دن ہو کہ رات ہماری گلی میں جیسے ہی کوئی گاڑی آکر رکتی ہے ویسے ہی پہلی منزل کی گیلیری پر تین موٹی لڑکیاں نمودار ہوتی ہیں۔ گرچہ ہم سب بہن بھائی اسی محلے میں پیدا اور بڑے ہوئے تاہم ہمیں آج تک ان تین موٹی لڑکیوں کا نام معلوم نہیں۔ ان کے والد اور بھائیوں کے نام معلوم ہیں، ان کی دادی کا نام بھی جو کہ ہماری بلڈنگ میں نذر و نیاز کی حلیم، بریانی اور شربت وغیرہ بانٹنے اور موقع با موقع قرآن خوانی کرنے کے لئے مشہور تھیں۔ ہم گھر میں ان تین موٹی لڑکیوں کا ذکر آپی کی پوتیاں کہہ کر کرتے ہیں، کوئی انہیں چاند والے کہتا ہے۔ ان کے بڑے چاچا کا نام چاند ہے۔
عجیب بات یہ ہے کہ یہ تین لڑکیاں جنہیں بلڈنگ میں اکثر لوگ بالکل نہیں جانتے، بلڈنگ میں آنے جانیوالے ہر شخص کے بارے میں فکرمند رہتی ہیں۔ ان کی نگاہوں کا خصوصی نشانہ دوسری لڑکیاں اور خواتین ہوتی ہیں۔ نہ صرف گھور گھور کر دیکھتی ہیں۔ بلکہ جب آنیوالیاں بلڈنگ میں داخل ہوجاتی ہیں اور گیلیری سے دکھائی نہیں پڑتیں تو وہ بہنیں بھاگی بھاگی کاریڈور کی کھڑکی پر آجاتی ہیں۔ یہاں سے زینے دکھائی دیتے ہیں اور وہ بآسانی دیکھ سکتی ہیں۔ ان کی گیلیری اور کھڑکیوں پر پردے پڑے رہتے ہیں۔ اب ذرا سوچیں اگر آپ گھر پہنچیں اور دیکھیں بلڈنگ کی پہلی منزل سے تین لڑکیاں پردوں میں سے منہ نکالے آپ کو دیکھ رہی ہوں اور پھر وہ آپ کو دیکھنے کو بھاگی بھاگی کاریڈور میں بھی آجائیں تو آپ کو کیسا لگے گا؟ چند ایک بار تو آپ شاید توجہ نہ دیں لیکن اگر مہینوں اور سالوں یہ سلسلہ چلے گا تو آپ کیا محسوس کریں گے؟ میری بہن عینی کے شوہر اعجاز بھائی ان تین لڑکیوں سے بہت شاکی رہتے ہیں۔ انہیں بہت عجیب لگتا ہے کہ اگر وہ کبھی اپنے بیوی بچوں کو چھوڑنے یا لینے آئیں تو ان کی گاڑی کے ہارن پر وہ تینوں بہنیں ان کی بیوی سے پہلے نمودار ہوجاتی ہیں اور ان کے لوٹنے تک وہیں کھڑی رہتی ہیں۔ اعجاز بھائی سے بھی زیادہ چوتھی منزل پر رہنے والی پشاوری فیملی ان لڑکیوں سے شاکی ہے۔ ان کی فیملی میں چونکہ سب لڑکیاں گاڑی چلاتی ہیں، اسکول کالج اور یونیورسٹیوں میں پڑھتی ہیں، اور گھر کے چھوٹے موٹے کاموں کے لئے باہر نکلنے میں عار نہیں سمجھتیں۔ اسلئیے ان بیچاریوں کو اکثر ان موٹی لڑکیوں کی تحقیقاتی نگاہوں کا سامنا رہتا ہے۔
مجھے سمجھ نہیں آتا کہ وہ ایسا کیوں کرتی ہیں۔ وہ خود بڑی شریف ہیں، کردار کی بھی اچھی ہیں اور غالبا پڑھی لکھی بھی ہیں۔ عینی کا خیال ہے کہ گھروں میں گھٹ گھٹ کر جینے والی لڑکیاں ایسی ہی ہوجاتی ہیں۔ موٹی اور بدنما، احساس کمتری کی ماری، چھپ چھپ کر لوگوں کو دیکھنے والی، پھر ان پر گوسپس کرنے والی۔ وہ کہتی ہے کہ چونکہ ان لڑکیوں کی شادیوں میں بہت تاخیر ہورہی ہے تو ہوسکتا ہے یہ حرکت ان کی اس فرسٹریشن کا بھی نتیجہ ہو۔ لیکن چاہے جو بھی ہو، عینی کے خیال میں یہ امر حیرت انگیز ہے کہ وہ دیر رات کو آنیوالے گاڑیوں کی آہٹ سنتے ہی فورا کیسے گیلیری میں آدھمکتی ہیں؟ کیا وہ تمام رات آنے جانے والوں کے قدموں کی چاپ پر کان لگائے رکھتی ہیں؟ کیا وہ چھپ چھپ کر لوگوں کی باتیں بھی سنتی ہیں؟ اور سب سے زیادہ تجسس کی بات یہ ہے کہ وہ لوگوں کو دیکھ کر آپس میں کیا تبصرے کرتی ہیں اور اس سے وہ کس طرح لطف اندوز ہوتی ہیں؟
