مجھے اپنے ہموطنوں سے شکوہ ہے کہ اکثر وہ انجانے میں مہاجروں پر الزامات لگاتے ہیں۔ مجھے اندازہ ہے کہ وہ ایسا بالکل نہیں کرنا چاہتے لیکن کراچی کے فسادات کا تذکرہ ہو تو لوگ خودبخود شہر کو اردو بولنے والوں اور دیگر زبانیں بولنے والوں کے درمیان تقسیم کردیتے ہیں۔ سوال اٹھائے جاتے ہیں کہ مہاجر ایم کیو ایم جیسی گھٹیا جماعت کو کیوں سپورٹ کرتے ہیں۔ مہاجر خود کو مہاجر کیوں کہلواتے ہیں۔ مہاجر ایسے، پنجابی ویسے، پختون ویسے۔ وغیرہ وغیرہ۔ میں مہاجر ہونے کو کوئی بے عزتی نہیں بلکہ فخر کی بات سمجھتا ہوں۔ مگر ایسے تذکروں سے مجھے یوں لگتا ہے کہ جیسے میری قومیت پر سوال اٹھایا جارہا ہو۔ جیسے میرے مزاج کو ایک مخصوص سیاسی جماعت کا مزاج سمجھا جارہا ہو۔ اور میری سوچ کو قومی سوچ کے برخلاف سمجھا جارہا ہو۔
میں اکثر لکھتا ہوں کہ اگر کراچی کے حالات کا ذکر ہو تو لامحالہ اس تذکرے سے لسانیت اور تعصب کی بو آنے لگتی ہے۔
عموما ایسے تذکروں میں آپ دیکھیں گے کہ آدھے مہاجر ایم کیو ایم کی صفائی دینے لگتے ہیں اور باقی آدھے یہ صفائی پیش کرنے لگتے ہیں کہ ایم کیو ایم مہاجروں کی نمائندہ جماعت نہیں ہے۔ جیسے ہم ہی چور ہوں، ہم ہی ملزم ہوں اور ہم ہی پر مقدمہ چلایا جارہا ہو۔ آخر ہم صفائی کیوں پیش کریں؟
یہاں حالات خراب کرنے کے لئے کسی کو محض تیس چالیس غنڈوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ جہاں ایک طرف اس شہر میں روزگار کی فراوانی ہے وہاں دوسری طرف یہاں روزانہ پورے ملک سے سینکڑوں غیر ہنرمند، بے پڑھے لکھے اور انتہائی پسماندہ علاقوں کے نوجوان خواب لیکر آتے ہیں۔ یہ ان نوجوانوں کے علاوہ ہیں جو اس شہر میں پہلے سے رہ رہے ہیں۔ ان کے پاس روزگار نہیں، کوئی اعلی نظریات نہیں، کرنے کو کوئی قابل ذکر کام نہیں۔ یہ لوگ ایسے گروہوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں جو انہیں ان فسادات میں بطور پٹرول استعمال کرتے ہیں۔ یہ گروہ بھرتی کرتے وقت کبھی بھی مہاجر، سندھی، پنجابی، پختون یا بلوچ نوجوان میں کوئی تفریق نہیں کرتے۔ اور ان غنڈوں میں آپ کو ہر قومیت کے لوگ ملیں گے۔ ناراض، بے روزگار اور خود کو منوانے کی خواہش رکھنے والے ان نوجوان غنڈوں کی مارکیٹ سے انہیں ایم کیو ایم ہی نہیں کوئی بھی سیاسی جماعت، جرائم پیشہ گروہ، ایجنسیاں یا لسانی تنظیم کبھی بھی کرائے پر حاصل کرسکتی ہے۔
بد اچھا اور بدنام برا، سارے فساد کا الزام لوگ اسی جماعت کے سر ڈال دیتے ہیں جو بدنام ہے۔ بلاشبہ وہ جماعت غنڈہ گردی اور دہشت گردی میں ملوث رہی ہے۔ لیکن اگر ہم حقائق سے نظریں چراتے رہیں گے اور الزام تراشی کے لئے آسان ترین شکار پر ضرب لگاتے رہیں گے تو ہم کبھی مسائل سلجھا نہیں سکیں گے۔
