اس بلاگ پر پچھلی کئی بلاگ پوسٹس میں اس کا ذکر تفصیل سے ہوچکا ہے۔ کراچی میں انتہاپسند تیزی سے فسادات کا بیچ بو رہے ہیں۔
جس طرح دنیا بھر کی برائیوں کا منبع یہودیوں کو بنادیا گیا ہے۔ ایسے ہی پاکستان میں ایم کیو ایم ہے۔ ایم کیو ایم کے خلاف جتنی نفرت پاکستان کے دیگر علاقوں میں پائی جاتی ہے وہ حیرت انگیز ہے۔ لوگ اپنے حلقے کی سیاست کے بارے میں کچھ نہیں جانتے ہوں مگر کراچی میں ایم کیو ایم کے لرزہ خیز مظالم کی داستانیں زبان زد عام ہیں۔ اور ہوسکتا ہے کہ ان میں سے کچھ سچ بھی ہوں مگر زیادہ تر حیرت انگیز پروپگینڈے پر مبنی ہوتی ہیں۔ جیسے یہ کہ کراچی میں پنجابی اور پٹھان گھر سے باہر نکلتے بھی ڈرتے ہیں۔ ایم کیو ایم گھروں اور دکانوں سے بھتہ وصول کرتی ہے، ایم کیو ایم جناح پور بنانا چاہتی ہے، وغیرہ وغیرہ۔
یوٹیوب پر ہی بارہ مئی کے دن پیپلز پارٹی اور اے این پی کے کارکنوں کو اسٹریٹ اوپن فائر کرتے ہوئے دکھایا جانے کی ویڈیو موجود ہیں۔ مگر وہ ویڈیوز سب نظر انداز کردیتے ہیں۔ الطاف حسین کراچی کے عوام کو طالبان کے خلاف اسلحہ خریدنے کی ترغیب دے تو سب چوکنے ہوجاتے ہیں۔ لیکن اے این پی کے شاہی سید کراچی شہر میں پختونوں کو یہ باور کرائیں کہ اردو بولنے والے محض پناہ گزین ہیں اور ہندوستان سے جوتے کھا کر نکالے گئے تھے تو کسی کو لسانی تعصب اور تشدد کی سیاست نظر نہیں آتی۔ ایم کیو ایم طالبان کے خلاف جمہوری طریقے سے احتجاج کرے (پارلیمان میں، میڈیا میں، عوام میں) تو سب اسے پختونوں کے خلاف مہم جوئی سے تعبیر کرتے ہیں۔ لیکن صوفی محمد کے ترجمان کراچی کے پختونوں کو طالبان کو مدد کے لئے کراچی بلانے کی دعوت دیں تو کسی کو تعصب، تشدد اور خطرہ محسوس نہیں ہوتا۔
ایم کیو ایم صوبہ سندھ کی دوسری سب سے بڑی جماعت ہے۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ سندھ کے سندھی بولنے والے عوام ایم کیو ایم کے اتنے مخالف نہیں جتنا پنجاب اور صوبہ سرحد کے عوام ہیں۔ یہ بات کسی لسانی تناظر میں نہیں کہہ رہا لیکن یہ رویہ مجھے کافی عجیب لگتا ہے۔ کیونکہ میرے خیال میں ایم کیو ایم کی سیاست کا سب سے زیادہ اثر صوبہ سندھ میں ہوتا ہے لیکن وہاں کی عوام ایم کیو ایم کے بارے میں اتنی فکر مند نہیں ہوتی۔ اس کا احساس مجھے سکھر، نواب شاہ اور لاڑکانہ جانے پر ہوا۔ وہاں ایم کیو ایم کے یونٹ آفس بھی ہیں لیکن وہاں کی عوام کو علم ہے انہیں ووٹ پیپلز پارٹی کو ہی دینا ہے۔ تو وہ ایم کیو ایم کو توجہ کے لائق ہی نہیں سمجھتے۔ نہ اس سے خوفزدہ ہوتے ہیں۔
ایم کیو ایم کے خلاف ملک کے دیگر علاقے کےاس رویے کا ایم کیو ایم کے ووٹ بینک پر الٹا اثر پڑتا ہے۔ اور ایم کیو ایم اردو بولنے والے ووٹر کو کامیابی سے اس بات کا احساس دلاتی ہے کہ پنجابی اور پختون تمہارے نمائندوں کو منتخب ہوتے نہیں دیکھنا چاہتے۔ ایم کیو ایم کے خلاف پروپگینڈے کو ایم کیو ایم کامیابی سے اردو بولنے والوں کے خلاف پروپگینڈہ بنا کر پیش کرتی ہے۔ وہ لوگوں کو احساس دلاتی ہے کہ اگر آپ اردو بولتے ہیں تو ایم کیو ایم کے علاوہ کوئی آپ کی نمائندگی نہیں کرتا۔ یوں ایم کیو ایم کا ووٹ بینک مضبوط ہوتا ہے
ایم کیو ایم مخالف پروپگینڈے کی ناکامی ایک اور وجہ اس کا بے تکا پن بھی ہے۔ جیسے مثال کے طور پر جناح پور کا منصوبہ، اور یہ کہ کراچی میں ایم کیو ایم کے کارکنان اور کچھ نہیں بس ہر وقت اپنے ہی ووٹروں سے بھتہ خوری کرتے رہتے ہیں۔ ووٹر لیکن چونکہ ایم کیو ایم کے چندہ جمع کرنے کے عمل سے آگاہ ہے اس لئے وہ ایم کیو ایم کو چندہ بھی دیتا ہے اور ووٹ بھی۔
کراچی میں گذشتہ چند دنوں کے دوران چند جرائم پیشہ افراد نے لیاری میں بھتہ جمع کرنے کی منظم مہم شروع کی۔ ان جرائم پیشہ افراد کی ایم کیو ایم دشمنی اس بات سے عیاں ہے کہ ان کے علاقوں میں ایم کیو ایم کو یونٹ آفس کھولنے تک کی اجازت نہیں ہے۔ یہ نبیل گبول کا حلقہ ہے جہاں ہمیشہ سے وہ ہزاروں ووٹوں سے جیتتے چلے آرہے ہیں۔ ان علاقوں سے ایم کیو ایم کو کبھی جیتنا تو درکنار کبھی کامیاب جلسہ کرنا بھی نصیب نہ ہوا ہے۔ مگر پروپگینڈے کا بھونڈا پن دیکھیں کہ اس کا الزام بھی ایم کیو ایم کے سر محض اس لئے باآسانی منڈھا جاسکتا ہے کہ ملک کے دیگر علاقوں کے لوگ ایم کیو ایم سے نفرت کرتے ہیں۔
اس کے بعد کورنگی ٹاؤن میں لینڈ مافیا کے افراد نے عوام پر فائرنگ کھول دی جس سے ہلاک ہونے والوں کی بڑی تعداد اردو بولنے والے افراد پر مشتمل تھی۔ جس کے بعد چند پراسرار افراد شہر میں ڈبل سواری پر پابندی کے باوجود موٹر سائیکلوں پر اسلحہ لیکر گھومتے رہے۔ مختلف علاقوں میں فائرنگ کرتے رہے۔ اور چن چن کر پختون محنت کشوں کو نشانہ بنایا گیا۔ ایم کیو ایم اور اے این پی نے ایک دوسرے پر الزام تراشی کے بجائے حالات کی نزاکت کو سمجھا اور سازش کو ایک بار پھر ڈفیوز کرنے کی کوشش کی۔
