آصف زرداری کے انتخاب پر شور مچا ہے کہ یہ لٹیرا، رشوت خور، بددیانت، سیاستدان کیسے صدر پاکستان بن گیا۔ میں نے گزشتہ انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کو ووٹ دیا تھا مگر ووٹ دینے کی وجہ آصف زرداری کی عظیم قائدانہ صلاحیتیں بالکل نہ تھی۔ لیکن مجھے یہ سمجھ نہیں آتا کہ آصف زرداری کا صدر بننا کچھ لوگوں کو ہضم کیوں نہیں ہورہا؟ حتی کہ انہیں بھی جو جمہوریت اور انصاف کے مطالبے کرتے رہے ہیں۔
پیپلز پارٹی کو پورے ملک میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل ہوئے انہیں یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنا وزیراعظم نامزد کریں۔ پارلیمنٹ میں اپنی اکثریت کے سبب انہیں یہ حق بھی حاصل ہے کہ وہ اپنی مرضی کا صدر منتخب کرائیں۔ اگر یہ سب ایک جمہوری پراسس کے تحت ہوا ہے تو کسی کو اعتراض کا حق کیا ہے؟
آصف زرداری گیارہ سال قید رہا، مقدمات بھگتائے، سوئٹزرلینڈ کی عدالتوں میں اس کے کرپشن کیسز کی شنوائی ہوتی رہی۔ لیکن آج تک وہ ایک کیس میں بھی سزا نہ پاسکا۔ اگر میں آصف زرداری کی جگہ ہوتا اور میں نے سینکڑوں ملین روپوں کی کرپشن کی ہوتی تو میں کبھی اپنی زندگی کے قیمتی گیارہ سال قید میں نہ گزارنا چاہتا چاہے وہ قید کتنی ہی پرتعیش کیوں نہ ہوتی۔ اگر آصف زرداری نے کرپشن کی بھی ہے تو گیارہ سال قید بھی تو کاٹی ہے۔
ہمارے ملک میں افتخار چوہدری اور دیگر جج صاحبان کو تو عام معافی ہے۔ کہ انہوں نے جنرل مشرف کو پاکستان پر حکومت کرنے کا اختیار دیا، پھر اسے آئین میں ترمیم کی غیر قانونی اجازت دی، پھر اس کے پہلے پی سی او کے تحت حلف اٹھایا۔ مگر جب انہوں نے دوسرے پی سی او کے تحت حلف نہ اٹھایا تو ہر جگہ ان کے نام کے ڈنکے بجنے لگے اور لوگ ان کی پہلی کوتاہیاں نظر انداز کرگئے۔ اگر ہم موقع دینے کے معاملے میں ایسے ہی فراخدل ہیں تو آصف زرداری کو ایک موقع اور کیوں نہیں؟
مجھے یہ لگتا ہے کہ زرداری کے صدر بننے سے پاکستان مضبوط ہوگا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ، معیشت اور دیگر مسائل سے نمٹنے میں آسانی ہوجائیگی۔ پاکستان کی ساکھ بحال ہوگی۔ کتنے سال بعد کوئی عوامی ووٹوں سے منتخب ہونے والا سربراہ مملکت اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرے گا۔ اگر ہم اپنے ملک کے عوامی نمائندوں کی کردار کشی کرتے رہیں گے تو باہر کی دنیا ہمارے جرنیلوں کو ترجیح دیتی رہے گی۔ فخر اور وقار سے زرداری کی صدارت کو تسلیم کئے جانا چاہئے۔ اس کے دور حکومت میں ہر اچھے برے کام کی تعریف و تنقید کی جانا چاہئے۔ مگر کردار کشی میں حد سے گزر جانا پاکستان کی عزت کے خلاف ہوگا۔ زرداری دو بار وزیر اعظم منتخب ہونے والی لیڈر کا شوہر ہے، پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی کا سربراہ ہے، صدر پاکستان ہے اس کی کردارکشی پاکستان کے مفاد میں نہیں۔
شاید آپ کا کہنا درست ہے.
اللہ کرے ایسا ہو۔ پر امید ہے نا ہی مایوسی
اگر آپ واقع میں جمہوریت پریقین رکھتے ھیں تو آپ میں ہر قسم کی بات سننے کا مادہ ھونا چاھئے. اور جمھوریت میں تو ھرراے اھم ھوتی ھے.