ان واقعات کا آغاز اس دن سے ہوتا ہے جب آصف زرداری نائن زیرو پہنچتے ہیں۔ جہاں ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی جو ہمیشہ ایک دوسرے کو نظریاتی حلیف قرار دیتے رہے ہیں، اپنے پرانے اختلافات سے دست بردار ہونے پر تیار ہوجاتے ہیں۔ ایم کیو ایم نوے کی دہائی میں ہونے والے اپنے کارکنان کے ماورائے عدالت قتل پر پیپلزپارٹی سے معافی نامے کا مطالبہ ترک کردیتی ہے اور پیپلزپارٹی ایم کیو ایم کو بارہ مئی کے واقعے پر معاف کردیتی ہے۔ ایم کیو ایم پیپلز پارٹی کو غیرمشروط تعاون اور حمایت کا اپنا وعدہ دہراتی ہے۔ اور اگلے دن سے عجیب و غریب واقعات کا تسلس شروع ہوجاتا ہے۔
اسمبلی میں تین نشستیں رکھنے والی ایم ایم اے کو وزارت دی جاتی ہے۔ ق لیگ کے لوٹوں کو ن لیگ میں قبول کیا جاتا ہے۔ مقدمے معاف ہوتے ہیں، جج رہا ہوتے ہیں۔ ہر طرف مفاہمت کا دور دورہ ہے۔ تو اس مفاہمت میں قومی اسمبلی میں انیس نشستیں رکھنے والی جماعت کو شامل کرنے میں کس کو اعتراض ہے اور کیوں؟ جب کہ ایم کیو ایم کی مفاہمت صرف پیپلز پارٹی سے ہے نہ کہ حکمران جماعت کے تمام اتحادیوں سے۔ سوال یہ ہے کہ ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے قریب آنے سے نقصان کس کا ہے؟
کراچی کی مختصر سی تاریخ حادثات اور فسادات سے بھری پڑی ہے۔ لسانی اور سیاسی جھگڑوں کے حوالے سے یہ شہر ہمیشہ زخم کھاتا رہا ہے۔ ہر تازہ زخم کے بعد یہ شہر پھر بھی اپنی ترقی کا سفر جاری رکھتا ہے۔ اور سب کی طرح مجھے بھی ڈر لگتا ہے کہ کہیں کسی دن یہ زخموں سے اتنا چھلنی نہ ہوجائے کہ پھر اٹھ نہ سکے اور اس کی کہانی ایک بے تکے موڑ پر ختم ہوجائے۔
میرا تعلق بھی کراچی سے ہے اور میں مہاجر بھی ہوں۔۔یہ اس لئے عرض کیا کہ کوئی لسانی رنگ نہ نکال لیں
مجھے یہ بتائیںکہ شیر افگن سے بد سلوکی پر ایم کیو ایم کو ریلی نکالنے کی کوئی تک آپ کو سمجھ آتی ہے۔۔دیکھیں اگر آپ انصاف کی بات کریں تو کل کے واقعات کی براہ راست ذمہ داری ایم کیو ایم کی ہے۔۔ یہ ہماری مہاجروں کی نمائندگی کرنے کے دعویدار ہیں اور احتجاج میں ھماری املاک کو ہی آگ لگا دیتے ہیں۔۔ ۔ شیر افگن پر دو تھپڑوںکے بدلے میں انسانوں کو جلا دیتے ہیں ۔۔
اگر آپ کراچی کے باشندے ہیں تو آپ کو یہ بات بتانے کی بھی ضرورت نہیں ہونی چاہئے کہ کل متحدہ کے کارکنان کیا کر رہے تھے۔۔اور آپ کو یہ بھی اچھی طرح معلوم ہوگا کہ یہ کیا کر سکتے ہیں۔
ایم کیو ایم کا ذکر کرتے ہوئے تعصب کی بو اس لیے آنے لگتی ہے کہ یہ جماعت لسانی بنیادوں پر بنی تھی اور ابھی تک اس نے اپنی روش نہیں بدلی۔
