گذشتہ چند دنوں سے متحدہ قومی موومنٹ نے طالبان طالبان کی دہائی دے رکھی ہے۔ مجھ سے کئی لوگ پوچھ چکے ہیں کہ کیا واقعی کراچی کو طالبانائز کیا جارہا ہے۔ تو سوچا اس موضوع پر اپنی روشن خیالی کے اجالے بکھیر دوں۔
کراچی میں ہمیشہ سے پختون ایک بڑی تعداد میں آباد ہیں۔ اسی کی دہائی میں افغان مہاجرین کی آمد کے ساتھ بڑی تعداد میں پاکستانی پختونوں نے کراچی کا رخ کرا۔ اس کے بعد نوے کی تمام دہائی میں بڑی تعداد میں پختون مختلف علاقوں سے کراچی کا رخ کرتے رہے۔ یہاں تک کہ اس وقت کراچی دنیا کا سب سے بڑا پختون شہر ہے۔ عام تاثر یہ ہے کہ پاکستان کے دیگر علاقوں میں رہنے والے لوگوں کی بنسبت کراچی کے اردو بولنے والے نسبتا کم مذہبی ہوتے ہیں۔ دوسرا عام تاثر یہ ہے کہ پختون مذہب کے بارے میں تھوڑا کٹر رویہ رکھتے ہیں۔
پاکستان میں طالبان کی بڑھتی ہوئی قوت اور حکومت پاکستان کے اس کو بذریعہ طاقت روکنے کے نتیجے میں بڑی تعداد میں ایک بار پھر قبائلی علاقہ جات، سوات، تمام صوبہ سرحد، سے پختون کراچی کا رخ کررہے ہیں۔ گرچہ ان کا کوئی باقاعدہ اندراج نہیں لیکن اندازہ روزانہ ہزاروں نہیں تو سینکڑوں لوگ کراچی کا رخ کررہے ہیں۔ شہر کے نواحی علاقوں میں تیزی سے ان کی کچی آبادیاں پھیلتی جارہی ہیں۔ اور پختونوں کے مخصوص نواحی علاقہ جات تیزی سے گنجان ہوتے چلے جارہے ہیں۔
اب ہم آتے ہیں ایم کیو ایم کے وادیلے کی طرف۔ ایم کیو ایم کو پختونوں کی اتنی بڑی تعداد میں آمد پر سخت تشویش ہے۔ کیونکہ ایک تو یہ سراسر ان کے ووٹ بینک کے لئے نقصان دہ ہوگا۔ دوسرا انہیں ایک اور عفریت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جس کا نام ہے لینڈ مافیا۔ اس لینڈ مافیا کو بڑی سیاسی جماعتوں، مولویوں اور ہر کرپٹ فرد کی حمایت حاصل ہوتی ہے۔ غریب پختونوں کی کچی آبادیوں کے نام پر زمینوں پر قبضے کرے جارہیں جب کہ ان زمینوں کو اگر واگزار کرانے کی کوشش کی جائے تو اسے لسانی رنگ دے دیا جاتا ہے۔
دوسرا ایشو یہ ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں کٹر مذہبی رویہ رکھنے والے لوگوں کی شہر میں آمد سے سنگین امن و امان کے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ ایک تو ان آنے والوں میں بڑی تعداد نوجوانوں کی ہے۔ اوپر سے یہ تمام نوجوان غیر تعلیم یافتہ، بے ہنر، اور بے حد غربت کا شکار ہیں۔ آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ انہیں کسی بھی لسانی، سیاسی، یا نام نہاد مذہبی فساد میں استعمال کرنا کتنا آسان ہوجاتا ہے جب وہ پہلے ہی غربت، احساس محرومی اور ناانصافی کا شکار ہوں۔ اس وقت کراچی میں یہی ہورہا ہے۔
ان غریب پختون نوجوانوں کو اے این پی، جماعت اسلامی، انتہا پسند اسلامی تنظیمیں، ہر کوئی بطور ایندھن استعمال کرنا چاہتا ہے۔ بطور ایندھن انہیں استعمال کرنے کے لئے ضروری ہے کہ انہیں نفرت کرنے کے لئے کوئی قریبی دشمن دکھایا جائے۔ اور نیچرلی ایم کیو ایم سے زیادہ آسان ٹارگٹ کون ہوسکتا ہے۔ یہ متوسط طبقے کی نمائندہ جماعت ہے، جس میں اردو بولنے والے بڑی تعداد میں ہیں، جو صوبہ سرحد میں طالبان کے خلاف آپریشن کی حامی ہے، جو خود کو سیکولر لبرل جماعت کہلوانا پسند کرتی ہے، اور جو حکومت میں بھی ہے۔ مشرف کی حمایتی جماعت ہے۔
اگر آپ کراچی کو جانتے ہیں ہمارا شہر ایک رنگارنگ شہر ہے۔ ایک طرف سرسبز پارک چمچماتی سڑکیں، محلات، آسائشات کی فراوانی ہے تو برابر والی ہی گلی میں گٹر بہہ رہے ہیں، لوگ بیماریوں سے مر رہے ہیں، بے روزگاری، غربت اور جرائم کا راج ہے۔ بڑے شہروں کی یہ عدم مساوات ہمیشہ شرپسندوں کو بڑی تعداد میں بھرتیاں کرنے میں مدد دیتی ہے۔ اور اس وقت وہ یہی کررہے ہیں۔
گرچہ میں اس بات سے شاید مکمل اتفاق نہ کروں کہ طالبان کراچی پر قبضہ کرنے جارہے ہیں، تاہم مجھے ایم کیو ایم کی تشویش سے اتفاق ہے۔ کیونکہ یہ سب کچھ جو ہورہا ہے وہ شہر کے مفاد میں نہیں ہے۔ میں حکومت پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف مہم کو درست سمجھتا ہوں۔ اور میرے کچھ دوست کہتے ہیں کہ اگر آپ ایک علاقے پر جنگ مسلط کریں گے تو پناہ گزین بھی برداشت کریں۔ اور مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں۔ بشرطیکہ پناہ گزینوں کو پناہ گزین قرار دیا جائے۔ جو کہ ناممکن ہے کہ وہ بھی پاکستانی ہیں۔ لیکن بطور کراچی کا شہری مجھے اس بات کی سخت ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ کراچی آنے والوں کی نہ کوئی چھان پھٹک ہوتی ہے نہ ہی ان کی کوئی ریکارڈ کیپنگ ہوتی ہے۔
مجھے پختونوں سے کوئی عار نہیں بلکہ میں اپنے بلاگ پر کئی بار لکھ چکا ہوں کہ پختونوں کے بغیر کراچی کا تصور بھی محال ہے۔ کراچی کی شان ہیں اس کے پٹھان۔ اور کراچی ہمیشہ نئے آنے والوں کو خوش آمدید کہتا رہے گا۔ بشرطیکہ نئے آنے والے شہر کو سمجھیں اور اس کے مزاج میں گھلنے کی کوشش کریں۔ اور اگر نہ گھل سکیں تو واپس چلے جائیں۔ کراچی کو قبائلی علاقے میں تبدیل کرنے کی کوشش نہ کریں۔ ہم کراچی میں جرگوں کی صورت میں متوازی حکومتیں برداشت نہیں کرسکتے۔ ہم کسی کو یہ اجازت نہیں دیں گے کہ وہ اپنے بچوں کو ننگے پیر گندی گلیوں میں گھومنے دیں۔ ہم کسی کو اس بات کی بھی اجازت نہیں دیں گے کہ وہ غربت کے ہاتھوں مجبور ہوکر کم اجرتوں پر ملازمتیں کریں۔ اور کچھ نہ کریں تو جلاؤ گھیراؤ پتھراؤ کریں۔ ہم کسی انتہاپسند مصدقہ دہشت گرد کو یہ اجازت نہ دیں گے کہ وہ ہمارے شہر کے بچوں کو انتہاپسندی کا سبق پڑھانے کی کوشش کریں۔ ہم اپنے مدارس کی حفاظت خود کریں گے اور ہمیں کسی مدرسہ ایکشن کمیٹی کی ضرورت نہیں ہے۔ ہمارے شہر میں پورے پاکستان سے زیادہ مدارس ہیں۔ جو انتہائی اعلی درجے کی دینی اور دنیاوی تعلیم فراہم کرتے ہیں۔ ساری دنیا کے طالبعلم ہمارے شہر کے مدرسوں میں آکر تعلیم حاصل کرتے رہے ہیں۔ شہر میں نہ عالموں کی کمی ہے اور نہ طالبعلموں کی۔ اس لئے شرپسندوں کو دور رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی جانی چاہئے۔
ایم کیو ایم ایک سیاسی جماعت ہے اس لئے وہ اس ایشو کو سیاست کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ میرا نظریہ انسانی ہے۔ میرا خیال ہے کہ آنے والے قبائلی و دیگر پختونوں کو اپنے بچوں کو اسکولوں میں بھیجنا چاہئے۔ اور حکومت کو ایسا انتظام کرنا چاہئے کہ کوئی ان کی معاشی مجبوریوں کا استحصال نہ کرے۔ پختونوں کی مرضی سے کراچی کے پہلے سے قائم معیاری مدارس کی زیر نگرانی چلنے والے مدرسوں کو ہی ان کے محلوں میں تعلیم دینے کی اجازت دی جانی چاہے۔ حکومت سندھ کو ام احسان سمیت تمام ایسے لوگوں پر پابندی لگانی چاہئے جو انتہاپسندی پر مبنی نظریات کا پرچار کرنے کراچی آتے ہیں۔ شہری حکومت کو لینڈ مافیا سے لڑنے کا مکمل اختیار ہونا چاہئے۔جرگوں پر مکمل پابندی ہونی چاہئے۔ اور پختون ایکشن کمیٹی کی بلیک میلنگ کے خلاف سخت سے سخت ایکشن لینا چاہیے۔ جو بھی شہر کو قبائلی علاقہ سمجھنے کی حماقت کرے اور اسے صوبے سے باہر نکال دیا جائے۔
اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو پاکستان کی معاشی بیک بون پر کاری ضرب پڑے گی۔ بیرونی سرمایہ کار مارکیٹ سے پیسہ نکال لے گا (جو وہ پہلے ہی نکال رہا ہے)۔ مستقبل میں سرمایہ کاری کے لئے کسی کو آمادہ کرنا دشوار ہوجائیگا۔ تجارت کا بیڑہ غرق ہوجائیگا اور منتخب لوگوں کو غیر منتخب بلیک میلروں سے ڈکٹیشن لینے پر مجبور ہونا پڑے گا۔ جرائم کی شرح آسمان کو چھولے گی۔ فسادات کا رخ لسانی ہونے کے ساتھ مذہبی بھی ہوجائیگا۔ حکومت کی پریشانی میں اضافہ ہوتے ہیں طالبان کے پیر مضبوط ہونگے اور انتہاپسندی کو کچلنا مشکل سے مشکل تر ہوتا چلا جائیگا۔
آپ کی تحریر پڑھ کر کراچی کے لوگوں کا دوسرے علاقوں سے آنے والوں سے خوامخواہ کا خوف ظاہر ہو رہا ہے، خاص طور پر آخری پیراگراف تو اس کی عظیم مثال ہے، کہ یوں ہو جائے گا، وہ ہو جائے گا۔ کراچی پاکستان کا شہر ہے اور یہاں پاکستانیوں کو آ کر بسنے کے لئے کس قسم کا اندراج کروانا پسند کریں گے آپ؟ کراچی کا ایک عدد پاسپورٹ جاری کر دیا جائے؟ حد ہی ہو گئی ۔
دوسری بات ایک طرف آپ اظہار رائے کی آزادی کی تحریک چلاتے ہیں، دوسرے طرف ام حسان پر پابندی لگا رہے ہیں؟ یہ کس قسم کی اظہار کی آزادی چاہتے ہیں آپ؟ ام حسان کا اپنا نکتہ نظر ہے، اور اس کے متفق ہونا ضروری نہیں ہے ۔
Very good analysis of the situation in Karachi. Freedom of expression does not mean that you start preaching for suicide bombing to kill innocent people. Karachi must be protected against the Taliban. Had Talibanization been a successful phenomenon Afghanistan would have been the most peaceful country in the world.