ہم بحیثیت قوم کچھ زیادہ ہے بے صبرے ہوگئے ہیں. میرے خیال میں انکی اہلیت کا فیصلہ مدت صدارت ہوگی. ایک دو سال بعد ان کی پالیسیوں کے جو نتائج سامنے آئیں گے انہیں سامنے رکھ کر زرداری کے متعلق فیصلہ کرنا ہوگا. مشرف کو نو سال دے دئیے تو زرداری کو ایک دو سال دینے میں کوئی حرج نہیں.
نعمان صاحب اصل میں جو لوگ انکی صدارت پر تنقید کر رہے ہیں ان کی اپنی رائے میں وزن ہے .. ویسے تو کوئی بھی بوٹوں میں پیر ڈال کر منصب صدارت پر فائز ہوجاتا ہے لیکن جب کبھی موقع ملے اور جمہوری طریقے سے صدر چننے کا موقع ملے تو لوگوں کی خواہش ہوتی ہے کہ غیر متنازعہ آدمی کو صدر بنایا جائے اور اسے علامتی ہی رہنے دیا جائے.. آصف زرداری کا معاملہ یہ ہے کہ وہ اس بات سے انکار کرتے رہے کہ انکا صدر بننے کا ارادہ ہے لیکن نہ صرف یہ کہ وہ اپنی زبان سے پھر گئے بلکہ کئی اور وعدے بھی توڑ دیے.. اسے سیاست کہہ کر آگے بڑھ جائیں تو خیر ہے لیکن پھر یہ سلسلہ دراز ہوتا جائے گا. 73 کے آئین بحال کرنے کے دعوے دار اسمبلی توڑنے کی طاقت لیے صدر بن جائیں تو تنقید بہر حال ہوگی.
میں آپ کے اس خیال سے متّفق ہوں کہ آصف زرداری صاحب کی کارکردگی اور اپنے ملک وعوام کے تعیں دیانت داری کی بناء پر ہی ان کی تنقید آیا تعریف کی جانی چاہئے۔ اگر لوگ ایسا نہیں کرتے تو غیر ملکی اپنے کے مفاد کی خاطر آپ پر حاکم مسلّط کرتے رہیں گے۔ بلا وجہ، حزبِ محالف کی تنقید اور ہم نواوں کی تعریف کو شعار بنا لینا بجا نہیں ہے۔
جناب راشد کامران، بالکل تنقید کرنا اور آصف زرداری کی اہلیت پر سوالات اٹھانا پاکستانی عوام کا حق ہے۔ مجھے اعتراض کردار کشی پر ہے۔ جیسے ہتک آمیز ایس ایم ایس، گالم گلوچ زدہ پیغامات، اور زرداری کے انتخاب کو المئیے کی طرح پیش کرنا۔ یہ نامناسب ہے۔ ہمیں جمہوری روایات اور اقدار کو فروغ دینا چاہئے اور جس پارلیمنٹ کی بالادستی کی ہم بات کرتے ہیں اس کے مینڈیٹ کا احترام کرنا چاہئے۔
آصف زرداری کا صدر بننا موجودہ ملکی حالات میں بہترین فیصلہ تھا۔ اس سے معیشت اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی پوزیشن مضبوط ہوگی۔ اگر ہم کسی غیرمتنازعہ لیکن کمزور شخصیت کو صدر کو منتخب کرتے تو استحکام کا وہ تاثر پیدا نہ ہوتا۔
مجھے آصف زرداری کے صدر منتخب ہونے سے یہ ڈر ہے کہ اب صدر کے اختیارات کم کرنے کے وعدے سے بھی وہ مکر جائیں گے۔ جو فی الحال تو نہیں لیکن مستقبل میں ضرور پریشانیاں پیدا کرے گا۔ اس لئے ضروری ہے کہ موجودہ پارلیمان کی مدت ختم ہونے سے قبل ہی آئین کو اس کی اصل صورت میں بحال کیا جائے۔ میرے خیال میں ججز کی بحالی سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ پارلیمان کو مضبوط اور بالادست کیا جائے۔
اللہ آپ کی زبان مبارک کرے. اللہ کرے ایسا ہی ہو جیسا آپ کہہ رہے. تاکہ تمام لکھنے والے جو عوام کو بھی ساتھ ساتھ ڈرا رہے ہیں ان کے وسوسے دور ہو سکیں.
