میری بہن نورالعین آج دوپہر میں کسی وقت پاک پتن اور لاہور کے دورے کے بعد وطن واپس پہنچیں گی۔ نورالعین کی ساس پاک پتن والے بزرگ کو بہت مانتی ہیں اور انہوں نے وہاں کچھ ایسی منت مانگ رکھی تھی کہ وہ اپنی بہو کو وہاں کسی سال ضرور لے جائیں گی۔ میری بہن اور بہنوئی ان چیزوں کو نہیں مانتے۔ جس دن انہیں پاک پتن روانہ ہونا تھا اسی دن اعجاز بھائی (میرے بہنوئی) کو بھی پنجاب بھینسیں خریدنے جانا تھا۔ مناہل کو وہ لوگ ہمارے پاس چھوڑ گئے ایک دو دن تو پریشانی ہوئی کیونکہ ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ مناہل کہ امی ابو دونوں اسے چھوڑ کر جارہے تھے۔ لیکن مناہل بہت جلد ہی بہل گئی بس دن میں ایک دو بار اسے اچانک امی ابو کی یاد آنے لگتی تو ہم اس کی ممی کو فون کروادیتے۔
پاک پتن سے نورالعین اور ان کے سسرال والے لاہور چلے گئے اور پنجاب سے اعجاز بھائی بھی ان کے پاس لاہور ہی پہنچ گئے اور اطلاعات یہ ہیں کہ ان تین دنوں میں انہوں نے لاہور میں سوائے خریداری کے کچھ نہیں کیا۔ نہ شالامار باغ دیکھا، نہ قلعہ، بس دور سے بادشاہی مسجد دیکھی۔ حالانکہ لاہور میں شاپنگ کی ایسی کیا چیز ہے جو کراچی میں نہیں تھوڑا سا پیسوں کا انیس بیس کا پھیر ہوتا لیکن خواتین کو تو بس ایک یہ ہی تفریح نظر آتی ہے۔ اور پھر عینی کی ساس تو خریداری کے حوالے سے مشہور ہیں۔ مناہل کے لئیے انہوں نے کلرنگ پنسلز، کتابیں، اسٹیشنری اور دیگر ایسا سامان لیا ہے۔ مناہل کو رنگوں اور فطری مناطر میں بہت دلچسپی ہے اسکے علاوہ ڈرائنگ کا بھی اسے بہت شوق ہے۔ ماشاءاللہ اس میں ابھی سے کافی فنکارانہ رجحان دکھائی دیتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اسے ابھی پنسل بھی پکڑنا نہیں آتی تاہم اس کے شاہکار کسی بھی اچھی آرٹ گیلری میں تجریدیت کے نام پر فروخت کئیے جاسکتے ہیں۔ خصوصا اس کے بنائے ہوئے ہاتھی جو عموما گلابی یا نیلے رنگ کے ہوتے ہیں یا پھر اس کی بنائی ہوئی چڑیا جو عموما تین چار گول اشکال پر مشتمل ہوتی ہے اور سرخ رنگ کی ہوتی ہے۔ ویسے مجھے تجریدی آرٹ کا کچھ پتہ نہیں ہے بس سن رکھا ہے کہ اس میں اشکال نظر نہیں آتیں آرٹسٹ بس بتادیتا ہے کہ یہ گھر ہے، یا پہاڑ ہے یا کوئی برتن ہے اور آپ کو یقین کرنا پڑتا ہے۔ مناہل کے ساتھ بھی ایسا ہی ہے وہ ڈرائنگ کرکے ہمیں بتادیتی ہے کہ یہ ہاتھی ہے یا ڈاگی ہے اور ہمیں یقین کرنا پڑتا ہے۔
کل رات میں مناہل کو تعزئیے دکھانے لے گیا۔ مناہل کی جو بات مجھے سب سے اچھی لگتی ہے وہ یہ ہے کہ اسے ایسے کسی کھلونے میں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی جس سے تشدد کا اظہار ہوتا ہو۔ محرم کی نو تاریخ میں پرانے شہر کے علاقوں میں جہاں تعزئیے لگتے ہیں وہاں ماننے اور نہ ماننے والوں کے ہجوم لگ جاتے ہیں۔ ساتھ ہی کچھ خانہ بدوش گروہ اس موقع پر سندھ سے بطور خاص آتے ہیں یہ لوگ سڑکوں پر چادریں بچھا کر رنگ برنگی تلواریں، نقشین تیر کمان، کلہاڑے وغیرہ بیچتے ہیں۔ میں سوچ رہا تھا کہ مناہل ان میں سے کچھ مانگے گی کیونکہ یہ چیزیں بہت کلرفل ہوتی ہیں اور مناہل کو رنگوں سے بہت دلچسپی ہے۔ لیکن مناہل نے ان کی طرف دیکھنا بھی گوارا نہیں کیا۔ اس کے بجائے مناہل نے ربڑ کا ایک چھوٹا سا چوہا خریدا ہے، ایک کاغذ کی گلابی اور پیلے رنگ کی ٹوپی، ایک بال پین جس کی نوک دبانے سے اس میں ایک بلب جلتا ہے اور چھوٹی سی ڈھولکی۔ بعد میں ہم نے مناہل کے لئیے چکن تکہ لیا اور گھر آگئے۔
چراغ تلے اندھیرا
یا
خود میاں فصیحت دیگراں را نصیحت