آج شام جیو ٹی وی پر الیکشن کے سلسلے کا پروگرام گریٹ ڈیبیٹ کچھ دیر دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ اس پروگرام میں پاکستان کی چھ بڑی سیاسی جماعتوں کے نمائندے مختلف امور پر اپنی پارٹی کا موقف بیان کرتے ہیں۔ اس سے پہلے میں اس سلسلے کا ایک اور پروگرام دیکھ چکا ہوں جو کہ پولیس کے محکمے کی بہتری کے بارے میں تھا۔ آج پانی پر بات ہورہی تھی۔ یہ پروگرام دیکھ کر مجھے خاصی مایوسی ہوئی۔ تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندے درحقیقت مسائل کا بالکل ادراک نہیں رکھتے تھے۔ نہ ہی ان میں سے کسی کے پاس کوئی اطمینان بخش حل موجود تھے۔ ان میں سے اکثر نامعلوم وجوہات کی بنا پر اپنے جوابات میں انگریزی الفاظ زبردستی ٹھونسنے کی کوشش کرکے معزز بننے کی کوشش کررہے تھے۔ باقی نمائندگان تو پھر بھی کچھ فائلیں، کاغذات اور اپنی پارٹی کا منشور سامنے رکھے بیٹھے تھے جسے وہ وقتا فوقتا الٹ پلٹ کر دیکھتے رہتے۔ مگر ایم ایم اے کے مولوی صاحب تو غالبا سب کچھ حفظ کرکے آئے تھے۔ جیسے وہ کسی دینی مجلس میں فی البدیہہ خطبہ دے لیتے ہیں۔ سوچ رہے ہونگے یہ بھی اس قسم کی ہی کوئی مجلس ہے۔ ان سب کو ایک ساتھ بیٹھے دیکھ کر آپ کو ایسا لگتا ہے کہ جیسے دسویں جماعت کے بچے اے یو خان کی شرح میں سے انگریزی کا مضمون سنارہے ہوں۔ یعنی ایک ہی مضمون میرا اسکول، ایک اسکول فنکشن، کرکٹ میچ، بابائے قوم، ایک یادگار دن، وغیرہ سب کے لئے فٹ۔ مثال کے طور پر اگر ان سے پوچھا جائے کہ پینے کے صاف پانی کے بارے میں آپ کا کیا موقف ہے اور آپ اپنے پروگرام پر کیسے عمل پیرا ہونگے تو ان کے جوابات کچھ اس طرح کے ہوتے ہیں:
جی پینے کے پانی کے بارے میں ہماری جماعت کی پالیسی بالکل واضح ہے کہ پینے کا صاف پانی ہر پاکستانی کا بنیادی حق ہے۔ ہمارے ملک میں ہر سال سینکڑوں لوگ پانی سے پیدا ہونے والی انفیکشنز سے متاثر ہوکر زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ ملک میں ہیپاٹائٹس کے مریضوں میں اضافہ ہوا ہے۔ ہماری پارٹی کے پاس پانی کے مسئلے سے نمٹنے کے لئے جامع پلان ہے۔ جس میں سب سے پہلی بات یہ ہے کہ۔۔۔ (اس موقع پر وہ اپنے سامنے رکھے کاغذ دیکھیں گے) ہم پاکستان کے ہر علاقے شہروں اور دیہات میں فلٹریشن پلانٹ لگائیں گے۔ صنعتی فضلے کو صحیح طرح ٹھکانے لگانے کے سلسلے میں ٹاسک فورس بنائیں گے۔ ہم ایک کمیٹی بنائیں گے جو یہ تلاش کرے گی کہ پینے کا پانی کس طرح صاف کیا جائے۔
اگر نمائندہ ایم کیو ایم یا پی ایم ایل کیو کا ہو تو:
ہم نے پچھلے پانچ سال میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی کا بھرپور بندوبست کرنے کی کوشش کی ہے۔ (ایم کیو ایم کا نمائندہ ہو تو) کراچی میں، (ق لیگ کا ہو تو)، پنجاب میں ہم نے سینکڑوں فلٹریشن پلانٹ لگائے ہیں۔
اگر اپوزیشن جماعتوں کا ہو تو:
پچھلے دس سالوں میں اس صورتحال پر کچھ کام نہیں ہوا جس سے عوام کے مصائب میں اضافہ ہوا۔
اور اگر ایم ایم اے کا ہو جو کہ نہ تین میں ہیں نہ تیرہ میں تو:
