جب میں اپنے بلاگ پر محترمہ کے ایک انٹرویو کے بارے میں لکھ رہا تھا تو مجھے معلوم نہیں تھا کہ دن اتنی جلدی آجائے گا۔ مگر نیا شہزادہ آگیا ہے۔ ایک اور بھٹو میدان سیاست میں اتر چکا ہے۔
بلاول بھٹو زرداری نے اپنے مختصر سے خطاب میں کہا کہ وہ پارٹی کی مرکزی مجلس عاملہ کے ممبران کے شکرگزار ہیں کہ جنہوں نے انہیں بطور چئیرمین نامزد کیا۔ وہ پیپلزپارٹی کے تمام چئیرپرسنز کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے جمہوریت اور وفاق پاکستان کی مضبوطی اور سلامتی کے لئے کام کریں گے۔ آخر میں انہوں نے جذبات سے مغلوب آواز میں کہا کہ ان کی والدہ ہمیشہ کہا کرتی تھیں، جمہوریت بہترین انتقام ہے۔
بہر حال یہ بھٹو نہیں ہے!!!
بات اگر وراثت کی ہے تو جونیئربھٹو اگر جمہوریت کی ہے تو وصیت کے بجائے پاڑٹی فیصلہ کرتی!!!
موجودہ حالات میں یہی ایک بہتر فیصلہ ہے، پیپلز پارٹی جن لوگوں کی ہے ان کی سوچ کے مطابق فیصلہ ہونا چاہیے تھا اور شاید یہی سامنے رکھ کر فیصلہ کیا گیا ہے۔
میں اس طرح کے فیصلوں کے بالکل حق میں نہیں ہوں، لیکن میںپیپلز پارٹی کا ورکر بھی نہیں ، شائد یہ فیصلہ پارٹی کو ٹوٹنے سے بچانے کے لئے کیا گیا ہے ۔ بات اگر وراثت کی ہو تو میرے خیال میں بھٹو خاندان میں سب سے اہل فاطمہ بھٹو ہیں جنہوں نے اپنے زور پر اپنے آپ کو منوایا ہے ۔
شعیب یہ فیصلہ پارٹی نے ہی کیا ہے۔جیسا کہ رضوان نے کہا ہے کہ یہ فیصلہ پارٹی کے کارکنوں کی منشاء کے عین مطابق ہے۔ یہ بات تو طے ہے کہ بلاول ابھی نہ اتنا باصلاحیت ہے اور نہ ہی تجربہ کار کہ پارٹی کے لئے کچھ کرسکے۔ تاہم اس سے پیپلزپارٹی کے کارکن کو ایک اعتماد حاصل ہوگا۔ بھٹو جونئیر ذولفقار علی بھٹو کی املاک و جائیداد میں تو وراثت کا حق جماسکتے ہیں مگر پیپلزپارٹی پر یقینا بے نظیر کے بچوں کا زیادہ حق ہے۔ ایسا میرا خیال نہیں بلکہ پیپلزپارٹی کے کارکنوں کا ماننا ہے۔ یہ ایسا ہے جیسا روتے ہوئے بچوں کو کوئی کھلونا یا ٹافی دے کر بہلادیا جائ فی الحال میدان سیاست میں بلاول کی کوئی خاص اہمیت نہیں۔
جہانزیب میں اس بات سے اتفاق نہیں کرتا کہ فاطمہ بھٹو پیپلز پارٹی کی قیادت کرنے کی اہلیت رکھتی ہیں۔ آپ ایسا کیوں سمجھتے ہیں؟
یہ فیصلہ شارٹ ٹرم کو مد نظر رکھ کر کیا گیا ہے۔ ایک 19 سالہ لڑکے کو چیرمین بنانا ایک مذاق سے زیادہ کچھ نہیں۔
محض جذباتیت۔ اگر پیپلز پارٹی کو اپنا وجود برقرار رکھنا ہے اور دھڑے بازی سے بچنا ہے تو اس صحیح معنوں میں ایک جمبہوری پارٹی بننا چاہیے جہاں ہر دفعہ ایک مخصوص عرصہ میں پارٹی چئیرمین کے انتخاب کیلیے پارٹی ووٹنگ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ بینظیر کے جانے کے بعد لگ رہا ہے کہ پی پی پی میں قیادت کا کوئی اہل نہیں۔ اگر پارٹی جمبہوری انداز اپنا کر اپنے لیڈروں کو گروم کرتی تو یہ دن نہ دیکھنا پڑتا کہ انیس سالہ بچہ پارٹی چئیرمین بنا دیا گیا۔ یہ تو وہی ملوکیت کا نظام ہے کہ بادشاہ کے مرنے پر نابالغ بچوں کو اگلا بادشاہ نامزد کر دیا جاتا۔
خیر پاکستان میں کونسی پارٹی ہے جو جمبہوری روایات پر عمل کرتی ہے۔ ہماری یہی دعا ہے کہ جو بھی ہمارا حکمران ہو اس خوف خدا ضرور ہو۔
نہیں بھائی آپ سب لوگ غلط کہہ رہے ہیں، نعمان صاحب کی بات ہی درست ہے!