جو غُبار آپ نے نکالنے کی کوشش کی ہے اس کا سبب وہ عوامل ہیں جو آپ نے اپنی تحریر میں ظاہر نہیں کئے البتہ تبصروں کے جواب میں کچھ ظاہر کئے ہیں ۔ پہلے ای میل اور پھر موبائل فون ہموطنوں کے ہاتھ آگیا ہے اوٹ ٫ٹانگ پیغام بھیجنے کیلئے ۔
کسی کو گالی دینے سے جس کو گالی دی گئی اُس کا کچھ نہیں بگڑتا البتہ جس نے گالی دی اُس کا ضرور بگڑتا ہے ۔
یہ موقع ہے اپنے گناہوں کی معافی مانگنے کا ۔ سب ہموطنوں ک چاہیئے کہ پورے خلوص کے ساتھ اپنے گناہوں کی معافی مانگیں اور اللہ سے مدد کی التجا کریں ۔ قرآن شریف میں ہے ۔ جیسی قومیں ہوتی ہیں ان پر ویسے ہی حاکم مسلط کر دیئے جاتے ہیں ۔ اگر آصف زرداری اچھا ہے تو اس کا مطلب ہے قوم بھی اچھی ہے ۔ اگر وہ بُرا ہے تو قوم بری ہے اسی لئے مسلط کیا گیا ہے ۔
جہاں تک جج صاحبان کا تعلق ہے وہ ایک الگ معاملہ ہے ۔ درست ہے کہ انہی جج صاحبان نے 2002ء میں پی سی او کے تحت حلف لیا تھا لیکن ایک ایسا وقت آیا کہ انہوں نے اپنے صاحب کی مرضی کے خلاف محروم عوام کی بات سُنی جو صاحب کو ناگوار گذری چنانچہ ان جج صاحبان نے وطنِ عزیز میں پہلی بار ایک عمدہ مثال قائم کی اور ان کی عزت ہر انصاف پسند کا فرض ہے ۔
کردار کشی کی اصل وجہ آپ نے خود ہی اپنے تبصرے میںلکھ دی ہے یعنی آپ کو بھی صدر زرداری پر اعتبار نہیںہے کہ وہ اپنے اختیارات کم کرکے پارلیمنٹ کی بالادستی قائم کریں گے. دوسرے آج کی پریس کانفرنس سے ان کا ایجنڈا بھی واضح ہو گیا ہے یعنی صدر مشرف کی پالیسیوں کو جاری رکحھتے ہوئے دہشت گردی کیخلاف جنگ جاری رکھنا. ہو سکتا ہے وہ یہ جنگ جیت لیںمگر قوم کی بھلائی کیلیے شاید کچھ نہ کر پائیںکیونکہ اس بارے میںانہوںنے اپنی پریس کانفرنس میںبات کرنا بھی فضول تصور کیا ہے.
بھائی نعمان اتنے عرصے بعد تو قوم کو کوئی ایسا نام ہاتھ آیا ہے جسکا قافیہ ہر طرح کی تُک بندی میں نگینے کی طرح فٹ بیٹھتا ہے اور جس نے وردی بھی نہیں پہن رکھی امید ہے کہ کچھ دن کھیل کھال کے پھر سب لائن پر آجائیں گے۔ مقبولیت اور عزت کاموں سے ملتی ہے اور جنابِ صدر کے ماضی قریب کے اعمال میں سے چند ایک چھوڑ کر کوئی بھی قابلِ ستائش نہیں۔
رہی بات مضحکہ اڑانے کی تو ان سُناری چوٹوں سے جنابِ صدر کا بال بھی بیکا نہیں ہوگا اگر انمیں اخلاص ہوا تو پاکستان کا نام روشن کریں گے ورنہ بھائی لوگ تو اب نچلے بیٹھنے والے نہیں ہیں چاہے اپناہی کیوں نا ہو سڑکوں پر جلتی بسیں اور ٹوٹے ہوئے سگنل اس کے گواہ ہیں ہم اجتماعی خودکش بمبار ہیں اور اس بات پر ہمیں کوئی شرمندگی بھی نہیں ہوتی۔
معزرت کے ساتھ آخری جملے میں لفظ “ نقصان“ رہ گیا۔ یعنی:-
۔۔۔۔۔۔بھائی لوگ تو اب نچلے بیٹھنے والے نہیں ہیں چاہے نقصان اپناہی کیوں نا ہو سڑکوں پر جلتی بسیں اور ٹوٹے ہوئے سگنل اس کے گواہ ہیں کہ ہم اجتماعی خودکش بمبار ہیں اور اس بات پر ہمیں کوئی شرمندگی بھی نہیں ہوتی۔
یہی بات زرداری صاحب نے کیوں نہیں سہوچ لی۔
ویسے کونسی جمہوریت مین ایسا ھوتا ھے کہ صدر کی کردار کشی نہیں ھوتی۔ ہاں بادشاہوں کی کردار کشی نہیں ھہتی۔
ویسے کردار کشی اس کی ھوتی ھے جسکا کردار ھوتا ھے!!
