مشورہ دیتے ہیں کہ کہیں مبادا ہنسی کے مارے ان کا دم ہی نہ نکل جائے۔ جیسے ایک دن وہ دکان پر آیا تو میں اسے بتانے لگا کہ کچھ دیر پہلے اس کے ابو دکان پر آئے تھے اور بوتل پی کر گئے ہیں۔ وہ پتہ نہیں کیا سمجھا پوچھنے لگا ‘کون آیا تھا؟؟؟’ میں نے جواب دیا ‘تیرے ابو’ تو وہ بے دھیانی میں بولا ‘کونسے ابو؟’ بس اس کا یہ کہنا تھا اور میں کاؤنٹر چھوڑ ہنس ہنس دہرا ہوگیا۔
پرسوں رات کے ساڑھے گیارہ کا وقت تھا۔ وہ دکان آیا ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگا۔ اس کے سامنے میز پر اخبار پڑا تھا وہ بے دھیانی میں وہ اخبار اٹھا کر اسے کبھی تہہ کرتا کبھی اس کا رول بناتا۔ کبھی اخبار کا رول اپنے ہاتھ پر مارتا۔ آدھے گھنٹے تک ہم باتیں کرتے رہے۔ اس دوران وہ مسلسل اخبار کے رول پر اوپر نیچے ہاتھ پھیرتا رہا اور پتہ نہیں کیا کیا کرتا رہا۔ اتنے میں غلام فرید نے اس سے کہا یار ذرا اخبار تو دکھا وہ کہنے لگا نہیں میں پڑھ رہا ہوں۔ غلام فرید بولا ایک گھنٹے سے تو تم لوگ باتیں کررہے ہو اور تو مسلسل اخبار پر ہاتھ چلا رہا ہے۔ ابے چھوڑ دے اتنا ہاتھ نہیں چلا اخبار میں سے کچھ نکل گیا تو کپڑے ناپاک ہوجائیں گے۔
بس پھر کیا تھا وہ قہقہے پڑے دکان میں کہ اویس کو بھاگتے ہی بن پڑی۔ کل اویس سارا دن نہیں آیا لگتا ہے اس نے ہمارے مذاق کا برا مان لیا۔
یار یہ جو آخری والا لطیفہ ہے نا توبہ توبہ ۔ ادھر کٹ لگا دیں گے سب آپ کی ؛)
ايكـ بات بات ەے نعمان صاحب بات كر جانے كا فن آتا ەے آپ كو!ـ
ميرى سوچ ەے ذره مردانه سى اس لئے آپ كے اخرى والے لطيفے پر محهے تو كوئى اعتراض نەيں ـ مگر ميں نے ايسى باتوں كو لكهنے كے لئے عليحده بلاگ بنا ركها ەے ـ
بالغوں كے لطيفے كے نام سےجسے
يەاں كلكـ كركے
ديكهـ سكتے ەيں
بحر حال آپ لكهتے رەيں اسى كو ادبى تحرير كەتے هيں ـ دوسرى ذبانوں ميں تو ايسى باتيں عام ەيں ـ
مگر پاكستانى معاشره ذره كچهـ ذياده ەى نابالغ ەے اس لئے بالغوں والى تحرير پر يەاں طوفان اٹها ديے جاتے هيں
توبہ ہے بھائی!۔
خیر اویس اپنے آپ کو سمجھتا تو صحیح ہی ہے، تبھی تو اتنی لمبی پوسٹ اس پر لکھی گئی ۔۔۔ قابل تو ہوا نا
قدیر دیکھ لو کسی نے برا نہیں منایا حتی کہ اویس نے بھی آج وہ دکان پر آیا تھا اور اس کے غائب رہنے کی وجہ کچھ اور تھی۔ خاور بھائی میں نے آپ کا وہ والا بلاگ دیکھا ہے۔
اسماء بہن آپ نے ٹھیک کہا اویس ٹھیک سمجھتا ہے مگر میں تو اس کا دوست ہوں اس کی فکر کرتا ہوں مگر وہ بہت اوور ہوجاتا ہے کبھی کبھی۔
معاشاؑ اللہ
Yeah baby!!!
ok i really thought that you were a decent guy but some of your jokes r DISCUSTING….