شاکر نے اپنے بلاگ پر ایک بھاگے ہوئے بچے کی سرگزشت بیان کی ہے۔ اس بچے کی کہانی یہ تھی کہ گھر والے اسے حافظ قرآن بنانا چاہتے تھے۔ وہ گھر والوں کی خواہش دلجمعی سے پوری کرنے کی اپنی سی کوشش بھی کرتا تھا مگر مدرسے کے قاری صاحب کے متشدد روئیے نے اسے مدرسے سے متنفر کردیا۔ شاکر کے بلاگ پر آپ کو اکثر اچھے موضوعات نظر آئیں گے۔ وہ اکثر الجھے ہوئے عام مسائل کو اپنی روایتی سادگی سے بیان کرتے ہیں اور پھر اسی سادگی کے ساتھ انہیں سلجھانے کی تجویز بھی پیش کرتے ہیں۔ مجھے ان کا یہ انداز تحریر بہت پیارا لگتا ہے۔
قرآن حفظ کرنے والے بچوں کے مسائل ایک سنجیدہ معاشرتی مسئلہ ہیں۔ جن پر بالغان اپنے دینی رجحانات کے سبب توجہ نہیں دیتے۔ میرا چھوٹا بھائی عازب بھی ماشاءاللہ حافظ قرآن ہے اس لئے مجھے ان میں سے کچھ مسائل کا ذاتی تجربہ بھی ہے۔
مدارس کا روایتی ماحول
گرچہ میرا بھائی عازب ایک ایسے مدرسے میں پڑھتا تھا کہ جہاں عصری علوم کی بنیادی تعلیم پر بھی توجہ دی جاتی تھی۔ لیکن بعد ازاں ہمیں معلوم ہوا کہ یہ توجہ محض اشتہاری تھی۔ مضامین جیسے ریاضی اور انگریزی جن کی آگے چل کر طالبعلموں کو سخت ضرورت ہوتی ہے ان پر قطعا توجہ نہیں دی گئی۔ عازب نے تیرہ سال کی عمر میں قرآن حفظ کرلیا تھا جس کے بعد اسی مدرسے میں اسے عام اسکول کی تعلیم دی جانے لگی۔ یہ تعلیم اتنی غیرمعیاری تھی کہ چھٹی جماعت کے بچے اردو زبان میں ایک چھوٹا سے مضمون لکھنے کے بھی لائق نہ تھے۔ جب میٹرک کے امتحان سر پر آئے تو مدرسے کی انتظامیہ کی سختیاں بڑھ گئیں جو کہ سراسر بے جا تھیں۔ وہ بچوں پر اچھی کارکردگی کے لئے سخت دباؤ ڈالتے تھے جب کہ اس بارے میں وہ خود اپنی ذمے داری سے غافل تھے۔ نتیجتا عازب کی مدرسے میں حاضری کم ہوتی گئی۔ سائنس کے مضامین منتخب کرنے کے سبب یہ ضروری تھا کہ اسے امتحانات کے لئے سخت محنت کرنا ہوگی اور مدرسے جانا محض وقت کا ضیاع لگتا تھا۔ چنانچہ نویں جماعت کے پرچوں کے بعد مدرسے کی انتظامیہ نے اسے مدرسے سے فارغ کرنے کی دھمکی دے دی۔ جب میرے والد وہاں پہنچے تو انہوں نے شرط عائد کی کہ اگر اس نے نویں جماعت کا امتحان پاس کرلیا تو اسے دسویں جماعت کی کلاسز لینے کی اجازت دی جائیگی۔ نتیجہ آیا اور عازب کا نتیجہ مدرسے میں پابندی سے حاضر ہونے والے کئی بچوں سے بہتر تھا۔ لیکن مدرسے کی انتظامیہ اپنی غلطی تسلیم کرنے کے بجائے عازب کو اسکول سے نکالنے پر بضد تھی۔ جس کے بعد ہم نے عازب کو محلے کے ایک پرائیویٹ اسکول میں داخل کرواکر دسویں جماعت کا امتحان دلوایا اور وہ بی گریڈ کے ساتھ پاس ہوگیا۔