مگر یہ سازش کب تک ڈفیوز کی جاتی رہے گی؟ اس کے پیچھے جو لوگ شامل ہیں انہیں بے نقاب کیوں نہیں کیا جاتا؟
اس سازش میں وہی لوگ شامل ہیں جو امریکی سی آئی اے کو طالبان کے خلاف غلط معلومات فراہم کرتے رہے ہیں۔ اس سازش میں وہی لوگ شامل ہیں کہ جو سینکڑوں پاک فوج کے جوانوں کی ہلاکت کے باوجود طالبان کو کامیابی سے شانگلہ تک لے آئے ہیں۔ اس سازش میں وہی لوگ شامل ہیں جو افغانستان سے پوست اسمگل کرتے ہیں، پورے ملک میں بینک ڈکیتیاں کرتے ہیں، زمینوں پر قبضے کرتے ہیں، اغوا برائے تاوان کی وارداتیں کرتے ہیں، جن کی سرپرستی میں کراچی شہر کی اہم پختون آبادیوں میں طالبان اور القاعدہ کے افراد جمع ہورہے ہیں۔
اس سازش کا کیا فائدہ ہوگا۔ پاکستان کی طالبانائزیشن اسلام آباد پر قبضے کے بغیر تو پوری ہوسکتی ہے مگر کراچی پر قبضے کے بغیر نہیں۔ معاشی، فکری اور معاشرتی طاقت کا یہ منبع اگر ان نظریاتی دہشت گردوں کے زیر دست نہیں آئے گا تو ان کے نظریات کی کامیابی کا دعوی کیسے پورا ہوگا؟
دشمن کو اس کا آسان طریقہ یہ نظر آتا ہے کہ وہ ملک کے شمالی علاقوں اور پنجاب کے عوام پر اثرانگیز ایم کیو ایم مخالف پروپگینڈے کو استعمال کرے۔ انہیں یہ باور کرایا جائے کہ جہاں جہاں ایم کیو ایم طالبان کہتی ہے وہاں وہاں آپ اسے پنجابی اور پٹھان سے تبدیل کرلیں۔
ایم کیو ایم کو اسلام پسندوں کے مقابل کھڑا کردو۔ تاکہ اس کے خلاف نفرت میں اضافہ ہو۔
پختونوں کو اردو بولنے والوں پر حملوں پر اکساؤ۔ ایم کیو ایم شور مچائے گی کہ ہمارے ووٹروں کے خلاف لسانی تشدد پر پختونوں کو اکسایا جارہا ہے مگر کوئی اس کی بات نہیں سنے گا۔
جب ایم کیو ایم کے کارکن جوابی حملے کریں تو پختونوں کی مدد کو داڑھی والے اونچی شلواروں والے رحمت کے فرشتوں کو بھیج دو۔ منصوبہ بہت سادہ اور آسان ہے اور اس کا بھانڈا پھوٹ جانے کے باوجود اس پر عمل درآمد جاری ہے۔ کیونکہ دشمن کو معلوم ہے کہ ایم کیو ایم کی بات کوئی سنے گا ہی نہیں سوائے اس کے اپنے ہمدردوں اور ووٹر کے۔ اور وہ تو ویسے ہی ملک کی مجموعی آبادی کے تناسب سے کافی کم ہیں۔
کراچی میں یہ سب کچھ اچانک نہیں ہوا ۔ ترتیب وار واقعات یوں ہیں
1 ۔ الطاف حسین کا شور کہ طالبان کراچی کو گھیرے میں لے رہے ہیں ۔ 2 2 ۔ الطاف حسین کا شور کہ کراچی کو بچاؤ
3 ۔ چھوٹی وارداتیں جو چند دن دہرائی جاتی رہیں
4 ۔ بڑی وارداتیں جو ہر دن بڑھتی چلی گئیں
کراچی میں شہری حکومت ایم کیو ایم کی ہے
کراچی دارالحکومت ہے صوبہ سندھ کا اور صوبہ سندھ میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کی حکومت ہے
یا تو یہ کہیئے کہ کراچی میں حکومت کا وجود ہی نہیں
اگر حکومت ہے تو یہ سب کچھ حکومت کی ایماء پر ہوا ہے کیونکہ کافی کُشت و خُون اور گھیراؤ جلاؤ ہو جانے کے بعد جب ردِ عمل نے زور پکڑا تو شرپسندوں کو دیکھتے ہی گولی مارنے کا حُکم دیا گیا کیونکہ ایم کیو ایم نے جو کاروائی ڈالنا تھی وہ ڈال لی تھی اور اب اُن کے اپنے لوگ مرنے شروع ہو گئے تھے
السلام علیکم۔
اگرچہ کہ اپ کے کالم پہلے بھی پڑھتا رہا ہوں، مگر پہلی دفع اپنا تبصرہ شامل کررہا ہوں۔ اپکی باتیں اپنی جگہ مگر دل کو لگتی باتیں خاوردی ہیں۔
اپ لوگ اخر ایم کیو ایم سے اتنا پرشان کیوں ہو۔ ان کی حیثیت ہی کیا ہے۔ کیا پنجاب میں وہ داخل ہوسکتے ہیں ۔ یارو ہم نے کیا کبھی ان کو یا ان کے کسی نماندے کو ووٹ دینے ہیں ۔
رہی مار کاٹ تو ہم جب چاہیں گے انہیں سمندر میں دھکیل دیں گے ویسے بھی کراچی کی اب ساری پھاڑیوں پر ہمارا قبضہ ہے اور پورا کراچی ہماری نوک پر ہے۔ پرشان ہونے کی کوئ ضرورت نہیں۔ جب ضرورت ہوئی انا نوں پس کہ رکھ دیں گے ۔ حالی کروڑاں نصراللہ بابرباقی نے۔
جناب اجمل صاحب اور نعمان صاحب۔
میرا اوپر کا پہلا تبصرہ خالصتا ایک خاص سونچ سے تعلق رکھتا ہے۔ کیونکہ میں ایسا ہی سنتا رہتاں ہوں کہ کراچی میں ہمارے ہی لوگ مارے جاتے ہیں صرف پنجابی اور پٹھان (انسان) ۔ مگر نعمان صاحب کی تحریر سے پتہ لگتا ہے کہ وہاں کیڑے مکوڑے بھی مرتے ہیں ، ویسے کیڑے مکوڑوں کی اتنی حثیت نہیں ہونی چاہیے کہ ان پرواہ کی جائے۔
یہ ہے میری سچی سونچ جسے ہم بلاوجہ چھپا کر ادھر اودھر کا واویلا کرتے ہیں۔ شاید ہوسکتا ہے کہ اس دفع ہمارا سکور کچھ کم رہ گیا ہو، کوئی بات نہیں اگلی دفع برابر کر لے گیں۔ انسان کی حثیت کیا ہے، یہ سب نمبر گیم ہے۔ دوسرے کو نیچا دکھانے اور اس كا سیاسی قد کم کرنے کا۔ کسی کے باپ، بھائی یا بیٹے کے مرنے سے ہمیں کیا فرق پڑنے والا۔ ویسے بھی نصیر اللہ بابر نے ایک ایک گھر کے چار چار بیٹے اسکی ماں اور بہنوں کے سامنے مروائے تھے ظاہر ہے کہ ہمارا ھیرو تو وہی ہوسکتا ہے۔ ویسے اور تھوڑے دنوں کی بات ہے قبرمیںتو اس نى بھی جانا ہے۔