کل کے فسادات کا مقصد صرف اور صرف شو آف پاور تھا اور 12 مئی کے فسادات کی طرح اس دفعہ وکلا کو طاقت دکھانی تھی۔ اسی لیے کل کے فسادات میںبیچارے وکلا مرے۔ اگر اجمل صاحب کی یہ بات درست ہے کہ ایم کیو ایم کے لوگ بارکونسل کے اجلاس میںگھس آئے انہوںنے ہنگامھ آرائی شروع کردی تو پھر کسی شک کی گنجائش باقی نہیںرہتی کھ کل کے فسادات بھی ایم کیو ایم نے ہی شروع کیے۔
اگر ایم کیو ایم یا موجودہ حکومت مخلص ہوتیں تو یہ ریلی پولیس یا رینجرز کی نگرانی میںنکالی جاسکتی تھی۔
موجودہ فسادات پر اگر کوئی بہتر روشنی ڈال سکتا ہے تو وہ شعیب صفدر ہیں جو ہو سکتا کل کچہری یا بار کونسل میںموجود ہوں اور ان سارے واقعات کے چشم دید گواہ بھی۔
متحدہ جب بھی حکومت سے باہر ہو کراچی میں اسطرح کے واقعات سر اٹھانے لگ جاتے ہیں اور واقعات میں ایک طرح کی ہم آہنگی اور تسلسل شک کو مزید تقویت دینے کا باعث بنتا ہے۔ میرا نہیں خیال کے کوئی بھی کراچی کے واقعات کا ذمہ دار اردو بولنے والوں کو قرار دیتا ہے بلکہ متحدہ کی قیادت کو اسکا ذمہ دار ٹہرایا جاتا ہے۔
احمد، چلیں آپ متحدہ کو بری الذمہ قرار نہ دیں لیکن حالات کو دیگر پہلوؤں سے بھی دیکھنے کی کوشش کریں۔ متحدہ کے کارکنوں کی دہشت گردی کسی سے اب پوشیدہ نہیں رہی ہے۔ لیکن کٹھ پتلیوں کو ملزم ٹہرانے سے ڈور ہلانے والوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا وہ کوئی دوسری کٹھ پتلیاں ڈھونڈ لیں گے۔
راشد کامران متحدہ بارہ مئی کے واقعات کے دوران حکومت میں تھی۔ تو یہ کہنا کہ وہ جب حکومت سے باہر ہوتے ہیں تو اس قسم کے واقعات ہونے لگتے ہیں شاید درست نہیں۔ میرا خیال ہے اس واقعے کو ایم کیو ایم کے ماضی کو مدنظر رکھتے ہوئے انہیں موردالزام ٹہرانے کے بجانے اگر گذشتہ دنوں کے واقعات کو دیکھیں تو زیادہ صاف تصویر سامنے آتی ہے۔
جمہوری حکومت کے پنپنے اور استحکام کے لئے یہ ضروری نہیں کہ ایم کیو ایم کو دیوار سے لگادیا جائے۔ بلکہ اصل ضرورت اس بات کی ہے صدر مشرف سے نجات حاصل کی جائے اور جمہوری ادارے ملکی ایجنسیوں پر کنٹرول حاصل کریں۔
بلکہ اصل ضرورت اس بات کی ہے صدر مشرف سے نجات حاصل کی جائے اور جمہوری ادارے ملکی ایجنسیوں پر کنٹرول حاصل کریں۔
مین بھی یہی کہتا ہو کہ مہا جروں کے اصلی رہنما افا ق ابھا ئی کو بھی رہا کیا جا ئے ۔ اگر اپ مہا جروں کے حقوق کی با ت کر تے ہے ۔میں مہا جر نہیں ہو پنچا بی ہو لیکن میں اس شخص کی حما یت اس لئے کرتا ہو وہ مہا جروںکے حقو ق کی با ت کرتا ہے اس کی نیت کا اندازہ اس کی جما عت کے نام سے بھی لگا ہا جا سکتا ہے ، جس الطا ف با ئی کا سا تھ اس لئے چھوڑا کہ وہ مہا جروںکے حقو ق سے با غی ہو رہا تھا ۔ جس جما عت کے لئے اس نے خون پیسنہ ایک کیا اس بدزات نے اپنے فا یدہ کیلئے استمعا ل کیا ۔
میں اس لئے یہی کہا گا کہ
پڑھے لکھوں مہا جروں کا پڑھ لکھا بھا ئی
افا ق بھا ئی ! افا ق بھا ئی