ایسا نہیں کہ بلڈنگ میں صرف وہی متجسس ہیں، درحقیقت ہماری بلڈنگ میں کافی سارے لوگ اور بھی ہیں جو ان سے کہیں زیادہ متجسس رہتے ہیں۔ لیکن وہ اپنے تجسس کو اسرار کے پردوں میں چھپا کر نہیں رکھتے۔ جیسے ہمارے پڑوس میں رہنی والی براق کی امی۔ ہمارے گھر کے دروازے پر دستک ہو تو ہم سے پہلے براق کی امی اپنے دروازے سے نمودار ہوتی ہیں۔ اگر آنیوالا کوئی انجان شخص ہے جسے وہ نہیں جانتیں تو اپنے گیٹ پر کھڑی رہتی ہیں تاوقتیکہ ہمارے گھر سے کوئی دروازہ کھولے اور انہیں اس بات کا اندازہ ہوجائے کہ آنیوالا کون ہے۔ چونکہ وہ میری امی کی دوست بھی ہیں اس لئے بالفرض اگر وہ اس وقت اندازہ نہ لگاسکیں تو امی سے ملاقات ہونے پر دریافت کرلیتی ہیں۔ ماسی، پانی کے کین والے، گھر گھر سامان بیچنے والی سیلزگرلز، پوسٹ مین، کورئیر والے، یہ لوگ تو ان کے سوالات سے بھی نہیں بچ پاتے۔ پہلے تو وہ اکثر ہماری ڈاک اور بلز بھی وصول کرلیتی تھیں لیکن جب ہم نے اس پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا تو انہوں نے یہ عادت ترک کردی۔
براق کی امی کے علاوہ ایک اور کردار جناب نواب سلطان صاحب کا بھی ہے۔ وہ صرف نام کے نواب ہیں، ماں باپ نے غالبا لاڈ میں ان کا نام نواب رکھ دیا تھا جسے موصوف نے کچھ زیادہ ہی سیریسلی لے لیا۔ ان کا یہ معمول تھا کہ سویرے ہی وہ فجر کی نماز کے بعد گلی میں ایک تخت پر براجمان ہوجاتے اور آنے جانیوالی خواتین اور لڑکیوں کو گھورتے۔ بلڈنگ میں رہنے والی خواتین تو کیا پورے محلے کی خواتین ان کی مشکوک، متجسس، اور اوباش نگاہوں سے پریشان تھیں۔ وہ خود پوتے پوتیوں والے ہیں مگر بس عادت سے مجبور تھے۔ اب کچھ عرصہ ہوا ان کا تخت جس دکان کے سامنے رکھا رہتا تھا وہ دکان کھل گئی ہے اور دکان دار نے صدر ٹاؤن کے تجاوزات ہٹانے والوں کو فون کرکے ان کا تخت اٹھوادیا۔ بس تب سے ہی وہ علیل ہیں اور اپنے گھر میں بستر سے لگے ہیں۔ اس ڈویولپمنٹ پر محلے کی خواتین نے سکھ کا سانس لیا ہے۔
پروین آنٹی ہماری بلڈنگ کی ایک اور سماجی کارکن ہیں۔ پروین آنٹی کے ذمے پورے بلڈنگ کی خواتین کے حسن و آرائش کے اہتمام میں مدد کرنا شامل ہے۔ وہ ایک باقاعدہ ٹرینڈ بیوٹیشن ہیں۔ اور بلڈنگ کی تمام خواتین کی بھنویں تراشنے، فیشل، اور بلیچ کرنے اور پارٹی میک اپ کرنے کا کام مناسب نرخوں پر انجام دیتی ہیں۔ یوں بلڈنگ کے تقریبا ہر گھر میں ان کا آنا جانا ہے اور سب ہی سے ان کی اچھی علیک سلیک ہے۔ گرچہ ہم انہیں پروین آنٹی کہتے ہیں مگر وہ مجھ سے کوئی چار چھ سال ہی بڑی ہیں۔ جلد ہی وہ ہمارے محلے میں دکان کرائے پر لیکر اپنا خود کا بیوٹی پارلر کھولنے والی ہیں۔ پروین آنٹی سب کے کام آتی ہیں، بلڈنگ میں رہنے والے کسی بھی شخص کے بارے میں کوئی بھی معلومات حاصل کرنا ہو تو پروین آنٹی سے رابطہ کریں۔ لیکن ان کی خوبی یہ ہے کہ وہ کسی کی برائی بیان نہیں کرتیں۔ شاید ایسا اسلئے ہے کیونکہ وہ گھر میں گھٹ گھٹ کر جینے والی لڑکی نہیں ہیں۔ وہ باہر نکل کر تگ و دو کرنے والے بہادر خاتون ہیں۔ تو کیا بزدل لوگ پردوں کے پیچھے سے چھپ چھپ کر لوگوں کی جاسوسی کرتے ہیں؟ اگر ان تین لڑکیوں کو اتنا ہی تجسس ہے تو وہ آنے جانیوالے والوں سے راہ و رسم کیوں نہیں پیدا کرتیں اور ان سے ہی پوچھ کیوں نہیں لیتیں کہ وہ کہاں سے آرہے ہیں؟ شاید وہ ایسا اس لئے نہ کرتی ہوں کہ انہوں نے بلڈنگ میں رہنے والوں کے بارے میں اپنی خود کی ایک خیالی دنیا بنا رکھی ہے۔ اور وہ ڈرتی ہیں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کی خیالی دنیا بکھر جائے اور وہ لوگوں کو دیکھ کر ان کے بارے کہانیاں گھڑنے کے لطف سے بھی محروم نہ ہوجائیں۔
میاں سوال تو تمہارا جاندار ہے۔ یہ ہمارے معاشرے کا بہت بڑا المیہ ہے۔۔۔ماسی بی بی سی اور اسی قسم کی دوسری پھپھے کٹنیاں ہمارے ہاں بہت مشہور ہیں اور اگر یہ لگائی بجھائی کرنے والی بھی ہوں تو گھر کے گھر جلاڈالتی ہیں۔
جس جاسوسی اور تجسس کا تم ذکر کر رہے ہو! وہ تمھاری تحریر میں بھی نظر آیا ہے!
شاکر مذکورہ تین لڑکیاں لگائی بجھائی والی نہیًں۔ شعیب تجسس اور جاسوسی پر مجھے اعتراض نہیں لیکن اسطرح چھپ چھپ کر کرنا بےوقوفی نہیں ہے کیا؟ ہم سب ہی کبھی نہ کبھی اپنے پڑوسیوں کے بارے میں متجسس ہوتے ہیں۔ نہیں؟
ہم لوگ اپنے سے زیادہ دوسروں کے معاملات پر نظر رکھتے ہیں۔ شاید یہی ہماری تفریح ہے، ایک اور بات بھی ہے کہ ہم آپس میں ملیں تو بھی صرف لوگوں کی باتیں کرتے ہیں اور باتیں کرنے کے لیے باتیں جاننا بھی ضروری ہوتا ہے۔ آپ بھی باخبر رہا کریں۔
جتنی کھڑکی ہو گی، بس اتنی ہی دنیا دکھائی دے گی!
lol۔ نعمان، ان سے کوئی پوچھتا کیوں نہیں ہے کہ وہ ایسا کیوں کرتی ہیں؟ مجھے تو پڑھ کر بہت حیرت ہو رہی ہے۔ اگر میں آپ کی جگہ ہوتی تو ان سے بات ضرور کرتی۔:p ویسے ان لڑکیوں کے گھر میں اور کون کون رہتا ہے؟ کیا ان کو گھر سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں ہے؟ یا کیا ان کو گھر والے اس طرح کھڑکیوں سے جھانکنے پر منع نہیں کرتے؟ باقی شاید آپ کی بات درست ہے کہ ایسے گھٹن میں رہنے سے شاید ایسی ہو گئی ہیں۔ ایک ڈرامہ بھی لگا تھا، اس میں بھی یہی بتایا تھا کہ بند دروازوں کے پیچھے رہنے والی لڑکیاں۔۔۔اپنے ناخنوں سے دیوار میں سوراخ کر لیا کرتی ہیں۔ یعنی باہر کی دنیا دیکھنے کے لیے کوئی راستہ نکال ہی لیتی ہیں۔:D
نواب انکل بھی بہت مزے کے لگے۔۔۔چلو، اب آرام سے بستر سے لگے رہیں۔:D
کمال کی بات ہے کہ آجتک کسی نے انکی خبر نہیں لی۔ وہ بیوٹیشن آنٹی جب سب کو جانتی ہیں تو انہیں کیوں نہیں؟ کبھی ان سے پوچھیے گا، ممکن ہے انہیں علم ہو۔
ماوراء وہ لڑکیاں اور ان کے گھر والے لوگوں سے زیادہ میل جول نہیں رکھتے۔ جب تک ان کی دادی زندہ تھیں تو وہ سب سے میل جول اور اچھا برتاؤ رکھتی تھیں۔ مگر ان کے بیٹے اور بہوؤیں لوگوں سے علیک سلیک کے بھی قائل نہیں۔ معلوم نہیں کبھی انہیں کہیں آتے جاتے دیکھا تو نہیں۔
بھیا! کہیں یہ تین بچیاں اپنے بچہڑے ہوے ماں باپ کو تو نہیں تکتے؟؟ آپ پوچھ کرتو دیکھیے۔