نعمان صاحب۔
میں اپ کے دلائل سے کافی متاثر ہوں۔ اپکی باتوں میں وزن ہے۔ اجمل صاحب نے تبصرہ میں کراچی کے حالیہ واقعات کے تناظر بیان کیے ہیں مگر ایک حوالہ دینا وہ بھول گئے۔ اگر کہیں جگہ بنے تو شامل کردیں کہ یہ حالات اس وقت خراب ہوتے ہیں جب
مئیر کراچی کا لاہور میں استقبال ہوتا ہے۔ کہیں ہمیں یہ خوف تو نہیں کہ خدانخواستہ کوئی ایسا پڑھا لکھا نوجوان ہم میں بھی پیدا نہ ہو جائے اور اسے کوئی ایم کیو ایم جیسی متوسط طبقے کی جماعت یا خدانخواستہ ایم کیو ایم ہی نہ لے اوڑے۔
اس سارے عمل کی وجہ حکومتی کمزوری ہے۔ حکومت جانتے بوجھتے آنکھیں بند کر کے بیٹھی ہوئی ہے اور اس سب کو اگر حکومتی سرپرستی سے تعبیر کیا جائے تو بالکل غلط نا ہو گا۔ حکومت کی حکمرانی کہیں دکھتی ہے کیا؟ ہر مسئلہ ہے کہ بھوت بنتا جا رہا ہے اور حکومت رِٹ رِٹ کی رَٹ لگائے بیٹھی ہے۔ جو بویا ہے وہ کاٹنا پڑے گا ،بجائے اس کے کہ کھلیانوں کو آگ لگانے کی ناکام کوشش کی جائے۔ جس حکومت کا وزیراعظم تک نا جانتا ہو کہ اس کے نام سے کیا فیصلہ جاری ہو چکا ہے اس حکومت کی حکمرانی کو سات سلام
یارو!
یہ چوہدری حشممت تو مجھے کوئی فرضی کردار لگتا ہے نہ جانے کیوں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس طرح کے لب و لہجہ میں یہ صاحب کسی دوسرے نام سے بھی لکھتے آئے ہیں۔
جناب چوہدری صاحب!
نہ تو ہمیں ایم کیو ایم سے دشمنی ہے اور نہ ہی کراچی کے کسی طبقے سے خار ہے۔ اور نہ ہی ہم کراچی کے مہاجرین کی پاکستان میں پیدا ہوئی آل اولاد یا اہل اردو سے مخاصمت ہے۔ اور ہم تہہ دل سے کراچی اور حیدر آباد کے اہلِ مہاجرین کی اور پاکستان کے تمام طبقوں کی عزت کرتے ہیں۔ اور نہ ہی کبھی کسی عقلمند پنجابی یا پٹھان یا کسی اور طبقے نے اہلِ اردو یا ایم کیو ایم کوحضرات کو سمندر میں دھکیلنے کی بات کی ہے۔ جو بھی اس طرح کی بات کرے گا وہ پاکستان سے غداری کا مرتکب ہوگا۔ اور نہ ہی کراچی میں جاری قتل و غارت اور غنڈہ گردی کی کبھی حمایت کی ہے۔ خواہ اُس میں مارے جانے والے پنجابی، پٹھان، سندھی یا مہاجر یا کوئی اور ہو۔ اسکور برابر کرنا بے غیرت اور بزدل لوگوں کا کام ہے ۔ اور معذرت کے ساتھ اسطرح کی باتیں وہ ہی کر سکتا ہے جو واقعتاً پاکستان میں فتنہ اور فساد دیکھنا چاہے ۔ اور اس طرح کے آدمی کی سوچ بھارت و اسرائیل اور امریکہ کے مفادات کے تابع تو ہوسکتی ہے اور پاکستان سے غداری کے زمرے میں آتی ہے مگر ایک اچھے سچے اور حقیقی پاکستانی کی نہیں ہو سکتی۔ خواہ وہ پنجابی ہو ۔ پٹھان ہو ۔ مہاجر ہو یا اس کا تعلق کسی اور طبقے سے ہو۔
میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں یا کسی کو بھی اگر ایک کیو ایم کے حوالے سے کچھ تحفظات ہیں تو محض انکی لیڈر شپ کے کچھ ناعاقبت اندیش لوگوں سے ہیں کہ وہ پاکستان کے دشمن کے ہاتھوں میں کھیل رہے ۔ اور ایم کیو ایم کے بارے میں یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ اسکی لیڈر شپ نے اس جماعت کی پرورش اپنے ذاتی مفادات کی خاطر خالص لسانی بنیادوں پہ کی ہے۔ اور دوسرے غیر لسانی طبقوں کے خلاف نفرت کی بے جا آگ بھڑکانے کی کوشش کی ہے۔جس طرح موصوف آج کل بیرونی اشاروں پر طالبان طالبان کا ڈھنڈورہ پیٹ رہے ہیں ۔ اور خالص لسانی بنیادوں پہ مافیا طرز پہ بھرتی کیے گئیے غنڈوں سے کراچی میں امن و عامہ کو بگاڑ کے اور قتل و غارت کا بازار گرم کر کے موصوف اور اُن کے چند چیلے اسے طالبان کی کاروائیاں قرار دے کر پاکستان دشمنوں کی کی پاکستان کے خلاف موجودہ منصوبہ بندی میں اپنا سا حصہ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اور جس شاخ پہ بیٹھے ہے اسی کو کاٹنے کی فکر میں ہیں۔
ہمارا یہ بھی کہنا ہے کو جو لوگ اپنی فہم و فراست سے دشمن کے ناپاک عزائم کو سمجھتے ہیں وہ لوگ پاکستان کی حفاظت کرنے والے انشاءاللہ پاکستان کی حفاظت کرنا خوب جانتے ہیں۔ اور ان میں مہاجر، پنجابی ، بلوچی ، مکرانی ، سرائیکی۔ پٹھان، سندھی سبھی یک جان شامل ہیں۔ اور اس میں کسی لسانی گروہ کی تخصیص نہیں۔ اور خود ایم کیو ایم کے جھانسے یا دھونس میں آنے والے عام عوام بھی یہ بات سمجھ رہے ہیں کہ خود تو یوروپ میں بسنے والی برطانوی شہریت کے حامل لوگوں کا کیا جائے گا ۔ انکا کیا بگڑے گا۔ جبکہ خون اگر بہا تو وہ کراچی یا پاکستان میں بہے گا ۔ نقصان اگر کوئی ہوا تو وہ کراچی یا پاکستان میں بسنے والے عام پاکستانیوں کا ہوگا خوا ہ وہ کسی بھی صوبے یا لسانی گروہ سے تعلق رکھتے ہوں ۔
چوہدری حشمت صاحب!