اسکا سب سے آسان حل یہی ہے کہ پاکستان کے ساتھ آٹھ ٹکرے کر دیے جائیں ۔۔ ہر ٹکرا ایک لسانی اکائی کو دے دیا جائے۔۔ سب لوگ اپنے اپنے نظام کے مطابق اپنا ملک چلائیں اللہ اللہ خیر سلا ۔۔
نعمان صاحب آپ کے اٹھائے کچھ نکات سے کراچی کے باشندے کی حیثیت سے متفق ہوا جاسکتا ہے لیکن چند مٹھی بھر مذہبی انتہا پسندوں کے نام پر ساری پشتون آبادی کو طالبان کا ساتھی قرار دے دینا بالکل ایسے ہی ہے جیسے کسی زمانے میں سارے اردو بولنے والے پنجاب میں دہشت گرد سمجھے جاتے تھے یا کم و بیش سارے مسلمان آج کی دنیا میں دہشت کی علامت۔
متوازی نظام تو متحدہ بھی چلاتی رہی ہے اب واویلا کس بات کا؟ این پی آر پر سٹی ناظم نے بھی اس پر بات کی تھی کہ پشتون کراچی میں آرہے ہیں۔۔ پاکستان کے ہر شہری کو پاکستان کے کسی بھی کونے میں رہنے کی مکمل آزادی ہونی چاہیے اور سٹی ناظم جیسے عہدے پر فائز آدمی کا ایسا کہنا تو یوں ہے جیسے پشتون کوئی دوسرے ملک کے تارک وطن ہیں اور کراچی میں غیر قانونی آباد ہورہے ہی ۔۔ جہانزیب کی بات درست ہے۔ اور جب سندھ حکومت اور کراچی کی حکومت متحدہ کے اپنے ہاتھ میں ہے تو پھر وہ اس چیز کا انتظام کریں اور قبضہ مافیا کے ہاتھ روکیں؟ اگر یہ سب حکومت کے بس میں نہیں تو پھر حکومت کرنے کا جواز وہ بھی حق پرست قیادت کا؟
تحریر میں "کیا” کو "کرا” لکھ کر شاید آپ اپنے مہاجر ، یا اردو سپیکنگ ہونے کا احساس دلانا چاہتے ہین؟
ویسے ہمیں مہاجر یا اردو سپکینگ کہنا پسند نہیں ۔
Yes , why they only come to karachi why not other part of the country because they know that it is the city where they can do anything they want
we are already 4 million Afghani refuges in our city and what they do everybody knows
MQM surely is a draconian party with malicious intentions lead by the dracula Altaf Bhai. But on this point there is no way but to agree. Land mafia in Karachi is a real problem and hiding place for criminals. As mentioned by Noman in the post, if someone try to stop these encroachements those so called leaders start crying foul and turn it into an ethnic issue. Pashtuns are pakistanis and everyone should have right to stay in Karachi but only LEGALLY not by occupying the land in the name of "katchi abadis”
Its the fault of government who did not try to develop small cities but it is also the fault of people who elect such people (e.g. Larkana always elect PPP and look at that "city)
Muhajirs have after all proved themselves to be highly talented and progressive people.
جہانزیب کراچی کے لوگ کبھی نئے آنے والوں سے خوفزدہ نہیں ہوتے بلکہ ملک بھر سے لوگوں کی آمد شہر کی سماجی اور معاشی ترقی کے لئے ازحد ضروری ہے۔ باقی آپ کے دو اعتراضات کا جواب احمد اور ناصر جمال دے چکے ہیں۔ آزادی اظہار کو اشتعال انگیزی، بدامنی اور دہشت گردی پھیلانے کے لئے استعمال کرنا دنیا کے اکثر مہذب ممالک میں قابل سزا جرم ہے۔ دنیا کے ہر ملک میں دیہاتوں سے لوگ شہروں کو آتے ہیں۔ لیکن ضرورت اس بات کی ہے ان نوواردوں کو قانون کے مطابق چلنا ہوگا۔ کراچی قبائلی علاقہ نہیں کہ جس نے جہاں چاہا گارے مٹی سے چار دیواری کھڑی کرلی۔ دس بچے پیدا کرے اور پانچ کو برے طرز زندگی کی وجہ سے مرنے کو چھوڑ دیا۔ پانچ اللہ کے کرم سے اگر بڑے ہوگئے تو وہ بھی بے ہنر اور غیرتعلیم یافتہ۔ کراچی آئیں لیکن قانون کی پاسداری کریں شہر میں پختونوں کی کئی آبادیاں ہیں جو قانونی طور پر آباد ہیں وہاں رہائش اختیار کریں، کم پیسوں پر ملازمتیں نہ کریں بلکہ اپنا جائز حق مانگیں، انتہاپسندوں اور قانون دشمن عناصر سے دور رہیں تو موسٹ ویلکم۔
راشد کامران۔ بالکل کراچی میں رہنے والی تمام پختون آبادی طالبان نہیں۔ اور سٹی ناظم کی تشویش بالکل بجا ہے۔ آپ کروڑوں اربوں روپے خرچ کرکے سیوریج، فراہمی آب، سڑکوں اور ٹرانسپورٹ کا نظام چلاتے ہیں تو آپ کو یقینا بہت بڑی تعداد میں نئے آنے والوں پر تشویش ہونا چاہئے۔ ایم کیو ایم متوازی نظام حکومت نہیں چلاتی۔ ایم کیو ایم ایک سیاسی جماعت ہے جو کہ (چاہے دھاندلی سے ہی سہی) عوام کے ووٹ لیتی ہے اور خود کو قانونی طور پر ان عوام کا نمائندہ ثابت کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ تحریک طالبان، یا پختون ایکشن کمیٹی، یا مدرسہ ایکشن کمیٹیز آئینی، قانونی یا سیاسی حیثیت میں عوامی نمائندگی کا مینڈیٹ نہیں رکھتیں۔
انسان بھائی کیا کو کرا لکھنا مجھے بہتر معلوم ہوتا ہے۔
ہو سکتا ہے صوبہ سرحد اور بلوچستان کے باہر کراچی میں پٹھانوں کی کُل تعداد زیادہ ہو لیکن آبادی کا تناسب دیکھا جائے تو راولپنڈی اسلام آباد میں تناسب سندھ اور پنجاب کے کسی بھی شہر سے زیادہ ہے ۔ الطاف حسین اور اسکے حواریوں کی بات کرنا بیکار ہے ۔ الطاف حسین وہ شخص ہے جس نے بھارت جا کر بابائے قوم اور پاکستان کے خلاف زبان درازی کی تھی ۔ دین اسلام کا جہاں نام آ جائے تو اُسے تنگ نظری اور دہشت گردی نظر آنے لگتی ہے ۔ اگر کراچی والے پٹھانوں کو بُرا سمجھتے ہیں تو اُن کے رکشاؤں ۔ ویگنوں ۔ بسوں اور ٹیکسیوں میں بیٹھنا بند کر دیں اور ان کے ہاتھ کی پکی روٹی اور سالن ترکاری اور دوسری اشیاء کھانا بند کردیں ۔
جتنی اُجرت پر پٹھان کام کرتے ہیں اس پر کوئی دوسرا کراچی والا کرے گا ؟
سب سے نامعقول بات یہ ہے کہ کچھ لوگ کراچی کو مہاجروں یا اُردو بولنے والوں کی ملکیت سمجھتے ہیں ۔جو مہاجر تھے ان میں سے تو خال خال ہی اب زندہ ہیں باقی سب پاکستان کی پیدائش ہیں ۔ اگر وہ اپنے آپ کو مہاجر کہتے ہیں تو ان کی مثال جس تھالی میں کھانا اُسی میں چھید کرنا کے مترادف ہے ۔
یہ بھی غلط ہے کہ کراچی کی زبان اُردو ہے ۔ کراچی کی اصلی زبان اگر میں بولوں تو اردو بولنے والے کم ہی سمجھ پائیں گے ۔ اس زبان کو کوئی اینگلو انڈین کہتا تھا اور کوئی گلابی اُردو ۔
یہ فقرہ زبردست ہے
ہمارے شہر میں پورے پاکستان سے زیادہ مدارس ہیں۔ جو انتہائی اعلی درجے کی دینی اور دنیاوی تعلیم فراہم کرتے ہیں۔ ساری دنیا کے طالبعلم ہمارے شہر کے مدرسوں میں آکر تعلیم حاصل کرتے رہے ہیں
اس کے ساتھ یہ بھی لکھ دیا جاتا کہ ان مدرسوں میں تعلیم پانے والے کو ہم مصدقہ دہشتگرد کہتے ہیں ۔ اطلاع کیلئے لکھ رہا ہوں کہ مولوی عبداللہ مرحوم اور ان کے بیٹے مولوی عبدالعزیز جن کی بیوی کی کُنیت اُم حسّان ہے کراچی کے مشہور مدرسہ سے اعلٰی سند یافتہ ہیں ۔
جہاں تک لینڈ مافیا کا تعلق ہے وہ پورے پاکستان میں موجود ہے اور مسکینوں اور شریفوں کا استحصال کر رہی ہے ۔ تحقیق کر لیتے تو اچھا تھا ۔ کوئی مافیا بغیر مقامی حکومت کی سرپرستی کے چل ہی نہیں سکتی ۔ اس سلسلہ میں کراچی کا ناظم اور سندھ کے حکمران اصل مجرم ہیں ۔
معاشی ریڑھ کی ہڈی میں پچھلے سات سال میں کئی سوراخ حکومتِ وقت کر چکی ہے الطاف حسین کی جماعت جس کا اہم حصہ رہی ہے ۔ یہ بیچارے دو وقت کی روٹی کمانے والے پٹھان کیا کر لیں گے ۔
آپ نے مسئلے کی وجہ بھی بیان کر دی یعنی شمالی علاقوں میں کسی کیلیے لڑی جانے والی جنگ۔ یہ علاقے وہی ہیں جہاں ہم نو گیارہ سے پہلے سیر کرنے جایا کرتے تھے۔