مدرسے کا یونیفارم شلوار قمیض اور ٹوپی پر مشتمل تھا اور عازب کو یہ یونیفارم بچپن سے بہت برا لگتا تھا۔ گھر میں اس کے بھائی، محلے میں اس کے دوست، رشتے داروں میں اس کے ہم عمر کزن سب پتلونیں پہنتے تھے اور اسے شلوار قمیض پہن کر اسکول جانا سخت برا لگتا تھا۔
مدرسے میں اساتذہ کا رویہ انتہائی سخت گیر تھا۔ گرچہ وہاں جسمانی تشدد نہیں کیا جاتا تھا مگر تشدد کے دیگر کئی طریقے ان لوگوں نے ایجاد کر رکھے تھے۔ جن میں سرفہرست طلبہ کی تحقیر اور اہانت آمیز رویہ شامل تھے۔ گرچہ مدرسے میں کبھی دہشت گرد جہادی گروہوں کی حمایت نہیں کی جاتی تھی۔ لیکن مدرسے کے اساتذہ طالبعلموں کے سامنے دیگر مکاتب فکر کے ماننے والے مسلمانوں پر تنقید کرتے تھے اور ان کا مذاق اڑاتے تھے۔
مدرسے کا گھٹا ہوا ماحول طلباء کی تخلیقی صلاحیتوں پر بری طرح اثر انداز ہوتا تھا۔ طلباء کو یہ عادت ڈالی جاتی تھی کہ وہ استدلالی طرز فکر سے اجتناب کریں۔ نہ سوال کریں نہ کسی مدلل جواب کی امید کریں۔
گرچہ پاکستان کے دیگر عام نام نہاد انگریزی میڈیم پرائیویٹ اسکولوں کا حال بھی اس سے کچھ مختلف نہیں لیکن اس مدرسے کا ماحول انتہائی بے تکا تھا۔ اس تعلیم میں تفریح کا کوئی عنصر نہیں تھا، ایک سخت گھٹا گھٹا ماحول جو طلباء کو عجیب قسم کے روبوٹ بنانے پر اصرار کرتا تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جب عازب کو اسکول سے نکالا گیا تو اس دن کے بعد سے اب وہ صرف عید کی نماز پر یا تراویح کے دوران شلوار قمیض پہنتا ہے۔ اس کا طرز فکر مدرسے کی تعلیم و تربیت کے بالکل برعکس ہے۔ مدرسے میں موسیقی کے خلاف کرے گئے پرچار کے برعکس اسے موسیقی میں انتہائی دلچسپی ہے۔ اکثر لوگ جب اس کا حلیہ دیکھتے ہیں تو انہیں یقین نہیں آتا کہ یہ لڑکا حافظ قرآن بھی ہوگا۔
والدین کا رویہ
میرے خیال میں والدین کی اپنے بچوں کو حافظ قرآن بنانے کی خواہش بھی ان مسائل کا ایک سبب ہے۔ نہ وہ اپنے بچے کے رجحان کا خیال کرتے ہیں نہ اس بات کا کہ اگر بڑا ہونے پر ان کا بچہ مختلف رجحان رکھتا ہو تو اس کے لئے قرآن شریف کو دہرانا شاید اتنا آسان نہیں ہوگا۔ وہ یہ بھی خیال نہیں کرتے کہ اگر یہ قرآن شریف حفظ کرکے بھول گیا تو اس کی زندگی کے جو قیمتی سال اسے حفظ کرنے میں صرف ہوئے ہیں ان کا مداوا کیا ہوگا؟ والدین کو چاہئے کہ وہ کم از کم اپنے بچوں کو اس عمر تک پہنچنے دیں کہ جب وہ اپنے لئے یہ فیصلہ خود کرسکیں۔ اس دوران والدین اپنے بچوں کی تربیت پر توجہ دیں اور کوشش کریں کہ بچوں کو گھر میں ایسا ماحول ملے جو انہیں دینی تعلیم کے حصول پر مائل کرے۔ اپنی مرضی کا فیصلہ بچوں پر تھوپنے کے بجائے ان پر یہ ذمہ داری ڈالی جائے کہ وہ اگر چاہیں تو بڑے ہوکر یہ سعادت حاصل کریں اور اپنے لئے اور والدین کے لئے ثواب کمائیں۔