میرا پاکستان: یہ تو آنے والے دن بتائیں گے۔
اجمل: جج صاحبان کے اتنے بڑے جرم کو صرف اس لئے معاف کردیا جائے کہ بعدازاں انہیں شرم آگئی اور انہوں نے جنرل صاحب کی جی حضوری سے توبہ کرلی؟ عوامی معاملات کی شنوائی کوئی کارنامہ نہیں یہ ان کا فرض منصبی تھا جس میں وہ اتنے آگے نکلے کہ چن چن کر مسائل عدالتوں میں ہی حل کرنے لگے۔ خود ہی منصف خود ہی کوتوال خود ہی نجات دہندہ بننے کے چکروں میں لگ گئے جس سے ملکی اداروں کو سخت نقصان پہنچا۔
رضوان: ویسے ماضی قریب یا دور میں وہ چند ایک کونسے ایسے کام ہی جنہیں آپ قابل ذکر گردان رہے ہیں؟
جناب: آپ کو پورا حق ہے کہ تنقید کریں۔ یہ محض میری رائے ہے کہ زرداری کی کردارکشی مبالغہ آرائی، بدتہذیبی، فحش اور بدگوئی ہے۔ اس سے ہمارے قومی وقار پر اچھا اثر نہیں پڑتا۔ اور ہمارے ملک کی عوام کو خصوصا ان لوگوں کو جنہوں نے پیپلز پارٹی کو ووٹ نہیں دئیے یہ سوچنا چاہئے کہ یہ ملک کی دیگر عوام کا مینڈیٹ ہے جس کا ہمیں احترام کرنا چاہئے۔ ورنہ جمہوریت کمزور ہوگی اور جرنیل آتے رہیں گے۔
آپ پاکستان کے آئین اور اعلٰی عدالتوں کے قوانین پڑھ کر میرے تبصرہ کا جواب دیتے تو بہتر تھا ۔ حقائق لکھنے کیلئے صحافی بننے کی نہیں ۔ مناسب مطالعے کی ضرورت ہوتی ہے ۔
آپ جب خود جج صاحبان کے خلاف بُغز رکھتے ہیں تو دوسروں کو ایک ثابت شدہ چور کے خلاف بولنے سے کیسے منع کر سکتے ہیں ؟
کیا آپ زرداری کی املاک میں سے صرف 39 لاکھ ڈالر کے جائز ہونے کا ثبوت دے سکتے ہیں ؟
کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ زرداری کے صدر بننے کی خوشی میں پارلیمنٹ کا تقدس پامال کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے کارکنوں نے اس جگہ فائرنگ کیوں اور کیسے کی جہاں کسی ممبر پارلیمنٹ کو بھی اسلحہ لے جانے کی اجازت نہیں ؟
کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ پاکستان کی سڑکوں پر زرداری کے صدر بننے کی خوشی میں پیپلز پارٹی کے جیالوں کی فائرنگ کا نشانہ سٹریٹ لائیٹس اور دوسری اشیاء کیوں بنیں ؟
اجمل: گزشتہ پورے سال میں نے نہ صرف آئین پاکستان کا مطالعہ کیا ہے بلکہ شعیب سمیت کئی وکلا سے اس موضوع پر گفتگو کی ہے۔ آپ یہ رائے بنانے میں بہت جلد بازی کرتے ہیں کہ دوسرے حقائق سے ناواقف اور مطالعے سے عاری ہیں۔ مجھے جج صاحبان سے بغض نہیں لیکن میں عدلیہ کی نام نہاد آزادی کے پر فریب نعروں میں آکر ان کی پرانے اور انتہائی سنگین جرائم نظر انداز نہیں کرسکتا۔ اس لئے میں ان کی تحریک کو تنقید کی نظر سے دیکھتا ہوں۔ اور اس تنقید کے دوران کوشش کرتا ہوں کہ مہذب الفاظ ہی استعمال کروں۔ مثال کے طور پر آپ اوپر اپنی پوسٹ میں ثابت شدہ چور کے الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ جو کہ اس لئے غلط ہے کہ آصف زرداری پر کرپشن کا کوئی الزام ثابت نہیں ہوسکا ہے۔ لیکن اس لفظ کا غلط استعمال پاکستان کے جمہوری نمائندوں، اداروں اور قومی وقار کو کس قدر نقصان پہنچاسکتا ہے اس کا ہمیں ادراک کرنا چاہئے۔