حل بھی آپ نے پیش کر دیا یعنی نئے آنے والوں کی تعلیم اور تربیت کا بندوبست اور یہ کام ہے مقامی اور صوبائی حکومتوں کا۔ اگر ان کے پاس پیسے نہیں ہیں تو وہ مرکزی حکومت سے بھی مدد مانگ سکتے ہیں۔
لینڈ مافیا، قبضہ گروپ اور کچی آبادیاں ایک دن میں وجود میں نہیں آتیں یہ سرکار کی ڈھیل ہوتی ہے جو انہیں غیرقانونی کام کرنے پر اکساتی ہے۔ اگر کچی آبادی میں بننے والا پہلا گھر سرکار نہ بننے دے تو کچی آبادی کبھی نہیں بنے گی۔
اجمل صاحب کی بات درست ہے پشتون پنجاب میں بھی بہت آباد ہو چکے ہیں بلکہ بہت سے کاروبار تو انہی کے نام سے پہچانے جاتے ہیں مگر کراچی والوں کے علاوہ اب تک کسی نے ان کی آمد کو طالبانائزیشن کا نام نہیں دیا۔
نعمان آپکے پیڈ میں مسٌله ھے که اردو نهٖن لکھی جا رهی، اکو درست کر لیں۔
باقی میرے خیالات تو اس بارے میں آپکو یاد هی هوں گے جب چند دن پهلے اس بارے بات هوءی تھی۔
افتخار اجمل کے تبصرے کے جواب میں:
پہلی بات کا جواب میری پوسٹ میں ہی ہے۔ کراچی کے لوگ پٹھانوں کو برا نہیں سمجھتے بلکہ ان کے بغیر تو ہم کراچی کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ شاید موصوف تبصرہ نگار کی معلومات میں یہ اہم اضافہ ثابت ہو کہ کراچی کی شہری حکومت کے میجر کنٹریکٹرز جو کمپنیاں ہیں وہ پٹھانوں کی ملکیت ہیں اور جو تمام ٹھیکوں میں بڑے پیمانے پر پختون مزدوروں سے کام لیتے ہیں۔ اگر کراچی کی شہری حکومت یا شہریوں میں تعصب ہوتا تو یہ کنٹریکٹ اردو بولنے والوں کی کمپنیوں کو ملنے چاہئے تھے۔ اگر ایسا بھی ہوتا تب بھی تمام مزدور پختون ہی ہوتے۔ ان کے بغیر نہ ہماری سڑکیں بن سکتی ہیں، نہ ان پر ٹرانسپورٹ چل سکتی ہے، نہ تجارت و صنعت میں ترقی کا خواب دیکھا جاسکتا ہے۔ اس لئے اگر کوئی بھی یہ سمجھتا ہے کہ کراچی کے لوگ پختونوں کو پسند نہیں کرتے تو وہ یہ غلط فہمی فورا دور کرلے۔
اجرتوں کا مسئلہ یہ ہے کہ اسقدر مہنگائی کے دور میں اگر مزید ہزاروں کام کرنے والے شہر میں آئیں گے جن کے پاس نہ ہنر ہے نہ تعلیم تو آپ سوچ سکتے ہیں کہ وہ کسقدر کم اجرتوں پر کام کریں گے۔ جس سے ان کے خود کے لئے زندگی کی گاڑی چلانا از حد مشکل ہوجائیگا۔ تعلیم صحت اور روزمرہ ضروریات کی عدم دستیابی ان کے نوجوانوں کو کن راہوں پر دھکیلے گی یہ ہی تشویش کا اہم سبب ہے۔
مجھے پچھلے دو سال میں تین دفعہ اسلام آباد راولپنڈی جانے کا اتفاق ہوا۔ اور مجھے آپ کی بات درست معلوم نہیں ہوتی۔ کراچی میں یہ تناسب اتنا زیادہ ہے کہ پختون کراچی کا اسوقت سب سے بڑا لسانی گروہ ہیں، اردو بولنے والوں سے بھی زیادہ۔ لیکن چونکہ وہ کراچی کے شناختی کارڈ نہیں رکھتے اور نہ یہاں کا ڈومیسائل اس لئے ان کا شمار ناممکن ہے۔ لیکن کراچی کا تناسب آپ اندھی آنکھوں سے بھی بھانپ سکتے ہیں۔ شہر کے کسی ریستوران کے ویٹر سے لیکر مالک تک، جس ٹیکسی میں آپ بیٹھ کر آئیں گے اس کے ڈرائیور سے لیکر جس سڑک پر آپ کی گاڑی دوڑ رہی ہوگی اسے بنانے والوں تک سب پختون شہری ہیں۔
یہ یقینا نامعقول بات ہے۔ تاہم کراچی پر کراچی والوں کا حق تسلیم کیا جانا چاہئے چاہے وہ کوئی بھی زبان بولتے ہوں۔
اس بات کا جواب میں بھی پہلے کئی بار دے چکا ہوں۔ مہاجر محض ایک علامتی اصطلاح ہے۔ اس کے پیچھے احساس محرومی سے زیادہ اس امر پر تفاخر پوشیدہ ہے کہ یہ لوگ ان لوگوں کی اولاد ہیں جنہوں نے ایک وطن کو اپنانے کے لئے ہجرت کی۔ اس تفاخر پر کسی کو اگر اعتراض ہے تو یہ اس کا اپنا مسئلہ ہے۔
کراچی ہی کی زبان دراصل اردو ہے۔ کیونکہ کراچی پاکستان کا واحد کثیرالزبان شہر ہے۔ یہاں مختلف علاقوں کے رہنے والے لوگ اپنے اپنے لہجے میں اردو بولتے ہیں اور اردو بولنے والے بھی ایک قدرے مختلف لہجہ رکھتے ہیں۔ یہاں زبانوں کے اشتراک سے روز نئی اصطلاحات بنتی اور بگڑتی ہیں۔ اگر آپ ان کو اردو نہیں سمجھتے تو آپ زبانوں کی ترقی اور ارتقا کے فطری اصولوں سے انحراف کررہے ہیں۔
تحقیق سے پتہ چلتا ہے، کہ شہری حکومت مسلسل اس لینڈ مافیا کے خلاف کاروائیوں میں مصروف رہی ہے لیکن اس مافیا کو جرنیلوں، بریگیڈیئروں اور پتہ نہیں کس کس ایجنسی کی حمایت حاصل ہے۔ آپ کو بھی اچھی طرح معلوم ہے کہ پاکستان پر کون لوگ اصل میں حکومت کرتے ہیں۔ وہی لوگ اصل میں مجرم ہیں۔
فیصل: آپ کے، میرا پاکستان کے افضل، اور ساجد اقبال کے ساتھ ہونے والے گفتگو ہی اس پوسٹ کو لکھنے کی وجہ ہیں۔ میں آپ کے خیالات سے واقف ہوں لیکن اچھا ہوتا کہ آپ انہیں دوسروں کے پڑھنے کے لئے رقم کردیتے۔
ویب پیڈ کا مسئلہ میری سمجھ سے باہر ہے۔ کیا آپ میک آپریٹنگ سسٹم یا سفاری ویب براؤسر استعمال کررہے ہیں؟
Bahi shahab agar karachi kisi ak ka nahi hay or sub ka is par haq hay tu "Quota system” ku ejad kia gia hay
yani karachi may tu sub bahir say aa aa kar kam kareen magar karachi wala he job hasil na kar sakay hay kia kula huwa TAUSUB nahi hay
Lambi Lambi baaty sub kar saktay hean jab job automatic mal gayee quota system ki base pay warna aj sub scuh he bool rahy hooty
ایم کیو ایم انجانے میں یا جان بوجھ کر آگ سے کھیل رہی ہے یا پھر ایم کیو ایم اور طالبان کو ٹاسک ہی یہ دیا گیا ہے کہ پاکستان کو غیر مستحکم سے غیر مستحکم ترین ظاہر کریں تاکہ اس پر حملے کی راہ ہموار ہو۔ آخر ایم کیو ایم کی جانب سے طالبان کا ہوا کھڑا کرنا اور جواب میں طالبان کا یہ کہنا کہ ہم کسی بھی وقت کراچی پر قبضہ کر سکتے ہیں، کہاں کی عقلمندی ہے؟ دونوں جانب کے بیانات سے صرف اور صرف پاکستان کی مخالف قوتوں کو ہی فائدہ ہو رہا ہے۔
میں کراچی کے اتنے چکر لگا چکا ہوں کہ آپ شاید سوچ نہیں سکیں اور کراچی کے رہنے والوں میں میرے اتنے قریبی رشتہ دار اور دوست ہیں کہ آپ نے کبھی سوچا نہ ہو گا اور یہ لوگ پورے کراچی میں پھیلے ہوئے ہیں ۔ پھر بھی مجھے کراچی کا کچھ علم نہیں ۔ آپ دو سالوں میں تین بار اسلام آباد آئے اور دعوٰی ہے کہ سب کچھ جان گئے ۔ اگر آپ مہمانداری کے جھرمٹ سے باہر صرف جھانک ہی لیتے تو آپ کو پختون ہی پختون نظر آتے ۔ یقیقنی طور پر آپ جی ایٹ ۔ جی نائن ۔ جی سکس میں آبپارہ اور ایف سکس ۔ ایف ایٹ میں مدینہ مارکیٹ یا جی الیون ۔ ایف الیون کے مضافات اور اسلام کے جو سیکٹر زیرِ ترقی ہیں میں نہیں گئے ۔ اور نہ آپ اسلام آباد کے دیہاتی علاقوں نور پو ۔ سید پور ۔ گولڑہ ۔ چک شہزاد ۔ کرال ۔ کری ۔ لہتراڑ ۔ اور مزید درجنوں دیہات کی طرف گئے ہیں ۔
محترم پیر سوہاوہ کے ہوٹل میں ڈنر کھا کر عوام کے متعلق کہانیاں بہت لوگ لکھتے ہیں ۔ مزا تو تب ہے کہ عوام میں جا کر پھر لکھا جائے ۔ ہم تو اندھے ہیں اسلئے نظر نہیں آتا لیکن آپ نے اپنی آنکھوں پر پٹی کیوں باندھ رکھی ہے ۔ لیکن یہ آپ کا قصور نہیں آج کی دنیا کے صحافیوں کی اکثریت جھوٹی خبریں اور بے بنیاد مقالے لکھتی ہے ۔
باقی شہروں اور کراچی میں ایک واضح فرق ہے وہ یہ کہ باقی شہروں میں بسنے والوں نے دیگر لسانی ہموطنوں کو اپنے ماحول میں جذب کر لیا ہے لیکن نام نہاد کراچی والے پختون تو کیا اُن پنجابیوں کو بھی غیرملکی سمجھتے ہیں جو پچاس ساٹھ سال سے وہاں آباد ہیں ۔ ان کے بچے کراچی ہی میں جوان ہوئے اور اب ان کے پوتے پوتیاں بھی وہیں پروان چڑھ رہے
