کمزور دل والے حضرات اور خواتین یہ ویڈیو نہ دیکھیں تو بہتر ہے۔ اس میں ایک خاتون کو طالبان کے ہاتھوں کوڑے کھاتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ ویڈیو کے آخر میں لڑکی کی دلخراش چیخیں اور مدد کی پکار ہم سے کیا فریاد کررہی ہیں؟
تبصرے:
Comments are closed.
کمزور دل والے حضرات اور خواتین یہ ویڈیو نہ دیکھیں تو بہتر ہے۔ اس میں ایک خاتون کو طالبان کے ہاتھوں کوڑے کھاتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ ویڈیو کے آخر میں لڑکی کی دلخراش چیخیں اور مدد کی پکار ہم سے کیا فریاد کررہی ہیں؟
Comments are closed.
کیا یہی وہ نظام عدل ہے جسے باقی پاکستان پر بھی نافذ کرنے کے لیے کچھ لوگ بے تاب ہیں؟ کچھ لوگ تو پاکستان کے قانون کی دفعات و تعذیرات کے ذریعے طالبانیت کے نفاذ کو جائز بلکہ فرض قرار دیتے آئے ہیں۔ ان لوگوں کو سوات منتقل ہو جانا چاہیے تاکہ وہ اس بے مثال نظام عدل کا مزا چکھ سکیں۔
Yeh waqaia nazam-e-adal se pehle ka hai aghar nazam-e-adal hota to larki to sangsaar kia janat tha
نبیل کچھ لوگ ان سزاؤں کو اسلام کے عین مطابق سمجھتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ قرآن و حدیث کے لحاظ سے وہ لوگ صحیح بھی ہیں۔ لیکن جو منظر ہماری آنکھیں دیکھ رہی ہیں اسے دیکھنے کے بعد ہمارا دل و دماغ کہتا ہے کہ نہیں یہ غلط ہے۔ یہ ظلم ہے یہ زیادتی ہے یہ غیر انسانی، وحشیانہ تشدد ہے۔
کل کو یہ بھی کہہ دیں گے کہ یہ تو بس طالبان کو بدنام کرنے کے لیے جعلی ویڈیو بنا کر پھیلا دی گئی ہے، جیسے پیر سمیع اللہ کی لاش کو لٹکانے والا معاملہ ان کے نزدیک محض پراپگینڈا تھا۔
بالکل یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ یہ ویْڈیو ہالی ووڈ کے کسی اسٹوڈیو میں شوٹ ہوا ہے۔
لیکن اب ایسی صورتحال نہیں رہی نبیل، اب تو بیت اللہ محسود کھلے عام پاکستانی مسلمانوں کے قتل عام کی ذمے داری قبول کرتا ہے۔ اور طالبان کے وحشیانہ مظالم کی کوئی صفائی پیش نہیں کی جاتی بلکہ انہیں اسلام کے مطابق اور ان کے مخالفین کو واجب القتل کہا جاتا ہے۔ کوئی کچھ کہے تو جواب ملتا ہے پاکستان تو اسی اسلام کے نفاذ کے لئے بنا تھا اگر آپ کو منظور نہیں تو کہیں اور ٹھکانہ کریں۔
یہ سب یہود و ہنود کی سازش ہے۔
یہود اور ہنود نے یہ جو کافر کا بچہ موبائل ایجاد کیا ہے یہ سب اس کی شرارت ہے اور یہ جو کافر چینل والے ہیں یہ سب جہنمی ہیں۔
نعمان ہمیں اور آپکو بہت ساری نیپی ریش والی کریم خرید لینی چاہیئیں بعد میں توکراچی اسلام آباد میں بلیک میں بھی نہیں ملیں گیں۔