آپ کے لہجے سے مہاجر پنجابی یا پٹھان مہاجر وغیرہ کی تقسیم کی بُؤ آتی ہے۔ اور جو بھی اس طرح کی بات کر گا ہم اس کی مذمت کرتے ہیں۔
نوٹ ۔: چوہدری حشمت نامی صاحب کے لفظ بہ لفط یہ ہی تبصرے۔ اجمل صاحب کے بلاگ ۔ میں کیا ہوں۔ پہ ۔کراچی کے طالبان 3 ۔ پوسٹ پہ بھی ہیں۔ جس سے چوہدرہ موصوف کی شرارت کا پتہ چلتا ہے۔ مندرجہ بالا میرا تبصرہ وہاں بھی ہے۔ اور یہاں اس لئیے نقل کیا ہے کہ چوہدری صاحب کو افاقہ ہو۔
بارود کے ڈھیر پر بیٹھ کر دیا سلائی جلائے رکھنا دانش مندی نہیں بلکہ بندر سے بڑھ کر حماقت ہے۔
افتخار بات آپ وہی کر رہے ہیں جو میں اپنی پوسٹ میں کہہ چکا ہوں۔ کہ ایم کیو ایم کے خلاف بغض اور تعصب عوامی سطح پر اسی قدر ہے جس طرح یہودیوں کے خلاف ہے۔ کہ ایم کیو چاہے کچھ ہی کہے اور کچھ ہی کرے تعصب اسے خودبخود رد کردیتا ہے۔
ایم کیو ایم کے کارکنان کا قتل صبح ہوا سارا دن اردو بولنے والے ہلاک ہوئے۔ شرپسندوں کو گولی مارنے کا حکم رات کو جاری ہوا جب پختون املاک بسیں اور منی بسیں اور رکشہ وغیرہ جلائے جانے لگے ۔
میں تمھیں بتاتا ہوں کہ بنیادی مجرم کون ہے،بنیادی مجرم ہے وہ پنجابی جاگیر دار جس نے قائد اعظم سے کہا تھا کہ ہم اس وقت تحریک پاکستان میں حصہ لیں گے جب آپ یہ وعدہ کریں کہ آپ پاکستان میں جاگیرداری نظام ختم نہیں کریں گے اور قائد کو اس وقت مجبورا” ان کا یہ مطالبہ تسلیم کرنا پڑا اور یہی وہ لوگ تھے جن کے لیئے انہوں نے کہا تھا کہ میں جانتا ہوں کہ میری جیب میں کھوٹے سکے ہیں ،یہی لوگ تھے جو چاہتے تھے کہ قائد جلد سے جلد اوپر پہنچیں کیونکہ وہ اگر کچھ عرصہ زندہ رہ جاتے تو آئین بن جاتا اور اس کے تحت قائد اعظم زمین کی حدود مقرر کر دیتے ،اور اس کے بعد لیاقت علی خان سے بھی انہیں یہی خطرہ تھا،فوج کوبھی انہی جاگیرداروں نے رفتہ رفتہ اپنے مکمل قبضہ میں کر کے خوب کھل کھیلا ہم عام پنجابیوں کے نام پر سارے پاکستان کا استحصال کیا اور ہم پنجابیوں کی اکثریت آج بھی بھکاریوں جیسی زندگی گزار رہی ہیں جب میںاپنے صوبہ میں لوگوں کو جانوروں سے بدتر زندگی گزارتے دیکھتا ہوں یا انہیں کراچی میں بھکاریوں کی طرح رلتے دیکھتا ہوں تو میرا دل خون کے آنسو روتا ہے،جب یہاں پورے پاکستان کے لوگ اپنے علاقوں کی محرومیوں کا رونا روتے پنجاب کو الزام دیتے ہیں تو میری گردن شرم سے جھک جاتی ہے،ایک سابق آرمی کا شخص اگر ضیاء الحق کا فیور نہ کرے گا تو پھر کس کا کرے گا؟60 سالہ استحصالی نظام کو مزید مظبوط ضیاء الحق نے ہی کیا تھا،بھٹو کا سب سے بڑا جرم ہی یہی تھا کہ وہ زرعی اصلاحات کررہا تھا جو کسی جاگیردار اور وڈیرے کو قبول نہیں تھیں،اس کی سزا میں اسے ایک ایسے جرم میں پھانسی پر لٹکایا گیا جس میں ریزن آف ڈاؤٹ کی بھرپور گنجائش موجود تھی اور جسے آج جوڈیشنل مرڈر کہا جا رہا ہے،ضیا ء الحق نے بھی عوام کی بات کرنا شروع کی ہی تھی تو اسے بھی اوپر پہنچا دیا گیا ،جب جب اور جس جس سے اس استحصالی نظام کو خطرہ محسوس ہوااسے راستے سے ہٹادیا گیا،بنگلہ دیش بھی اسی لیئے بنا کہ وہاں کے لوگوں کا سیاسی شعور بیدار تھاوہ اگر حکومت بناتے تو سب سے پہلے اسے ہی اکھاڑ پھینکتے،اس لیئے انہیں ہی اکھاڑ پھینکا گیا
لوگ مجھے پنجابی ماننے سے انکاری ہیں میں ان سے یہ سوال کرتا ہوں کہ کیا کسی پنجابی کا سچ بولنا اور حق بات کرنا اتنا ہی ناممکن ہو گیا ہے کہ اگر وہ سچ بولے تو اسے پنجابی ماننے سے ہی انکار کردیا جائے،کیا ہم یہودی ہوگئے ہیں کہ وہاں بھی اگر کوئی یہودی حق سچ بات کرے تو وہ اسے یہودی ماننے سے ہی انکار کردیتے ہیں ،ایک صاحب فرماتے ہیں کہ پنجابی تعصبی نہیں ہوتا، میں کہتا ہوں کہ پنجابی ہی سب سے زیادہ تعصبی ہے جتنی زات پات اور برادری ازم اور اس کے پیچھے قتل و غارت گری ہم میں ہے کسی دوسری قوم میں نہیں اور اس کو مزید مظبوط کیا ان لوگوں نے جو ہمارے نام کا فائدہ اٹھا رہے ہیں جو نہ صوبہ سرحد کو اس کی بجلی کا پیسہ دیتے ہیں نہ بلوچستان کو اس کی گیس جو کراچی سے 800 ارب کا ریونیو کماتے ہیں اور اسے ترقیاتی فنڈ میں 180 ارب صرف دیتے ہیں اور وہ بھی یک مشت نہیں ہمارا سٹی ناظم اس میں بھی اتنا کام کرتا ہے اور پنجاب سب کچھ کھا کر بھی بھوکا ہے وہاں کے لوگ ننگے ہیں وہ جاگیرداروں کا قرض ادا کرنے کے لیئے کبھی اپنے گردے بیچتے ہیں اور کبھی اپنے بچے،جو لوگ کراچی کے غم میں دبلے ہوررہے ہیں انہیں چاہیئے کہ وہ کچھ اپنے پنجاب کے غم میں بھی دبلے ہوکر کچھ کریں میں تو جب بھی یہاں سے جاتا ہو ں کراچی کی کچی آبادیوں میں رہنے والوں کے لیئے جو میرے بس میں ہے کرتا رہتا ہوں،کراچی کو جس مائکرو اسکوپک آنکھ سے یہ ہمدرد اور غمگسار دیکھتے ہیں کاش اسی مائکرو اسکوپ سے یہ پنجاب کو بھی دیکھیں اور کچھ کریں تو بہت سے مسئلے حل ہوجائیں گے،