ہیں ۔
لینڈ مافیا ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ایم کیو ایم فوجی حکومت کی ہی بنائی ہوئی ہے اور اب بھی پرویز مشرف کی کٹّر سپورٹر ہے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ مافیا کوئی بھی ہو حکومتی اختیار کس کے پاس ہے ؟ اور اگر وہ اپنا اختیار استعمال کرنے سے قاصر ہے اور بٹائی کے حصہ دار نہیں تو حکومت سے الگ کیوں نہیں ہو جاتے ۔ یہ حقیقت اپنی جگہ کہ ایم کیو ایک سے بڑا بھتہ خور اور دہشتگرد پورے پاکستان میں نہیں ہے ۔ اگر الطاف حسین اتنا ہی سچا ہے تو برطانوی حکومت سے پنا لے کر اب تک برطانیہ میں کیوں بیٹھا ہے ۔ پاکستان اور پاکستانیوں کا اتنا ہی غم ہے تو پاکستان آ کیوں نہیں جاتا ۔ وہ پرویز مشرف سے ڈیل کر کے بھی باہر ہی بیٹھا ہے ۔
نعمان میں اس پر تفصیل سے لکھنا چاہتا ہوں لیکن آفس میں کام زرا بڑھ گیا ہے۔ ہاں اسلام آباد والی بات آپکی غلط ہے۔ اگر تناسب دیکھا جائے تو اسلام آباد میں ہر دوسرا شخص پختون ہے۔ کراچی میں میرے خیال میں ایسا نہیں کیونکہ وہاں مختلف اقوام کی کثرت ہے۔
آپکا ویب پیڈ واقعی کسی وجہ سے کام نہیں کر رہا، زرا دیکھیے گا۔
نعمان اب تو آپکو علم ہو ہی گیا ہو گا کہ آپکا اردو پیڈ کام نہیں کر رہا۔
جہاں تک میرے اور آپکے خیالات کا تعلق ہے، افسوس کہ ان میں زمین آسمان کا فرق ہے اور آپکو یاد ہو گا کہ میں انٹرنیٹ پر ہونے والی ملاقات میں آپ سے بار بار پوچھ رہا تھا کہ کیا اپکے خیالات کراچی میں رہنے والے اکثر لوگوں کی ترجمانی کر رہے ہیں۔ جب آپ نے ہاں میں جواب دیا اور خدانخواستہ یہ بات درست ہے تو پھرغالبآ ایک یا کئی اور بنگلہ دیش بننے میں زیادہ وقت نہیں بچ گیا۔ آپکے خیالات کا ذکر میں نے انٹرنیٹ پر ایک اور محفل میں بھی کیا تھا اور وہ محفل کیڈت کالج کوہاٹ کے اولڈ بوائز یا المنی کی ہے۔ سب ہی کو آپکے خیالات پر نہ صرف کافی حیرت بلکہ افسوس بھی ہوا۔
ایک بات تو واضح ہے کہ پاکستان کے اندر معاشی نا انصافی بہت ہی زیادہ ہے، بلکہ اس جنگ کے بعد تو اور بھی بڑھ گئی ہے۔ آپ ہی بتائیے کہ اگر آپ پچھلے ساٹھ سال سے ایسے حالات میں رہ رہے ہوتے جیسے فاٹا کے ہیں تو کیا ایسی ہی سوچ کے مالک ہوتے جیسی اب ہے؟ آپکو اپنے کلچر اور لائف سٹائل کے آلودہ ہو جانے کا غم ہے اور دوسری طرف لوگ مر رہے ہیں۔ نارتھ اور ساؤتھ وزیرستان پچھلے کئی برسوں سے حالتِ جنگ میں ہیں اور یہ بات ڈیرہ اسماعل خان، کوہاٹ اور بنوں کے لوگوں سے زیادہ کون جانتا ہے جہاں لوگوں کی پوری پوری لٹی پٹی بستیاں آ آ کر آباد ہو رہی ہیں۔ ہر گھر کی ایک کہانی ہے اور سب کی سب نہایت تکلیف دہ اور شرمناک۔ ان سے پوچھیں جن کے پورے پورے خاندان گن شپ ہیلی کاپٹروں نے اڑا دیے ہیں اور جنکی عورتیں سڑکوں کے کنارے بچے جن رہی ہیں۔ بلکہ ان کو وہیں پتھروں نیچے چھوڑ بھی آتی ہیں کہ ہجرت میں نومولود بچوں کو ساتھ لی کر چلنا اپنی موت کو ہی دعوت دینا ہے۔
اگر مزید سچ سننے کا آپ میں حوصلہ ہے تو سن لیں کہ کراچی باقی پاکستان کے بغیر کبھی بھی نہیں رہ سکتا۔ ٹرانسپوڑت، لیبر، خام مال، گیس، بجلی، سب کچھ آپکو یہیں سے ملتا ہے، اگر پھر بھی آپ کارخانے چلا لیں تو مال کو بیچنے کی منڈی بھی یہی ہے۔
افسوس کہ پاکستان بننے کے بعد ایک مخصوص طبقے کو ہی جنمیں اکثریت پنجابی اور مہاجر کی ہی ہے، فاءدہ ہوا، باقی سندھ، بلوچستان اور سرحد تو ابھی تک جھیل، رہے ہیں اور نہ جانے کب تک جھیلیں گے۔
چند نکات سے اختلاف ہے مجھے لیکن میرا خیال ہے کہ بہت معتدل تحریر ہے۔ خاص کر اگر ایم۔کیو۔ایم سے وابستگی رکھنے والے افراد کی سوچ سے مقابلہ کیا جاۓ تو۔
میرا ماموں زاد بھائی یونیورسٹی سے پہلے تک کسی جماعت سے وابستگی نہیں رکھتا تھا اور معتدل سوچ تھی لیکن اردو یونیورسٹی میں داخلہ ہوا تو APMSO کے لڑکوں کے ساتھ بیٹھنا شروع کیا اور گزشتہ ہفتہ جب میری اس سے ملاقات ہوئی تو اس کا حال یہ تھا کہ بات بے بات پشتونوں کو قصور وار ٹھہراتا تھا، گالیاں دیتا تھا، حتی کہ لطائف بھی سناتا تو ان کے خلاف۔ یہ ایک قسم کی برین واشنگ ہے۔ غیرجانبدارانہ سوچ رکھنے والے لڑکے کو ایک قوم کے خلاف کردینا۔ میرے نزدیک "میں مہاجر، تو پشتون” کی سوچ پر تقسیم کرنا بہت بڑی غلطی ہے۔ لیکن کیا کریں، لسانی جماعتوں کے ووٹ بینک کا دار و مدار ہی اسی تقسیم پر ہے۔
میرے چند جاننے والوں نے ذکر کیا ہے کہ انہیں کراچی کی فضا بدلتی نظر آرہی ہے اور پختون آبادی کی کثرت کے سبب انتہا پسندی کا معاملہ بڑھنے لگا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ پہلے ہمیں پختون اور طالبان میں فرق کرلینا چاہئے۔ ہم نے اپنے ذہنوں میں طالبان کی جو تصویر بنائی ہے، سوئے اتفاق کہ وہ پشتون بھائیوں سے بہت ملتی جلتی ہے۔ اب اس حلیہ کا جو شخص نظر آئے، اسے طالبان کہنا، کیسی ناانصافی ہے نا۔
اگر پختون برادری میں ہمیں مذہبی لوگ (کچھ لوگوں کے نزدیک انتہاپسند) زیادہ نظر آتے ہیں تو ہمارے ہاں (مہاجروں میں) بھی بالکل ناپید نہیں ہوگئے ہیں۔ ویسے سب پختون اتنے مذہبی نہیں ہوتے۔ ان کے ہاں کا کلچر ایسا ہے جسے ہم مذہبی روپ دیدیتے ہیں۔۔۔ پھر ہماری تعلیمی درسگاہوں میں جو پختون بھائی پڑھ رہے ہیں، میرے مشاہدے کے مطابق وہ کسی طرح بھی انتہاپسند نہیں، بلکہ کراچی کے نوجوانوں کی اکثریت سے زیادہ ماڈریٹ ہوں گے۔ ان کا کیا کریں گے؟
مسئلہ پختون اور طالبان کو گڈمڈ کرنے کا ہے۔ اس کے علاوہ تعلیم کی روشنی پھیلانے کی ضرورت ہے۔ کوئی پریشانی نہیں رہے گی۔
الحمدللہ پاکستانیوں بشمول کراچی والوں کا دل بہت بڑا ہے اور وہ ہر ایک کو قبول کرنے اور اپنے بھائیوں کو جگہ دینے کے لیے تیار ہیں۔
آپ نے حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ اعتراف کیا ہے کہ کراچی کی ترقی میں پختون برادری کا بڑا ہاتھ ہے۔ بالکل صحیح کہا اور اگر کوئی ایسا سمجھتا ہے کہ کراچی کے رہنے والے پختونوں کو پرایا سمجھتے ہیں یا اچھوت جیسا سلوک کرتے ہیں تو یہ بات بالکل غلط ہے۔ اگر کوئی شخص چند ایسے واقعات ثبوت کے طور پر پیش کرے جن میں پختونوں کے ساتھ ناانصافی روا رکھی گئی ہو تو جواب میں ایسے واقعات بھی پیش کیے جاسکتے ہیں جن میں کراچی والوں نے باہر والوں کے ہاتھوں مظالم برداشت کیے۔ تاہم ایسے واقعات کے ذکر سے تلخی بڑھانے کے بجائے ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر ہمیں اتحاد اور اتفاق سے آگے بڑھنا چاہئے۔
پختونوں کے ہاں تعلیم یافتہ افراد کی کمی سے بہت مسائل کھڑے ہیں۔ یہ ایک انتہائی اہم مسئلہ ہے جس پر ارباب اختیار کو سنجیدگی سے غور کرنے اور اس کا سدباب کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
ویب پیڈ کا مسئلہ ایک دو روز میں حل کرونگا۔
کراچی کا ایک مشترکہ کلچر ہے جو کراچی میں رہنے والے ہر شخص کا حصہ ہے۔ ہر شخص اپنے علاقے اور لسانی گروہ کے ساتھ ساتھ اس مشترکہ کلچر کو اپناتا ہے۔ اگر یہ کراچی کی جاذبیت نہیں تو پتہ نہیں کیا ہوگی۔ آپ ہمارے شہر کے اسکول کالجوں میں جائیں، بازاروں دکانوں میں دیکھیں تو سب لوگ ایک طرف تو اس مشترکہ کلچر کو رابطے کا ذریعے بناتے ہیں ساتھ ہی ہر کوئی اپنی انفرادیت بھی برقرار رکھتا ہے۔ اگر کراچی جاذب نہ ہوتا تو کبھی ملک کے تمام علاقوں سے آنے والوں کے لئے اتنا پرکشش نہ ہوتا۔