میں زرداری کا وکیل نہیں اور میں اوپر لکھ چکا ہوں کہ مجھے بھی ان کے صدر بن جانے پر تحفظات ہیں۔ اور میں نواز شریف کی رائے سے متفق ہوں کہ اپوزیشن اور عوام کی کوشش اب یہ ہونی چاہئے کہ آئین کو اس کی اصل حالت میں بحال کرایا جائے۔
پیپلزپارٹی کے کارکنان کی سیلیبریشنز اور ان کے سوگ ہمیشہ ایسے ہی بے ڈھنگے رہے ہیں۔ پاکستان بھر میں لوگ ہوائی فائرنگ اور غل غپاڑے کو ہی جشن سے تعبیر کرتے ہیں جو قابل افسوس ہے۔ میں اس کو جائز ثابت کرنے کی کوئی کوشش نہیں کرونگا۔
نعمان بھای،
آصف صاحب نے پاکستان کے صدر ھویے کا عہد اٹھا لیا ہے، کہیں یہ بھی نہ توڑدیں کیونکہ پاکستان کے صدر کا عہد نامہ کوی قرآن یا حدیث تو ہے نہیں؟
اگر آپ نے آئین اور قانون کا مطالعہ کر لیا ہے تو آپ کو معلوم ہونا چاہیئے کہ اعلٰی عدالتوں کو ازخود کاروائی کرنے کا اختیار ہے اور اُنہوں نے اپنی حدود سے تجاوز نہیں کیا ۔ اگر آپ ماضی کی غلطیاں معاف نہیں کر سکتے تو آپ غلطی پر ہیں کیونکہ صبح کا بھولا شام کو گھر واپس آ جائے تو اُسے بھولا نہیں کہا جاتا ۔ صدر بننے کے بعد اگر زرداری بھی درست راستہ اختیار کر لے تو پھر اس کے ماضی میں نہیں جانا چاہیئے
متفق ہوں اس آرٹیکل سے اور اسی سوچ کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے میں نے اپنے بلاگ پر بھی تحریر لکھی تھی. میری رائے یہ ہے کہ آصف زرداری کے خلاف جذبات بھڑکانے والی چنگاڑیاں چھوڑی جارہی ہیں جان بوجھ کر… اور یہ کسی طور اچھی بات نہیں.
اجمل بالکل اعلی عدالتوں کو ازخود کاروائی کا آئینی اختیار حاصل ہے۔ لیکن اس اختیار کو دیگر ریاستی اداروں کے کام میں مداخلت کے لئے استعمال کیا جانا اختیارات سے تجاوز ہے۔ جیسے شاید آپ کو یاد ہو کہ سندھ ہائیکورٹ نے کراچی میں ٹریفک جام کے مسئلے کا ازخود نوٹس لیا اور سٹی ناظم اور دیگر متعلقہ محکمہ جات کو طلب کیا۔ جس سے عجب مضحکہ خیز صورتحال پیدا ہوگئی کیونکہ اعلی عدلیہ کو ٹریفک جام کے مسئلے کے اصل اسباب سے آگاہی نہ تھی۔ ازخود کاروائی کا اختیار اس لئے نہیں کہ عدالتیں مجرموں کو کٹھروں میں لائیں یہ کام قانون نافذ کرنے والے اداروں کا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے اعلی عدالتوں کو یہ اختیار نہیں کہ وہ کسی کو پاکستان کے آئین میں ترمیم کی اجازت دیں۔ لیکن انہوں نے اختیارات سے تجاوز کیا اور جنرل مشرف کو اجازت دی۔ عدلیہ کی ایسی بے راہ روی اور آئین شکنی سے ہی آمریت مضبوط ہوئی اور پھر ہم نے دیکھا کہ اسی آمر نے انہی ججز کو سڑکوں پر گھسیٹا۔ اور پورا ملک بحران کا شکار ہوا۔ اختیارات کا غیر ذمہ دارانہ استعمال ملک میں شدید بحران کا سبب بنا۔
راہبر آپ کے اور میرے علاوہ ملک کی دیگر اکثریت بھی یہی رائے رکھتی ہے۔ میں بھی آصف زرداری کو کوئی خاص پسند نہیں کرتا۔ لیکن مجھے جو بات نامناسب لگی وہ لکھ دی۔ کیونکہ میرے خیال میں قومی وقار و عزت کا تحفظ اور منتخب نمائندوں و ادارہ جات کی مضبوطی کے لئے کام کرنا اور آواز بلند کرنا ہر پاکستانی کا فرض ہے۔
Please support Asian Human Rights Commission urgent appeal to, among other things, improve Pakistan’s reputation;
http://www.ahrchk.net/ua/mainfile.php/2008/2999/