جس تصادم کا خطرہ تو وہ بالآخر ہو ہی گیا۔
کراچی کے شہریوں کو اس نازک موقع پر ذمہ داری کے ساتھ ان مسائل سے نمٹنا ہوگا۔ وفاقی حکومت سے کسی بھی مدد کی توقع رکھنا فضول ہے۔ ایم کیو ایم کو خصوصا ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا اور اس موقع پر یہ ضروری ہے رابطہ کمیٹی جماعت اسلامی کی مدد لے ورنہ جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم دونوں کو سخت نقصان پہنچے گا۔ ٹینشن کو ڈیفیوز کیا جائے۔ سب سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ مقامی پختونوں کو اعتماد میں لیا جائے۔ جس میں ایم کیو ایم کی قیادت بری طرح ناکام ہے۔ اور اس بھی زیادہ ضروری یہ ہے کہ الطاف حسین کے منہ پر ٹیپ لگائی جائے۔
ایک طرف تو اردو اسپیکنگ لونڈے غریب پھل فروشوں، چائے خانوں اور دیگر پٹھان اور پنجابی چھوٹے کاروباریوں کو ہراساں کررہے ہیں۔ پٹھان لڑکے اردو بولنے والوں کے کاروبار بند کرانے کی کوشش کررہے ہیں اور اردو بولنے والے لڑکے پٹھانوں پنجابیوں کو ڈرا دھمکا رہے ہیں۔ افواہیں یہ ہیں کہ پٹھان نوجوانوں کو مارا پیٹا گیا ہے۔ ان کے کان کاٹے گئے ہیں اور انہیں دھمکیاں دی جارہی ہیں۔
سہراب گوٹھ اور قائد آباد کے علاقوں میں لوٹ مار کا بازار گرم ہے۔ افواہیں گردش کررہی ہیں کہ جانور خریدنے آنے والے لوگوں سے پٹھان اور پنجابی لڑکے پیسے چھین کر ان کے کانوں میں ایلفی ڈال رہے ہیں۔ سہراب گوٹھ جانے والے راستے پر گاڑیوں پر حملے کرے جارہے ہیں شیشے توڑے جارہے ہیں اور لوگوں سے نقدی موبائل فون وغیرہ چھینے جارہے ہیں۔ جانوروں کی منڈی میں ملک بھر سے جانور لانے والے بیوپاری الگ پریشان ہیں کیونکہ ان کے پاس کافی وافر تعداد میں جانور ہیں اور اگر بازار کی صورتحال امپروو نہ ہوئی تو انہیں بہت زیادہ نقصان ہوگا۔
افواہوں کا بازار الگ گرم ہے۔ ہمارے علاقے میں اللہ کا شکر ہے ابھی تک امن و امان ہے۔ کسی پٹھان و پنجابی دکاندار کو ابھی تک ہراساں کرے جانے کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا ہے۔ لیکن یہ محض کچھ دیر کی بات لگتی ہے کہ جب یہ آگ ہمارے محلے تک بھی پہنچے گی۔
غیر ملکی دہشت گرد اورنگی میں دن دھاڑے دندناتے پھر رہے ہیں۔ ان سے ہوشیار رہنے کی سخت ضرورت ہے کیونکہ یہ لڑکے ہیلمٹ پہنے موٹرسائیکلوں پر آتے ہیں اور پختون اور مہاجر علاقوں میں فائرنگ کررہے ہیں۔ انہیں ناظم آباد اور اورنگی میں دیکھا گیا ہے۔ متحدہ اور اے این پی کے لڑکوں کے برخلاف یہ نہ دکانیں بند کراتے ہیں نہ کسی پٹھان یا اردو اسپیکنگ سے کوئی بات کرتے ہیں بس فائرنگ کرتے ہیں اور بھاگ جاتے ہیں۔ ان کو پہچاننا بہت آسان ہے کیونکہ ہمارے مقامی لڑکوں کی طرح یہ لڑکے شعبدے باز نہیں اور نہ چھچھورا پن کرکے اترانے والے ہیں۔ یہ بالکل پروفیشنل ہیں اور ان کا ٹارگٹ بالکل صاف ہے۔
انہیں پکڑ کر میڈیا پر لانا چاہئے تاکہ ہم بھارتی الزامات کا جواب دے سکیں۔ بلوچستان سے لیکر فاٹا اور اب کراچی تک بھارت کی شرانگیزی ہماری آپسی لڑائی کو ہمیشہ ہوا دینے آموجود ہوتی ہے۔ ادھر ہمارے ملک میں کوئی ٹینشن ہو ادھر ان کی ایجنسیاں سرگرم ہوجاتی ہیں۔ ساتھ ہی طالبان اور القاعدہ بھی اس موقع پر ہماری لڑائی سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی تاک میں ہیں۔ پختون نوجوانوں کو ورغلا کر لادین ہندوستانی مہاجرین کے خلاف کھڑا کرنے کا یہ سنہری موقع ہے۔
صورتحال ڈیفیوز کرکے پھر آرام سے رجسٹریشن، افغانی اور بھارتی ایجنٹس کو دبوچنا، طالبان اور القاعدہ کی نگرانی، متاثرین جنگ کے مسائل اور بیروزگاری و دیگر مسائل پر توجہ دی جائے۔ اے این پی سے ذمہ داری کی توقع رکھنا عبث ہے وہ پختون ووٹ بینک حاصل کرنے کے لئے پاگل ہوچکے ہیں۔ وہ اس کے لئے طالبان سے بھی ہاتھ ملائیں گے اور القاعدہ کے بھی تلوے چاٹیں گے۔
آپ کی الطاف حسین کے غیر ذمہ دارانہ بیانات کی روک تھام والی بات سے سو فیصد متفق ہوں اور ایم کیو ایم کی مقامی قیادت کو اس بات کا ادراک کرنا چاہیے کہ اگر اس تصادم کو ہوا دی گئی تو آگ ان کے اپنے گھروں تک پہنچے گی. مجھے غیر ملکیوں والی بات پر اتنا اعتماد نہیں کیونکہ جس غیر ذمہ دارانہ سیاست کا مظاہرہ ایم کیو ایم، جماعت اسلامی اور اے این پی کی طرف سے دیکھنے میں آرہا ہے اس کی موجودگی میں غیر ملکی ہاتھ کی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی. خاص طور پر ایک مخصوص طبقے کے لیے رجسٹریشن جیسی واہیات تجویز کی بات کرنے والا غیر ملکیوں سے زیادہ نقصان دہ ہے. انتظامی مسائل کو لسانی نکتہ نگاہ سے حل کرنے کی ہر کوشش کا کم و بیش یہی نتیجہ نکلے گا.