فیصل بھائی سب سے پہلے تو پاکستانیوں کو اپنا اعتماد بحال کرنا چاہئے۔ یہاں کوئی جناح پور بنانے کی بات نہیں کررہا۔ جنگ کے ساتھ مصائب لازم و ملزوم ہوتے ہیں۔ اور ہم ان مصائب کو پوری قوم کے ساتھ ملکر جھیلنے کو تیار ہیں۔ لیکن ہر علاقے، صوبے اور شہر کو یہ اختیار ہونا چاہئے کہ وہ مصائب سے اپنی سہولت کے مطابق نمٹے۔ کراچی کو یہ اختیار ہونا چاہئے کہ وہ نئے آنے والوں کی آبادکاری کا انتظام کرے۔ اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ نقل مکانی کرنے والوں کی آڑ میں انتہاپسند شہر میں ڈیرے نہ جمالیں۔ میرے خیال میں یہ ایک جائز اور معقول مطالبہ ہے۔
کلچرل آلودگی تجارت، معیشت اور پاکستان کے استحکام کے لئے سخت نقصان دہ ہوگی۔ طالبانائزیشن کی کوشش کرنے والوں کو کراچی میں سخت مزاحمت کا سامنا ہوسکتا ہے۔ جس سے ملکی حالات ہم سب کی سوچ سے کہیں زیادہ خراب ہوسکتے ہیں۔
مجھے تو بالکل یاد نہیں کہ دوران گفتگو میں نے کبھی یہ کہا ہو کہ کراچی کے لوگ پاکستان سے علیحدگی چاہتے ہیں؟ آپ کو یہ احساس کیونکر ہوا؟ لیکن اگر آپ یہ ذکر چھیڑ ہی بیٹھے ہیں تو اس کی وضاحت بھی لگے ہاتھوں ہوجائے۔ میگاسٹیز بذات خود ایک بڑی منڈی ہوتے ہیں۔ ڈیڑھ کروڑ کی آبادی پاکستانیوں کے لئے ہمیشہ ایک پرکشش منڈی رہے گی۔ آپ کو شاید معلوم ہو کہ کے ای ایس سی کو بجلی پورے ملک سے مہنگے نرخوں میں فروخت کی جاتی ہے۔ پرائیوٹائزیشن کے بعد بھی کے ای ایس سی پرائیویٹائزیشن سے پہلے والی کے ای ایس سی کے واجبات اتار رہی ہے۔ پھل، اناج، بجلی، گیس، ٹرانسپورٹ سب نہ اب مفت میں فراہم کرے جاتے ہیں نہ علیحدگی کی صورت میں مفت فراہم کرے جائیں گے۔ بلکہ حکومت پاکستان ڈیوٹیز اور ٹیکسز کی مد میں اضافی منافع کماسکے گی۔ لیبر بھی باآسانی میسر رہے گی بس فرق یہ ہوگا کہ کام کے لئے آنیوالوں کو ورک پرمٹ درکار ہوگا۔ میں پاکستان سے علیحدگی کی بالکل حمایت نہیں کررہا لیکن آپ کو یہ بتارہا ہوں کہ یہ خیال کافی اچھا ہے۔ مگر کراچی کے لوگوں کو یہ اتنا پسند نہیں، ڈوبتے جہاز سے سب سے پہلے چوہے بھاگا کرتے ہیں کپتان اور ملاح نہیں۔ ہم اس جہاز کے کپتان اور ملاح کہلانا زیادہ پسند کریں گے۔
راہبر میرے خیالات کی تائید کا بہت شکریہ۔ میں اوپر بھی لکھ چکا ہوں کہ کراچی میں رہنے والے تمام پختون انتہاپسند یا طالبان نہیں۔ لیکن غریب اور بے روزگاروں کی بڑی تعداد میں ہجرت ان نوجوانوں کو انتہاپسندی اور طالبانائزیشن کی طرف دھکیلے گی اس لئے ضروری ہے کہ انہیں تعلیم کے مواقع فراہم کرے جائیں۔ جرگہ کمیٹیز پر سختی سے پابندی لگائی جائے۔ مدارس کی مانیٹرنگ کی جائے اور شہر میں مشکوک، شدت پسند دہشت گردوں کی آمد و رفت کو سختی سے روکا جائے۔ حکومت کو اس بات کو یقینی بنانا چاہئے کہ کم سے کم اجرت کے قوانین پر عمل درآمد ہو۔ خصوصا نئے آنے والے پختونوں کے اندر یہ احساس بیدار کیا جانا چاہئے کہ انہیں کم اجرت پر ہرگز کام نہیں کرنا چاہئے۔ ان نوواردوں کی اپنی مجبوریوں اور کچھ ان کی روایتی سوچ کے سبب سے اسکولوں سے بیر ہے۔ یہ طرز عمل دور ہونا چاہئے۔ اس شہر میں دیگر قوموں کے غریب لوگ بھی اپنے بچوں کو اسکول بھیج رہے ہیں تو پختونوں کو بھی ایسا کرنا ہوگا۔ ورنہ ان کے بچوں کے پاس طالبانائزیشن کی حامی قوتوں کا آلہ کار بننے کے علاوہ کچھ خاص قابل ذکر کام نہ ہوگا۔
ساجد میاں تفصیل سے کھل کر لکھئے۔ مجھے اندازہ ہے کہ آپ کو میری تحریر سے سخت اختلاف ہوگا۔ اور آپ کو بھی اندازہ ہوگا کہ میں اختلاف کا قطعا برا نہیں مناتا۔
جناب تحریر آپ کی حسب موقع ہے لیکن آپکی اور دیگر ساتھیوں کی اس بات سے مجھے اختلاف ہے کہ پشتون بلوچی پنجابی سندھی مہاجر کوئی مسئلہ ہیں
اصل مسئلہ تو معاشی اور سماجی ہے اور آپ نے آنے والے پشتونوں کے لیے وہ لفظ پناہ گزیں استعمال کیا جس سے خود مہاجروں کو چڑ تھی (سندھ پنجاب میں پناہ گیر کہا جاتا تھا)۔ بھائی نعمان شمالی علاقوں اور قبائلی علاقوں سے لوگوں کا ایک سیلاب ہے جو باقیماندہ پورے پاکستان میں پھیلتا جارہا ہے صرف کراچی نہیں آپ پشاور میں دیکھیں پھر اٹک اور اسلام آباد لاہور حیدرآباد کوئٹہ میرپور خاص تک ہر جگہ آپ کو یہ خانمان برباد لوگ نظر آئیں گے۔
آپ نے کراچی کے قصور کا خود اعتراف کیا کہ سب سے زیادہ مدارس کراچی میں ہیں تو بھائی جب جو بوؤ گے تو گندم کی کیسے پیدا ہو گی۔
لاہور کراچی اور فیصل آباد کے تاجر جنت میں گھر بنوانے کے لیے چندہ دیتے ہیں وہ گھر انہی غریبوں کی اینٹوں سے بنتے ہیں۔
رضوان آپ صحیح کہتے ہیں کہ لفظ پناہ گزین کا استعمال نامناسب ہے۔ لیکن اگر نئے آنے والوں کو بطور پناہ گزیں اضافی مراعات اور سرکاری توجہ دی جائے تو ان کے مسائل حل کرنے میں آسانی ہوگی۔ بجائے اس کے کہ انہیں یوں ہی چھوڑ دیا جائے تاکہ وہ انتہاپسندی کے چولہے کا ایندھن بن سکیں۔
کراچی کے مدارس کی اکثریت اعتدل پسند ہے۔ لیکن مذہبی ادارے ہونے کی وجہ سے اس بات کا ہمیشہ خدشہ موجود رہتا ہے کہ ان کے طالبعلم دہشت گردوں کے ہاتھوں گمراہ ہوسکتے ہیں۔
نعمان صاحب ۔ جب تک لسانی اور علاقائی بنیادیں قائم رہیں گی قوم میں یکجہتی آ ہی نہیں سکتی ۔ کراچی میں لسانی زہر ایم کیو ایم نے ہی گھولا ۔ کمال تو یہ ہے کہ جو لوگ 1947ء میں مجبور ہو کر ہجرت کر کے آئے تھے وہ اپنے آپ کو مہاجر نہیں کہتے تھے لیکن جو لوگ 1951ء کے بعد کسی طرح پاکستان آئے یا جو کراچی میں پیدا ہوئے وہ مہاجر بن بیٹھے ۔
آپ سے بار بار پوچھ رہا تھا کہ کیا اپکے خیالات کراچی میں رہنے والے اکثر لوگوں کی ترجمانی کر رہے ہیں۔ جب آپ نے ہاں میں جواب دیا اور خدانخواستہ یہ بات درست ہے
just to set the record straight. nouman does exaggerate sometimes. nothin personal but I found on a number of occasions that his provided information or points were partially wrong or totally false. I am afraid but thats the truth. I take his words as his personal opinion rather than a deliberate and well considered opinion of a society or a part of it.
مذہبی ادارے ہونے کی وجہ سے اس بات کا ہمیشہ خدشہ موجود رہتا ہے کہ ان کے طالبعلم دہشت گردوں کے ہاتھوں گمراہ ہوسکتے ہیں۔
^o)
no comments
لیبر بھی باآسانی میسر رہے گی بس فرق یہ ہوگا کہ کام کے لئے آنیوالوں کو ورک پرمٹ درکار ہوگا۔
what if you end up dealing with a no supreme law, with a mafia like parallel governments and rather than to issue permits see vast majority of the workers fleeing. who would provide subsidize? doest is still sound a gud idea?
ے ای ایس سی کو بجلی پورے ملک سے مہنگے نرخوں میں فروخت کی جاتی ہے۔
did u try to find out does it because they want to make money out of kesc or its just the distance and other expencise? or may be kesc offered more price rather than a remot town.
overall it sounds just like the same as of african american (very lazy) always complaining about immigrants taking over jobs. in the long run its only jobs and financial issues rather than so called terrorism
sorry mate had to write in english your urdupad is broke.
