ڈاکٹر مرزا اختیار بیگ بمقابلہ ایم کیو ایم

افتخار نے اپنے بلاگ پر پاکستان مسلم لیگ نواز گروپ کی حمایت کی ہے اور قارئین سے انہیں ووٹ دینے کی فرمائش کی ہے۔ جو میرے خیال میں دیگر صوبوں میں رہنے والوں کے لئے ایک بہترین آپشن ہے۔ کیوں کہ ان کی جیت کا امکان ہے اور وہ اچھا مقابلہ کررہے ہیں تو جتنے زیادہ ووٹ انہیں ملیں گے لوٹا لیگ کے اتنے ہی ووٹ کم ہونگے اور آئین و پارلیمنٹ کی بالادستی بحال ہوگی۔ اگر بی بی زندہ ہوتیں تو شاید انتخابی معرکے کی صورتحال یہ نہ ہوتی۔

ہمارے حلقے میں ن لیگ کا امیدوار پیپلزپارٹی کے حق میں دستبردار ہوگیا ہے۔ اور اگر آپ نے میری پچھلی تحاریر پڑھی ہوں تو میں کافی کنفیوز تھا۔ کیوں کہ ڈاکٹر اختیار بیگ اور خوش بخت شجاعت دونوں کافی سلجھے ہوئے امیدوار معلوم ہوتے ہیں۔ مگر میری والدہ کا خیال ہے کہ خوش بخت شجاعت (ایم کیو ایم) شاید ہی کبھی اپنی پارٹی کی پالیسیوں سے اختلاف کریں۔ اور دوئم یہ کہ خوش بخت شجاعت کا معاملات میں کوئی اپنا نقطہ نظر نہیں۔ اس کے برعکس ڈاکٹر صاحب ماہر معیشت ہیں، صنعتکار ہیں، انتخابات سے پہلے وہ اکثر حکومت کو بھی معیشت کی بہتری کے لئے تجاویز دیتے رہے ہیں۔ جس کا مطلب ہے وہ کم از کم معاشی مسائل پر تو نظر رکھتے ہیں۔ میری والدہ کو قوی امید ہے کہ ڈاکٹر صاحب جیت جائیں گے۔ کیونکہ کئی ووٹر شاید ایک خاتون امیدوار کو ووٹ دینا پسند نہ کریں۔جیسے پچھلی سے پچھلی مرتبہ ایم کیو ایم کی نسرین جلیل اسی حلقے سے جماعت اسلامی کے عبدالستار افغانی کے ہاتھوں ہار گئی تھیں۔

میں خواتین کا الیکشن میں حصہ لینا بہت اچھا سمجھتا ہوں۔ مگر میرے خیال میں ڈاکٹر صاحب ہر لحاظ سے ایک بہتر امیدوار ہیں۔ گرچہ خوش بخت میں بھی کوئی قابل ذکر خامیاں نہیں لیکن میں ان کی پارٹی سے کوئی ایسا خاص متاثر نہیں ہوں۔ ان کی پارٹی کے ہی ایک نمائندے عامر لیاقت حسین کو لال مسجد واقعے پر پارٹی نے دیوار سے لگادیا ہے۔ انہیں نہ الیکشن کا ٹکٹ دیا گیا اور نہ ہی وہ انتخابی مہمات میں نظر آتے ہیں۔ تو یہ کہنا بہت آسان ہے کہ محترمہ کی انفرادی صلاحیتیں کبھی منظر عام پر نہ آسکیں گی۔ ان کی پارٹی نے پچھلے تمام عرصے میں وفاق یا صوبے میں کوئی قابل ذکر قانون سازی نہیں کی۔ ان کی جماعت انتہاپسندی اور دہشت گردی کے خلاف بھی کوئی اچھا منصوبہ پیش نہ کرسکی۔ ان کے حکومت میں ہوتے ہوئے بلوچستان میں آپریشن جاری رہا، وزیرستان سے سینکڑوں خاندانوں کو کراچی آنا پڑا، کراچی میں بجلی کی بدترین لوڈشیڈنگ جاری رہی، اسٹریٹ کرائمز میں بے حد اضافہ ہوا۔ ان کی پارٹی نے جنرل مشرف کی اندھا دھند حمایت کی۔ حتی کہ ان کی انتخابی مہم کے اہم وعدے کہ صوبہ سندھ کو این ایف سی ایوارڈ سے اس کا جائز حصہ دلایا جائیگا اس پر بھی عمل نہیں ہوا۔ صوبہ سندھ میں تعلیم کا محکمہ زبوں حالی کی بدترین سطح پر پہنچ گیا۔ کسی نئی بڑی یونیورسٹی کا سنگ بنیاد نہیں رکھا گیا۔ اندرون سندھ بیروزگاری میں اضافہ ہوا اور ڈیولپمنٹ جو کراچی اور پنجاب میں ہوئی اس کی آدھی بھی اندرون سندھ میں نہ ہوئی۔ کرپشن ایسے کا ایسا رہا ایک سروے کے مطابق سندھ پاکستان کا دوسرا کرپٹ ترین صوبہ ہے۔ جہاں سب سے زیادہ کرپشن محکمہ تعلیم اور پولیس میں ہے۔ صحت کا شعبہ بھی از حد نچلی سطح پر ہے۔ حیدرآباد سمیت سندھ کے کئی علاقوں میں بچے گیسٹرو سے ہلاک ہوئے۔

ppp_arrow.gifتو پارٹی کی بنیاد پر تو خوش بخت کو ووٹ نہیں دیا جاسکتا اور شخصیت کی بنیاد پر ڈاکٹر صاحب ان سے بہتر نظر آتے ہیں۔ اس لئے کل میں ڈاکٹر بیگ کو ووٹ دونگا۔ اگر آپ قومی اسمبلی کے حلقہ این اے دو سو پچاس میں رہتے ہیں تو آپ سے درخواست ہے کہ الیکشن کے دن گھر سے نکلیں اور تیر پر نشان لگا کر ڈاکٹر مرزا اختیار بیگ کو ووٹ دیں۔

تبصرے:

  1. پچھلے ہفتہ عشرہ میں پنجاب میں اتنی تیزی سے سیاسی تبدیلی آئی ہے کہ لوٹا لیگ کا اشتہاروں اور ووٹروں پر لگایا ہوا اربوں روپیہ برباد ہوتا صاف نظر آ رہا ہے ۔ آج میں اتوار بازار سودا لینے گیا تو ہر دکاندار سودا دینے سے پہلے پوچھتا ” صاحب۔ ووٹ کس کو دے رہے ہیں؟” میں اُلٹا پوچھتا "آپ کس کو ووٹ دے رہے ہیں ؟” تو جواب ملتا "صاف ظاہر ہے ۔ مہر لگے گی شیر پر”۔

  2. السلام علیکم جناب نعمان!
    چاچو افتخار اجمل اپنی بلوگ سے اس تجویز والی ‘مضمون کو نکال چکے ہیں۔

Comments are closed.