معاشرے کی ذمے داری
ہمارے ملک میں یہ ٹرینڈ رہا ہے کہ کبھی ہر کوئی ڈاکٹری اور انجینئرنگ پڑھنے لگتا ہے۔ کبھی بزنس منیجمنٹ کا دور آتا ہے، کبھی انفارمیشن ٹیکنالوجی کا۔ طریقہ کار یہ ہے کہ معاشرے کو اس وقت جس قسم کے ہنرمند اور تعلیم یافتہ افراد کی ضرورت ہو اس قسم کی تعلیم پر زور دیا جائے۔ سوال یہ ہے کہ ہمارے ملک کو سالانہ کتنے حافظ قرآن کی ضرورت ہوتی ہے؟ صنعت و حرفت، مدارس، علمی و تحقیقاتی اداروں میں قرآن حفظ کرنے والے (دیگر دینی علوم سے بے بہرہ) کتنے لوگوں کی ضرورت ہے۔ میرا خیال یہ ہے کہ معاشرے کو ہر سال ہزاروں حافظ قرآن بچوں کی کوئی ضرورت نہیں۔ قرآن حفظ کرنے والے بچوں کے انتخاب کا کوئی طریقہ ہونا چاہئے۔ جس سے یہ پتہ چلے کہ بچوں کا رجحان کیا ہے اور صرف انہی بچوں کو یہ تعلیم دی جانی چاہئے جو دینی علوم حاصل کرنے کا شوق، استعداد اور رجحان رکھتے ہوں نہ کہ ہر بچے کو اس میں شامل کرلیا جائے۔ ان میں سے کچھ بچے بہت اچھے ڈاکٹر، بزنس مین، فنکار، انجینئر، سائنسدان کچھ بھی بن سکتے ہیں۔ لیکن بلارجحان کے انہیں دینی تعلیم کی طرف دھکیل کر ہم ان کی دیگر صلاحیتیں بھی ضائع کردیتے ہیں اور وہ نہ دینی تعلیم پر پورے اتر پاتے ہیں اور نہ ہی کچھ اور کرپاتے ہیں۔
اس میں صرف مدرسہ کا قصور نہیں۔ مدرسہ ہم اور آپ جیسے لوگ بناتے ہیں۔ اگر ہم بچہ بھیجنے سے پہلے احتیاط کریں تو زیادہ مناسب ہے۔ ہم بچہ اسکول داخل کروا کر تو بہت دلچسپی لیتے ہیں مختلف بکس کھول کر پوچھتے ہیں کاپیاں دیکھتے ہیں لیکن مدرسہ داخل کروا کر کبھی کچھ نہیں پوچھتے۔ کیوں؟ صرف قائدہ ہی نہیں استاد کا روئیہ وغیرہ کیونکہ ہمیں علم ہے کہ قاری مارتا ہے لیکن بچہ کو نہیں پوچھتے کہ کہیں وہ جانے سے انکار نہ کر دے۔
آپکی طرف کا علم نہیں لیکن لاہور میں صرف تین سال لگتے ہیں۔ زیادہ تر پانچویں کر کے بچہ مدرسہ ڈالا جاتا ہے اور پھر آٹھویں کا پرچہ وہ اسکول سے دیتا ہے۔ مدرسہ سے ہی عازب کو مزید تعلیم دلوانہ مدرسہ والوں سے زیادہ آپ لوگوںکی غلطی تھی۔
تشدد اور اہانت صرف مدارس میں نہیں سکولوں اور ہمارے پورے معاشرے میں رچی بسی ہے۔ ہم سب کسی نہ کسی موقع پر مخالف پر جملہ اچھالنے سے باز نہیں آتے خود میرے میں یہ عادت ہے۔ لہذا جب تک ہم خود صحیح نہں ہوتے یہ سب ٹھیک نہیںہ ہو گا۔