انتہائی افسوسناک بات یہ ہے کہ بربر طالبان ڈھٹائی سے اسے غیر ملکی سازش قرار دے رہے ہیں اور اس بات پر مصر ہیں کہ ان کی دی گئی سزا شرعی ہے۔ ان کا موقف ہے کہ انہوں نے مرد کو بھی سزا دی تھی جس کی ویڈیو کوئی نہیں دکھا رہا۔
جبکہ مفتی منیب الرحمان کا کہنا ہے کہ سزا غیر شرعی ہے اور کسی فرد یا گروہ کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ حد جاری کرے۔ یہ پاکستان کے قانون کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
بربریت کی ایک اور مثال۔۔ نا معلوم کتنے مزید لوگ اس بربریت کا نشانہ بنتے ہونگے یہ تو وہ چند مثالیں ہیں جو ہمارے سامنے آجاتی ہیں۔۔۔ ایک عالی دماغ کا یہ بھی کہنا ہے کہ واقعہ معاہدے سے پہلے پیش آیا یعنی اس وقت یہ جائز تھا اور اب معاہدے کے بعد اس کی اہمیت ختم ہوگئی۔۔ اور یہ بھی کہ یہ خودساختہ شرعی عدالتوں کے قیام کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کی سازش ہے۔۔ اتنے متضاد بیانات دیے جارہے ہیں کہ سمجھ نہیں آرہی کہ ایک غلط چیز کو غلط کہنے میں کیا قباحت ہے۔۔۔ یہودو ہنود کی سازش والی بات پر تو آفرین ہے۔۔
سزا کے شرعی اور غیر شرعی ہونے سے قطع نظر کسی گروہ یا افراد کو یہ حق نہیں کہ سزائیں دیتا پھرے۔ اور ویڈیو میں موجود مدعیان حق کی اپنی حالت دیکھیے کہ لوگوں کو پیچھے ہٹانے کا کہتے وقت ساتھ میں گالی بھی ٹانک رہا ہے۔
جی یہ ویڈیو طالبان یا طالبان کے زیرقبضہ کسی علاقے کی نہیں، طالبان کے نمائندے نے اس بات کی تردید کر دی ہے ،اور میرے خیال میں طالبان جو کرتے ہیں وہ قبول بھی کر لیتے ہیں، یہ طالبان اور اسلامی نظام سزا جو کہ کوڑے مارنا ہے کو مغرب اور دنیا میں بدنام کرنے کی سازش ہے
خبر اردو پوائنٹ میں ملاحظہ فرمائیں
یاسر آپ کی اطلاع غلط ہے طالبان یہ بات قبول کرچکے ہیں کہ اس قسم کا واقعہ پیش آیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ انہیں سزا دینے کے طریقہ کار پر اختلاف ہے مگر سزا پر نہیں۔ ملا صوفی محمد نے خود ایک کمیٹی بنائی ہے جو اس واقعے کی تحقیقات کررہی ہے۔
You can watch this video @ spicy-soft.co.cc
میرے خِیال میں اسلام کش تبصرہ جات اگلے جانے کے بعد آزاد میڈیا سے یہ بات ثابت ہوگءی ہے کہ یہ ویڈیو نہ صرف جعلی ہے بلک مضحکہ خیز بھی ہے خصوصا ایک سیکولر پارٹی کے سیکولر راہنما امیر ہوتی جو وزیر اعلیِ بھی ہیں کا اس بارے میں تبصرہ کافی و شافی ہے، وہ فرماتے ہیں ضیاء دور میں چند کوڑے کھاکر بندہ گھاءل ہوجاتا تھا یہ خاتون [جس کے دکھ میں آپ گھلے جارہے ہیں] کئی کوڑے کحاکر بھی بھاگ کھڑی ہوئی ہے، ہے نا عجیب بات1
حافظ صاحب
کوڑوں اور دروں میں فرق ہوتا ہے۔ ضیا دور میں معتوب صحافیوں اور سیاسی کارکنان کو زنجیروں سے جکڑ کر جلادوں سے کوڑے لگوائے جاتے تھے۔ اس خاتون کو فرش پر لٹا کر درے مارے گئے ہیں۔