گائے بھی کبھی بچھیا تھی

حکومت نے بھارتی چینلوں پر پابندی لگادی مگر چند ڈرامہ سیریز ان دنوں ہمارے شہر کے گلی کوچوں میں چل رہی ہیں۔ ‘گائے بھی کبھی بچھیا تھی’ اور ‘کہانی بکرا بکری کی’۔ حد تو یہ ہے کہ سپر ہائی وے کی بکرا منڈی میں ایک گائے ‘کم کم’ نے بیسٹ گائے کا ایوارڈ بھی جیت لیا ہے۔ وہاں کئی لوگوں نے باقاعدہ اسٹیج لگا کر جانوروں کو ڈسپلے پر لگا رکھا ہے اور ساتھ میں ان کے نام اور خصوصیات لکھ کر لگائی ہوئی ہیں۔ ایک بیل سوجل اور بالا بھی بہت مشہور ہوئے ہیں۔ اسکے علاوہ ایک بونی گائے کا بھی بہت تذکرہ ہے اس گائے کا قد صرف ڈیڑھ فٹ ہے اور اسکا نام بلبل ہے۔

ہماری دکان کی طرف ایک فیملی بکرا لے کر آئی ہے یہ بکرا دکھنے میں کسی اونٹ جتنا ہے اور اس کی قیمت صرف ڈھائی لاکھ روپے ہے۔ حاجی محفوظ شیرمال والوں کا بیل بھی بہت مشہور ہوا ہے۔ چھوٹے چھوٹے بچے بچیاں اپنے قربانی کے جانوروں کی دیکھ بھال میں دل و جان سے مصروف ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ اس دیکھ بھال میں بیچارے جانور کی خوب درگت بنتی ہے۔ جہاں ایک طرف بچے اپنے دوستوں کے بکروں کے مقابلے میں اپنے بکرے کی خوبصورتی اور خوب سیرتی کے گن گاتے ہیں وہیں بڑے اپنے قربانی کے جانوروں کی قیمتیں بڑھا چڑھا کر بتاتے ہیں۔

گذشتہ ایک ہفتے سے بہت زیادہ سردی پڑ رہی ہے۔ کراچی میں چونکہ ہواؤں کی رفتار تیز ہوتی ہے اسلئیے جب یخ بستہ ہواؤں کے تھپیڑے منہ پر لگتے ہیں تو مزہ آجاتا ہے۔ ایسے موسم میں بھی لوگ گاڑیوں میں بھر بھر کر سپر ہائی وے کی منڈی پہنچتے ہیں۔ ایک جانور خریدنے کے لئیے کم از کم نصف درجن بچے اور اتنے ہی بڑے ایک ساتھ مہم شروع کرتے ہیں۔ سپر ہائی وے کی منڈی آٹھ سو ایکڑ رقبے پر پھیلی ہوتی ہے اور اتنے بڑے میلہ مویشیاں سے جانور ڈھونڈنا کوئی مشکل کام نہیں لیکن اصل مقصد تفریح ہوتا ہے۔ جب گھوم پھر کر سب تھک جاتے ہیں تو جو جانور بھی سب سے نزدیک نظر آتا ہے اسی کا سودا منٹوں میں طے کرلیا جاتا ہے۔

ہم لوگ پچھلے دو سال سے قربانی کے پیسے عبدالستار ایدھی صاحب کو دیتے ہیں۔ کیونکہ ہمیں ان چونچلوں کی عادت نہیں ہے اور نہ ہی ہمارے گھر میں کوئی بچہ ہے جو جانور کی دیکھ بھال کرسکے۔ ایدھی صاحب کے یہاں آپ جائیں اپنی آنکھوں سے قربانی ہوتے دیکھیں گوشت کی تھیلی اٹھائیں اور گھر آجائیں۔ ایدھی فاؤنڈیشن وہ گوشت یتیم بچوں اور مستحقین میں تقسیم کردے گی۔ میں تو ویسے ہی ہر طرف قربانی کے جانور دیکھ کر بیزار ہوجاتا ہوں میرے خیال میں شہر کی حدود میں اتنی بڑی تعداد میں جانوروں کا رکھنا ٹھیک نہیں ہے۔ جانوروں کے فضلے اور قربانی کے بعد خون اور گوشت کے چیتھڑوں سے جو تعفن پھیلتا ہے وہ بہت خطرناک ہے۔ جب میں نے یہ بات ایک صاحب سے کہی تو وہ کہنے لگے بھائی ہم تو اللہ کی رضا کے لئیے قربانی کرتے ہیں اب تعفن اور بیماریاں پھیلیں گی تو اللہ خود ہی انہیں سنبھال لے گا۔

تبصرے:

  1. اب تو ہر مزہبی کام میں نمائش زیادہ اور اس کی اصل روح کا خیال کم ہی رکھا جاتا ہے۔ قربانی کا جو مقصد ہے وہ تو ہم بھول چکے ہیں اور بس عید کو صرف گوشت خوری کیلۓ یاد رکھتے ہیں۔ آپ کی بات سے میں متفق ہوں کہ قربانی شہر میں ہر جگہ نہیں ہوتی چاہۓ بلکہ اس کیلۓ ایک خاص جگہ مقرر کردی جاۓ جہاں سارے لوگ جاکر قربانی کریں۔ ہمارا تو خیال تھا کہ اس دفعہ لوگ قربانی کے برابر مال زلزلہ زدگان میں تقسیم کردیں گے مگر لگتا ہے ملاؤں نے ضرور لوگوں ڈرا کر اس عمل سے باز رکھا ہوگا۔

  2. […] بکرا عید (عید الاضحی) نزدیک آچکی ہے۔ ہمارے گھر میں اس بات پر بحث چل رہی ہے کہ قربانی کا جانور خرید کر لایا جائے یا اس سال بھی ایدھی کی اجتماعی قربانی میں حصہ ڈالا جائے۔ میرا ووٹ تو حصہ ڈالنے کے حق میں ہے۔ اس کے فائدے یہ ہیں: […]

Comments are closed.