بدتمیز اگر آپ میری فراہم کردہ غلط معلومات درست کردیا کریں تو میں بہت شکر گزار ہونگا۔ شکریہ کہ آپ نے وضاحت کردی کہ اس بلاگ پر شائع ہونے والی تحاریر میری ذاتی رائے ہوتی ہیں کوئی علمی یا فکری تجزئیے نہیں ہوتے اس لئے یقینا میرے قارئین کو انہیں محض میری رائے سمجھ کر ہی پڑھنا چاہئے۔
یہ جو اکثریت کی رائے والی بات ہے، یہ میں نے پوسٹ میں نہیں لکھی تھی۔ یہ میری اور فیصل کے درمیان ہونے والی چیٹ کا حصہ تھی جہاں انہوں نے مجھ سے پوچھا تھا کہ کیا کراچی کی اکثریت اس قسم کی سوچ رکھتی ہے اور میں نے انہیں جواب دیا تھا کہ جتنے لوگوں کو میں جانتا ہوں وہ سب اس ایشو پر اس سے ملتی جلتی رائے رکھتے ہیں۔
کے ای ایس سی کو مہنگی بجلی فراہم کرنے کی کئی وجوہات ہیں۔ جو ہماری اس پوسٹ کا موضوع نہیں۔ کے ای ایس سی پر کبھی بات ہوگی تو پھر اس کا بھی ذکر چھیڑیں گے۔
what if you end up dealing with a no supreme law, with a mafia like parallel governments and rather than to issue permits see vast majority of the workers fleeing. who would provide subsidize? doest is still sound a gud idea
میں قطعا پاکستان سے علیحدگی کا حامی نہیں۔ لیکن فیصل نے ذکر چھیڑا تھا تو یہ بات اس لئے لکھنا پڑی تاکہ فیصل کو اندازہ ہو کہ یہ آپشن بلوچستان، پختونستان یا پاکستان توڑنے کے کسی بھی منصوبے سے زیادہ آسان اور ممکن ہے۔ ایک نسبتا چھوٹی سی آزاد ریاست کے لئے مافیا کو قابو میں رکھنا زیادہ آسان ہوتا ہے۔ اور چونکہ تجارت کا توازن مکمل طور پر شہری ریاست کے حق میں ہوتا ہے اس لئے ریاست کے بجائے نجی کاروباری ادارے بذات خود اپنی ضرورت کے مطابق نوکریوں کے لئے پرکشش تنخواہیں رکھتے ہیں۔ تاکہ اردگرد ممالک کی ہنرمند افرادی قوت کو بلایا جاسکے۔
overall it sounds just like the same as of african american (very lazy) always complaining about immigrants taking over jobs. in the long run its only jobs and financial issues rather than so called terrorism
مجھے آپ کا یہ نکتہ سمجھ نہیں آیا۔ کیونکہ یہاں معترضین کراچی کی مڈل کلاس ہے جو نئے آنے والے پختونوں سے کافی بہتر نوکریاں اور معیار زندگی رکھتے ہیں۔ نوکریاں کراچی میں وافر مقدار میں موجود ہیں۔ یہاں ایشو یہ ہے کہ ان پڑھ اور غیرہنر مند نوجوان افرادی قوت کو مثبت سرگرمیوں میں کھپانا بہت مشکل ہے۔ خصوصا جب وہ جنگ زدہ علاقوں سے آئے ہوں۔ معاشرتی اور معاشی عدم مساوات کا شکار ہوں۔ یہاں مسئلہ یہ بھی ہے کہ اگر شورش بپا ہوتی ہے تو پاکستان کی معیشت کا محض چند دنوں میں دیوالیہ نکل جائے گا۔
سیاہ فام امریکیوں کے بارے میں آپ کے تعصبات کا یہاں ذکر بے محل تھا۔
ایک نسبتا چھوٹی سی آزاد ریاست کے لئے مافیا کو قابو میں رکھنا زیادہ آسان ہوتا ہے۔
نجی کاروباری ادارے بذات خود اپنی ضرورت کے مطابق نوکریوں کے لئے پرکشش تنخواہیں رکھتے ہیں۔
سیاہ فام امریکیوں کے بارے میں آپ کے تعصبات کا یہاں ذکر بے محل تھا۔
you sure you wanted to write and actually mean that? or you just had to write an answer?
thats why I don’t comment because rather than sticking to topic you take things into an entirely different direction where it sounds like beating about the bush. you kno what, I keep doing what I was doing and take my time until you come up with facts rather mere assumptions.
I m sorry urdupad still not working for me.
ویسے تو کراچی میں طالبان نہیں آنے والے اور اگر آئے تو اس کے ذمہ دار الطاف بھائ ہوں گے۔ وجہ یہ کہ ایک چیز ایشو ہے ہی نہیں اسے ایشو بناکر وہ اپنی پارٹی کارکنان سے کہتے ہیں کہ ذہنی اور جسمانی طور پر تیار ہوجاؤ۔ اس کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ اب الطاف بھائ صاف صاف کہہ رہے ہیں کہ پٹھانوں کی خبر لو۔ ظاہر ہے پٹھانوں می سروائیو کرنے کی جو صلاحیت ہے وہ مہاجروں میں نہیں اور یہی دراصل ایم کیو ایم کا مسئلہ ہے۔ نعمان صاحب کہہ رہے ہیں کہ یہ کراچی والوں کی تشویش ہے لیکن میرے خیال میں کراچی والوں کی پہلی تشویش یہ ہے کہ کب انہیں ایم کیو ایم سے نجات ملے گی اور کب وہ آزادی سے جو دل میں ہے وہ فیصلہ کرسکیں گے۔ ایم کیو ایم کے خوف کی وجہ سےکراچی والے ایک حبس کے عالم میں رہتے ہیں انہیں الطاف بھائ سے اتنا خوف ہے کہ آپس میں بھی کھل کر ایم کیو ایم کے خلاف بات نہیں کرتے کہ کہیں سیکٹر آفس والوں کو خبر نہ ہوجائے۔اگر فرض کر لیا جائے کہ طالبان دہشت گرد ہیں تو صرف یہ کہا جاسکتا ہے کہ ایک دہشت گرد کو دوسرے دہشت گرد سے تشویش ہے۔
جناب عمار صاحب آپ صرف يه بتائیں کہ کراچی میں اتنی پختون آبادی ہے تو صوبہ سرحد میں سندھی یا اردو آبادی کتنی ہے؟
[…] پاس تحریر ہے نعمان کی: “کراچی کی طالبانائزیشن“۔ یہ پاکستان اور خاص کر کراچی کی سیاسی اور علاقائی […]
[…] پاس تحریر ہے نعمان کی: “کراچی کی طالبانائزیشن“۔ یہ پاکستان اور خاص کر کراچی کی سیاسی اور علاقائی […]
میں راہبر اور خاور بلال کے خیالات سے بالکل متفق ہوں
مزید یہ کہ آپ نے کہا
“ کراچی پر کراچی والوں کا حق تسلیم کیا جانا چاہئے چاہے وہ کوئی بھی زبان بولتے ہوں۔ “
اب ذرا یہ بھی وضاحت ہو جائے کہ کراچی والے ہیں کون؟
کون کراچی والے اصل کراچی والے ہیں؟ مہاجر؟ پختون؟ پنجابی؟
آپکے فارمولے کے مطابق ان میں سے کوئی نہیں۔ صرف سندھی۔
اور آپ جس فارمولے سے پختونوں کو پناہ گزین کہہ رہے ہیں وہ تو اردو سپیکنگ (پرانے مہاجرین) پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ پھر تو اردو بولنے والے بھی پناہ گزین ہوئے؟ وہ لوگ کیسے کراچی کے مالک بن بیٹھے؟ آپکے فارمولے سے میں بھی ایک پناہ گزین ہوں پر کراچی کی بجائے پنجاب میں رہتا ہوں۔ پہلے کوئی پوچھتا تھا تو شہر کا نام بتاتا تھا، کوئی ڈیڑھ سال پہلے تک کراچی میں نوکری کی دو سال تک۔ وہاں جس سے بات کرو وہ میرے شہر کے نام پہ خاص طور پہ مجھے یاد دلاتا تھا “اچھا پنجاب سے آئے ہو“
میرے سگے رشتے دار، انتہائی قریبی، پر وہ میرے بارے میں بھی ایسا ہی سوچتے تھے یہ تو پنجاب سے آیا ہے۔ اور مجھے جتاتے تھے کہ تم پنجابیوں نے ہمارے ساتھ بہت ذیادتی کی ہے۔ کیا؟ یہ کبھی نہیں بتا سکے۔
اگر مجھے کراچی والے کراچی والا ہونے کے باوجود کراچی والا نہیں مان سکے تو میں تو یہان بھی پناہ گزین ہی ہوا نا۔ پر اشکے ہے پنجابیوں پے، ایسے کھلے دل کے لوگ میں نے نہیں دیکھے نا کبھی تعصب بھری کوئی بات سنی۔اور اگر کراچی ہو کہ نا آتا تو شائد پنجاب کی قدر بھی معلوم نہ ہوتی۔ بلکہ میں تو فخر سے کہتا ہوں کہ ہاں میں پنجابی ہوں۔
اور آپ نے کہا
“کراچی ہی کی زبان دراصل اردو ہے۔ “
سچ بتاؤں اگر اس کمنٹ کو پبلش کرنے کی ہمت کریں
دو سال میں شائد ہی میں نے کبھی کسی کے منہ سے صحیح اردو سنی ہو۔ ان لوگوں کے تو زیر زبر ہی ٹھیک نہیں ہیں
کسی بھی دل دکھانے والی بات کے لئے معذرت
احمد سولنگی! صوبہ سرحد میں سندھی یا اردو آبادی سے کیا لینا دینا؟
ویسے میرے نزدیک پنجاب میں اتنا تعصب ہے نہیں جتنا ہمیں باور کرایا جاتا ہے. ہمارے ذہنوں میں یہ بات بٹھادی گئی ہے اس لیے ہم اسی نظر سے معاملہ دیکھتے ہیں. میرے چھوٹے بھائی کے ذہن میں بھی پتا نہیں کہاں سے یہ بات بیٹھ گئی ہے. اب جو ہو، وہ یہی کہتا ہے کہ پنجابی تو ہیں ہی ایسے، پنجابی تو ہوتے ہی تعصب والے… پنجابی ایسے تو پنجابی ویسے… میں کہتا ہوں، تمہارا کیا بگاڑ دیا پنجابیوں نے؟ پنجابیوں پر الزام کے ہمیں ہمارا حق نہیں دیتے اور پختونوں پر الزام کہ ہمیں جو تھوڑا بہت ملتا ہے، اس میں سے بھی ہم سے چھین لیتے ہیں. یہ مہاجر، پنجابی، پختون کی رٹ لگانے سے کچھ نہیں ہونے والا. پاکستانی بن کر دیکھئے اور دوسروں کو بھی پاکستانی ہی بنانے کی کوشش کیجئے. پختون یا پنجابی کہہ کر انگلی نہ اٹھائیے.
راہبر
نسلی تعصب نے کراچی کی ایک نسل تباہ کردی ہے، کم از کم آپ اپنے بھائ صاحب کو اس گڑھے میں گرنے سے بچائیں۔ وہ باز نہ آئیں تو پنجاب کا ایک چکر لگوادیں، ساری عصبیت خود بخود دھل جائے گی۔
پہلے ہم سب پنجابی، پختون، سندھی، بلوچ بنیں پھر پاکستانی بنیں گے ہر ایک اپنے شہر اور صوبے میں اچھا لگتا ہے بدقسمتی سے کراچی عالمی یتیم خانہ بن چکا ہے جس کو روزگار کہیں نہیں ملتا بھاگو کراچی.