الحمداللہ صوبہ سرحد میں ہم نے پینے کا صاف پانی فراہم کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے اور پاکستان کے دیگر صوبوں کی نسبت سرحد میں اس قسم کی صورتحال نہیں (اچھا تو سرحد کی چھوٹی سی خانہ جنگی کے بارے میں کیا خیال ہے؟) ہم اقتدار میں آکر کوشش کریں گے کہ پورے پاکستان میں شہریوں کو پینے کا صاف پانی میسر ہو۔
انہی خطوط پر آپ ان کے اگلے اور پچھلے تمام پروگرامز میں ہونے والی گفتگو کا اندازہ کرسکتے ہیں۔ جس میں ایسے کھوکھلے دعوے ہیں کہ جن پر ان نمائندوں نے کبھی خواب میں بھی غور نہ کیا ہوگا۔ گرچہ اس طرح کے پروگرام ایک نئی اور اچھی روایت ہیں۔ مگر افسوس ہمارا سیاستدان آج بھی بے حد دقیانوسی، کم علم اور ذہنی پسماندگی کا شکار ہیں۔
میزبان: اچھا عدلیہ کی آزادی کے بارے میں آپ کی پارٹی کا کیا نقطہ نظر ہوگا:
نمائندگان: عدلیہ کی آزادی کے بارے میں ہماری پارٹی کا موقف بہت واضح ہے۔ ہم عدلیہ کی مکمل آزادی پر یقین رکھتے ہیں۔ اس سلسلے میں ہم ایک ٹاسک فورس بنائیں گے اور آئنی ماہرین کی ایک کمیٹی تشکیل دیں گے۔ جو اس بات کا جائزہ لے گی کہ عدالتوں میں انصاف کی فراہمی کو کس طرح بہتر بنایا جائے۔
میزبان: بے روزگاری دور کرنے کے بارے میں آپ کے پاس کیا حکمت عملی ہے؟
نمائندگان: بےروزگاری کے بارے میں ہماری پارٹی کا موقف بہت واضح ہے۔ ہم ہر پاکستانی کو روزگار دینے پر یقین رکھتے ہیں۔ اس سلسلے میں ہم ایک ٹاسک فورس بنائیں گے اور ایک کمیٹی تشکیل دیں گے۔ جو اس بات کا جائزہ لے گی کہ اتنے مصائب کے باوجود ان بے وقوف بیروزگاروں نے ابھی تک خودکشی کیوں نہیں کی۔
ایم ایم اے کا نمائندہ: صوبہ سرحد میں ہم نے بیروزگاری کا خاتمہ کردیا ہے۔ اب ہر بیروزگار طالبان کے ساتھ جہاد فی سبیل اللہ میں شریک ہوسکتا ہے۔
ایم کیو ایم: کراچی اور حیدرآباد میں تو بیروزگاری ہے ہی نہیں۔ اگر ہے تو کراچی میں موبائل اسنیچنگ کے بھرپور انتظام ہے جہاں نوجوان اپنی صلاحیتوں اور قابلیت کا بھرپور فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔ اگر وہ یہ نہیں کرسکتے تو تنظیم میں شامل ہوجائیں۔ جہاں جھنڈے لگانے والوں اور دیواروں پر گالیاں لکھنے والوں کی ہر وقت ضرورت رہتی ہے۔
پی ایم ایل ق: ہم سب بیروزگاروں کو وظیفہ دیں گے۔
پی ایم ایل این: ہم پیلی ٹیکسیاں نکالیں گے۔
پی پی پی: محترمہ آئیں گی تو روزگار لائیں گی۔
میزبان: لیکن محترمہ تو۔۔۔
پی پی پی نمائندہ: وہی تو اب آپ کو بلاول کا انتظار کرنا ہوگا۔
ایک دم بکواس اور بورنگ۔ واقعی پاکستان کی عوام کے پاس آپشن ہی کیا ہے۔ خچر نہ سہی تو گدھا، گدھا نہ ملے تو سائیکل یا پھر بھس بھرا شیر۔ لیکن پھر بھی اٹھارہ فروری کو ووٹ دینے ضرور نکلئے گا۔ چاہے آپ کسی کو بھی ووٹ دیں۔ مگر اپنا ووٹ ضائع نہ جانے دیں۔
ہمارا تجربہ یہ ہے کہ سیاستدان اکثر سوال چنا تو جواب گندم کے مصداق اصل مسئلے پر بات کرتے ہی نہیں بلکہ اگر حزب مخالف ہے تو حکمرانوں کی برائیاں اور اگر حکمران جماعت ہے تو اپنے کارناموں کو بار بار دہراتے جائیں گے۔ یہ لوگ اپنے منشور تک سے واقف نہیں ہوتے اور منشور پر بات کرتے ہوئے انہیںسب سے زیادہ تکلیف ہوتی ہے۔
عدلیہ گرفتار، میڈیا پابند، امیدوار بیکار۔۔۔پھر بھی ہے الیکشن پر اصرار؟
جی ہاں بالکل کیوں کہ یہ پراسس چلتے رہنا ازحد ضروری ہے