جب لوگ ایم کیو ایم کے خلاف زہر اگلتے ہیں تو اسی زبان سے بھٹو اور پیپلز پارٹی کے خلاف بھی زہر اگلتے ہیں شائد یہ ان کے اندر کا خوف ہے جو انہیں مجبور کرتا ہے کیونکہ وہ اب وہی غلطی دہرانا نہیں چاہتے جو پیپلز پارٹی کو پنجاب میں آنے دیکر انہوں نے کی تھی نواز شریف ان تعصبی لوگوں کو اسی لیئے اچھا لگتا ہے کہ وہ جاگ پنجابی جاگ کا نعرہ لگاتا ہے ،اسلام کا نام لے کر پنجاب کی بات کرنا ان لوگوں کا خاصہ ہے کیونکہ ان کے نزدیک صرف یہ ہی مسلمان ہیں اور صرف یہی پاکستانی اس زہنیت کے لوگوں کے بارے میں میرا زاتی خیال یہ ہے کہ جب یہ اپنے رویوں سے خدانخواستہ باقی پاکستان کو بھی کھو دیں گے تو صرف پنجاب کا نام پاکستان رکھ کر خوش ہوا کریں گے اور یہ کہا کریں گے کہ ہم نے پاکستان کو بچا لیا،
اللہ پاکستان کو ان نادان دوستوں بلکہ دوست نما دشمنوں سے محفوظ رکھے آمین،
اس کے علاوہ ایک سوال اور کون ہے جس کی دلی خواہش ہے کہ پاکستان میں جلد سے جلد انتخابات دوبارہ ہوں،اور اس کے لیئے پرانا آزمودہ نسخہ کراچی کے لوگوں کا خون بہاؤ اورحکومت ہٹاؤ،
رہی بات مناواں اور لبرٹی کے حملے کی تو زرا یہ بھی بتا دیتے کہ را کیا خود حملہ کرنے پاکستان آئی تھی؟ تھے تو سارے اپنے صوبہ پنجاب کے ہی لوگ نا اور ابھی جو گاڑی صوبہ سرحد 3،4 سو کلو بارودی مواد لے جاتے ہوئے پکڑی گئی وہ کہاں سے آرہی تھی پنجاب سے ہی نا،حقیقت یہ ہے پنجاب اب جرائم کا گڑھ بن چکا ہے اور وہاں سے یہ صوبہ سرحد ایکسپورٹ ہوتے ہیں اور صوبہ سرحد سے صوبہ بلوچستان اور وہاں سے سندھ اور کبھی کبھی تو ڈائیریکٹ کراچی آتے ہیں،میڈیا پنجاب کے جرائم سے بھرا پڑاہے کراچی میں جرائم کرنے والوں کی اکژیت بھی پنجاب سے تعلق رکھتی ہے ،حالانکہ کراچی کی پنجابی پولس برابر سے ان جرائم میں ملوث ہے پھر بھی انہیں اپنا ریکارڈ سیدھا رکھنے کے لیئے کچھ کو تو پکڑ وانا ہی پڑتا ہے،ہم شریف لوگ چاہے پنجابی ہوں یا کسی اور زبان کے بولنے والے ہم سب ان سے عاجز ہیں،
فرمان آپ کے تبصرے کا شکریہ، گرچہ میں آپ کے تبصرے کے کئی پہلوؤں سے متفق نہیں۔ لیکن میں اس بات سے متفق ہوں کہ پنجاب کی عوام کو اس استحصال کے طعنے سننا پڑتے ہیں جس استحصال کا انہیں کبھی کوئی دو روپے کا بھی فائدہ نہیں ہوا۔ بلکہ یہ کہنا مناسب ہوگا کہ ان کا بھی اتنا ہی استحصال ہوا ہے جتنا باقی صوبوں کی عوام کا۔
میں صرف اس بات پر حیران ہوتا ہوں کہ پنجاب کی عوام کو (جو کراچی میں نہیں رہتے) ایم کیو ایم سے اسقدر نفرت، یہاں میں اختلاف نہیں لکھوں گا بلکہ سیدھا سیدھا نفرت لکھوں گا کیوں ہے؟ شاید آپ نے صحیح کہا کہ نفرت کی وجہ خوف ہوسکتا ہے۔ مگر عام سیدھے سادھے آدمی کو ایم کیو ایم سے کیا خوف؟ یہ خوف تو جاگیرداروں کو ہونا چاہئے کہ ایم کیو ایم مڈل کلاس تعلیم یافتہ نوجوانوں کو ٹکٹ دے گی۔ پنجاب کے عام آدمی کو ایم کیو ایم سے اسقدر نفرت کیوں ہے؟ تو اس کی وجہ اسٹیبلیشمنٹ کا سیدھا سادھا مگر بہت ہی بھونڈا اور بے تکا پروپگینڈہ ہے۔ دو عشروں سے جاری اس پروپگینڈے کا یہ اثر ہے کہ کراچی میں ہونے والے ہر قتل کا الزام ایم کیو ایم پر ڈال دیا جاتا ہے، کراچی کی ایک ایسی تصویر بنالی گئی ہے جہاں متحدہ قومی موومنٹ کے غنڈے غریبوں سے بھتہ وصول کرتے ہیں اور اپنے ووٹروں کو ڈرا دھمکا کر ان سے زبردستی ووٹ لیتے ہیں۔
ایک سادہ سی بات کہ کراچی کے لوگ بہت بڑی تعداد میں ایم کیو ایم کو ووٹ دیتے ہیں۔ اس کا تسلیم کرنا کیوں اتنا دشوار ہے؟ اور جن لوگوں کو لاکھوں کی تعداد میں کراچی کی عوام کے ووٹ ملے ہوں ان کی بات نہ سننا کس قسم کا جمہوری طرز عمل ہے؟
جاوید گوندل صاحب ::
پاکستان میں کئی سیاسی جماعتیں لسانی بنیادوں پر ووٹ حاصل کرتی رہی ہیں۔ ہر سیاستدان ہر طرح کی ہمدردی ایکسپلائٹ کرتا ہے، جیسے نواز شریف کا جاگ پنجابی جاگ، شہید محترمہ کا لاڑکانہ کی وزیر اعظم اور سندھ کارڈ، اے این پی کا پختونستان کے نام پر ووٹ مانگنا، جماعت اسلامی کا اسلام کے نام پر ووٹ مانگنا، وغیرہ وغیرہ۔ لیکن آپ کی شدید نفرت ایم کیو ایم تک ہی محدود کیوں ہے؟
