آج دوپہر کو اسلام آباد سے گھر لوٹا۔ جب صبح اسلام آباد ائرپورٹ پر تھا تو وہاں کا موسم ایسا دل خوش کن تھا کہ گھر آتے دل اداس ہوتا تھا۔ جیسے ہی ائر پورٹ سے نکلے ہیں تو گرمی اور کراچی کی مرطوب ہواؤں نے استقبال کیا۔ پانچ دن اسلام آباد کی سڑکوں پر سفر کرنے کے بعد آپ سوچ سکتے ہیں کہ کراچی کا ٹریفک کیسا لگا ہوگا۔ لوگ گاڑی پر گاڑی چڑھائے جارہے ہیں، اشتہارات نے سڑک کے کسی کونے کسی عمارت کسی پل کسی سگنل کسی اسٹریٹ لائٹ کو نہیں بخشا ہے۔ تیز رفتار، ادھم مچاتی، حواس باختہ کردینے والی کراچی کی مصیبت زدہ زندگی۔
اوپر سے لوڈ شیڈنگ۔ اسلام آباد اور راولپنڈی میں روز قریبا چار گھنٹے لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے۔ ہر تین گھنٹے بعد ایک گھنٹے کی۔ لوگوں کو ٹھیک ٹھیک اندازہ ہوتا ہے کہ بجلی کب جائے گی۔ یہاں کراچی میں دو دو گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ جو کسی ظالم بادشاہ کے دربار میں غلاموں کے جسموں پر اچانک پڑنے والے کوڑوں کی طرح کبھی بھی پڑسکتی ہے۔۔۔ شڑاپ ۔۔۔۔ اور مظلوم صرف بلک کر، کراہ کر رہ جاتے ہیں۔
میں وہاں ایک ورکشاپ میں حصہ لینے گیا تھا۔ اس ورکشاپ میں ملک کے دیگر علاقوں سے آئے ہوئے لوگوں کی بڑی تعداد تھی۔ مقصد بچوں کے لئے کہانی لکھنے کے تخلیقی عمل کو آسان مشقوں کے ذریعے سمجھنا تھا۔ میں بچوں کو جن بھوتوں پریوں اور چڑیلوں کی کہانیاں سنانا چاہتا ہوں یا پھر تاریخ کے اسباق۔ میرے کچھ دوست اخلاقیات کے درس کہانیوں میں پرونا چاہتے تھے۔ کچھ سیرت محمد سے بچوں کی دلچسپی اور تعلیم کے درس مرتب کرنا چاہتے تھے۔ اور کچھ ساتھی ان بچوں کو فرہنگی زبان میں اسلامیات پڑھانا چاہتے تھے۔ ہم سب کے اذہان انہی کہانیوں سے بھرے پڑے تھے جن میں بچوں کو دلچسپی نہیں۔ شاید آج کے بچے کی تخیلاتی دنیا کو متغیر کرنا اتنا آسان نہیں جتنا ہمارے بچپن میں تھا۔
ورکشاپ سے پرے پرے جب ہم ہوسٹل میں آٹہرتے تو خوب مباحثے چھڑتے۔ یہ بڑا رنگا رنگ ماحول تھا جہاں ملک کے ہر علاقے سے آئے ہوئے لوگ تھے اور ہر کوئی ایک دوسرے کے بارے میں جاننا چاہتا تھا۔
میں نے اندازہ لگایا کہ مہنگائی سے کراچی کے لوگ بھی بے حد بری طرح متاثر ہیں مگر پنجاب اور سرحد کے لوگوں کی مشکلات اور بھی زیادہ ہیں۔ لوگوں کے ذرائع آمدنی بے حد قلیل ہیں اور اگر آپ صرف ان کی آمدن کے اعداد ہی سن لیں تو سوچ سکتے ہیں کہ زندگی کی گاڑی چلانا ان کے لئے کیسا دشوار ہوگا۔ بچوں کی تعلیم کپڑا اور دوائی تو چھوڑ، یہاں تو کھانے کے بھی لالے پڑے ہیں۔
صوبہ سندھ اور بلوچستان میں تو غربت افریقہ کے غریب ترین ممالک سے بھی زیادہ ہوتی جارہی ہے۔ وہاں لوگ اناج کی گاڑیوں پر حملے کررہے ہیں۔ صحت، تعلیم اور پینے کا پانی تو انہیں پہلے ہی میسر نہیں تھا۔ اب تو دو وقت کا کھانا بھی ان کی پہنچ سے دور ہوگیا ہے۔ وہاں لوگ پرتشدد ہورہے ہیں۔
الغرض ملک کے کسی علاقے کے رہنے والے لوگوں کی زندگی کم مصیبت زدہ نہیں ہے۔ ایک ہی کہانی پورے ملک کی ہے۔ لوگ بے حد فکر مند ہیں اور ناامید بھی۔
میرے دوست عمران جو لاہور میں نکڑ تماشہ کرتے ہیں وہ مجھے بصد اصرار مری لے گئے۔ مزید دکھ ہوا۔ جگہ جگہ کوڑے کے ڈھیر ملکہ کوہسار کو فقیروں کی بستی کی اندھی بڑھیا جیسا بدنما بنارہے ہیں۔ درخت ڈھائے جارہے ہیں اور لینڈسلائیڈنگ کے خطرے کے باوجود انتہائی ناقص عمارات تعمیر کی جارہی ہیں۔