ہم یہاں لسانی تعصب کی بات نہیں کررہے. میرا خیال ہے موضوع گفتگو جنگ زدہ علاقوں سے متاثرین کی کراچی آمد اور اس سے پیدا ہونے والے مسائل ہیں.
احمد میرے خیال میں یتیم خانہ کا لفظ نا مناسب ہے. کراچی کو غریبوں کی ماں کہا جاتا رہا ہے. کراچی کے شہریوں اپنے شہر کی اس خصوصیت کی حفاظت کرنا ہوگی اور یہ اچھی بات ہے کہ اگر ملک کے دیگر علاقوں سے لوگ آکر یہاں کام کریں. بس اتنا ہے کہ وہ مقامی لوگوں کے کلچر کا احترام کریں امن امان سے رہیں اور قانون کی پاسداری کریں.
:۔ ‘‘حکومت سندھ کو ام احسان سمیت تمام ایسے لوگوں پر پابندی لگانی چاہئے جو انتہاپسندی پر مبنی نظریات کا پرچار کرنے کراچی آتے ہیں۔‘‘
2:۔ ‘‘اور حکومت کو ایسا انتظام کرنا چاہئے کہ کوئی ان کی معاشی مجبوریوں کا استحصال نہ کرے‘‘
3:۔ ‘‘ہم کسی کو یہ اجازت نہیں دیں گے کہ وہ اپنے بچوں کو ننگے پیر گندی گلیوں میں گھومنے دیں۔ ہم کسی کو اس بات کی بھی اجازت نہیں دیں گے کہ وہ غربت کے ہاتھوں مجبور ہوکر کم اجرتوں پر ملازمتیں کریں۔ اور کچھ نہ کریں تو جلاؤ گھیراؤ پتھراؤ کریں۔ ہم کسی انتہاپسند مصدقہ دہشت گرد کو یہ اجازت نہ دیں گے کہ وہ ہمارے شہر کے بچوں کو انتہاپسندی کا سبق پڑھانے کی کوشش کریں۔ ہم اپنے مدارس کی حفاظت خود کریں گے اور ہمیں کسی مدرسہ ایکشن کمیٹی کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘
4:۔ ‘‘نئے آنے والے شہر کو سمجھیں اور اس کے مزاج میں گھلنے کی کوشش کریں۔ اور اگر نہ گھل سکیں تو واپس چلے جائیں۔‘‘
5:۔‘‘ان غریب پختون نوجوانوں کو اے این پی، جماعت اسلامی، انتہا پسند اسلامی تنظیمیں، ہر کوئی بطور ایندھن استعمال کرنا چاہتا ہے۔ بطور ایندھن انہیں استعمال کرنے کے لئے ضروری ہے کہ انہیں نفرت کرنے کے لئے کوئی قریبی دشمن دکھایا جائے۔ اور نیچرلی ایم کیو ایم سے زیادہ آسان ٹارگٹ کون ہوسکتا ہے۔ یہ متوسط طبقے کی نمائندہ جماعت ہے، جس میں اردو بولنے والے بڑی تعداد میں ہیں، جو صوبہ سرحد میں طالبان کے خلاف آپریشن کی حامی ہے، جو خود کو سیکولر لبرل جماعت کہلوانا پسند کرتی ہے‘‘
6:۔ ‘‘ان آنے والوں میں بڑی تعداد نوجوانوں کی ہے۔ اوپر سے یہ تمام نوجوان غیر تعلیم یافتہ، بے ہنر، اور بے حد غربت کا شکار ہیں۔ آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ انہیں کسی بھی لسانی، سیاسی، یا نام نہاد مذہبی فساد میں استعمال کرنا کتنا آسان ہوجاتا ہے‘‘
7:۔ ‘‘جس کا نام ہے لینڈ مافیا۔ اس لینڈ مافیا کو بڑی سیاسی جماعتوں، مولویوں اور ہر کرپٹ فرد کی حمایت حاصل ہوتی ہے۔ غریب پختونوں کی کچی آبادیوں کے نام پر زمینوں پر قبضے کرے جارہیں جب کہ ان زمینوں کو اگر واگزار کرانے کی کوشش کی جائے تو اسے لسانی رنگ دے دیا جاتا ہے۔‘‘
8:۔ ‘‘۔۔۔دس بچے پیدا کرے اور پانچ کو برے طرز زندگی کی وجہ سے مرنے کو چھوڑ دیا۔ پانچ اللہ کے کرم سے اگر بڑے ہوگئے تو وہ بھی بے ہنر اور غیرتعلیم یافتہ۔‘‘
9:۔ ان کے بغیر نہ ہماری سڑکیں بن سکتی ہیں، نہ ان پر ٹرانسپورٹ چل سکتی ہے‘‘
10:۔ ‘‘کراچی میں یہ تناسب اتنا زیادہ ہے کہ پختون کراچی کا اسوقت سب سے بڑا لسانی گروہ ہیں، اردو بولنے والوں سے بھی زیادہ۔ لیکن چونکہ وہ کراچی کے شناختی کارڈ نہیں رکھتے اور نہ یہاں کا ڈومیسائل اس لئے ان کا شمار ناممکن ہے۔ لیکن کراچی کا تناسب آپ اندھی آنکھوں سے بھی بھانپ سکتے ہیں۔ شہر کے کسی ریستوران کے ویٹر سے لیکر مالک تک، جس ٹیکسی میں آپ بیٹھ کر آئیں گے اس کے ڈرائیور سے لیکر جس سڑک پر آپ کی گاڑی دوڑ رہی ہوگی اسے بنانے والوں تک سب پختون شہری ہیں۔‘‘
11:۔ ‘‘مہاجر محض ایک علامتی اصطلاح ہے۔ اس کے پیچھے احساس محرومی سے زیادہ اس امر پر تفاخر پوشیدہ ہے کہ یہ لوگ ان لوگوں کی اولاد ہیں جنہوں نے ایک وطن کو اپنانے کے لئے ہجرت کی۔ اس تفاخر پر کسی کو اگر اعتراض ہے تو یہ اس کا اپنا مسئلہ ہے۔‘‘
12:۔ ‘‘یہاں زبانوں کے اشتراک سے روز نئی اصطلاحات بنتی اور بگڑتی ہیں۔ اگر آپ ان کو اردو نہیں سمجھتے تو آپ زبانوں کی ترقی اور ارتقا کے فطری اصولوں سے انحراف کررہے ہیں۔‘‘
13:۔ ‘‘ میگاسٹیز بذات خود ایک بڑی منڈی ہوتے ہیں۔ ڈیڑھ کروڑ کی آبادی پاکستانیوں کے لئے ہمیشہ ایک پرکشش منڈی رہے گی۔‘‘
مندرجہ بالا تمام ارشادات آپکے ہیں ۔آئیے اب ان کا جائزہ لیتے ہیں ۔ مضمون کی طوالت اور قارئین اکرم کی بوریت کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے آئیندہ ہم آپکے مکمل ارشاداتِ گرامی لکھنے کی بجائے صرف انکا حوالہ نمبر لکھیں گے۔میں کوشش کرونگا کہ آخر میں اپنی ذاتی رائے بھی پیش کر سکوں۔تو آئیے اب ان تمام نکات کا سرسری جائزہ لیں۔
حوالہ نمبر 1:۔ اگر آپ عمران خان کی کراچی آنے پہ پابندی پہ روشنی ڈال دیتے تو بہتوں کا بھلا ہوتا ۔کیا عمران خان بھی مبینہ دہشت گرد تھا؟۔ مانا کہ امنِ عامہ کی وجہ سے چیف جسٹس جناب افتخار چوہدری اور عمران خان کو زبردستی ائرپورٹ سے کراچی سے بیدخل کیا گیا ۔ مگر جو 21 مئی کو جب 50 سے زائید بے گناہ لوگ مارے گئے اور جسے ساری دنیا نے براہ راست دیکھا کیا وہ ننگی دہشت گردی نہیں تھی ۔تو آپکے خیال میں حکومت کو تمام ایسی تنظیموں ۔ سیاسی جماعتوں جنکی لسانی شناخت کوئی بھی ہو ۔ ان پر پابندی نہیں لگانی چاہئے جو انتہاپسندی پر مبنی نظریات کا پرچار تو کُجا بلکہ بدترین قسم کی ریاستی دہشت گردی کے مجرم ہیں؟ ۔
حوالہ نمبر 2:۔ کراچی شہر میں آجکل تو ایم کیو ایم کی حکومت ہے ۔ تو پھر کونسی حکومت کو یہ کام سر انجام دینا چاھیے؟۔ جبکہ اسطرع کی فلاح بہبود کے منصوبےاور حقوق کی نگہداشت کراچی میں مقامی یعنی کراچی کی شہری حکومت کی ذمہ داری ہے۔
حوالہ نمبر 3:۔ یہاں آپ نے ُہم، کا صیغہ استعمال کیا اور اجازت نا دینے کا تذکرہ کیا ہے ۔ غالباََ ُہم، سے آپکی مراد ایم کیو ایم یا اس کے زیرِ اثر اہلِ اردو ہیں ۔ تو حضور نا تو آپ جنوبی افریقہ کے سابقہ گورے حکمران ہیں جو کالوں کو یہ نا کرنے دیں گے اور وہ نا کرنے کی اجازت دیں گے ۔ آپکے اجازت نا دینے سے کیا وہ تمام مسائل واقعی حل ہو گیے ہیں یا ٹھیک اسی طرع ہوئے ھیں جسطرع کی اجازت آپ نے پٹھانوں کے متعلق مرحمت فرمانے کا ذکر کیا ہے؟۔
حوالہ نمبر 4:۔کیا آج سے دو یا تین نسل قبل ھندؤستان کے کونے کونے سے آنے والے اور اپنے ساتھ ساتھ کئی طرع کی ثقافت لانے والے آپکے آباء نے تب کراچی میں مقیم مقامی آبادی کا احترام کرتے ہوئے ۔ مقامی آبادی کا کلچر۔ زبان۔اور بودباش اپنا لی تھی ؟۔ یا وہ واپس بھارت لوٹ گئے تھے؟۔