حسب معمول آپ کی مشکل کام کے بجائے آسان کام کو ختم کرنے والی ادا پسند نہیں آئی۔ بچہ اس قدر چھوٹا ہوتا ہے کہ اس کو ٹرمنگ کی ضرورت پڑتی ہے۔ بہت سے لوگ بچہ کا رجحان نہ دیکھ کر اس کو مدرسہ سے اٹھا لیتے ہیں۔ جیسے شاکر۔ اگر کسی کے والدین ایسا نہیں کرتے تو یہ ان کا قصور ہے۔ ہمیں مدارس کا ماحول ٹھیک کرنے اور اپنے ارد گرد مزید دلچسپی لینی ہو گی۔ ہمیں بچہ کو اتنی توجہ دینی ہو گی کہ وہ کسی سے ڈر کر کبھی کچھ نہ چھپائے۔ مدارس برائی کا گڑھ بن چکے ہیں ان کو سدھارنا ہمارا کام ہے نہیںتو یہ کام جاری و ساری رہے گا۔ میں ساری عمر مدرسہ نہیں گیا لیکن ہمارے محلے کا مدرسہ پر کنٹرول تھا۔ مذہبی غنڈہ گردی کبھی نہ ہوئی۔
سٹڈی نہ مل سکے گی لیکن قران حافظ بہت ذہین اور اچھی یاد داشت کے مالک ہوتے ہیں۔ میرے سارے حافظ قران دوست اعلی تعلیم اور جابز پر ہیں۔ صرف ایک کچھ نہ کر سکا لیکن یہ اس کی اپنی کاہی تھی جو اس نے آفر ٹھکرا دی جبکہ میں نے اس کو مشورہ بھی دیا تھا۔ قران حفظ کے ساتھ ساتھ اگر قران فہمی بھی آ جائے تو انسان کی زندگی بدل سکتی ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہم درسہ داخل کروا کر بحیچیٹ والدین یا گارڈین اپنی ساری ذمہ داری بھول جاتے ہیں اور فرض پورا کر لیتے ہیں۔
بچہ کو ایک دفعہ ڈال کر بھول جانا زیادتی ہے۔ بچہ اپنے لے فیصلے خود نہیں کر سکتا اگر اس کو آپشن دیں گے وہ رنگ برنگی چیزوں میں دلچسپی لے گا۔ آپ نے اس کو مدرسہ ڈالا تو اس کی دلچسپی قائم کرنا آپ کی ذمہ داری ہے۔ تقریبا سبھی بچہ کسی نہ کسی وقت اسکول سے بیزار ہو جاتے ہیں ہم نے کبھی ان کو اسکول جانے یا نہ جانے کی آپشن نہیں دی۔ کیونکہ علم ہے یہ ضروری ہے۔ یہی حال اس کا بھی ہے لیکن اس سے کوتاہی ہماری شدید غفلت ہے۔
بچہ کی تربیت ساری عمر جاری رہتی ہے۔ اگر تین سال کے بعد کوئی سمجھتا ہے کہ بس بخشائے گے اور بچہ کی مزید تربیت سے اجتناب کرتے ہیں تو یہ ان کا قصور ہے۔ اور صرف اسکول یا مدرسہ بچہ کو انسان نہیں بناتا یہ والدین کی توجہ چاہتی ہے جو کہ اب عنقا ہوتی جا رہی ہے۔
وہ لوگ مدرسھ میںاپنے بچوںکر داخل کراتے ہیںتو یا تو عام سکول میںبچے کو تعلیم دلوانے سے قاصر ہوتے ہیں یاپھر وہ لوگ جو اپنے بچے کے صدقے جنت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
ایک غلط بات ہمارے بزرگوں کی یہ ہے کہ ہم خود تو مذہبی تعلیم کی الف ب نہیںسیکھتے اور اپنے بچے کو حافظ بنانے نکل پڑتے ہیں۔
دوسری غلط بات یہ ہے کہ ہم لوگ مدرسوں کی مالی مدد نہیں کرتے۔ یہ مدرسے زکوۃ اور خیرات سے چلتے ہیں اور انہیںہمیشہ مالی دشواریوںکا سامنا رہتا ہے۔ اب ہم خود سوچیں کہ ایچی سن یا کانونٹ سکول کے برابر تو ان مدرسوں کی معاونت ہم کرتے نہیں اور ان سے توقع ان سے بڑھ کر رکھتے ہیں۔