یہاں آکر آپ دیکھتے ہیں کہ ایک طرف تو نام نہاد ٹورسٹ ہیں جو مال روڈ سے خریداری کو تفریح سمجھتے ہیں۔ دوسری طرف وہ چھوٹے بچے ہیں جو ہاتھ سے دھکیلنے والی گاڑیوں میں موٹی موٹی خواتین کو بٹھا کر پنڈی پوائنٹ تک دھکیل لے جاتے ہیں۔ اس سے بھی زیادہ مایوسی تب ہوتی ہے جب اس ٹھیلے پر بیٹھنے والا اور اسے دھکیلنے والا بچہ دونوں ہم عمر ہی ہوں۔ کیسی عجب ناانصافی ہے۔
مری میں میرا دل تب اور اداس ہوا جب تفریح کے لئے آئے ہوئے ایک خاندان کے والد نما آدمی کو اپنے سات آٹھ سالہ بچے کے رخسار پر تڑ ٹڑ چانٹے رسید کرتے دیکھا۔ میں تو اس سے لڑنے پہنچ گیا ہوتا اگر عمران نے مجھے نہ روکا ہوتا۔ میں کافی دیر تک اس خبیث انسان کو گالیاں دیتا رہا۔
آپ سوچ رہے ہونگے کہ یہ پوسٹ تو کچھ عجیب ہی بے تکی ہوتی جارہی ہے۔ میں بس یہ کہنا چاہ رہا تھا کہ اب کی بار میں اسلام آباد سے ایسا خوش خوش نہیں لوٹا ہوں۔ اب کی مرتبہ میں فکرمند اور اداس ہوں۔ حالات اچھے نہیں ہیں، ایک طرف تو ایک سرکاری ادارہ لاکھوں روپے خرچ کرکے لوگوں سے کہہ رہا ہے کہ وہ بچوں کے لئے کہانیاں لکھیں۔ دوسری طرف ہم ان بچوں کو نہ اچھی غذا دے سکتے ہیں، نہ اچھا لباس۔ ہم انہیں اچھی تعلیم بھی نہیں دے پارہے، ان کی صحت دنیا بھر کے بچوں میں خراب ترین ہے، اکیسویں صدی میں بھی ہمارے ملک کا بچہ ننگے پیر گھومتا ہے، گندہ پانی پیتا ہے اور قے جلاب جیسے امراض میں بن کھلے ہی مرجھا جاتا ہے۔ ہمارے پاس ان بچوں کو دینے کے لئے ایک اچھا مستقبل تو بالکل نہیں ہے۔
وہ کہتے ہیں بچوں کے لئے کہانی سناؤ۔ لیکن اس بچے کو کہانی کون سنائے گا جس سے کوئی پیار ہی نہیں کرتا۔
ایک طرف تو ایک سرکاری ادارہ لاکھوں روپے خرچ کرکے لوگوں سے کہہ رہا ہے کہ وہ بچوں کے لئے کہانیاں لکھیں۔ دوسری طرف ہم ان بچوں کو نہ اچھی غذا دے سکتے ہیں، نہ اچھا لباس۔
agar roti nahain hai tu cake khalu…wala maamla lagta hai
AA
Please raise your voice against this terrorism against students in Punjab Medical College;
http://www.express.com.pk/epaper/Article.aspx?newsID=1100421613&Date=20080608&Issue=NP_LHE
Thanks
Regards
Yahya Usman
i dont know why but i am not able to comment in urdu, may be you should give it a look.
its good to see maturity in your blog, i wonder if you would have agreed to any one us telling you about the plight of people in rest of pakistan. i also wonder how many karachiites know about what’s happening to pople in other parts of Pakistan.
rgds, faisal
بات تو غیر متعلق سی ہے مگر پھر بھی کیے دیتے ہیں کہ آپ کو اس ناچیز نے ٹیگ کرنے کی جسارت کردی ہے۔
آپ کو یہاںپر ٹیگ کردیا گیا ہے۔ پولیس کو مطلع کرنے کی کوشش نہ کیجئے اور خاموشی سے ٹیگنگ کے مطالبات پر عمل کرڈالیے۔
لیں جی آپ کو تیسری مرتبہ ہمارے بلاگ سے بھی ٹیگ کر دیا گیا ہے، اب آپ پر تین ٹیگ لگ چکے ہیں، جلدی سے حاضری دیں تاکہ اس میدان میں محسوس کی جانے والی آپ کی کمی پوری ہو سکے۔
کمال پوسٹ ھے نعمان صاحب۔ اس ملک میں فرعونیت کی انتھا ھو چکی ھے۔ ھمارا موسی نا جانے کب آیے گا۔ خدا ھی حافظ ھے ھم لوگوں کا۔