کوئی پوچھنے والا نہیں پکڑو مارو اور بھاگ جاو 🙁
معاملہ بگڑا وہاں سے ہے جب مہاجر اکثریتی علاقوں میں پٹھانوں کے کاروباروں کو بند کرنا شروع کیا گیا اور ملیر کے اندرونی علاقوں میں تو یہ کاروائی گزشتہ دس بارہ دنوں سےجاری تھی۔ سب سے پہلے تندور والے اور ٹھیلے والے نشانہ بنے اور بالآخر چند روز قبل یہ بات بڑے ہوٹلوں کی بندش تک جا پہنچی۔ اس کے نتیجے میں جو موجودہ صورتحال پیداہوئی ہے اس سے نقصان صرف اور صرف غریب آدمی کا ہوگا۔ مہاجروں کی بڑی آبادی پختون اکثریتی علاقوں سے گزر کر اپنے دفاتر یا کارخانوں کو جاتی ہے اور بالکل اسی طرح پختونوں کی بڑی تعداد کا کاروبار مہاجر اکثریتی علاقوں سے وابستہ ہے، اور اگر صورتحال قابو میں نہیں آتی ہے تو اس مہنگائی کے دور میں روزگار و کاروبار کا نقصان کیا قیامتیں ڈھائے گا، اس کا اندازہ ہم سب کو بخوبی ہے۔
نعمان بھائی! آپ کے علاقے میں واقع پٹھانوں کے ہوٹل بند ہو چکے ہیں اور میری اطلاع کے مطابق تو جمعہ اور ہفتہ سے بند ہیں۔
علاوہ ازیں ہمارے ذرائع ابلاغ کے چند چینلوں خصوصاً سماء ٹی وی، اے آر وائی اور میٹرو ون وغیرہ انتہائی غیر ذمہ دارانہ رویہ اپنائے ہوئے ہیں اور۔ اس نازک صورتحال میں سب سے ذمہ دارانہ رپورٹنگ آج ٹی وی کر رہا ہے اور اس کے بعد جیو اس لیے بہتر یہی ہے کہ ان چینلوں کی خبروں پر ہی اعتبار کیا جائے۔
اس وقت افواہیں سب سے زيادہ کام خراب کر رہی ہیں، اور چند چینل ان کو پھیلانے کا سہرا اٹھائے ہوئے ہیں۔ ہفتہ کے دن سماء پر قائد آباد میں ہنگامہ آرائی اور لوٹ مار کی خبر چل رہی تھی اور اس وقت قائد آباد میں کچھ بھی نہیں تھا اور پررونق بازاروں میں زندگی کی چہل پہل جاری تھی۔
اللہ کراچی کو اے این پی، ایم کیو ایم، جماعت اسلامی کے شر سے محفوظ رکھے.
اپ کی یہ بات اچھی ہے کہ "اور اس بھی زیادہ ضروری یہ ہے کہ الطاف حسین کے منہ پر ٹیپ لگائی جائے۔ ” مسلئہ اتنا بڑا نہیں تھا جتنا اسے بنا دیا دیا گیا ہے . ایک طرف تو ایم کیو ایم کے قائد نے پہلے مہا جروں کی "اسلہہ کی تلقیین ” کر دی اور یہ خبریں بھی تواتر سے اتی رہی کے اسلحہ کے ذخائر ہو رہے ہے اس کے بعد بعض علاقوں میں مورچہ بندی کر دی گئی بلکل اس طرح کر دیا گیا جسطرح پہلے حقیقی کے سا تھ مقا بلہ کے لئے ہوتا تھا یعنی "نو گو ایریاز” بنا دیے گئے ………اس کے بعد غریب پختونو ں کے ساتھ چھیڑ چھا ڑ شروع کر دی گئی ……. میں پچھلی ٹاپک میں ان خبروں کا زکر کیا تھا تو اپ نے کہا تھا کہ میں”امت ” کی خبروں کوخبر نہیں سمجھتا چلیں یہ اپ کا زاتی معاملہ ہے ………
با قی رہے گئی اے این پی اس سے بھی کوئی
[…] ماہ قبل ممبئی میں دہشت گرد حملوں کے فورا بعد کراچی میں لسانی فسادات بھڑکانے کی ایک سازش ایم کیو ایم اور عوامی نیشنل پارٹی ناکام بناچکے ہیں۔ […]