بچہ وہی کچھ پسند کرے گا جو اس کے گھر اور ارد گرد کے ماحول میںہو رہا ہوگا۔ اب اگر عاذب کے بھائی اور دوست پینٹیںپہنیںگے تو پھر عاذب کو شلوار قمیض بری لگے گی ہی۔
مدرسوںکے بگاڑ میں معاشرے کا بہت بڑا ہاتھ ہے جو انہیں مالی امداد فراہم نہیںکرتا۔ والدین بھی اکثر بچے کو مدرسے چھوڑ کر اس کی خبر تک نہیںلیتے کہ وہ کیا کر رہا ہے۔
اکثر حفاظ آپ کو غریب گھرانوں کے بچے ملیں گے جن کے والدین ان کی تعلیم کا خراچہ برداشت نہیںکرسکتے۔ امرا تو بچوں کو مذہبی تعلیم کے قریب بھی نہیںجانے دیتے۔ بینظیر کا بچوںکی طرح ہر امیر کا بچہ انگریزی میںتاک ہوگا مگر اسے کلمہ تک پورا نہیںآتا ہوگا۔ دراصل یہ انگریزوں کی چال تھی جس نے امام مسجد اور حفاظ کی عزت معاشرے میں گھٹا دی اور یہی طریقہ ان کے کالے غلام بھی اپنائے ہوئے ہیں۔
[…] ذاتی تجربے کی روشنی میں اظہار خیال کیا اور اس کے بعد نعمان نے بھی اپنے بھائی کے تجربات اور ذاتی مشاہدے کی بنا پر […]
میرا پاکستان: عازب کا مدرسہ خیرات پر نہیں فیس پر چلتا تھا اور فیس بھی کراچی کے کسی بھی اچھے پرائیویٹ انگریزی میڈیم اسکول کے مساوی۔ مدرسہ باتھ آئی لینڈ کلفٹن کے انتہائی پوش علاقے میًں واقع ہے۔
ٕبدتمیز:
مدرسہ سے ہی عازب کو مزید تعلیم دلوانہ مدرسہ والوں سے زیادہ آپ لوگوںکی غلطی تھی۔
بالکل ٹھیک مگر یہ غلطی میرے والدین نے اس لئے کی کہ انہیں ڈر تھا کہ کہیں عازب قرآن دہرانا نہ چھوڑ دے یا شاید عازب نئے اسکول میں ایڈجسٹ نہ ہوپائے جہاں وہ دیگر ہم جماعتوں سے پیچھے ہوتا۔ یہ ایک بڑی غلطی تھی۔
لیکن قران حافظ بہت ذہین اور اچھی یاد داشت کے مالک ہوتے ہیں۔
میًں اس بات سے بالکل اتفاق نہیں کرتا۔ یہ ایک عام غلط فہمی ہے جس کی کوئی سائنسی تحقیق بنیاد نہیں بلکہ ایک عمومی عوامی تاثر اس کی بنیاد ہے اور جیسا کہ میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ ایسے تاثرات ہمارے مذہبی رجحانات کے تابع ہوتے ہیں۔
میں اوپر لکھ چکا ہوں کہ یہ مدرسوں ہی کا قصور نہیں بلکہ والدین اور معاشرتی روئیے بھی اس کے اتنے ہی ذمے دار ہیں۔ والدین کو یہ سوچنا چاہئے کہ کیا وہ بچوں کو ایک ایسا ماحول گھر پر دے سکیں گے جس میں ان کے دل میں دینی علوم کے حصول کی لگن بیدار ہو۔ ہمارے گھر کا ماحول ایسا نہیں تھا کہ جو دینی تعلیم کے لئے زیادہ سازگار ہو۔
لیکن قران حافظ بہت ذہین اور اچھی یاد داشت کے مالک ہوتے ہیں۔
————————-