الطاف حسین اگر ایک خطرے کی طرف اشارہ کررہا ہے۔ تو اس کی بات سننے اور اس کے تحفظات دور کرنے میں کیا برائی ہے؟ مثال کے طور پر ایم کیو ایم کا مطالبہ ہے کہ سہراب گوٹھ میں طالبان اور القاعدہ کی سرگرمیوں کا نوٹس لیا جائے تو اس میں کیا برائی ہے؟ ایم کیو ایم لینڈ مافیا کے طالبان اور القاعدہ سے تعلقات پر حکومت سے سخت ایکشن کی درخواست کرتی ہے تو اس میں کیا برائی ہے؟ چلیں آپ کو کراچی میں آنیوالوں کی رجسٹریشن پر اعتراض ہو تو اس کی کوئی تک بھی ہے ورنہ باقی مطالبات نہ صرف جائز ہیں بلکہ ان پر عمل کرنے سے ملک کو فائدہ ہی ہوگا۔
سندھ میں افغانستان سے لاکھوں افغان مہاجرین کوصوبہ سرحد کے پختونوں کے بھیس میں لاکرشاہ لطیف بھٹائی کی دھرتی پر قبضے کی سازش کی جارہی ہے۔ سندھ دھرتی ایک بار پھر دشمنوں کے نرغے میں ہے اور وہ ایک بار پھر سندھ کو خون میں نہلانے‘ دھرتی پر قبضہ جمانے اور مستقل باشندوں کو غلام بنانے کی تیاریاں کررہے ہیں‘ اس مقصد کیلئے افغان مہاجرین کی آڑ میں لاکھوں افراد کو لاکر سندھ کے شہروں اور قصبوں پر اسلحہ کے زور پر قبضہ کرنے کی بھرپور کوشش کی جارہی ہے۔اس سازش میں ایک صوبہ سرحدکی ایک لسانی پارٹی بھی شامل ہے۔اس کی واضح مثال حیدرآباد میں سندھیوں اور افغانیوں”نام نہاد پختونوں "میں ہونے والا تصادم ہے۔ جس میں کئی دوکانوں کو آگ لگائی جاچکی ہے۔
نعمان تم ان کے خبث باطن کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہوکہ یہ مجھے پنجابی ماننے کو تیار نہیں صرف اس لیئےکہ میں وہ کڑواسچ لکھ رہا ہوں جو انہیں ہضم نہیں ہوتا-میں جو پاکستان کو قائم و دائم دیکھنا چاہتا ہوں-اس ملک میں وہ اسلامی بھائی چارہ دیکھنا چاہتا ہوںکہ دنیا مثال دے اور یہ ان کوئیں کے مینڈکوں کو ہضم نہیں ہوتا-دیکھ لو اس شخص نے میرے تبصرے اپنے بلاگ سے مٹادیئے تم اس بات سے ہی اندازہ کرسکتے ہو،
یہ مار آستین ان کا کام ہی عوام کے وسائل پر عیش کرنا ہے اور عوام چوں چرا کرے تو اسے اسلام کی مار مارنا ہےاگر اس سے بھی قابو میں نہ آئےتو پنجابیت کا جوش بھڑکا کرنوجوانوں کو گمراہ کرنا ہے-
تم نے بلکل صحیح سمجھا ہے شروع سے پنجاب کی اسٹیبلشمنٹ نے میڈیا کو اپنے قابو میں رکھا اور جو چاہا وہی عوام کو دکھوایا اور سنوایا،جب چاہا جسے چاہا غدار اور دہشت گرد بنا دیا،پھر شروع میں ایم کیو ایم نے ایسے جزباتی نعرےبھی لگائے مگرشائد اس کی وجہ وہ استحصال تھا جو اس اسٹیبلشمنٹ نے ہمارے نام پر روا رکھا ،جب نوجوانوں کو اپنے شہر میں نوکریاں نہ ملیں ، جب کراچی کے ڈومیسائل کی کوڑے برابر کراچی میں وقعت کردی جائے اور صرف پنجاب کا ڈومیسائل رکھنے والوں کو نوکریاں دی جائیں چاہے وہ اس کے اہل نہ بھی ہوں جب ان کے اپنے تعلیمی اداروں میں انہیں تعلیم نہ حاصل کرنے دی جائے جب 10 سال کے کوٹہ سسٹم کو مزید 10 سال کے لیئے بڑھا دیا جائے تو کوئے آخر کب تک صبر کرسکتا ہے وہ ہم سے نفرت نہ کرتے تو کیا کرتے حالانکہ میں شروع میں بڑا ناراض تھا مگر جب میں کراچی کے لوگوں کو جوق در جوق ان کے پروگراموں میں جاتے دیکھتا بغیر تفریق رنگ و نسل اور انہیں رو رو کر یہ کہتے دیکھتا کہ آپ لوگ صرف مہاجروں کی بات نہ کرو ہم بھی تو مظلوم ہیں ہماری بات آپ کیوں نہیں کرتے تو مجھے حیرت ہونے لگتی میرے ارد گرد رہنے والے بھی اسی قسم کی باتیں کرتے اور شائد اسی لیئے ان لوگوں نے اپنا نام بدل کر متحدہ کرلیا اور پچھلے الیکشن میں تو میں بھی نہ چاہتے ہوئے بھی متحدہ کو ووٹ دے آیا کیا کروں سٹی ناظم اور ٹاؤن ناظم کے کاموں نے مجبور کردیا-
رہی پنجاب کی بات تو وہاں گاؤں اور قصبوں کا آدمی یا تو اسے ووٹ دیتا ہے جسے گاؤں کا چوہدری یا جاگیر دار یا نمبر دار کہتا ہے اور یا پھر وہ اپنی برادری کے بندے کو ووٹ دیتا ہے چاہے وہ زمانے بھر کا چھٹا ہو ابدمعاش ہی کیوں نہ ہو اور یہی حال اندرون سندھ اور بلوچستان کابھی ہے۔شہروں کے لوگ بھی ہیں تو زات برادری میں ہی قید مگر باقی کثر میڈیا کی برین واشنگ نے پوری کردی ہے کہ ایم کیو ایم ایک دہشت گرد تنظیم ہے پہلے تو غدار کا تمغہ بھی ملا ہوا تھا پر آجکل کچھ عرصہ سے وہ راگ نہیں الاپا جا رہا،
اب مشرف کی مہر بانی سے میڈیا کچھ آزاد ہوااور کسی حد تک سچائی دکھانے لگا ایم کیو ایم اور مصطفی کمال کا کام سر چڑھ کر بولنے لگاتو ظالموں نے 12 مئی کروادیا پھر 9 اپریل ہوگیااور اب 29 اپریل جیسا کہ کسی چوہدری حشمت نے بھی اپنے سارے نفرت اور تعصب کے باوجود لکھا کہ مصطفی کمال کے لاہور پہنچتے اور ایوارڈ لیتے ہی یہ کام دکھایا گیا،