حوالہ نمبر 5:۔ آپکے خیال میں ایم کیو ایم سیکولر جماعت ہے اور باقی لوگ باقی جماعتوں کے بہکاوے میں آکر دہشت گرد وغیرہ کی کوئی قسم بن جائیں گے۔ متحدہ مہاجر موومنٹ کے خلاف ُنو گو ایریاز، اور انکے خلاف قتل غارت میں ملوث لوگوں اور جماعت پہ بھی آپ کو روشنی ڈالنی چاھیے کہ مہاجر ھی کیوں مہاجر کا گلا کاٹ رہا ہے ؟۔اور اس میں ایم کیو ایم کا کتنا حصہ ہے؟؟۔ آپکو شاید یاد ہوگا کہ مشرف دور کے ُاجلے روشن اور شفاف انتخابات جن میں پاکستانی تاریخ کی بد ترین دھاندلی اور دھونس جمائی گئی۔ جسکے نتیجے میں کراچی کی شہری حکومت ایم کیو ایم کو ملی ۔ ان انتخابات سے قبل کراچی پہ جماعت اسلامی کی شہری حکومت تھی ۔ جسکے سٹی ناظم مولانا نعمت اللہ خان تھے۔ جنکے دور میں ھوئی ترقی کا پھل ابھی تک ایم کیو ایم کھا رہی ہے ۔ ورنہ ان بارشوں کے موسم میں اور کچھ ماہ پہلے تیز آندھی میں ہونے والے نقصانات اور نتیجےمیں مرنے والے لوگوں کی بڑی تعداد اور ایم کیو ایم کی شہری حکومت کے ناقص انتظامات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ۔ کراچی کی موجودہ ترقی میں جماعت اسلامی اور اے این پی کا بھی برابر کا حصہ ہے ۔ پھر بھلا جماعت اسلامی یا اے این پی جسی قومی لیول کی سیاسی جماعتیں کیونکر دہشت گردی کریں یا کروائیں گی؟۔اس پیمانے سے ناپیں تو بہت سے لوگ یہ دہشت گردی کا الزام برملا ایم کیو ایم کو دیتے ہیں ۔
حوالہ نمبر 6:۔ کیا قیامِ پاکستان کے بعد جو مہاجرین لٹے پٹے کراچی پہنچے تھے سبھی ہنر مند، اور اعلٰی تعلیم یافتہ تھے؟۔
حوالہ نمبر 7:۔ کمال ہے جو لوگ 12 مئی کو کراچی شہر کو کنٹینرز اور ٹرک کھڑے کر کے سارا دن پورا کراچی بلاک کر دیتے ہیں اور نتیجاََ سارا دن دہشت گردی کا لائیو پرگرام چلتا ہے 50 سے زائید پاکستانی مارے جاتے ہیں ۔اپ انہین اسقدر کمزور اور بے بس ثابت کر رہے کہ وہ حکومت مبینہ طور پہ ناجائز کچی آبادیوں کی زمیں واگزار نہیں کراو سکتی ۔ اور آپ سارا ملبہ دینی ، اسلامی اور ان جماعتوں پہ ڈال رہے ہیں جو ایم کیو ایم کی منظورنظر نہیں ۔ آپ کیونکر حقائق چھپانے کی کوشش کر ہے ہیں ؟
حوالہ نمبر 8:۔ بچے پیدا کرنے کے متعلق آپکے الفاظ اھانت آمیز ہیں ۔ جو اخلاق و تہذیب کے دائرے میں نہیں آتے ۔ میں نے کہیں نہیں پڑھا کہ آپ نے مہاجر برادری کے متعلق ایسا ھی لہجہ اختیار کیاہو؟۔
حوالہ نمبر 9:۔ ہماری سڑکوں سے آپکی کیا مراد ہے؟ ۔ کراچی کی سڑکیں آپکی یعنی صرف آپکی نہیں بلکہ سارے پاکستانیوں کی سڑکیں ہیں ۔ اور ان پٹھانوں کی خاصکر ہیں جنہوں نے ان کے لئیے اپنا خون پسینہ ایک کیا ۔
حوالہ نمبر 10:۔ آپ کے اسی نکتے کے ذریعے اور آپ نے جس جماعت ایم کیو ایم کی بے تکلف حمایت و وکالت کی ہے ۔ اور جس کے جمہوری و سیکولر ہونے کا آپ کو فخر و مان ہے ۔ اسی جمہوری نکتے کی حساب سے تو پھر کراچی میں اکثریت پٹھانوں کی ہوئی۔ شہر تو اکثریت ہونے کے ناطے انکا ہوا تو یہ گلہ تو پھر پٹھانوں کو کرنا چاھیے کہ ایک اقلیت ان پہ اپنی شرائط ٹھونس رہی ہے۔
حوالہ نمبر 11:۔ اپنے لفظ مہاجر کے پیچھے اپنے تفاخر کا ذکر کیا ہے ۔ لیکن اس اخوت اور بھائی چارے کا ذکر نہیں کیا کہ جب آپ کے اجداد کے لٹے پٹے قافلے کراچی اور باقی پاکستان میں پہنچے تو مقامی لوگ جن سے آپ آج شاکی ہیں نے دل کھول کر اپنی حثیت سے بڑھ کر مہاجروں کے زخم اپنے سینے میں سمو لیے۔
حوالہ نمبر 12:۔ آپ نے زبانوں کے اشتراک سے زبان کی ترقی و ارتقاء کی بات کی ہے ۔ مگر یہن نکتہ آپ بڑے گروہوں ۔ قبیلوں اور قوموں پہ صادق سمجھنے گریزاں ہیں ۔ قومیں بھی اسی طرع بنتی ہیں کہ ایک وقت آتا ہے مہاجر ، پٹھان کا فرق ختم ہوجاتا ہے۔
حوالہ نمبر 13:۔ آپکے الفاظ ہیں :۔ ‘‘ میگاسٹیز بذات خود ایک بڑی منڈی ہوتے ہیں۔ ڈیڑھ کروڑ کی آبادی پاکستانیوں کے لئے ہمیشہ ایک پرکشش منڈی رہے گی۔‘‘غالباََ آپ پاکستان سے علیحٰدہ جانے کی صورت میں کراچی شہر کی پندرہ ملین آبادی کی منڈی کی بات کررہے ۔ خدانخواستہ کوئی کم نصیب کراچی کو الگ کرنے میں کامیاب ہو بھی جاتا ہے تو آپ کے خیال میں کراچی کی آبادی 15 ملین یعنی ڈیڑھ کروڑ ہی رھے گی ۔ یہ جو ابھی جن پٹھانوں کا آپ ذکر کر ہے ہیں کہ یہ آبادی میں تقریباََ نصف شمار ہو رہے ہیں ۔ یہ پٹھان ۔ پنجابی ۔ سندھی ۔ بلوچی اور کراچی میں آباد دوسرے لوگ اور خاصکر مہاجر جو حقیقی مہاجر ہیں جنہیں آپ سے مجھ سے بڑھ کر پاکستان سے محبت ہے کیونکہ یہ ظاہر کہ ایم کیو ایم پرتشدد لسانی تنظیم ہے ۔ جس نے دھونس ، دھاندلی سے بھہت سے لوگوں کو قابو کر رکھا ہے جس سے سب مہاجر بھائی اتفاق نہیں کرتے ۔ اور وہ مہاجر بھائی جن کے اجداد نے اپنی جان ومال عزت و عصمت کی جانیں قربان کیں ۔ کیا یہ سب ۔ پاکستان سے کراچی کی علیحٰدہ ریاست بننے کی صورت میں ۔ کراچی کو چھور نہیں دین گے ۔ پھر کراچی کی آبادی کیا ہوگی۔ کراچی کی سڑکیں بنائے گا۔ کارخانے کون چلائے گا ۔ مہاجر بنائیں گے کیا اور کھائیں گے کیا۔ اور جو اہم بات ہے آپکے اس تفاخر کا کیا بنے گا جس کی وجہ آپ ان مہاجروں کی اولاد ہونے کا فخر بیان کرتے ہیں کہ جنہوں نے ایک وطن ، ایک ملک یعنی مملکتِ خداداد پاکستان کے لئیے ھجرت کی جو انبیاء کی سنت رہی ہے ، تو کیا یہ تفاخر ، یہ انفرادیت ۔ یہ اعزاز محض اس دن تک کے لئیے ہوگا جب آپ کو بقول کراچی میگا سٹی ہونے کے ناطے پاکستان سے الگ ہو کر اپنی الگ مارکیٹ اور شناخت بنا لے گا۔ معاف کی جئیے گا ۔ ایسی صورت میں یہ لوگ اپنے بزرگوں اور شہیدوں کی خون سے غداری کے مرتکب ہونگے ۔
نوٹ:- کچھ نکات کی وضاحت رہ گئی جو مضمون کی طوالت کے پیشِ نظر پھر کبھی انشاءاللہ لکھ بیجھوں گا-۔
نعمان صاحب! آپ ماشاءاللہ باشعور ہیں ۔ کوشش کریں کہ کہ ہر روز کی بنیادوں پہ زندہ رہنے کئیلیے مجبوراس منتشر ہجوم کو امید و محبت کی کرن دکھلائیں تا کہ مایوسی کے گرادب میں پھنسی یہ قوم زندہ رہنے کی امنگ نا ھار جائے یہ آپکا اور تمام باشعور لوگوں کا فرض ہے ۔ میرا مقصد آپکی دل آزاری نہیں بلکہ اپکی توجہ اسطرف دلانا ہے کہ آپ صرف ایک مخصوص طبقے کی نمائیندگی مت کریں بلکہ سمندر کی طرع اپنے اندر ان کو بھی سمو لیں جو بے شک سیاسی طور پہ آپ سے متفق نہیں ہونگے مگر آخر کو ہیں تو اہلِ کراچی۔ اور کون جانے وہ یا ان کی آنے والی نسلیں کراچی کو کتنی ترقی دیں ۔
خیر اندلیش
جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین
میں ایک با ت لکھوںگا .اگر اپ ازادی اظہا ر کو اہمیت دیتے ہے تو اسی لکھے رہنے دیجئے گا . "کراچی کسے کے باپ کا نہیں ہے ” .یہ نا م نہا د لسا نی لیڈر جن کا گندا ما ضی اسکی گو اہی دیتا ہے .یہ کبھی اس ملک سے مخلص نہیں رہا …… میری سمجھ ایک با ت نہیں اتی .یہی مہا جر جب ہندوستا ن لٹے پٹے ائے تھے تو ہم سندھیوں نے تو کبھی نہیں کہا تھا یہ لوگ اس ملک کے لئے مسلئہ بنے گے
بھیا فولادی آدمی، جو جی چاہے لکھو. میں صرف گالم گلوچ اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ جات مٹاتا ہوں یا وہ تبصرے جن میں مجھے قادیانی، کافر، یا واجب القتل قرار دیا جاتا ہو.
آپ کا پوائنٹ ویلیڈ ہے. شاید سندھیوں کے اعتراض نہ کرنے کی وجہ یہ ہو کہ سندھیوں نے یہ نہ سمجھا ہو کہ مہاجر اس ملک کے لئے مسائل پیدا کریں گے؟ اور سینتالیس کے کراچی اور اب کے کراچی میں زمین آسمان کا فرق ہے.
اسلامی جمھوریت،ایسا اتیا چارتوبھ توبھ، بھای نعمان آپ بھی کوئ قرآنی آیات پر مبنی بلاگ شروع کر دیں ورنھ واجب القتل تو لازم ھو ھی چکے ھیں آپ
تبصرہ مٹادیا گیا ہے۔ براہ مہربانی تبصرہ پالیسی دیکھیں