اس بات سے میں بھی اتفاق کرونگا۔ میرے بھی جنتے دوست یا جاننے والے حافظ ہیں، وہ کمال کی ذہانت رکھتے ہیں۔ شاید اس کی کوئی سائنسی وجہ تو نہ ہو لیکن جہانتک میرے خیال میں ایک سادہ سی وجہ ہو سکتی ہے وہ یہ کہ حفظ کرنے سے ان میں کسی چیز کو یاد کرنے کیلیے درکار محنت کا سٹیمنا دوسرے لوگوں سے بڑھ کر ہوتا ہے۔ تاہم ضروری نہیں کہ ہر حافظ کا حال ایسا ہی ہو۔
ہیومن ریسورس مینجمنٹ کرنا حکومت کا نہیں منڈیوںکا کام ہے، یعنی اس بات کا فیصلہ کرنا کہ کتنے انجینئر، ڈاکٹر یا دوسرے صاحبان چاہییں، منڈیوں میںانکی طلب اور کھپت سے ہو گا۔ ہاں سوشلسٹ حکومتوں نے لوگوںکو حکومتی مرضی کا پیشہ اختیار کرنے پر مجبور کیا تھا لیکن اسکے کوئی اچھے نتائج نہیں نکلے۔ ہاں حکومت کی یہ ضرور ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوںکو وہ بیشقیمت معلومات فراہم کرے کہ جسکی بنیاد ہر وہ فیصلہ کر سکیں گرچہ ترقی یافتہ ممالک میں یہ کام بھی نجی شعبہ ہی کرتا ہے۔ ایک اہم ذمہ داری حکومت کی یہ ہے کہ وہ صارف یعنی طالبعلم کے حقوق کو یقینی بنائے یعنی سٹینڈرڈز یا معیار پر عمل درآمد کو یقینی بنائے کہ جسکے نتیجے میں کنزیومر رائٹس کا تحفظ ممکن ہو سکتا ہے۔
آپکو شائد میری باتیں موضوع سے کچھ ہٹ کر لگیںلیکن یہ حقیقت ہے کہ ہماری حکومتیں وہ سب کچھ نہیں کر سکتیںجنکی ہم ان سے توقع کرتے ہیں۔ یہ کام ان کے کرنے کا ہے بھی نہیں۔ دنیا بھی میں حکومتیں صرف ایسی پالیسی سازی کرتی ہیں کہ جس کے نتیجے میں کسی خاص سمت میںپیشرفت کا ماحول بنتا ہے، اور بس۔
یہ ساری بات اس کا جواب ہے جو آپ نے لکھا کہ ہمیں اتنے زیادہ حفاظ کی ضرورت نہیں۔ میرے خیال میںیہ فیصلہ لوگوںپر ہی چھوڑ دینا چاہیے، نہ کہ حکومت کہے کہ فلاں فلاںحافظ بنے گا اور باقی کوئی نہیں۔
فیصل میں نے یہ کہیں بھی نہیں لکھا کہ حکومت کو یہ فیصلہ کرنا چاہئے کہ ہمیں کتنے حفاظ کی ضرورت ہے۔ یقینا یہ کام نجی تحقیقاتی اداروں کو کرنا چاہئے۔ اور چونکہ ہمارے ملک میں کیرئیر گائیڈنس کا اسکولوں کالجوں میںکوئی خاص تصور نہیں۔ اس لئے یہ کام خود والدین کے کرنے کا ہے۔
حکومت کو تعلیم معیاری بنانے کا کام کرنا چاہئے۔ لیکن اگر حکومت مدارس کی تعلیم معیاری بنانے کی کوشش کرے گی تو آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ ایک طوفان کھڑا ہوجائے گا کہ ایسا امریکی اور اسرائیلی ایما پر کیا جارہا ہے۔ تاکہ پاکستانی بچے خود کش بمبار بننے کے بجائے پاپ سنگر بن جائیں۔
محترم
السلام علیکم