اب اس 29 اپریل کے بارے میں بھ کچھ بات کرلوں میں زاتی طور پر اے این پی کی پالیسیز کو بھی پسند کی نگاہ سے دیکھتا ہوںمگر یہ شاہی صید یہ بڑا کمینہ آدمی ہے جب سے اسے کراچی میں اے این پی نے بٹھایا اسنے بڑے گل کھلائے ہیں 12 مئی کو اس شخص نے اپنے لوگوں کے زریعےان 14 پٹھان نوجوانوں کا قتل کروایاجو ایم کیو ایم میں شامل ہوگئے تھے تاکہ باقی پٹھانوں کی ایم کیو ایم میں شامل ہونے کی ہمت نہ ہو اس نے ایجینسیوں کی آشیرواد سےقبضہ مافیا اور اسلحے کا کراچی میں کاروبار شروع کیا ہوا ہے۔
آج جیسے ہی اسے اندازہ ہوا کہ اب اس کی گچی دبنے والی ہے اس نے فورا”میڈیا پر اعلان کیا کہ ہم اپنے سارے آفس بند کررہے ہیں کیونکہ یہ سارے آفس زمینوں پر قبضہ کر کے قائم کیئے گئے تھے،کراچی کے کالجوں مں پختون اسٹوڈینٹ آرگنائزیشن نے جو قتل و غارت گری مچا رکھی تھی اس کی شہ پر، اس سے بھی لا تعلقی کا اظہار کیاہے-اب ان باتوں سے ہی اس کی خباثت کا اندازہ لگا لو میری تو یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ اسفند یار ولی کو کوئی شریف آدمی نہیں ملتا کراچی میں –
ویسےکراچی والوں کے ساتھ یہ سازشیں کوئی نئی نہیں ہیں-
ایجینسیوں نے ہر زمانے میں بھی بڑی کوششیں کی ھیں پہلے پنجابی پختون اتحاد بنائی جس کا سربراہ ہمیشہ کوئی پنجابی ہی رہا مگر عوام نے اسے گھاس نہیں ڈالی پھر ایم کیو ایم کے وہ کرمنل جن کو ایم کیو ایم نے نکال باہر کیا تھا ان کو اس وقت کی فوج نے سر پرلا بٹھایا حقیقی کی شکل میں مگر جرائم پیشہ لوگ بندوق کے زور پر عوام کے سر پر سوار رہےعوام نے ہمیشہ انہیں نفرت کی ہی نگاہ سے دیکھاتو بھائی یہ ایجینسیاں اسی طرح اپنا کھیل کھیلتی رہیں گی اور ان کے پالتو اسی طرح نفرتوں کا پرچار کرتے رہیں گے مگر سورج کی روشنی کو بھی بھلا کوئی روک سکا ہے میرے ملک کے غریبو ں کے حالات بھی ایک نہ ایک دن سدھریں گے وہ ایک نہ ایک دن اس ظلم کے اندھیرے کو چیر کر رکھ دیں گے اس کا مجھے یقین ہے انشاء اللہ
فرمان، آپ کے تبصرے کی ایک سطر میں قطع برید کی گئی ہے۔ براہ مہربانی شخصی الزامات سے گریز کریں۔
باقی میں آپ کی پوسٹ کے کافی نکات سے متفق ہوں۔ اے این پی کی پالیسی مجھے سمجھ نہیں آتی۔ اور شاہی سید کی تقاریر، متعصب بیانات، اور خصوصا شہر میں گرینڈ جرگے وغیرہ منعقد کرنے کی حرکتیں اے این پی کو کافی مشکوک بنادیتی ہیں۔ خصوصا جیسا آپ نے لکھا کہ شاہی سید کے لینڈ اور اسلحہ مافیا کے ساتھ تعلقات کوئی اتنی ڈھکی چھپی بات نہیں مگر اے این پی اسے مکمل نظرانداز کرے ہوئے ہے۔ اسطرح وہ کراچی میں کیسے ووٹ حاصل کریں گے؟
نعمان تم ایک تعصبی کو، میرے تعصبی لکھنے کو ذاتیات کہتے ہو ایسے لوگوں کی ایسی ذاتیات نے ہماری اجتماعیت کو تباہ کر دیا ہے،تم بتاؤ میں تعصبی کو تعصبی نہ لکھوں تو اور کیا لکھوں،اس شخص کے کردار کا اندازہ اس بات سے لگاؤ کہ اس نے نہ صرف میرے تبصرے ڈیلیٹ کیئے بلکہ مجھے بلاک بھی کردیا ہے جبکہ کسی چوہدری حشمت کے زہریلے تبصرے اب بھی اس کے بلاگ پر اسی طرح موجود ہیں اور اس شخص کوبلاک کرنا تو دور کی بات اس میں اتنی شرم بھی نہ تھی جو جاوید گوندل نے دکھائی اور اس بندے کو منہ توڑ جواب دیا اور یہ شخص اسی طرح منہ بند کیئے ان زہریلے تبصروں کا مزہ لیتا رہا ،کیا اب بھی تم اس شخص کے کردار کو نہیں سمجھے ، یہ اسٹیبلشمنٹ کا نمائندہ جس کی زندگی بھر یہی ڈیوٹی رہی ہےکہ جہاں بھی عوام کو ایک ہوتا دیکھو انہیں لڑا کر ایک دوسرے کے ہاتھوں یا ایجینسیوں کے ہاتھوں مروادو، بلکل اسی طرح جیسے اپنے حسن نثار کے پروگرام میں جب اس نے دلتوں سے پوچھا کہ آپ اور مسلمان ایک کیوں نہیں ہو جاتے تو دلت لیڈر نے کہا اس کے لیئے ہمیں ایک خونی سیلاب سے گزرنا پڑے گا کیوں کہ جب بھی اپر کلاس ہندوؤں کو یہ احساس بھی ہو جایئے کہ دلت اور مسلمان ایک دوسرے کے قریب آرہے ہیں تو وہ ہندو مسلم فسادات کروادیتے ہیں ،بلکل یہی پالیسی یہاں کی اسٹیبلشمنٹ کی بھی ہمیشہ رہی ہے اور اس کے بدلے جو مزے یہ اڑاتے رہے ہیں ان عیا شیوں کی داستانیں تو اس کے بلاگ پر پھیلی ہوئی ہیںکتنی عیا شیاں کی ہیں فوج میں رہ کر اور بےچارہ سپاہی اس کی قسمت میں تو صرف مرنا لکھا ہے ان جیسے لوگ اور ان کی اولادیں ان شہیدوں کے صدقے گلچھرے اڑاتے پھرتے ہیں،اور وہ اس کا چہیتا نوازا اسی لیئے قومی اسمبلی میں آنے کو تیار نہیں کہ کہیں صوبو ں کو مکمل خود مختاری نہ دینا پڑ جائےمگر اب اگر ملک کو بچانا ہے تو 73 کے آئین کے تحت نہیںبلکہ قائد اعظم کے 1940 میں کیئے ہوئے وعدے کے تحت مکمل خود مختاری ہی پاکستان کے مسائل کا واحد حل ہے،
