کالا باغ اور پیلا باغ ڈیم

میں جنرل مشرف سے بہت ناراض ہوں۔ کالا باغ ڈیم کی وجہ سے کل ہماری دکان میں بدمزگی ہوگئی اور دلوں میں کدورتیں پیدا ہوئیں۔

قصہ یوں ہے کہ کل ہماری دکان پر ایک سندھی گاہگ آئے۔ انہوں نے دودھ پیتے ہوئے اخبار کا مطالعہ کیا اور لگے فلاسفری بھگارنے۔ کالا باغ ڈیم سے پنجاب سندھ کا سارا پانی روک لے گا وغیرہ۔ ویسے مہاجر ہونے کے ناطے میرا یہ فرض بنتا ہے کہ میں سندھ کے مفاد کا بھی خیال رکھوں۔ اسلئیے میں سندھی رضامندی کے بغیر کالاباغ ڈیم بنانے کے خلاف ہوں۔ خیر میں نے اپنے زریں خیالات کا اظہار ان صاحب پر نہیں کیا مگر غلام فرید سے کنٹرول نہ ہوسکا۔ جیسا کہ میں پہلے بتاچکا ہوں غلام فرید پنجاب کے ایک گاؤں کا رہائشی ہے۔ ان کی گاؤں کی معیشت کا ذراعت پر بہت انحصار ہے۔ گزشتہ دنوں وہ مجھے بتا چکا ہے کہ کسان اور زمیندار مہنگی بجلی، پانی کی قلت، حکومت کے مقررہ نرخوں اور کاشتکاری کے بڑھتے ہوئے اخراجات سے بہت پریشان ہیں۔ غلام فرید نے بتایا کہ اکثر کاشتکاروں کو جو بچت ہوتی ہے وہ ان کی محنت کے مقابلے میں بہت معمولی ہوتی ہے اور اکثر پچھلی ادھاریاں چکانے میں ہی پوری ہوجاتی ہے۔

غلام فرید نے سندھی بھائی سے کہا کہ یار آپ لوگ ڈیم بننے دو بھائی اگر پانی ہوگا تو اس پر کل لڑ بھی لیں گے۔ پانی ہوگا ہی نہیں تو کل کس بات پر لڑیں گے۔ غلام فرید کی بات میں وزن تھا۔ مگر وہ سندھی بھائی کہنے لگے کہ نہیں تم لوگوں نے پچھلے وعدے کبھی پورے نہیں کئیے اور پنجاب آئندہ وعدے بھی پورے نہیں کرے گا۔

اتنی دیر میں میرا ایک دوست شہزاد آگیا جو کہ مہاجر ہے۔ اب ہماری دکان میں مجھ سمیت تین سندھی تھے اور ایک غلام فرید۔ شہزاد بھی کہنے لگا کہ پنجابی طاقت کے زور پر ڈیم بنانا چاہتے ہیں۔ غلام فرید نے کہا کہ اگر طاقت کے زور پر بنانا ہوتا تو کب کا بن گیا ہوتا۔ ان لوگوں نے غلام فرید پر ایسے الزام لگائے جیسے پاکستان میں آج تک ہونے والے سارے مظالم کا وہی ذمہ دار ہے۔ اتنے میں ایک بچہ دودھ لینے آیا۔ اس بچے کے والد سندھ کے علاقے کندھ کوٹ کے رہائشی ہیں لیکن مہاجر لڑکی سے پسند کی شادی کرنے پر ان کے والدین نے انہیں گھر سے نکال دیا تھا۔ ان کے بچے سندھی زبان سے بالکل نابلد ہیں اور زندگی میں کبھی کندھ کوٹ نہیں گئے۔ میں اس بچے کو دودھ دینے لگا جس دوران وہ بچہ سندھی پنجابی دنگل دیکھتا رہا۔ پھر وہ بولا، ‘پنجابی ڈیم بنا کر سندھ کا سارا پانی روک لیں گے پھر ہم سب پیاسے مرجائیں گے۔’ جس پر دونوں سندھی اور مہاجر خوب خوش ہوئے اور اس بچے کو حق گوئی پر داد شجاعت دینے لگے۔ غلام فرید کہنے لگا کہ تم بچوں کے دماغ میں زہر بھر رہے ہو اور اس بچے کو کیا پتہ صحیح غلط کا۔ میں ابھی تک چپ ہی تھا۔

پھر ایک اور گاہگ آگئے یہ صاحب متحدہ قومی موومنٹ کے کارکن تھے اور مجھ سے ان کی بہت اچھی سلام دعا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کالا باغ ڈیم تو نہیں بنے گا۔ اب تو غلام فرید بہت کھسیانا سا ہوگیا۔ سندھی بھائی نے اپنے مہاجر بھائیوں سے پوچھا تم لوگ کس کے ساتھ ہو؟ دونوں نے ایک ساتھ کہا ہم اپنے سندھی بھائی کے ساتھ ہیں۔ غلام فرید کو پتہ تھا کہ میں بھی سندھ کے ساتھ ہوں لیکن اس کو اکیلا پڑتے دیکھ کر میں نے اپنا موقف بدل دیا۔ اور بآواز بلند کہا کہ میں اپنے پنجابی بھائی کے ساتھ ہوں۔ اگر یہ بول رہا کہ ڈیم بننا چاہئیے تو ڈیم ضرور بنے گا۔ کالا باغ بھی بنے گا اور پیلا باغ بھی بنے گا۔ پھر اگر پانی نہیں ملا تو میں خود اپنے پنجابی بھائی سے نمٹ لونگا۔ اب آپ لوگ اپنی دکانیں سمیٹیں اور چلتے بنیں۔

تبصرے:

  1. چلو شکر ہے، یہ بھرم ایک سندھی یا محاجر نے کسی پنجابی کا نہیں، حقیقتا ایک پاکستانی نے دوسرے پاکستانی کا رکھا تھا۔

    میری جانب سے شکریہ نعمان!

Comments are closed.