ہمیںاپنے ذہنوں کو ذرا وسیع کرنا ہوگا پہلی بات یہ کہ جب معاشرہ بحیثیت مجموعی پستی اور زوال کا شکار ہو تو اس کے ہر شعبے میں خرابی ہوتی ہے اور ہم اس خرابی سے کسی کو مستثنیٰ نہیںکر سکتے لہذا مدارس میں بھی بلاشبہ بہت سی خرابیاں در آئی ہیں اور یہی حال پورے معاشرے کا ہے ۔
وقت کی قلت کے ہم دونوں ہی شکار ہیں اختصار کے ساتھ صرف اتنا کہوں گا کہ ہر ادارے کی کچھ خوبیاں ہوتیں ہیںاور کچھ خامیاںاور ان خوبیوں اور خامیوںکے کچھ اسباب ہوتے ہیں ان میں اہم ترین سبب یہ ہوتاہے کہ یہ ادارہ کن مقاصد کے تحت قائم کیا گیا ہے ۔ مثلااسکولوں میں دینی تعلیم کا کوئی نظام نہیں ہوتا کیوں کہ یہ ان کے مقاصد میںشامل نہیں اور اگر ہو تو اس کی حالت ویسی ہی ہوتی ہے جیسی آپ کے شکایت شدہ مدرسے کی ۔اسی طرح مدارس بھی آج کل اسکول کی تعلیم کا اہتمام کررہے ہیں لیکن اس کی صورتحال آپ کے سامنے ہے ۔
دوم آپ کی یہ بات کہ سزا کا رواج تو یہ بحرحال غلط ہے لیکن اس کا بھی ایک تاریخی پس منظر ہے(دعاہے کبھی تفصیل سے بتانے کا موقع ملے) اور مدارس کا ایک مخصوص ماحول بھی لیکن الحمدللہ اب صورتحال بہتری کی طرف ہے ۔
شلوار قمیض اور ٹوپی پہنانا بھی قابل اعتراض ۔۔۔حیرت ہے بھئی بلاگ آپ کا اردو میں تبصرہ کی شرائط میں آپ نے انگریزی کے مقابلے اردو کو ترجیح دی ہے اور لباس کا معاملہ آیا تو آپ کو انگریزی پسند ہے اردو ناپسند ۔۔۔۔!
دوسری بات کہ تمام ہی بچوں کو حافظ قرآن کیوںبنایا جائے یہ ٹھیک ہے لیکن اس عمل کو بقیہ دنیاوی تعلیم سے جوڑ دینا کہ جناب ملک کو جتنوں کی ضرورت ہو اتنے ہی ہوں انتہائی غلط ہے ۔یہ بات تو صرف وہی کہ سکتا ہے جو زندگی کو کمپیوٹر کی مانند سمجھتا ہو ۔
بھائی زندگی عبارت ہے جسم اور روح سے اور اصل زندگی تو روح کی ہی ہے حافظ قرآن ہونا ایک سعادت ہے جسے اس کی توفیق ملے ۔ یہ ذمہ داری تو والدین کی ہے کہ وہ بچے کو حفظ کرارہے ہیں تو اس کی تربیت بھی کریں تربیت کی ساری ذمہ داری مدرسے پر ڈال دی گئی ہے یہ بھی تو غلط ہے۔
حفظ قرآن تو پوری قوم بھی کرے تو یہ باعث پریشانی نہیں بلکہ باعث خوشی ہے ہاں مقصد اسے سمجھنا اور اس کے مطابق عمل کرنا ہو حفظ قرآن ہر عمل میں حسن ہیدا کرتاہے کہ بندہ جو بھی کام کرتا ہے رب کی تعریف کرتاہے ہر تخلیق اسے رب سے قریب لے آتی ہے چند سال قبل دبئی میں عالمی مقابلہ حسن قرات کا فاتح ایک انجینئر تھا اب آپ خود فیصلہ کیجیے ۔۔۔۔
کیا آپ قرآن کو سمجھ کر پڑھتے ہیں ؟ اگر ہاں تو پھر بھی ایسی باتیں کررہے ہیں
حفظ قرآن سے کچھ نہیںہوتایہ صرف مذہبی باتیں ہیںحیرت ہے ۔۔۔ تو پھر اسلام پر لوگ اورآپ مطمئن کیوں ہیںیہ بھی تو مذہبی باتیں ہیں ؟حیرت ہے ۔۔۔۔!
شکریہ
عرفان عادل