آج اکیسویں صدی ہے یہاں قوانین کو وہی تشریح قابل قبول ہوتی ہے جو من کو بھاجائے۔
اس لئے جمہوریت میں بادشاہت کے پیوند لگائے جارہے ہیں، پہلے شہزادی تھیں اب شہزادہ صاحب آگئے ہیں۔
بلاول بھٹو کو چئرمین بنانے والے پیپلز پارٹی کی بقا کے لئے اسے ضروری قرار دے رہے ہیں مگر یہ کرتے ہوئے انہیں یاد نہیں رہا ہے کہ بلاول ہائوس کے گیٹ پر کارکنان پیپلز پارٹی صنم بھٹو کے حق میں نعرے لگا رہے تھے اور پیپلز پارٹی کی رگوں میں دوڑتاخون سندھی وڈیرے ذو الفقار جونئیر کی خدمت میں دو زانو تعزیتیں بگار رہے تھے۔
لیکن ایک بات مان نے والی ہے کہ دنیاوی معاملات میں فاطمہ بھٹو زیادہ ذہین اور معاملہ فہم ہے بنسبت بلاول کے۔ میں نظریاتی طور پر عورت کی قیادت سے ہرگز متفق نہیں ہوں مگر جہاں صلاحیت کی بات آتی ہے فاطمہ کی تحریریں بہر حال اسکی بھٹو گیری کی تصویریں ہیں
ارے بھائی کن باتوں میں پڑ گئے آپ لوگ !
ذرا دیکھیں بلاول کی شکل بھٹو مرحوم سے ملتی جلتی ہے ؛ شائد اس لئے وہ چیئرمین بنے ہیں !
بی بی سی پر تبصرہ کرتے ہوئے کسی جیالے نے لکھا ہے کہ : “یہ بازی عشق کی بازی ہے“
اس فیصلے کا جمہوریت اور سنجیدہ پارٹی سیاست سے کوئی تعلق ہی نہیں ! آپ سمجھا کریں ؛ یہ پاکستان ہے !!
ہاں ! اگر یہ کارکنوں کا خیال ہے تو آپ اسے پی پی پی کے دوسرے درجے کی قیادت یا لیڈرشپ پر عدم اعتماد بھی کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے جہاندیدہ اور سیاست میں عمر گزرنے والے شخصیات پر ایک بچے کو ترجیح دی ۔ اور ہاں اس سے آپ پاکستان میں سیاست ، سیاسی جماعتوں اور سیاسی کارکنوں کی بلوغت کا اندازہ بھی لگاسکتے ہیں !!!
یہ فیصلہ محض ایک رسمی کاروائی ہے۔ فی الحال پیپلز پارٹی کو الیکشن کا انعقاد یقینی بنانا ہے۔ یہ بادشاہت کی بات نہیں ہے۔ ایک عارضی بحران سے نمٹنے کے لئے ایک شارٹ ٹرم فیصلہ ہے۔ اور پیپلزپارٹی کا کارکن بادشاہت میں یقین رکھتا ہے۔ اگر پارٹی ووٹنگ کرالے تو کیا آپ سمجھتے ہیں بلاول ہار جائے گا؟ اگر آپ ایسا سمجھتے ہیں تو حقیقت میں آپ کسی جیالے کو نہیں جانتے۔
بالکل نہ ہارے۔۔۔سو فیصد ووٹ لے لے۔ لیکن ایک طریقہ تو ہے جمبہوری پارٹیوں کا۔ دیکھتے ہیں آگے کیا ہوتا ہے۔۔۔
ویسے کل مجھے خیال آیا کہ پی پی پی کے کسی پہلی لیڈر کی قربانی حیات شیر پاؤ نے دی تھی۔ شاید کوئی صلہ نہ ملا کہ انکے بھائی لوٹے بن گئے۔
دیکھو بھائی سیاست میں ہر کوئی لوٹا ہے۔۔۔ کوئی مفادات کی طرف لوٹا ہے تو کوئی بینک بیلنس کی طرف۔۔ لیکن لوٹتے ہوئے کوئی ٔکھوتا ٔہے اور کوئیٔ ڈبؤ تا ہے
اور کوئی سب کچھ اپنی پاکٹ میں سموتا ہے۔
مجھے تو بلاول سے زیادہ مناسب مخدوم امین فہیم صاحب لگتے تھے۔ سیاسی پارٹی کوئی ذاتی جائیداد تو نہیں کہ وصیت لکھ کر کسی کو وارث بنا دیا۔
کہا جاتا ہے کہ حیات شیرپاو کو شہید ہی اس لئے کیا گیا کہ ان میں اوپر آنے کی صلاحیت تھی اور بھٹو صاحب کے متعلق کنفرم ہے کہ وہ کسی کو اپنے برابر نہیں دیکھ سکتے تھے ؛ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے اچھے دوست اور سیاستدان گنوائے اور ان کی جلد اور عبرتناک زوال کا ایک سبب یہ بھی تھا ۔ دراصل بہٹو صاٰصب نے ڈیموکریٹ تھے اور نہ ہی سوشلسٹ بلکہ خالص جاگیردار تھے ۔
وقار، آپ کی دلیل یا تبصرے میں بنیادی سقم یہ ہے کہ اس کی بنیاد ایک “کہا جاتا ہے“ سے اٹھتی ہے۔ بھٹو صاحب کے بارے میں ایسا بہت کچھ بھی کہا جاتا ہے جس سے لگتا ہے کہ گویا وہ اس صدی کے عظیم ترین رہنما تھے۔ کہا جاتا ہے میں خامی یہی ہے کہ اتنا کچھ کہا گیا ہے کہ کوئی بھی اس سے کچھ بھی لکھ سکتا ہے۔
میرا تے کاں چٹا اے