تم نے پوچھا ہے کہ شاہی صید کی حرکتیں اتنی ڈھکی چھپی بھی نہیں اور پھر بھی اے این پی اسے نظر انداز کیئے ہوئے ہے،پہلی بات یہ شخص سید نہیں اسکا نام صید ہےجس کا ص ہٹا کر س لگا کر یہ سید بن بیٹھا ہے جاہل پٹھانوں کو بے وقوف بنانے کے لیئے دوسری بات اس نے اے این پی کو یہ سبز باغ دکھائے ہیں کہ اب کراچی میں پٹھان اتنی تعداد میں ہیں کہ ہم کراچی کو اپنے قبضہ میں کر سکتے ہیں جائز یا نا جائز،یہ وہی خواب ہے جو کبھی نواز اور پھر بے نظیر کو بھی دکھائے گئے تھے جس کے نتیجے میں 88 اور 92 کا آپریشن کلین اپ ہوا تھا،مگر ان عقل کے اندھوں کو یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ کراچی پڑھے لکھے لوگوں کا شہر ہے جس کے برابر لٹریسی ریٹ پورے پاکستان کے کسی شہر کا نہیں یعنی 100 فیصد اور یہاں وہی کامیاب ہوگا جو واقعی کام کرے گااور شہر کی بہتری کے لیئے سوچے گا،ارے بھائی کراچی اتنا ہی اچھا لگتا ہے تو اپنے شہروں کو کراچی سے زیادہ خوبصورت بنا لومگر نہیں اپنے شہروں کو تو کھنڈروں میں تبدیل کیا ہوا ہے ہر صوبہ قدرتی وسائل سے مالا مال ہے مگر نہ پلاننگ ہے اور نہ ہی خلوص نیت ،نہ اپنے لوگوں کے لیئے کچھ کرنے کی چاہ بس جو ملے لوٹ کر کھاؤ موج اڑاؤ،تو یارا یہ ہے وہ المیہ
فرمان کسی بلاگ پر کسی بھی تبصرے کا مٹایا جانا اس کے مصنف کی مرضی پر ہوتا ہے۔ اس میں کسی کو اعتراض کا حق نہیں ہوتا۔ میں خود اپنے بلاگ پر تبصرہ جات مٹادیتا ہوں اور کبھی کبھار ان میں قطع برید بھی کرتا ہوں۔
آپ کے جو تبصرہ جات مٹادئے گئے ان کی وجہ یہ ہوگی کہ وہ ذاتیات پر مبنی تھے۔ اگر آپ اپنے تبصرہ جات ذاتیات کے بجائے حالات و واقعات اور تحریر کے موضوع تک محدود رکھیں تو کوئی آپ کے تبصرے نہیں مٹائے گا۔
ان کے بلاگ پر خود میرے تبصرے دو تین بار مٹائے جاچکے ہیں۔ مگر میں نے اس کا برا نہیں مانا بلکہ اپنے بلاگ پر وہ کچھ لکھا جو انہوں نے مٹادیا۔ میں شاید آپ کا یہ تبصرہ مٹادیتا مگر اس لئے نہیں مٹا رہا کہ آپ کو یہ نہ محسوس ہو کہ کہیں آپ کو اپنی بات کہنے کی مکمل آزادی نہیں۔
میں آپ کو یہ مشورہ دونگا کہ شخصیات کو کوسنے بجائے خیالات کو زیر بحث لائیں۔ دلیل اور منطق سے لاجواب کردیں۔ اس کا بہترین طریقہ ہے آپ اپنا خود کا بلاگ شروع کردیں۔ اس سلسلے میں آپ کو کسی قسم کی مدد درکار ہو تو بلاجھجک مجھے ای میل کریں۔
Farman bhai aap nay or Noman nay krachi wala honay ka haq ada kerdia hay humain pakistan main easay bay shumaar HAQ PERUSTOON ki zarorat hay is mulk ko aik islami or falahi riasat bananay kay liay,or insha Allah woh waqt ab door naheen jab haq ka bool bala hoga or zalimon ka monh kala hoga,Noman menay bari koshish ki aap kay blog per urdu main tabsira kernay ki fonts bhi down load kiay magar mumkin na hosaka halan kay main dosray blogs per urdu main likh leta hoon aap is silsilay main kuch ker sakain to maherbani hogi
عبداللہ دیگر اردو بلاگز پر تبصرہ جات کے خانے میں اردو ویب پیڈ نصب ہوتا ہے۔ اس بلاگ پر اردو ویب پیڈ ہٹا دیا گیا ہے تاکہ آپ اپنے کمپیوٹر میں موجود اردو سپورٹ کے ذریعے اردو لکھنا سیکھیں۔
مینے اندازا لگایا ہے کہ اس بار کراچی کے لوگ اتنا کنٹری بیوٹ نہیں کررہے جتنا انہوں نے کشمیر کے زلزلے کے وقت کیا تھا شائد اس کی وجہ اے این پی کی کراچی میں جو حرکتیں رہی ہیں اس کا کراچی والوں کو کافی غصہ ہے، اپنی فضول سیاست کے لیئے بلاوجہ کراچی کا امن تباہ کیا،مگر میری سب کراچی والوں سے درخواست ہے کہ وہ چند غلط لوگوں کے کیئے کی سزا ّعام لوگوں کو نہ دیں ان بے چاروں کا کیا قصور سچ تو یہ ہے کہ مجھے صوبہ سرحد کے لوگوں پر بڑا ترس آتا ہے ان بے چاروں کو پاکستان اور اسلام سے محبت کی اتنی بڑی سزا ملی ہے جو انہوں نے سوچی بھی نہ ہو گی62 سال سے ایجینسیاں ملا اور ان کے خان انہیں اپنے اشاروں پر نچا رہے ہیں عمومی طور پر ان پر اعلی تعلم کے دروازے بند رکھے گئے ہیں تاکہ وہ وہی دیکھیں جو یہ لوگ انہیں دکھانا چاہتے ہین اور وہی سنیں جو یہ انہیں سنانا چاہتے ہیں اور آج انجام یہ ہے مگر انشاء اللہ ان کے حالات ضرور سدھریں گے ،نعمان آپ سے درخواست ہے کہ آپ بھی اس سلسلے میں ایک پوسٹ ضرور لکھیں،فرمان بھائی کی پوسٹ میں بھی بہت سے نکات ایسے ہیں جو اس ملک میں مسائل کی بڑی وجوہات ہیں اگر آپ ایک بلاگ ان پر بھی لکھیں تو بہت سوں کا بھلا ہوگا، فرمان بھائی سے آپ کی طرح میری بھی یہ ریکوئسٹ ہے کہ وہ بھی اپنا بلاگ شروع کریں ،
[…] کے حوالے سے متحدہ قومی مومنٹ کی وکالت میں ہوتی ہے۔ ’’فساداتِ ایم کیو ایم کراچی‘‘ کے عنوان سے ایک تحریر سے اقتباس ملاحظہ ہو: ’’جس طرح […]